بھائی ترجمہ تو کوئی عالم ہی کرسکتا ہے ۔
البتہ مختصر معلومات یہ ہیں ۔
حافظ ابو الحسن نور الدین علی بن ابو بکر الھیثمیؒ ہیں ۔
ولادت ۷۳۵ھ ۔۔۔ وفات ۸۰۷ھ ۔
مشہور شافعی محدث زین الدین عراقیؒ م۸۰۶ھ کے شاگرد ہیں اور ان کی صحبت میں بہت زیادہ رہے ہیں ۔ سفر و حضر میں بھی اکثر ان کے ساتھ رہتے تھے ۔ حتیٰ کہ ان کی بیٹی سے شادی بھی کی ۔
آپ کے مشہور شاگردوں میں صاحب فتح الباری حافظ ابن حجرؒعسقلانی م۸۵۲ھ اور صاحب عمدۃ القاری حافظ بدر الدین عینیؒ م۸۵۵ھ ہیں ۔ اور بھی ان کے شاگرد ہیں ۔
آپ نے جو کتب تصنیف کی ہیں وہ زیادہ تر کتب احادیث سے جو صحاح ستہ پر زائد احادیث تھیں ان کو جمع کیا ہے ۔
جن میں ۔ زوائد معاجم طبرانی ۔ اور زوائد مسند احمد ، زوائد مسند بزار ، زوائد مسند ابی یعلی وغیرہ ہیں ۔
ثقات پر حافظ عجلیؒ کی کتاب کو بھی مرتب کیا ہے ۔ یہ کتابیں چھپی ہوئی ہیں ۔
ان زوائد کی کتب میں وہ احادیث پر حکم نہیں لگاتے ۔
پھر ان کی سب سے مشہور تالیف مجمع الزوائد ہے جس میں ان تمام کتب زوائد جن کا اوپر نام لیا گیا ہے کو اکٹھا کیا اور ابواب فقہ پر جمع کیا ۔ اس میں احادیث پر حکم بھی لگاتے ہیں ۔
ان کی تحقیق پر علماء اعتماد کرتے ہیں ۔ آج کل کا معاملہ اور ہے آج کل تو پرانے علماء کی اہمیت ختم ہوگئی ہے
اور موجودہ دور کے محققین پر اعتماد کیا جاتا ہے جو افسوس ناک بات ہے ۔
بہرحال علامہ ہیثمیؒ کی تحقیق یعنی احادیث پر حکم لگانے پر اعتماد کرنا چاہیے ۔
لیکن ایک تو وہ شافعی ہیں ۔ اور بعض جگہہ کچھ اوہام بھی ہیں ۔ جس سے کوئی عالم نہیں بچ سکتا ۔ اس معاملے میں پھر دوسرے ائمہ کی بات کو ترجیح بھی دی جاسکتی ہے ۔
واللہ اعلم۔