’’علی میاں ثانی‘‘
صاحب ِرائے،صائب رائے
(مفتی)ناصرالدین مظاہری،استاذمظاہرعلوم(وقف)سہارنپور
۱۰؍جولائی ۲۰۱۸کی وہ صبح ،صبح جانگدازتھی جس نے لاکھوں آنکھوں کونمناک اورہزاروں قلوب کوغمناک کردیا،اب کچھ توناگہانی سننے کی عادت سی پڑگئی ہے،لگتاہے ابھی کل ہی کی بات ہے شیخ العرب والعجم محدث کبیرحضرت مولانامحمدیونس جونپوریؒہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے،بہت سی آنکھوں کی نمی شایدابھی خشک نہ ہوئی ہوگی کہ خطیبِ اسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی کی رحلت نے تڑپادیا،خطیب ِاسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی ؒکی جدائی پرہم اشک شوئی میں ہی لگے تھے کہ حضرت مولانامحمدخطیب غزالی بھٹکلی نے پرانے زخموںکوکریدکررکھ دیااوراس طرح ہماراحال کچھ ایساہواجس کی عکاسی شاعرنے یوں کی ہے:
کچھ یاس سے تسکین دلِ مضطرکوہوئی تھی
پھرچھیڑدیازخم ِجگرہائے تمنا
مفکرملت حضرت مولانامفتی محمدعبداللہ کاپودرویؒوہ عہدساز،عہدآفریں،مردم ساز،مردم گر،حوصلہ مند،عالم دین،مفتیٔ شریعت، خوش خو،خوش بُو،خوش پوش،خوش نوا،خوش گلو،خوش فکر،خوش خُلُق اورخوش اطواروباکردارشخص اورشخصیت تھے جن کی مکمل حیات کومدنظررکھتے ہوئے ہم بجاطورپرکہہ سکتے ہیں کہ حضرت والا تابندہ تر،یابندہ تر،رخشندہ تر،فرخندہ تر،افروزندہ تر،ترسندہ تر،جوئندہ تراورکارندہ ترتھے،اللہ تعالیٰ نے ان کونہ تھکنے والادماغ دیاتھاتوشستہ اورشگفتہ لہجہ اورزبا ن بھی دی تھی،وہ تدریس کے میدان کے بہترین استاذتھے تومنبرومحراب کے بیباک خطیب ومقرربھی،نظم وانتظام میں وہ مثال بن گئے تواپنی گوناگوں صفات ومیزات میں انھوں نے اپنے پہلوں کی یادتازہ کردی،وہ جہاں جاتے مشکبار،ہرشخص کے لئے غم گسار،اپنوں وبے گانوں کے لئے غم خوار،ہمہ دم اورہمہ وقت وفادار،دینی کاموں کے لئے جفاکار،جری،حوصلہ مند،جرأت واستقامت کاہمالہ،ضیافت کے باب میں ہرواردکے لئے ہم پیالہ وہم نوالہ،بدانتظامی وبدمعاملگی میں شعلۂ جوالہ،سچ پوچھوتواِس بوڑھے آسمان نے بہت کم ایسی ہستیاں اوربستیاں دیکھی ہیں جن کودیکھ کرخداکی یادآنے لگے،جہاں بیٹھ کرقلب کوسکون ووقارحاصل ہونےلگے،وہ مشام جان کومعطرکرنے والی گفتگو،وہ ان کاالبیلا مسکراتا ہوالہجہ،لہجہ کی شفافیت،حق گوئی اورجرأت ،کبھی کتابی باتیں،کبھی نصابی باتیں،کبھی تعلیمی باتیں توکبھی دعوتی باتیں،کبھی اجماعی باتیں توکبھی انفرادی باتیں،کبھی ملت کی کسک،کبھی امت کا فکر،کبھی اپنوں کااحساس توکبھی پرایوں کاغم،زندگی کاہرقدم نپاتلا، ہربات جچی تلی،نہ غیبت سنتے،نہ غیبت کرتے،ہمارے مفکرملت حضرت مولانامفتی محمدعبداللہ کاپودرویؒان خوش نصیب وخوش بخت افرادمیں سے ہیں جن کودنیاصدیوں یادرکھے گی،انہوں نے چراغوں سے چراغ اِس قدرجلائے،نشیمن پرنشیمن اس قدرتعمیروتیارکئے کہ بجلیاں اپناراستہ بدلنے پرمجبورہوں گئیں،کیاعجیب وغریب خدارسیدہ شخصیت تھے ،اپنوں میں،پرایوں میں،معاصرین میں ،اکابرین میں،امرائ میں رؤسامیں، عصری علوم کے ماہرین میں،فقہی علوم کے وارثین میں،تنظیمات کے باب میں،تحریکات کے آب میں ’’بہررنگے کہ خواہی جامہ می پوش‘‘ کامصداق،ملت کے لئے ٹیسیں اُن کے نہاں خانۂ دل سے نکلتیں اورآپ کومضطرب وبے قرارکرجاتیں،اسی اضطراب کوبجھانے کیلئےکبھی باندہ گئے توکبھی ندوہ،کبھی سہارنپورآئے توکبھی رائے پور،محض اس لئے تاکہ بیقراردل کوقرارآجائے،بےچین روح سکون پاجائے،زندگی کواس کاحقیقی سراغ مل جائے،آداب فرزندی سیکھ سکیں،کاخ فقیری کے آگے شہنشاہی کوجھکاسکیں، اوراس طرح مشق سخن جاری رکھی،تاآنکہ وہ وقت بھی آیاکہ آپ کاچشمۂ صافی ارغاب سے رودبلکہ بحربیکراں بن گیا،خودآپ اکابرکی نظرکیمیااثرسے مالامال ہوئے تودنیانے دیکھاکہ آپ فخرگجرات کہلائے،علی میاں ثانی کہلائے ،لوگوں نے ’’مفکرملت‘‘کالقب دیااورصحیح دیا،وہ ایک دوالقاب نہیں سینکڑوں القاب کے مستحق بلکہ القاب ان کی خدمات کے سامنے حقیرمحسوس ہوتے ہیں۔
آپ مختلف مدارس،جامعات،تنظیمات،تحریکات،اموردینی اورمعاملات دنیوی کے سرپرست ونگراں تھے توتاحیات بہتوں کے لئے مرشد،مربی،استاذاوراتالیق کی حیثیت سے چمکتے دمکتے رہے۔
آپ کی ہمہ گیراورہمہ جہت ہستی پرلکھنے کے لئے دفتردرکارہے،کیونکہ ان کے کام اورکارنامے بے شمارہیں،تاہم رجال سازی،رجال فہمی،تعصب سے دور،امتیازمن وتوسے نفور،حدودزمان ومکان سے ماورائ،اخلاق حسنہ کی تلقین وہدایت،مروت اوروفاداری بشرط استواری ان کاشیوہ،مخلوق کونفع رسانی ان کامشغلہ،تعلیم کاعموم ان کامشن ،معاشرہ میں اچھے افرادکی پیداواران کی تحریک،نئے دماغوں کی تطہیران کامقصدحیات،جدیدافکارنظریات کے حاملین میں تفہم دین ،جدیدترین ذرائع ابلاغ کاشرعی حدودوقیودمیں رہتے ہوئے صحیح اورمثبت استعمال ،کام کے لوگوں کی قدرومنزلت ،مختلف دینی کاموں کی سرپرستی،اہل علم کی رہنمائی،ارباب فکرونظراورصاحبان اقتدارواختیارسے راہ ورسم اوراس کے ذریعہ دین کاپیام وپیغام پہنچانے کی ہرممکن سعی وکوشش،دینی مدارس کانظام اورنصاب نہایت ہی مناسب اورشفاف رہے اس کی سعی فرماتے،کالجوں،اسکولوں،یونیورسٹیوں اورعصری اداروں میں دین اپنی مکمل شکل وصورت کے ساتھ موجودومحفوظ رہے اس کی تمنافرماتے،زمینی سطح پراس کی کوشش کرتے،امیروں،رئیسوں اورارباب دولت وثروت کوبلاتے اوران کوان کافرض منصبی بتاتے،وہ چاہتے کہ مدارس کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ ان کامعیارتعلیم بھی بہتراوردوسروں کے لئے باعث کشش ہو،ان کی خواہش ہوتی کہ مسلمان جہاں کہیں چلاجائے اپنادین،اپناایمان،اپنے عقائد،اپنے معاملات،اپنے امتیازاوراپنے تشخص کے ساتھ رہے ۔
اسی طرح حضرت مفکرملت بعض امورمیں اپنی مستقل رائے بھی رکھتے تھے اوراس سلسلہ میں وہ حق کابرملااعتراف کرتے اورحق بات کہنے میں کسی لائم کی ملامت کی کبھی پرواہ نہ کرتے ۔
حضرت مفکرملت کی دیرینہ آرزواورتمناتھی کہ مسلمانوں کااپنامیڈیاہاؤس ہو۔کیونکہ آج پوری دنیا پرمیڈیا کاقبضہ ہے،اخبارات ، جرائد، مجلے، ماہنامے، ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ میڈیاکی مختلف شاخیں ہیں۔اگرمیڈیا کااستعمال صالح مقاصد کے لیے کیا جائے تو اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ گنے نہیں جاسکتےاوراگر برے مقاصد کے لیےاستعمال کیا جائے تودنیا میں اس سے بری چیزشایدکوئی اورنہیں ہوسکتی ۔
حضرت مفکرملت چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے عظیم دماغ کومعاشرہ اورتمدن کے مختلف ابواب میں بانٹ دیاجائے،ایک طبقہ وہ ہوجومرئی میڈیاسے تعلق رکھے مثلا: ٹیلی ویژن اور وی سی آر وغیرہ۔
ایک جماعت وہ ہوجوسمعی میڈیاسے مربوط ہوجیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو وغیرہ۔
ایک طائفہ وہ ہوجس کالسانی میڈیاسے تعلق ہوجیسے: اخبارات، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔
گویاالیکٹرانک میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک ہرشعبۂ حیات میں مسلمانوں کی خاطرخواہ شراکت داری اورساجھے داری ہو،وہ اس میدان میں کسی کے دست نگرنہ رہیں،وہ جب اورجس وقت جوبھی دینی پیغام دنیاکودیناچاہیں دے سکیں ۔چنانچہ ایک پروگرام میں آپ نے اپنا دل کھول کررکھ دیا،فرماتے ہیں:
’’ذرائع ابلاغ جس کومیڈیاکہاجاتاہے،اس کی کیااہمیت ہے تودنیامیں ہرشخص کے ذہن کوبدلنے کاکام میڈیاہی کررہاہے،حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں میڈیاکے پروپیگنڈے سے،قوموں کی ذہنیت کوجوبدلاجارہاہے وہ اسی میڈیاکے ذریعے بدلاجارہاہے،اس لئے اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس کاصحیح استعمال کرکے حق بات لوگوں تک پہنچائیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ چیزیں نہیں تھیں لیکن اس وقت ذرائع ابلاغ دوسرے تھے مثلاً عرب کے شعرائ جب کسی قبیلہ یاکسی کے بارے میں اشعارپڑھتے تھے تووہ اشعاردوردورتک پھیل جایاکرتے تھے،اسی طرح کسی کی برائی بیان کرتے تھے توپورے عرب میں اس کی برائی پھیل جاتی تھی، مشرکین مکہ نے اپنے بعض شعرائ کولگایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی بیان کریں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشعارکہیں،توجب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی توآپ نے فرمایاکہ کیاہم لوگوں میں کوئی ایساشخص ہے جواس کاجواب دے اوردفاع کرے،توحضرت حسان بن ثابت ؓکھڑے ہوئے اورعرض کیاکہ یارسول اللہ میں ان کاجواب دوں گا۔تویہ گویامیڈیاکاجواب تھا،وہ ذرائع ابلاغ جواُس زمانہ میں رائج تھے اُن کاجواب بھی ان کے اندازمیں دیااوربسااوقات توایساہواکہ مسجدنبوی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکے لئے منبرلگایااورحضرت حسان ؓنے اتنی خوبصورتی کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی کہ آج بھی ہم جب ان کے اشعارپڑھتے ہیں توعش عش کرنے لگتے ہیں ،ایساجواب دیاکہ ان کامنہ بندکردیا۔
توشروع سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ ہمیں جوبات جس اندازسے چل رہی ہے اس کاجواب بھی اسی اندازسے دیناپڑتاہے۔
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒنے ایک باراپنی مجلس میں یوں فرمایاکہ بھائی جس فوجی کویہ معلوم نہ ہوکہ یہ حملہ کس سمت اورجہت سے ہورہاہے ،کن ہتھیاروں سے ہورہاہے تووہ کیسے ان کامقابلہ کرسکتاہے،ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے کہ ہم پرجوفکری حملے ہورہے ہیں جن کو’’الغزوالفکری ‘‘کہاجاتاہے،فکری طورپرہمارے ذہنوں کواورنوجوانوں کے ذہنوں کوجوبدلاجارہاہے وہ میڈیاکے ذریعہ سے ،ٹی وی اوراخبارات کے ذریعہ سے،صحافت کے ذریعہ سے،تواس زمانے میں یہ ایسے ہتھیارہیں جن سے مفرنہیں ہے ،اگرہم ان کواستعمال نہیں کریں گے تومقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ہم نے دیکھاکہ بعض ایسی تنظیمیں جن کے ساتھ ہم اتفاق نہیں کرسکتے ، مثلاًقادیانی حضرات ہیں ہم ان کوسمجھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغاوت ہے ،انہوں نے پوری دنیامیں کئی چینل اپنے لگارکھے ہیں،اورپوری دنیامیں وہ اسلام کوپیش کررہے ہیں جس کولوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام یہ ہے جس کویہ لوگ پیش کررہے ہیں،توکیایہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے لئے کوئی ایساسلسلہ شروع کریں کہ جس کے ذریعہ صحیح بات پیش کریں،ہمارے اکابر کی چیزیں،ہمارے صحابہ کرام کی وہ چیزیں جوانہوں نے متفقہ طورپرپیش کی ہیں ہم ان کوپیش کریں اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسی ہتھیارکواستعمال کریں۔
مجھے معلوم ہے کہ ہمارے علمائے کرام میں اس سلسلہ میں اختلاف رائے ہے ،لیکن میرے دوستو!اگردنیاکے حالات کاہم جائزہ لیں ،اگرہم نے دنیاکاسفرکیاہو،اگرہم یورپ اورامریکہ گئے ہیں توہمیں دل سے یقین ہوجائے گاکہ اب ہمارے پاس اس کے سواچارۂ کارنہیں ہے،اگرہمیں حق پہنچاناہے ،ہمیں ہمارے نوجوانوں کوصحیح راہ پرڈالناہے توہمیں اس کااستعمال کرناپڑے گا۔‘‘۔
حضرت مفکرملت کے اس واضح تقریری اقتباس سے ایک طرف توان کادرددل واضح ہے دوسری طرف ان کافکرونظربھی صاف ہے،وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت و سیاست کا مسئلہ ہویا دین کی نشر واشاعت کا، کمپنی، ٹریڈاوربزنس کےفروغ کا معاملہ ہویا جدید تعلیمی وسائل کی فراہمی کا، کورٹ کچہری ہویاتھانہ پولیس ہر جگہ اور ہر موڑ پر میڈیا ہی کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔حضرت مفکرملت نے خاص طورپرقادیانی دجل وفریب اورمیڈیاپراس کے قبضہ وکنٹرول کاذکرفرمایااورپھرہم سے تقاضافرمایاکہ خداراتم بھی خواب غفلت سے اٹھوا!اُن کواُن کی زبان میں جواب دو،آج یہ بات خلاف عقل وقیاس ہے کہ ترکی سمجھنے والے سے اردومیں یافارسی جاننے والے سے عربی میں بات کی جائے اگرایساہواتویہ نظام الٰہی سے بھی مطابقت اورموافقت نہیں رکھتا،اللہ تعالیٰ نے ہرقوم کے درمیان ان ہی میں سے نبی اوررسول ،ہادی ورہنمابھیجے اوران ہی کی زبان اورتہذیب کے مطابق کتابیں اورصحیفے نازل فرمائے۔
یہ بالکل سچ ہے جس سے کسی کومجال انکارنہیں کہ آج پوری دنیاکامیڈیاہاؤس صرف تین خاندانوں کے پاس ہے اورکمال کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں خاندان یہودی ملکیت ہیں۔
آج آپ انگریزی،عربی،اردو،ہندی اورتمام بڑی زبانوں کے ذرائع ابلاغ چاہے وہ الیکٹرانک میڈیاہویاپرنٹ میڈیااگر وہ کسی غیریہودی کے پاس ہے توخوش فہمی کاشکارنہ ہوں کیونکہ پتنگ کہیں بھی ہواس کی ڈوربہرحال یہودکے پاس ہے ۔
حضرت مفکرملت جودل ِدردمنداورفکرارجمندرکھتے تھے ان میں وہ اس لئے بھی حق بجانب تھے کیونکہ انھوں نے دنیاگھومی تھی،وہ جہاں دیدہ فردتھے،وہ مختلف قوموں ،ملکوں اورتہذیبوں کوقریب سے دیکھ چکے تھے ،ان کی معاشرت،ان کاتمدن،ان کابودوباش اور رہن سہن سب ان کے سامنے تھا،صحیح بات یہ ہے کہ وہ کنویں کامینڈھک نہیں تھے ،وہ لوگوں کی نفسیات سے واقف تھے،یہ بھی جانتے تھے کہ بندوق کامقابلہ چھری سے،توپ کامقابلہ غلیل سے اورراکٹ کامقابلہ تیرکمان سے ممکن نہیں ہے اسی لئے ایک موقع پرارشادفرمایا:
’’ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداداس کاغلط استعمال کرکے غلط راستے پرجارہی ہے،یہ توایک ایسی چیزہے کہ آپ اس کوصحیح طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں اورغلط طریقہ سے بھی استعمال کرسکتے ہیں ، مثال کے طورپرچھری ہمارے گھرمیں ہے ،ہم اس چھری سے پھل کاٹتے ہیں،سبزیاں کاٹتے ہیں،لیکن اسی چھری کولے کرکوئی کسی کے گلے پرپھیرے یاکسی کوتکلیف پہنچائے توہم ایسابالکل نہیں کہہ سکتے کہ آپ اپنے گھرمیں چھری نہ رکھیں، اسی طرح اگرآپ کے پاس میڈیاکی طاقت ہے، ذرائع ابلاغ میں پوری قوت ہے، توآپ اپنے دین حق کی بات دنیاتک پہنچاسکتے ہیں،آج تومنٹوں میں دنیاکے اس کونے سے اُس کونے تک بات پہنچ جاتی ہے ،پہلے زمانے میں دنوں کے بعدخبریں آتی تھیں ،بعض دفعہ توایساہوتاہے کہ ہم جس خبرکوصبح پڑھتے ہیں امریکہ اورکنیڈاوالے اس خبرکورات ہی میں دیکھ لیتے ہیں،کھیل جوہے اس کوپسندنہیں کیاگیاہے،اس کے بارے میں عربی میں ہے کہ حَسَنُہ حَسَن وقبیحہ قبیح،اس میں سے جواچھےہیں وہ اچھے ہیں اورجو برے ہیں وہ برے ہیں،لیکن میں نے جیساکہ عرض کیاکہ حضرت حسانؓ نے اسلام کادفاع کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کودعائیں دیں کیونکہ انہوں نے اشعارکواچھے کاموں میں استعمال کیاہے ہم بھی اس کواگرغلط کاموں میں استعمال کریں گے ،فحش تصاویرڈالیں گے،اپنی بڑائی بیان کرنے کے لئے ہم ٹیلی ویزن کااستعمال کریں گے تویہ چیزاللہ تعالیٰ کوپسندنہیں ہوگی لیکن ہماری نیتوں میں فتور نہیںہے ،ہم صحیح نیت کے ساتھ دین پھیلانا چاہتے ہیں توہماری رائے یہ ہے کہ اس کااستعمال ہمیں کرناچاہئے‘‘
ایم آئی ہائی اسکول کی پچیسویں سالگرہ میںجہاںعصری تعلیم یافتگان،پروفیسران اورماہرین تعلیم کااجتماع تھا،اس موقع پرآپ کی طبیعت بھی خراب تھی،شرکت سے معذوری بھی فرمادی تھی لیکن منتظمین اجلاس کے مخلصانہ اصرارپرتشریف لے گئے اورتاریخی خطاب فرمایا،اِس خطاب میں آپ نے اپنادل کھول کرسامنے رکھ دیا،اورزبان حال سے واضح فرمادیاکہ حکمت ایک گمشدہ سرمایہ ہے وہ جہاں کہیں سے ملے لے لو،چنانچہ اپنے خطاب کے شروعاتی حصہ میں فرمایا:
’’میں اِس اسکول کی بنیادکے وقت بھی حاضرہواتھااورآج بچیسویں جشن میںبھی حاضرہوں ،میں بالخصوص ایسے پروگراموں میں جاتاہوں جہاں مجھے معلوم ہوجائے کہ تعلیم کی بنیادپرانعقادہورہاہے،تعلیم کہتے کس کوہیں،تعلیم کیوںلی جاتی ہے،کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ تعلیم اس لئے لی جاتی ہے تاکہ ہم اپنے مستقبل کواچھابناسکیں،ہم اچھاکمائیں،اچھے کپڑے پہنیں،اچھابنگلہ بنائیں، اچھابینک بیلنس ہو،جولوگ اس نظراورنظرئیے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں میں سمجھتاہوں کہ ان کایہ نظریہ ہی غلط ہے۔تعلیم کااصل مقصدیہ ہے کہ آدمی کے اندرتہذیب پیداہو،آدمی مہذب بنے،انسان کے اندرانسانی اخلاق پیداہوں،انسانی ہمدردی کے جذبات پیداہوں،اوروہ اس دنیامیں بسنے والے ہرایک انسان کے کام آنے والابنے ،صحیح تعلیم یہی ہے،جس سے اللہ کی اوراس کے حق کی معلومات حاصل ہوں،خداکے کیاحقوق ہیں جس نے ہمیں پیداکیااورخداکی مخلوق کے کیاحقوق ہیں یہ دونوں تعلیم کے بنیادی مقصدہیں،یہی ہمارانقطۂ نظرہے کیونکہ اچھاکھانا پینااورسایہ میں رہناوغیرہ یہ توحیوان بھی کرتے ہیں،آپ اگرکسی بھینس اوربیل کوباہر کہیں چھوڑدیں توسایہ داردرخت تلاش کرکے اسی کے نیچے کھڑارہے گا،یہ اس کی فطرت ہے،اگرایک طرف سبزگھاس ہواوردوسری طرف خشک توجانورسبزہ ہی کی طرف جاتاہے تویہ چیزیں توجانوروں کوبھی معلوم ہیں،اصل چیزیہ ہے کہ جس سے انسانوں کے کام آنے کاجذبہ پیداہو،عربی زبان میں ایک کہاوت ہے :وما سمي الانسان الالانْسہ(انسان کوانسان اس لئے کہاجاتاہے کہ اس کوایک انس ہوتاہے ،اس کے اندرمحبت ہوتی ہے،اس لئے انسان کہاجاتاہے،اگرانسانوں میں محبت نہیں ہے،آپس میں عداوتیں ہیں،آپس میں ٹکراؤہے،تووہ انسانیت کی حدسے نیچے گراہواہے،وہ حیوانیت کی صف میں آکے کھڑاہے۔اس لئے تعلیم میں سب سے بڑی چیزہم لوگوں کویہ دیکھنی ہے کہ ہم جوعلوم انسان کے کام میں آتے ہیں،جتنی چیزیں انسانی زندگی کے لئے مفیدہیں ان کوحاصل کریں اوراس کے ساتھ ساتھ ہمارااخلاق بھی بلندہو‘‘۔
حضرت مفکرملت اس کے بالکل قائل نہیں تھے کہ کوئی بھی علم صرف روٹی روزی سے جوڑاجائے،وہ چاہتے تھے کہ روزی روٹی تواللہ نے تقدیرمیں لکھدی ہے اور’’ان الرزق لیطلب العبدکمایطلبہ اجلہ ‘‘ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےاس لئے رزق توہرحال میں مل کررہے گا،ضرورت اس بات کی ہے کہ مخلوق کی خدمت اورنفع رسانی کے لئے علم حاصل کیاجائے،جس شخص سے لوگوں کوزیادہ نفع ہوگاوہی معاشرہ کاسب سے بہترفردہوگا،خیرالناس من ینفع الناس، چنانچہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے انتظامیہ کوتین باتیں لکھ کردی تھیںجوعلم سیکھے وہ پکاعلم ہوناچاہئے کچاعلم نہیں ہوناچاہئے،علم کی گہرائی ،دوسری بات ہے سادہ زندگی ،اس وقت سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پڑھنے والے بچوں میں فیشن بہت ہوگیاہے،وہ زیادہ تراپنے آپ کو،اپنے بالوں کو،اپنے کپڑوں کوٹھیک کرنے میں لگے رہتے ہیں،اچھاچشمہ وغیرہ ان چیزوں میں وہ اتنامگن ہوجاتے ہیں کہ ان کااچھاخاصاوقت ضائع ہوجاتاہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی طبیعت میں سادگی ہو،جتنے بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں،جتنے ایسے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کی ،آپ اگران کودیکھیں گے تووہ نہایت سادہ تھے،ہمارے ملک میں مہاتماگاندھی کوآپ دیکھیں وہ بالکل سادہ رہتے تھے،ایک چادراوڑھتے تھے،ایک چادرپہنتے تھے اورپیرمیں سادہ سی چپل رہتی تھی،لیکن دنیامیں مشہورہوئے اوران کااعتراف کیا،ایک دفعہ مجھے امریکہ کے ایک اسکول میں لیجایاگیاوہاں میں نے دیکھاکہ وہاں گاندھی جی کے بارے میں معلومات رکھی ہوئی ہیں،تومیں نے اس سے یہ سمجھاکہ وہ لوگ اپنے بچوں کویہ بتاناچاہتے ہیں کہ دیکھوہندوستان میں گاندھی جی سادہ زندگی گزارتے تھے،روکھی سوکھی کھاتے تھے،بکری کادودھ پیتے تھے،انہوں نے مزے دارکھانے نہیں کھائے،لیکن انہوں نے ملک کوآزادکیااورایک جہت بتائی زندگی کی،ہمیں ایسے افرادکی ضرورت ہے ،ہم اپنے اسکولوں اورکالجوں میں ایسے افرادپیداکریں جواعلیٰ قسم کے اخلاق کے حامل ہوں۔
میں روزآانہ اخبارات پڑھتاہوں ،آج ہی میں نے پڑھاکہ ایک اسکول کے ٹیچرنے اسٹوڈنٹ کے ساتھ غلط معاملہ کیا،اس قسم کی آئے دن خبریں جب پڑھنے کوملتی ہیں تومیں سوچنے لگتاہوں کہ کوئی انسان اس قدرکیسے گرسکتاہے ؟یہ ایک بہت بڑی اخلاقی گراوٹ ہے اس ملک کے لئے یہ چیزنقصان دہ ہے،ہم اس ملک کے باشندے ہیں،ہم سب کوآوازاٹھانی چاہئے اس بداخلاقی کے خلاف،مصرکاایک شاعرکہتاہے:
انمـا الأمـم الأخلاق مـا بقيـت
فإن هم ذهبت أخلاقـهم ذهبــوا
قومیں اخلاق سے بناکرتی ہیں،کریکٹرسے بنتی ہیں،جب کسی قوم میں اخلاق ختم ہوجاتاہے تووہ قوم پستی میں گرجایاکرتی ہے،کبھی نہیں بچے گی،یادرکھئے !ہمیں صرف تعلیم نہیں دینی ہے،صرف اخلاق نہیں پڑھاناہے،ہمیں ایسے لوگ نہیں بنانے ہیں جوتعلیم کے ذریعہ سے صرف اپناپیٹ پالیں اورانسانوں کوتکلیف پہنچائیں،شاعرمشرق علامہ اقبال نے کہاتھا:
رگوں میں گردشِ خُوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
عروسِ لالہ! مُناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ مَیں نسیمِ سحَر کے سوا کچھ اور نہیں
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہُنر کے سوا کچھ اور نہیں
بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن
عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں
مفتی صاحب نے سیاسی معاملات میں کبھی ذاتی طورپردلچسپی بھلے ہی نہ لی ہولیکن وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ملک کاوہ دماغ جوسیاست کے میدان میں نمایاں خدمات اورملک کی نیاکومنجھدارسے نکال کرساحل تک پہنچاسکتاہواسے سیاست میں ضرورحصہ لیناچاہئے اورہرسطح پرمسلمانوں کی نمائندگی کرنی چاہئے۔چنانچہ نامورعالم دین حضرت مولانامحمداسرارالحق قاسمی کوسیاست کے میدان میں آپ ہی کے پیہم مشوروں اورمہمیزکے باعث اترنے اوراپنے خفیہ وخفتہ جوہردکھانے کاموقع ملااس کے علاوہ مختلف ملی وملکی مسائل ومعاملات پر مولانامحمداسرارالحق قاسمی حضرت مفکرملت سے مشورہ اور تبادلۂ خیال کرتے جس سے انھیں تقویت ملتی تھی۔ خودمولانا محمداسرارالحق قاسمی اپنے پیام تعزیت میں لکھتے ہیں:
’’انہوں نے مجھے قومی سیاست میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کئی بار کہاکہ موجودہ حالات میں آپ کا سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے اور یہ بھی عبادت کی طرح ہے‘‘۔
عام طورپرمدارس کے منتظمین انتظام میں مصروفیات کے باعث مطالعہ وتدریس اورکتب بینی وقطب بینی سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن حضرت مفکرملت کے ساتھ ایساکوئی معاملہ نہیں تھاوہ بہترین نظم وانتظام کے ساتھ درس وتدریس،مطالعہ وکتب بینی، اسفار واذکار، تحریروتقریر،وعظ وتذکیر،سرپرستی ورہنمائی سارے ہی کام بحسن وخوبی انجام دیتے رہے چنانچہ علمی وتحقیقی میدان میں تقریباًایک درجن چھوٹی بڑی کتابوں کاشائع ہوکرمقبول ہونامعمولی بات نہیں ہے۔
ہمت کرے انسان توکیاہونہیں سکتا
وہ کون ساعقدہ ہے جوواہونہیں سکتا
آپؒ علماء ودانشوران کے حلقے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،انہوں نے ملک کے مختلف نمائندہ تعلیمی اداروں اور رفاہی و فلاحی تنظیموں کے باہمی اختلافات کو دورکرنے میں بھی نمایاں اور اہم رول اداکیا۔
عموماًدینی طبقہ اخبارات نہیں پڑھتایاان کوپڑھنے کاموقع نہیں ملتالیکن حضرت مفکرملت ؒ قومی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے اوراس کے لئے اخبارات بھی پڑھنے کامعمول تھا۔
حضرت والاکی ایک خاص عادت یہ بھی تھی کہ وہ نوجوان اور نئے فضلا کی حوصلہ افزائی کرتے اور مفید علمی و دینی خدمات کی طرف ان کی رہنمائی کرنے میں غیر معمولی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔بالخصوص دیہاتوں میں تعلیمی ادارہ چلانے والے علماء کا ہرممکن تعاون فرماتے تھے۔
گجرات اور ہندوستان وبیرون ہند مدارس و مکاتب کا جال پھیلانے اور دینی تعلیم کا دائرہ وسیع ترکرنے میں انہوں نے غیر معمولی کردار اداکیاہے۔آپؒ ایک جلیل القدر عالم ،عالی دماغ مفکر،خداکا خوف رکھنے والے بزرگ اور رجال ساز صلاحیتوں کے مالک معلم ومربی تھے۔
ان کی تواضع ، سادگی، علم دوستی ، معاملہ فہمی،خوردنوازی اور بے جاتکلفات و تصنعات سے گریزکی وجہ سے ان سے جوملتا ،پہلی بار میں ہی ان کا گرویدہ ہوجاتا تھااور ان کے حسن اخلاق ومشفقانہ برتاؤ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ان سے ملنے والا امیر ہویاغریب سب کے ساتھ ملنساری اور محبت سے پیش آتے تھے۔
ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اہم اساتذہ کواپنے یہاں بلاکرانٹرویولینے کے بجائے خودہی تشریف لے جاتے، گفتگوکرتے، معاملات طے پاجاتے تووہیں تقررکی رسیدپیش فرمادیتے چنانچہ حضرت مولانامفتی احمدخانپوری دامت برکاتہم کاارشادہے کہ جن دنوں میں دارالعلوم میں پڑھ رہاتھاان ہی دنوں کی بات ہے وہاں حضرت مولاناذوالفقارصاحب سے ملنے اورگفتگوکرنے کے لئے تشریف لائےاوروہیں ان کاتقررفرمایا۔
اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں کہ آپ نے ایک ایک استاذکے حصول کے لئے دوردرازکے اسفارطے فرمائے اورپھرقابل وکامل اساتذہ سے اپنے دارالعلوم فلاح دارین کومالامال کردیا۔
آپ کی انتظامی صلاحیتوں کے یوں تواپنے پرائے،خوردوکلاں ،اکابرواصاغرسب ہی قائل ہیں لیکن عارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒنے ایک عجیب بات ارشادفرمائی کہ’’مولاناکواللہ نے ایسی انتظامی صلاحیت عطافرمائی ہے کہ وہ پورے ملک کانظام بہترسے بہترطورپرچلاسکتے ہیںایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں‘‘
آپ کے پاس ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی تھاجوآپ نے جامعہ قاسمیہ کھروڈکووقف فرمادیا۔چنانچہ ذمہ دارانِ کھروڈنے آپ کی شایان شان ایک شاندارعمارت بنواکراس میں یہ کتابیں برائے مطالعہ وتحقیق رکھی ہیں ۔
ایک اہم خوبی جس نے آپ کوامتیازوتفوق بخشایہ بھی ہے کہ آپ تاحیات کسی کے فریق نہیں بنے ہمیشہ رفیق بنکرزندگی گزاری چنانچہ حضرت مولانامفتی احمدخانپوری تحریرفرماتے ہیں کہ:
’’میں دیوبندپڑھنے کے زمانہ میں کبھی بھی کہیں بھی جاتا،حضرت سے اجازت لیتا،چنانچہ کبھی سہارنپوربھی جاناہواتوواپسی پربالخصوص پوچھتے کہ حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ سے ملاقات کی یانہیں؟میں کہتاکہ جی کرکے آیاہوں توبہت خوش ہوتے تھے‘‘
بہرحال حضرت مفکرملت ایک عہدسازوعہدآفریں شخص تھے ان کوعربی،فارسی،اردواورگجراتی چاروں زبانیں نہ صرف آتی تھیں بلکہ ان پرکامل عبوربھی حاصل تھا۔اسی طرح اکابرپروری توہرجگہ ہوتی ہے لیکن حضرت ؒکے یہاں اصاغرپروری ہوتی تھی۔وہ ہرچھوٹے سے چھوٹے عالم دین ،نوجوان فاضل اورقلم کارکی حوصلہ افزائی اورپذیرائی فرماتے تھے اوراس طرح عام طورپرجن کودنیاقطعی اہمیت نہیں دیتی حضرت والانے اپنے شریفانہ مزاج اورحلیمانہ وحکیمانہ اندازسے کارآمدبنادیا۔
آپ کی ایک منفردرائے یہ بھی تھی کہ مساجدومدارس کے گنبدوں اورمیناروں کی طرح فیکٹریوں اورکارخانوں کی چمنیاں بھی بلندہونی چاہئیں تاکہ مسلم قوم افلاس کی دلدل سے باہرنکل سکے۔
بہرحال اب جب کہ حضرت مفکرملت ہمارے درمیان نہیں رہے ان کے درجنوں علمی کام ،مدارس وجامعات ،مسترشدین ومنتسبین اوردارالعلوم فلاح دارین کی شکل میں علمی گلشن موجودہے ،ہم سب کایہ فرض ہے کہ ہم اجماعی طورپران کے تشنہ تکمیل امورکوتکمیل تک پہنچائیں،ان کے خوابات ومنامات کی تعبیرتلاش کریں ،یہی بہترین خراج عقیدت ہوگااوراسی سے ان کی روح جنت الفردوس میں فرحاں وشاداں ہوگی۔
این ندارد آخر از آغاز گو
رو تمام این حکایت بازگو
(یہ مقالہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسرگجرات میں منعقدہونے والے سیمینار کے لئے لکھاگیا)
صاحب ِرائے،صائب رائے
(مفتی)ناصرالدین مظاہری،استاذمظاہرعلوم(وقف)سہارنپور
۱۰؍جولائی ۲۰۱۸کی وہ صبح ،صبح جانگدازتھی جس نے لاکھوں آنکھوں کونمناک اورہزاروں قلوب کوغمناک کردیا،اب کچھ توناگہانی سننے کی عادت سی پڑگئی ہے،لگتاہے ابھی کل ہی کی بات ہے شیخ العرب والعجم محدث کبیرحضرت مولانامحمدیونس جونپوریؒہمیں داغ مفارقت دے گئے تھے،بہت سی آنکھوں کی نمی شایدابھی خشک نہ ہوئی ہوگی کہ خطیبِ اسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی کی رحلت نے تڑپادیا،خطیب ِاسلام حضرت مولانامحمدسالم قاسمی ؒکی جدائی پرہم اشک شوئی میں ہی لگے تھے کہ حضرت مولانامحمدخطیب غزالی بھٹکلی نے پرانے زخموںکوکریدکررکھ دیااوراس طرح ہماراحال کچھ ایساہواجس کی عکاسی شاعرنے یوں کی ہے:
کچھ یاس سے تسکین دلِ مضطرکوہوئی تھی
پھرچھیڑدیازخم ِجگرہائے تمنا
مفکرملت حضرت مولانامفتی محمدعبداللہ کاپودرویؒوہ عہدساز،عہدآفریں،مردم ساز،مردم گر،حوصلہ مند،عالم دین،مفتیٔ شریعت، خوش خو،خوش بُو،خوش پوش،خوش نوا،خوش گلو،خوش فکر،خوش خُلُق اورخوش اطواروباکردارشخص اورشخصیت تھے جن کی مکمل حیات کومدنظررکھتے ہوئے ہم بجاطورپرکہہ سکتے ہیں کہ حضرت والا تابندہ تر،یابندہ تر،رخشندہ تر،فرخندہ تر،افروزندہ تر،ترسندہ تر،جوئندہ تراورکارندہ ترتھے،اللہ تعالیٰ نے ان کونہ تھکنے والادماغ دیاتھاتوشستہ اورشگفتہ لہجہ اورزبا ن بھی دی تھی،وہ تدریس کے میدان کے بہترین استاذتھے تومنبرومحراب کے بیباک خطیب ومقرربھی،نظم وانتظام میں وہ مثال بن گئے تواپنی گوناگوں صفات ومیزات میں انھوں نے اپنے پہلوں کی یادتازہ کردی،وہ جہاں جاتے مشکبار،ہرشخص کے لئے غم گسار،اپنوں وبے گانوں کے لئے غم خوار،ہمہ دم اورہمہ وقت وفادار،دینی کاموں کے لئے جفاکار،جری،حوصلہ مند،جرأت واستقامت کاہمالہ،ضیافت کے باب میں ہرواردکے لئے ہم پیالہ وہم نوالہ،بدانتظامی وبدمعاملگی میں شعلۂ جوالہ،سچ پوچھوتواِس بوڑھے آسمان نے بہت کم ایسی ہستیاں اوربستیاں دیکھی ہیں جن کودیکھ کرخداکی یادآنے لگے،جہاں بیٹھ کرقلب کوسکون ووقارحاصل ہونےلگے،وہ مشام جان کومعطرکرنے والی گفتگو،وہ ان کاالبیلا مسکراتا ہوالہجہ،لہجہ کی شفافیت،حق گوئی اورجرأت ،کبھی کتابی باتیں،کبھی نصابی باتیں،کبھی تعلیمی باتیں توکبھی دعوتی باتیں،کبھی اجماعی باتیں توکبھی انفرادی باتیں،کبھی ملت کی کسک،کبھی امت کا فکر،کبھی اپنوں کااحساس توکبھی پرایوں کاغم،زندگی کاہرقدم نپاتلا، ہربات جچی تلی،نہ غیبت سنتے،نہ غیبت کرتے،ہمارے مفکرملت حضرت مولانامفتی محمدعبداللہ کاپودرویؒان خوش نصیب وخوش بخت افرادمیں سے ہیں جن کودنیاصدیوں یادرکھے گی،انہوں نے چراغوں سے چراغ اِس قدرجلائے،نشیمن پرنشیمن اس قدرتعمیروتیارکئے کہ بجلیاں اپناراستہ بدلنے پرمجبورہوں گئیں،کیاعجیب وغریب خدارسیدہ شخصیت تھے ،اپنوں میں،پرایوں میں،معاصرین میں ،اکابرین میں،امرائ میں رؤسامیں، عصری علوم کے ماہرین میں،فقہی علوم کے وارثین میں،تنظیمات کے باب میں،تحریکات کے آب میں ’’بہررنگے کہ خواہی جامہ می پوش‘‘ کامصداق،ملت کے لئے ٹیسیں اُن کے نہاں خانۂ دل سے نکلتیں اورآپ کومضطرب وبے قرارکرجاتیں،اسی اضطراب کوبجھانے کیلئےکبھی باندہ گئے توکبھی ندوہ،کبھی سہارنپورآئے توکبھی رائے پور،محض اس لئے تاکہ بیقراردل کوقرارآجائے،بےچین روح سکون پاجائے،زندگی کواس کاحقیقی سراغ مل جائے،آداب فرزندی سیکھ سکیں،کاخ فقیری کے آگے شہنشاہی کوجھکاسکیں، اوراس طرح مشق سخن جاری رکھی،تاآنکہ وہ وقت بھی آیاکہ آپ کاچشمۂ صافی ارغاب سے رودبلکہ بحربیکراں بن گیا،خودآپ اکابرکی نظرکیمیااثرسے مالامال ہوئے تودنیانے دیکھاکہ آپ فخرگجرات کہلائے،علی میاں ثانی کہلائے ،لوگوں نے ’’مفکرملت‘‘کالقب دیااورصحیح دیا،وہ ایک دوالقاب نہیں سینکڑوں القاب کے مستحق بلکہ القاب ان کی خدمات کے سامنے حقیرمحسوس ہوتے ہیں۔
آپ مختلف مدارس،جامعات،تنظیمات،تحریکات،اموردینی اورمعاملات دنیوی کے سرپرست ونگراں تھے توتاحیات بہتوں کے لئے مرشد،مربی،استاذاوراتالیق کی حیثیت سے چمکتے دمکتے رہے۔
آپ کی ہمہ گیراورہمہ جہت ہستی پرلکھنے کے لئے دفتردرکارہے،کیونکہ ان کے کام اورکارنامے بے شمارہیں،تاہم رجال سازی،رجال فہمی،تعصب سے دور،امتیازمن وتوسے نفور،حدودزمان ومکان سے ماورائ،اخلاق حسنہ کی تلقین وہدایت،مروت اوروفاداری بشرط استواری ان کاشیوہ،مخلوق کونفع رسانی ان کامشغلہ،تعلیم کاعموم ان کامشن ،معاشرہ میں اچھے افرادکی پیداواران کی تحریک،نئے دماغوں کی تطہیران کامقصدحیات،جدیدافکارنظریات کے حاملین میں تفہم دین ،جدیدترین ذرائع ابلاغ کاشرعی حدودوقیودمیں رہتے ہوئے صحیح اورمثبت استعمال ،کام کے لوگوں کی قدرومنزلت ،مختلف دینی کاموں کی سرپرستی،اہل علم کی رہنمائی،ارباب فکرونظراورصاحبان اقتدارواختیارسے راہ ورسم اوراس کے ذریعہ دین کاپیام وپیغام پہنچانے کی ہرممکن سعی وکوشش،دینی مدارس کانظام اورنصاب نہایت ہی مناسب اورشفاف رہے اس کی سعی فرماتے،کالجوں،اسکولوں،یونیورسٹیوں اورعصری اداروں میں دین اپنی مکمل شکل وصورت کے ساتھ موجودومحفوظ رہے اس کی تمنافرماتے،زمینی سطح پراس کی کوشش کرتے،امیروں،رئیسوں اورارباب دولت وثروت کوبلاتے اوران کوان کافرض منصبی بتاتے،وہ چاہتے کہ مدارس کی تعمیرات کے ساتھ ساتھ ان کامعیارتعلیم بھی بہتراوردوسروں کے لئے باعث کشش ہو،ان کی خواہش ہوتی کہ مسلمان جہاں کہیں چلاجائے اپنادین،اپناایمان،اپنے عقائد،اپنے معاملات،اپنے امتیازاوراپنے تشخص کے ساتھ رہے ۔
اسی طرح حضرت مفکرملت بعض امورمیں اپنی مستقل رائے بھی رکھتے تھے اوراس سلسلہ میں وہ حق کابرملااعتراف کرتے اورحق بات کہنے میں کسی لائم کی ملامت کی کبھی پرواہ نہ کرتے ۔
حضرت مفکرملت کی دیرینہ آرزواورتمناتھی کہ مسلمانوں کااپنامیڈیاہاؤس ہو۔کیونکہ آج پوری دنیا پرمیڈیا کاقبضہ ہے،اخبارات ، جرائد، مجلے، ماہنامے، ٹیلی ویژن، ریڈیو، انٹرنیٹ وغیرہ میڈیاکی مختلف شاخیں ہیں۔اگرمیڈیا کااستعمال صالح مقاصد کے لیے کیا جائے تو اس کے فوائد اس قدر ہیں کہ گنے نہیں جاسکتےاوراگر برے مقاصد کے لیےاستعمال کیا جائے تودنیا میں اس سے بری چیزشایدکوئی اورنہیں ہوسکتی ۔
حضرت مفکرملت چاہتے تھے کہ مسلمانوں کے عظیم دماغ کومعاشرہ اورتمدن کے مختلف ابواب میں بانٹ دیاجائے،ایک طبقہ وہ ہوجومرئی میڈیاسے تعلق رکھے مثلا: ٹیلی ویژن اور وی سی آر وغیرہ۔
ایک جماعت وہ ہوجوسمعی میڈیاسے مربوط ہوجیسے: آڈیوکیسٹ، ایم پی3، ریڈیو وغیرہ۔
ایک طائفہ وہ ہوجس کالسانی میڈیاسے تعلق ہوجیسے: اخبارات، جرائد، رسالے اور مجلے وغیرہ۔
گویاالیکٹرانک میڈیا سے پرنٹ میڈیا تک ہرشعبۂ حیات میں مسلمانوں کی خاطرخواہ شراکت داری اورساجھے داری ہو،وہ اس میدان میں کسی کے دست نگرنہ رہیں،وہ جب اورجس وقت جوبھی دینی پیغام دنیاکودیناچاہیں دے سکیں ۔چنانچہ ایک پروگرام میں آپ نے اپنا دل کھول کررکھ دیا،فرماتے ہیں:
’’ذرائع ابلاغ جس کومیڈیاکہاجاتاہے،اس کی کیااہمیت ہے تودنیامیں ہرشخص کے ذہن کوبدلنے کاکام میڈیاہی کررہاہے،حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں میڈیاکے پروپیگنڈے سے،قوموں کی ذہنیت کوجوبدلاجارہاہے وہ اسی میڈیاکے ذریعے بدلاجارہاہے،اس لئے اس وقت سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اس کاصحیح استعمال کرکے حق بات لوگوں تک پہنچائیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ چیزیں نہیں تھیں لیکن اس وقت ذرائع ابلاغ دوسرے تھے مثلاً عرب کے شعرائ جب کسی قبیلہ یاکسی کے بارے میں اشعارپڑھتے تھے تووہ اشعاردوردورتک پھیل جایاکرتے تھے،اسی طرح کسی کی برائی بیان کرتے تھے توپورے عرب میں اس کی برائی پھیل جاتی تھی، مشرکین مکہ نے اپنے بعض شعرائ کولگایاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی بیان کریں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اشعارکہیں،توجب یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی توآپ نے فرمایاکہ کیاہم لوگوں میں کوئی ایساشخص ہے جواس کاجواب دے اوردفاع کرے،توحضرت حسان بن ثابت ؓکھڑے ہوئے اورعرض کیاکہ یارسول اللہ میں ان کاجواب دوں گا۔تویہ گویامیڈیاکاجواب تھا،وہ ذرائع ابلاغ جواُس زمانہ میں رائج تھے اُن کاجواب بھی ان کے اندازمیں دیااوربسااوقات توایساہواکہ مسجدنبوی میں حضرت حسان بن ثابت ؓکے لئے منبرلگایااورحضرت حسان ؓنے اتنی خوبصورتی کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح کی کہ آج بھی ہم جب ان کے اشعارپڑھتے ہیں توعش عش کرنے لگتے ہیں ،ایساجواب دیاکہ ان کامنہ بندکردیا۔
توشروع سے یہ بات چلی آرہی ہے کہ ہمیں جوبات جس اندازسے چل رہی ہے اس کاجواب بھی اسی اندازسے دیناپڑتاہے۔
حضرت مولاناسیدابوالحسن علی حسنی ندویؒنے ایک باراپنی مجلس میں یوں فرمایاکہ بھائی جس فوجی کویہ معلوم نہ ہوکہ یہ حملہ کس سمت اورجہت سے ہورہاہے ،کن ہتھیاروں سے ہورہاہے تووہ کیسے ان کامقابلہ کرسکتاہے،ہمیں یہ بات سوچنی چاہئے کہ ہم پرجوفکری حملے ہورہے ہیں جن کو’’الغزوالفکری ‘‘کہاجاتاہے،فکری طورپرہمارے ذہنوں کواورنوجوانوں کے ذہنوں کوجوبدلاجارہاہے وہ میڈیاکے ذریعہ سے ،ٹی وی اوراخبارات کے ذریعہ سے،صحافت کے ذریعہ سے،تواس زمانے میں یہ ایسے ہتھیارہیں جن سے مفرنہیں ہے ،اگرہم ان کواستعمال نہیں کریں گے تومقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ہم نے دیکھاکہ بعض ایسی تنظیمیں جن کے ساتھ ہم اتفاق نہیں کرسکتے ، مثلاًقادیانی حضرات ہیں ہم ان کوسمجھتے ہیں کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بغاوت ہے ،انہوں نے پوری دنیامیں کئی چینل اپنے لگارکھے ہیں،اورپوری دنیامیں وہ اسلام کوپیش کررہے ہیں جس کولوگ سمجھتے ہیں کہ اسلام یہ ہے جس کویہ لوگ پیش کررہے ہیں،توکیایہ ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے لئے کوئی ایساسلسلہ شروع کریں کہ جس کے ذریعہ صحیح بات پیش کریں،ہمارے اکابر کی چیزیں،ہمارے صحابہ کرام کی وہ چیزیں جوانہوں نے متفقہ طورپرپیش کی ہیں ہم ان کوپیش کریں اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسی ہتھیارکواستعمال کریں۔
مجھے معلوم ہے کہ ہمارے علمائے کرام میں اس سلسلہ میں اختلاف رائے ہے ،لیکن میرے دوستو!اگردنیاکے حالات کاہم جائزہ لیں ،اگرہم نے دنیاکاسفرکیاہو،اگرہم یورپ اورامریکہ گئے ہیں توہمیں دل سے یقین ہوجائے گاکہ اب ہمارے پاس اس کے سواچارۂ کارنہیں ہے،اگرہمیں حق پہنچاناہے ،ہمیں ہمارے نوجوانوں کوصحیح راہ پرڈالناہے توہمیں اس کااستعمال کرناپڑے گا۔‘‘۔
حضرت مفکرملت کے اس واضح تقریری اقتباس سے ایک طرف توان کادرددل واضح ہے دوسری طرف ان کافکرونظربھی صاف ہے،وہ دیکھتے ہیں کہ حکومت و سیاست کا مسئلہ ہویا دین کی نشر واشاعت کا، کمپنی، ٹریڈاوربزنس کےفروغ کا معاملہ ہویا جدید تعلیمی وسائل کی فراہمی کا، کورٹ کچہری ہویاتھانہ پولیس ہر جگہ اور ہر موڑ پر میڈیا ہی کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔حضرت مفکرملت نے خاص طورپرقادیانی دجل وفریب اورمیڈیاپراس کے قبضہ وکنٹرول کاذکرفرمایااورپھرہم سے تقاضافرمایاکہ خداراتم بھی خواب غفلت سے اٹھوا!اُن کواُن کی زبان میں جواب دو،آج یہ بات خلاف عقل وقیاس ہے کہ ترکی سمجھنے والے سے اردومیں یافارسی جاننے والے سے عربی میں بات کی جائے اگرایساہواتویہ نظام الٰہی سے بھی مطابقت اورموافقت نہیں رکھتا،اللہ تعالیٰ نے ہرقوم کے درمیان ان ہی میں سے نبی اوررسول ،ہادی ورہنمابھیجے اوران ہی کی زبان اورتہذیب کے مطابق کتابیں اورصحیفے نازل فرمائے۔
یہ بالکل سچ ہے جس سے کسی کومجال انکارنہیں کہ آج پوری دنیاکامیڈیاہاؤس صرف تین خاندانوں کے پاس ہے اورکمال کی بات یہ ہے کہ یہ تینوں خاندان یہودی ملکیت ہیں۔
آج آپ انگریزی،عربی،اردو،ہندی اورتمام بڑی زبانوں کے ذرائع ابلاغ چاہے وہ الیکٹرانک میڈیاہویاپرنٹ میڈیااگر وہ کسی غیریہودی کے پاس ہے توخوش فہمی کاشکارنہ ہوں کیونکہ پتنگ کہیں بھی ہواس کی ڈوربہرحال یہودکے پاس ہے ۔
حضرت مفکرملت جودل ِدردمنداورفکرارجمندرکھتے تھے ان میں وہ اس لئے بھی حق بجانب تھے کیونکہ انھوں نے دنیاگھومی تھی،وہ جہاں دیدہ فردتھے،وہ مختلف قوموں ،ملکوں اورتہذیبوں کوقریب سے دیکھ چکے تھے ،ان کی معاشرت،ان کاتمدن،ان کابودوباش اور رہن سہن سب ان کے سامنے تھا،صحیح بات یہ ہے کہ وہ کنویں کامینڈھک نہیں تھے ،وہ لوگوں کی نفسیات سے واقف تھے،یہ بھی جانتے تھے کہ بندوق کامقابلہ چھری سے،توپ کامقابلہ غلیل سے اورراکٹ کامقابلہ تیرکمان سے ممکن نہیں ہے اسی لئے ایک موقع پرارشادفرمایا:
’’ہمارے نوجوانوں کی بڑی تعداداس کاغلط استعمال کرکے غلط راستے پرجارہی ہے،یہ توایک ایسی چیزہے کہ آپ اس کوصحیح طریقے سے بھی استعمال کرسکتے ہیں اورغلط طریقہ سے بھی استعمال کرسکتے ہیں ، مثال کے طورپرچھری ہمارے گھرمیں ہے ،ہم اس چھری سے پھل کاٹتے ہیں،سبزیاں کاٹتے ہیں،لیکن اسی چھری کولے کرکوئی کسی کے گلے پرپھیرے یاکسی کوتکلیف پہنچائے توہم ایسابالکل نہیں کہہ سکتے کہ آپ اپنے گھرمیں چھری نہ رکھیں، اسی طرح اگرآپ کے پاس میڈیاکی طاقت ہے، ذرائع ابلاغ میں پوری قوت ہے، توآپ اپنے دین حق کی بات دنیاتک پہنچاسکتے ہیں،آج تومنٹوں میں دنیاکے اس کونے سے اُس کونے تک بات پہنچ جاتی ہے ،پہلے زمانے میں دنوں کے بعدخبریں آتی تھیں ،بعض دفعہ توایساہوتاہے کہ ہم جس خبرکوصبح پڑھتے ہیں امریکہ اورکنیڈاوالے اس خبرکورات ہی میں دیکھ لیتے ہیں،کھیل جوہے اس کوپسندنہیں کیاگیاہے،اس کے بارے میں عربی میں ہے کہ حَسَنُہ حَسَن وقبیحہ قبیح،اس میں سے جواچھےہیں وہ اچھے ہیں اورجو برے ہیں وہ برے ہیں،لیکن میں نے جیساکہ عرض کیاکہ حضرت حسانؓ نے اسلام کادفاع کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کودعائیں دیں کیونکہ انہوں نے اشعارکواچھے کاموں میں استعمال کیاہے ہم بھی اس کواگرغلط کاموں میں استعمال کریں گے ،فحش تصاویرڈالیں گے،اپنی بڑائی بیان کرنے کے لئے ہم ٹیلی ویزن کااستعمال کریں گے تویہ چیزاللہ تعالیٰ کوپسندنہیں ہوگی لیکن ہماری نیتوں میں فتور نہیںہے ،ہم صحیح نیت کے ساتھ دین پھیلانا چاہتے ہیں توہماری رائے یہ ہے کہ اس کااستعمال ہمیں کرناچاہئے‘‘
ایم آئی ہائی اسکول کی پچیسویں سالگرہ میںجہاںعصری تعلیم یافتگان،پروفیسران اورماہرین تعلیم کااجتماع تھا،اس موقع پرآپ کی طبیعت بھی خراب تھی،شرکت سے معذوری بھی فرمادی تھی لیکن منتظمین اجلاس کے مخلصانہ اصرارپرتشریف لے گئے اورتاریخی خطاب فرمایا،اِس خطاب میں آپ نے اپنادل کھول کرسامنے رکھ دیا،اورزبان حال سے واضح فرمادیاکہ حکمت ایک گمشدہ سرمایہ ہے وہ جہاں کہیں سے ملے لے لو،چنانچہ اپنے خطاب کے شروعاتی حصہ میں فرمایا:
’’میں اِس اسکول کی بنیادکے وقت بھی حاضرہواتھااورآج بچیسویں جشن میںبھی حاضرہوں ،میں بالخصوص ایسے پروگراموں میں جاتاہوں جہاں مجھے معلوم ہوجائے کہ تعلیم کی بنیادپرانعقادہورہاہے،تعلیم کہتے کس کوہیں،تعلیم کیوںلی جاتی ہے،کچھ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ تعلیم اس لئے لی جاتی ہے تاکہ ہم اپنے مستقبل کواچھابناسکیں،ہم اچھاکمائیں،اچھے کپڑے پہنیں،اچھابنگلہ بنائیں، اچھابینک بیلنس ہو،جولوگ اس نظراورنظرئیے سے تعلیم حاصل کرتے ہیں میں سمجھتاہوں کہ ان کایہ نظریہ ہی غلط ہے۔تعلیم کااصل مقصدیہ ہے کہ آدمی کے اندرتہذیب پیداہو،آدمی مہذب بنے،انسان کے اندرانسانی اخلاق پیداہوں،انسانی ہمدردی کے جذبات پیداہوں،اوروہ اس دنیامیں بسنے والے ہرایک انسان کے کام آنے والابنے ،صحیح تعلیم یہی ہے،جس سے اللہ کی اوراس کے حق کی معلومات حاصل ہوں،خداکے کیاحقوق ہیں جس نے ہمیں پیداکیااورخداکی مخلوق کے کیاحقوق ہیں یہ دونوں تعلیم کے بنیادی مقصدہیں،یہی ہمارانقطۂ نظرہے کیونکہ اچھاکھانا پینااورسایہ میں رہناوغیرہ یہ توحیوان بھی کرتے ہیں،آپ اگرکسی بھینس اوربیل کوباہر کہیں چھوڑدیں توسایہ داردرخت تلاش کرکے اسی کے نیچے کھڑارہے گا،یہ اس کی فطرت ہے،اگرایک طرف سبزگھاس ہواوردوسری طرف خشک توجانورسبزہ ہی کی طرف جاتاہے تویہ چیزیں توجانوروں کوبھی معلوم ہیں،اصل چیزیہ ہے کہ جس سے انسانوں کے کام آنے کاجذبہ پیداہو،عربی زبان میں ایک کہاوت ہے :وما سمي الانسان الالانْسہ(انسان کوانسان اس لئے کہاجاتاہے کہ اس کوایک انس ہوتاہے ،اس کے اندرمحبت ہوتی ہے،اس لئے انسان کہاجاتاہے،اگرانسانوں میں محبت نہیں ہے،آپس میں عداوتیں ہیں،آپس میں ٹکراؤہے،تووہ انسانیت کی حدسے نیچے گراہواہے،وہ حیوانیت کی صف میں آکے کھڑاہے۔اس لئے تعلیم میں سب سے بڑی چیزہم لوگوں کویہ دیکھنی ہے کہ ہم جوعلوم انسان کے کام میں آتے ہیں،جتنی چیزیں انسانی زندگی کے لئے مفیدہیں ان کوحاصل کریں اوراس کے ساتھ ساتھ ہمارااخلاق بھی بلندہو‘‘۔
حضرت مفکرملت اس کے بالکل قائل نہیں تھے کہ کوئی بھی علم صرف روٹی روزی سے جوڑاجائے،وہ چاہتے تھے کہ روزی روٹی تواللہ نے تقدیرمیں لکھدی ہے اور’’ان الرزق لیطلب العبدکمایطلبہ اجلہ ‘‘ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادہےاس لئے رزق توہرحال میں مل کررہے گا،ضرورت اس بات کی ہے کہ مخلوق کی خدمت اورنفع رسانی کے لئے علم حاصل کیاجائے،جس شخص سے لوگوں کوزیادہ نفع ہوگاوہی معاشرہ کاسب سے بہترفردہوگا،خیرالناس من ینفع الناس، چنانچہ فرماتے ہیں کہ میں نے اس سے پہلے انتظامیہ کوتین باتیں لکھ کردی تھیںجوعلم سیکھے وہ پکاعلم ہوناچاہئے کچاعلم نہیں ہوناچاہئے،علم کی گہرائی ،دوسری بات ہے سادہ زندگی ،اس وقت سب سے بڑی مصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پڑھنے والے بچوں میں فیشن بہت ہوگیاہے،وہ زیادہ تراپنے آپ کو،اپنے بالوں کو،اپنے کپڑوں کوٹھیک کرنے میں لگے رہتے ہیں،اچھاچشمہ وغیرہ ان چیزوں میں وہ اتنامگن ہوجاتے ہیں کہ ان کااچھاخاصاوقت ضائع ہوجاتاہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی طبیعت میں سادگی ہو،جتنے بڑے بڑے لوگ گزرے ہیں،جتنے ایسے لوگ گزرے ہیں جنھوں نے انسانیت کی خدمت کی ،آپ اگران کودیکھیں گے تووہ نہایت سادہ تھے،ہمارے ملک میں مہاتماگاندھی کوآپ دیکھیں وہ بالکل سادہ رہتے تھے،ایک چادراوڑھتے تھے،ایک چادرپہنتے تھے اورپیرمیں سادہ سی چپل رہتی تھی،لیکن دنیامیں مشہورہوئے اوران کااعتراف کیا،ایک دفعہ مجھے امریکہ کے ایک اسکول میں لیجایاگیاوہاں میں نے دیکھاکہ وہاں گاندھی جی کے بارے میں معلومات رکھی ہوئی ہیں،تومیں نے اس سے یہ سمجھاکہ وہ لوگ اپنے بچوں کویہ بتاناچاہتے ہیں کہ دیکھوہندوستان میں گاندھی جی سادہ زندگی گزارتے تھے،روکھی سوکھی کھاتے تھے،بکری کادودھ پیتے تھے،انہوں نے مزے دارکھانے نہیں کھائے،لیکن انہوں نے ملک کوآزادکیااورایک جہت بتائی زندگی کی،ہمیں ایسے افرادکی ضرورت ہے ،ہم اپنے اسکولوں اورکالجوں میں ایسے افرادپیداکریں جواعلیٰ قسم کے اخلاق کے حامل ہوں۔
میں روزآانہ اخبارات پڑھتاہوں ،آج ہی میں نے پڑھاکہ ایک اسکول کے ٹیچرنے اسٹوڈنٹ کے ساتھ غلط معاملہ کیا،اس قسم کی آئے دن خبریں جب پڑھنے کوملتی ہیں تومیں سوچنے لگتاہوں کہ کوئی انسان اس قدرکیسے گرسکتاہے ؟یہ ایک بہت بڑی اخلاقی گراوٹ ہے اس ملک کے لئے یہ چیزنقصان دہ ہے،ہم اس ملک کے باشندے ہیں،ہم سب کوآوازاٹھانی چاہئے اس بداخلاقی کے خلاف،مصرکاایک شاعرکہتاہے:
انمـا الأمـم الأخلاق مـا بقيـت
فإن هم ذهبت أخلاقـهم ذهبــوا
قومیں اخلاق سے بناکرتی ہیں،کریکٹرسے بنتی ہیں،جب کسی قوم میں اخلاق ختم ہوجاتاہے تووہ قوم پستی میں گرجایاکرتی ہے،کبھی نہیں بچے گی،یادرکھئے !ہمیں صرف تعلیم نہیں دینی ہے،صرف اخلاق نہیں پڑھاناہے،ہمیں ایسے لوگ نہیں بنانے ہیں جوتعلیم کے ذریعہ سے صرف اپناپیٹ پالیں اورانسانوں کوتکلیف پہنچائیں،شاعرمشرق علامہ اقبال نے کہاتھا:
رگوں میں گردشِ خُوں ہے اگر تو کیا حاصل
حیات سوزِ جگر کے سوا کچھ اور نہیں
عروسِ لالہ! مُناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب
کہ مَیں نسیمِ سحَر کے سوا کچھ اور نہیں
جسے کساد سمجھتے ہیں تاجرانِ فرنگ
وہ شے متاعِ ہُنر کے سوا کچھ اور نہیں
بڑا کریم ہے اقبالِؔ بے نوا لیکن
عطائے شُعلہ شرر کے سوا کچھ اور نہیں
مفتی صاحب نے سیاسی معاملات میں کبھی ذاتی طورپردلچسپی بھلے ہی نہ لی ہولیکن وہ ہمیشہ چاہتے تھے کہ ملک کاوہ دماغ جوسیاست کے میدان میں نمایاں خدمات اورملک کی نیاکومنجھدارسے نکال کرساحل تک پہنچاسکتاہواسے سیاست میں ضرورحصہ لیناچاہئے اورہرسطح پرمسلمانوں کی نمائندگی کرنی چاہئے۔چنانچہ نامورعالم دین حضرت مولانامحمداسرارالحق قاسمی کوسیاست کے میدان میں آپ ہی کے پیہم مشوروں اورمہمیزکے باعث اترنے اوراپنے خفیہ وخفتہ جوہردکھانے کاموقع ملااس کے علاوہ مختلف ملی وملکی مسائل ومعاملات پر مولانامحمداسرارالحق قاسمی حضرت مفکرملت سے مشورہ اور تبادلۂ خیال کرتے جس سے انھیں تقویت ملتی تھی۔ خودمولانا محمداسرارالحق قاسمی اپنے پیام تعزیت میں لکھتے ہیں:
’’انہوں نے مجھے قومی سیاست میں حصہ لینے کی تلقین کرتے ہوئے کئی بار کہاکہ موجودہ حالات میں آپ کا سیاست میں حصہ لینا ضروری ہے اور یہ بھی عبادت کی طرح ہے‘‘۔
عام طورپرمدارس کے منتظمین انتظام میں مصروفیات کے باعث مطالعہ وتدریس اورکتب بینی وقطب بینی سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن حضرت مفکرملت کے ساتھ ایساکوئی معاملہ نہیں تھاوہ بہترین نظم وانتظام کے ساتھ درس وتدریس،مطالعہ وکتب بینی، اسفار واذکار، تحریروتقریر،وعظ وتذکیر،سرپرستی ورہنمائی سارے ہی کام بحسن وخوبی انجام دیتے رہے چنانچہ علمی وتحقیقی میدان میں تقریباًایک درجن چھوٹی بڑی کتابوں کاشائع ہوکرمقبول ہونامعمولی بات نہیں ہے۔
ہمت کرے انسان توکیاہونہیں سکتا
وہ کون ساعقدہ ہے جوواہونہیں سکتا
آپؒ علماء ودانشوران کے حلقے میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے ،انہوں نے ملک کے مختلف نمائندہ تعلیمی اداروں اور رفاہی و فلاحی تنظیموں کے باہمی اختلافات کو دورکرنے میں بھی نمایاں اور اہم رول اداکیا۔
عموماًدینی طبقہ اخبارات نہیں پڑھتایاان کوپڑھنے کاموقع نہیں ملتالیکن حضرت مفکرملت ؒ قومی و عالمی حالات پر گہری نظر رکھتے اور مسلمانوں کے تعلق سے ہمیشہ فکر مند رہتے تھے اوراس کے لئے اخبارات بھی پڑھنے کامعمول تھا۔
حضرت والاکی ایک خاص عادت یہ بھی تھی کہ وہ نوجوان اور نئے فضلا کی حوصلہ افزائی کرتے اور مفید علمی و دینی خدمات کی طرف ان کی رہنمائی کرنے میں غیر معمولی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے تھے۔بالخصوص دیہاتوں میں تعلیمی ادارہ چلانے والے علماء کا ہرممکن تعاون فرماتے تھے۔
گجرات اور ہندوستان وبیرون ہند مدارس و مکاتب کا جال پھیلانے اور دینی تعلیم کا دائرہ وسیع ترکرنے میں انہوں نے غیر معمولی کردار اداکیاہے۔آپؒ ایک جلیل القدر عالم ،عالی دماغ مفکر،خداکا خوف رکھنے والے بزرگ اور رجال ساز صلاحیتوں کے مالک معلم ومربی تھے۔
ان کی تواضع ، سادگی، علم دوستی ، معاملہ فہمی،خوردنوازی اور بے جاتکلفات و تصنعات سے گریزکی وجہ سے ان سے جوملتا ،پہلی بار میں ہی ان کا گرویدہ ہوجاتا تھااور ان کے حسن اخلاق ومشفقانہ برتاؤ کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہتا تھا۔ان سے ملنے والا امیر ہویاغریب سب کے ساتھ ملنساری اور محبت سے پیش آتے تھے۔
ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ اہم اساتذہ کواپنے یہاں بلاکرانٹرویولینے کے بجائے خودہی تشریف لے جاتے، گفتگوکرتے، معاملات طے پاجاتے تووہیں تقررکی رسیدپیش فرمادیتے چنانچہ حضرت مولانامفتی احمدخانپوری دامت برکاتہم کاارشادہے کہ جن دنوں میں دارالعلوم میں پڑھ رہاتھاان ہی دنوں کی بات ہے وہاں حضرت مولاناذوالفقارصاحب سے ملنے اورگفتگوکرنے کے لئے تشریف لائےاوروہیں ان کاتقررفرمایا۔
اس قسم کے بہت سے واقعات ہیں کہ آپ نے ایک ایک استاذکے حصول کے لئے دوردرازکے اسفارطے فرمائے اورپھرقابل وکامل اساتذہ سے اپنے دارالعلوم فلاح دارین کومالامال کردیا۔
آپ کی انتظامی صلاحیتوں کے یوں تواپنے پرائے،خوردوکلاں ،اکابرواصاغرسب ہی قائل ہیں لیکن عارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒنے ایک عجیب بات ارشادفرمائی کہ’’مولاناکواللہ نے ایسی انتظامی صلاحیت عطافرمائی ہے کہ وہ پورے ملک کانظام بہترسے بہترطورپرچلاسکتے ہیںایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں‘‘
آپ کے پاس ایک عظیم الشان کتب خانہ بھی تھاجوآپ نے جامعہ قاسمیہ کھروڈکووقف فرمادیا۔چنانچہ ذمہ دارانِ کھروڈنے آپ کی شایان شان ایک شاندارعمارت بنواکراس میں یہ کتابیں برائے مطالعہ وتحقیق رکھی ہیں ۔
ایک اہم خوبی جس نے آپ کوامتیازوتفوق بخشایہ بھی ہے کہ آپ تاحیات کسی کے فریق نہیں بنے ہمیشہ رفیق بنکرزندگی گزاری چنانچہ حضرت مولانامفتی احمدخانپوری تحریرفرماتے ہیں کہ:
’’میں دیوبندپڑھنے کے زمانہ میں کبھی بھی کہیں بھی جاتا،حضرت سے اجازت لیتا،چنانچہ کبھی سہارنپوربھی جاناہواتوواپسی پربالخصوص پوچھتے کہ حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہ سے ملاقات کی یانہیں؟میں کہتاکہ جی کرکے آیاہوں توبہت خوش ہوتے تھے‘‘
بہرحال حضرت مفکرملت ایک عہدسازوعہدآفریں شخص تھے ان کوعربی،فارسی،اردواورگجراتی چاروں زبانیں نہ صرف آتی تھیں بلکہ ان پرکامل عبوربھی حاصل تھا۔اسی طرح اکابرپروری توہرجگہ ہوتی ہے لیکن حضرت ؒکے یہاں اصاغرپروری ہوتی تھی۔وہ ہرچھوٹے سے چھوٹے عالم دین ،نوجوان فاضل اورقلم کارکی حوصلہ افزائی اورپذیرائی فرماتے تھے اوراس طرح عام طورپرجن کودنیاقطعی اہمیت نہیں دیتی حضرت والانے اپنے شریفانہ مزاج اورحلیمانہ وحکیمانہ اندازسے کارآمدبنادیا۔
آپ کی ایک منفردرائے یہ بھی تھی کہ مساجدومدارس کے گنبدوں اورمیناروں کی طرح فیکٹریوں اورکارخانوں کی چمنیاں بھی بلندہونی چاہئیں تاکہ مسلم قوم افلاس کی دلدل سے باہرنکل سکے۔
بہرحال اب جب کہ حضرت مفکرملت ہمارے درمیان نہیں رہے ان کے درجنوں علمی کام ،مدارس وجامعات ،مسترشدین ومنتسبین اوردارالعلوم فلاح دارین کی شکل میں علمی گلشن موجودہے ،ہم سب کایہ فرض ہے کہ ہم اجماعی طورپران کے تشنہ تکمیل امورکوتکمیل تک پہنچائیں،ان کے خوابات ومنامات کی تعبیرتلاش کریں ،یہی بہترین خراج عقیدت ہوگااوراسی سے ان کی روح جنت الفردوس میں فرحاں وشاداں ہوگی۔
این ندارد آخر از آغاز گو
رو تمام این حکایت بازگو
(یہ مقالہ دارالعلوم فلاح دارین ترکیسرگجرات میں منعقدہونے والے سیمینار کے لئے لکھاگیا)