حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ازواج

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے مختلف اوقات میں نو شادیاں کیں اور ان کے علاوہ آپ کی کئی باندیاں بھی تھیں۔ آپ کا پہلا نکاح جگر گوشہ رسول حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا سے ہوا، اور ان سے تین صاحبزادے امام حسن، امام حسین اور امام محسن علیہم السلام پیدا ہوئے۔ حضرت محسن رضی اللہ کا بچپن میں ہی وصال ہوگیا۔ سیدہ فاطمہ علیہا السلام سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی دو صاحبزادیاں زینب کبریٰ اور ام کلثوم کبریٰ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ جب تک حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا بقید حیات رہیں آپ کرم اللہ وجہہ الکریم نے کسی اور سے نکاح نہ کیا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد مختلف اوقات میں آپ کے درج ذیل نکاح ہوئے

  • ام البنین بنت حرام عامریہ رضی اللہ عنہا: ان سے چار فرزند حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عبداللہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے۔
  • لیلیٰ بنت مسعود تیمیہ رضی اللہ عنہا: ان سے دو بیٹے عبیداللہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
  • اسما بنت عمیس خثیمہ رضی اللہ عنہا: ان سے یحییٰ اور محمد اصغر رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
  • ام حبیبہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا:،ان سے حضرت عمر اور سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئے۔
  • امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا: ان سے محمد اوسط رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
  • خولہ بنت جعفر حنفیہ رضی اللہ عنہا: ان سے محمد اکبر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے، جو محمد حنفیہ کے نام سے معروف ہیں۔
  • ام سعید بنت عروہ رضی اللہ عنہا: ان سے ام الحسین اور رملہ کبریٰ رضی اللہ عنہما پیدا ہوئیں۔
  • محیاۃ بنت امراءالقیس: ان کے بطن سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو بچپن ہی میں فوت ہو گئیں۔
متعدد با ندیوں سے پیدا ہونے والی آپ کی اولاد کے نام درج ذیل ہیں:

حضرت ام ہانی، حضرت میمونہ، حضرت زینب صغریٰ، حضرت رملہ صغریٰ، ام کلثوم صغریٰ، حضرت فاطمہ، امامہ، حضرت خدیجہ، حضرت ام الکبریٰ، حضرت ام سلمہ، حضرت ام جعفر، حضرت ام جمانہ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

  1. ابن کثير، البدايه و النهايه، 7: 332، بيروت، مکتبه المعارف
  2. ابن قتيبه، المعارف، 1: 210، القاهره، دارالمعارف
  3. ابن کثير، الکامل في التاريخ، 3: 262، بيروت، دارالکتب


واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
امامہ بنت العاص کا قبل از نکاح حضرت علی رضی اللہ سےکیا رشتہ تھا؟
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
ماشاء الله
ہم کبھی غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی کا نام جب رکھتے ہیں تو اس کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے رکھتے ہیں ۔ تو اس نظر سے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام دیکھیں تو ان کو جن شخصیات سے محبت تھی وہ کچھ اس طرح نظر آئی ۔
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
تین بیٹوں کا نام انہوں نے (( محمد )) رکھا
۲۔ نبی کریم ﷺ کے چچا
حضرت عباس ؓ اور حضرت جعفر ؓ کے نام سے دو بیٹوں کے نام رکھے
۲۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
حضرت ابو بکر ؓ کا نام عبد الله هے لقب عتيق اور كنيت ابوبكر ۔ حضرت على ؓ نے عبد الله بھی نام رکھا ، اور ابوبکر بھی ،اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر بیٹے کی کنیت عتیق تھی۔
پھر حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کے نام بھی اپنے بیٹوں کے رکھے۔
۳۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن
حضرت خديجہ ؓ ، حضرت ام سلمہؓ ، حضرت میمونہ ؓ ، امہات المومنین ؓ کے نام رکھے ۔ اور ممکن ہے ایک بیٹی کا نام زینب صغری ؓ ہے تو کسی کا نام زینب کبری بھی ہو۔ اس نام سے ہمارے نبی ﷺ کی دو ازواج مطہرات تھیں۔ اور بیٹی کا بھی نام تھا۔
اسی طرح ایک بیٹی کا نام رملہؓ رکھا۔ تو یہ ام المؤمنين حضرت ام حبیبہ ؓ جو کہ حضرت ابو سفیان ؓ کی بیٹی اور حضرت معاویہ ؓ کی بہن تھیں ان کا نام تھا۔
٤- بنات النبى رضي الله عنهن
چاروں بیٹیوں حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کے ناموں سے اپنی بیٹیوں کے نام رکھے ۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ماشاء الله
ہم کبھی غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی کا نام جب رکھتے ہیں تو اس کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے رکھتے ہیں ۔ تو اس نظر سے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام دیکھیں تو ان کو جن شخصیات سے محبت تھی وہ کچھ اس طرح نظر آئی ۔
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
تین بیٹوں کا نام انہوں نے (( محمد )) رکھا
۲۔ نبی کریم ﷺ کے چچا
حضرت عباس ؓ اور حضرت جعفر ؓ کے نام سے دو بیٹوں کے نام رکھے
۲۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
حضرت ابو بکر ؓ کا نام عبد الله هے لقب عتيق اور كنيت ابوبكر ۔ حضرت على ؓ نے عبد الله بھی نام رکھا ، اور ابوبکر بھی ،اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر بیٹے کی کنیت عتیق تھی۔
پھر حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کے نام بھی اپنے بیٹوں کے رکھے۔
۳۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن
حضرت خديجہ ؓ ، حضرت ام سلمہؓ ، حضرت میمونہ ؓ ، امہات المومنین ؓ کے نام رکھے ۔ اور ممکن ہے ایک بیٹی کا نام زینب صغری ؓ ہے تو کسی کا نام زینب کبری بھی ہو۔ اس نام سے ہمارے نبی ﷺ کی دو ازواج مطہرات تھیں۔ اور بیٹی کا بھی نام تھا۔
اسی طرح ایک بیٹی کا نام رملہؓ رکھا۔ تو یہ ام المؤمنين حضرت ام حبیبہ ؓ جو کہ حضرت ابو سفیان ؓ کی بیٹی اور حضرت معاویہ ؓ کی بہن تھیں ان کا نام تھا۔
٤- بنات النبى رضي الله عنهن
چاروں بیٹیوں حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کے ناموں سے اپنی بیٹیوں کے نام رکھے ۔
جزاک اللہ خیرا
 

ابن عثمان

وفقہ اللہ
رکن
حضرت علیؓ کو کوئی نام پسند ہوتا تھا تو ہی رکھتے تھے ، مشہور حدیث ہے کہ آپ ؓ نے یکے بعد دیگرے اپنے تینوں بیٹوں کا نام پہلے حرب رکھا تھا ۔
نبی کریم ﷺ ان کو تبدیل کراتے رہے ۔
حضرت علی ؓ تیسرے بیٹے تک یہ سمجھتے رہے کہ یہ نام مباح ہے ۔اور کئی روایات میں یہ موجود بھی ہے کہ آپ ؓ نے حرب نام رکھ کر یہ فرمایا بھی تھا کہ مجھے پسند ہے کہ مجھے ابوحرب کہا جائے ۔
لیکن پھر نبی کریمﷺ نے جب ایک حدیث میں فرما دیا کہ حرب بُرا نام ہے ۔ تو پھر حضر علی ؓ نے نہیں رکھا۔
اور ناموں کے احکام میں احادیث میں ذکر ہے کہ عبد اللہ اور عبد الرحمٰن سب سے افضل نام ہیں ۔
اور انبیاء کے نام ، اور نبی کریمﷺ کے نام رکھنے کی فضیلت میں بھی روایات موجود ہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ نے تینوں بیٹوں کے نام تبدیل فرمائے تو حسنؓ ،حسینؓ ، محسنؓ ،نام رکھے تو ساتھ یہ فرمایا کہ میں نے حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر ان کا نام رکھا ہے ۔
اس سے حضرت علیؓ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ جو اُن کے قریب کے لوگ ہوں صالحین اُن کے نام بھی رکھنا مستحسن ہے ۔

اور یہ تو بالکل ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی نام رکھتا ہے تو اپنی ذاتی پسند کی وجہ سے رکھتا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ حضرات کی تمام تاریخ دور حاضر تک دیکھیں تو اہل بیت میں سے چند لوگ جو اُن کے نزدیک معتبر ہیں انہی کے ناموں پر وہ نام رکھتے ہیں ۔
ہاں البتہ یہ سوال ہے کہ اگر یہ نام عرب میں رائج ہی تھے تو رائج تو سینکڑوں نام تھے ، حضرت علی ؓ کا انتخاب یہی کیوں تھا۔
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ سارے نام شیعوں میں خصوصاََ آج کل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ایسا کیوں ہے ؟ یہ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے ۔

حضرت سیدنا علی المرتضٰى رضی اللہ عنہ کسی کو محبوب رکھنے کے سلسلہ میں تبرکاََ ایک روایت نقل کی جاتی ہے ۔

أبو حنيفة قال: حدثنا أبو جعفر محمد بن علي قال:
جاء علي بن أبي طالب إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنهما حين طعن فقال: رحمك الله, فوالله ما في الأرض أحد كنت ألقى الله بصحيفته أحب إلي منك.


حضرت امام باقر ؒ نے فرمایا:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گئے جب ان کو نیزہ مارا گیا تھا، اور فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ، بخدا روئے زمین پرآپ سے زیادہ مجھے کوئی شخص ایسا محبوب نہیں کہ میں اس کے صحیفہ کو لے کر اللہ جل شانہ سے ملنے کو پسند کروں ۔‘‘


یہ روایت امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنے استاذ امام ابو جعفر محمد باقر ؒ سے نقل کی ہے ۔یعنی نہایت بلند پایہ سند ہے ۔
(کتاب الآثار ،امام ابوحنیفہؒ - بروايت امام ابويوسف ، ص215 - بروايت امام محمد بن حسن ،ج2ص737)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مگر اہل تشیع اسکی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ نام پہلے ہی عرب میں رائج تھے یہ محبت میں نہی رکھے گے

پہلی بات اگر ایسا ہے تو یہ لوگ کیوں نہیں رکھتے اپنے بچوں کے نام کیا یہ لوگ صرف نام کے شیعہ ہیں اتباعِ حضرت علی رضی اللہ عنہہ کا ان کو خیال نہیں۔
دوسری بات پھر تو معاویہ اور یزید جیسے نام بھی پہلے سے رائج تھے وہ بھی یہ لوگ رکھ لیا کریں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ماشاء الله
ہم کبھی غور کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی کا نام جب رکھتے ہیں تو اس کے پسندیدہ ہونے کی وجہ سے رکھتے ہیں ۔ تو اس نظر سے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام دیکھیں تو ان کو جن شخصیات سے محبت تھی وہ کچھ اس طرح نظر آئی ۔
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
تین بیٹوں کا نام انہوں نے (( محمد )) رکھا
۲۔ نبی کریم ﷺ کے چچا
حضرت عباس ؓ اور حضرت جعفر ؓ کے نام سے دو بیٹوں کے نام رکھے
۲۔ خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم
حضرت ابو بکر ؓ کا نام عبد الله هے لقب عتيق اور كنيت ابوبكر ۔ حضرت على ؓ نے عبد الله بھی نام رکھا ، اور ابوبکر بھی ،اور ایک روایت میں ہے کہ ابوبکر بیٹے کی کنیت عتیق تھی۔
پھر حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓ کے نام بھی اپنے بیٹوں کے رکھے۔
۳۔ امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن
حضرت خديجہ ؓ ، حضرت ام سلمہؓ ، حضرت میمونہ ؓ ، امہات المومنین ؓ کے نام رکھے ۔ اور ممکن ہے ایک بیٹی کا نام زینب صغری ؓ ہے تو کسی کا نام زینب کبری بھی ہو۔ اس نام سے ہمارے نبی ﷺ کی دو ازواج مطہرات تھیں۔ اور بیٹی کا بھی نام تھا۔
اسی طرح ایک بیٹی کا نام رملہؓ رکھا۔ تو یہ ام المؤمنين حضرت ام حبیبہ ؓ جو کہ حضرت ابو سفیان ؓ کی بیٹی اور حضرت معاویہ ؓ کی بہن تھیں ان کا نام تھا۔
٤- بنات النبى رضي الله عنهن
چاروں بیٹیوں حضرت زینب ؓ ، حضرت رقیہ ؓ ، حضرت ام کلثوم ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کے ناموں سے اپنی بیٹیوں کے نام رکھے ۔
جزاک اللہ خیر
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت علیؓ کو کوئی نام پسند ہوتا تھا تو ہی رکھتے تھے ، مشہور حدیث ہے کہ آپ ؓ نے یکے بعد دیگرے اپنے تینوں بیٹوں کا نام پہلے حرب رکھا تھا ۔
نبی کریم ﷺ ان کو تبدیل کراتے رہے ۔
حضرت علی ؓ تیسرے بیٹے تک یہ سمجھتے رہے کہ یہ نام مباح ہے ۔اور کئی روایات میں یہ موجود بھی ہے کہ آپ ؓ نے حرب نام رکھ کر یہ فرمایا بھی تھا کہ مجھے پسند ہے کہ مجھے ابوحرب کہا جائے ۔
لیکن پھر نبی کریمﷺ نے جب ایک حدیث میں فرما دیا کہ حرب بُرا نام ہے ۔ تو پھر حضر علی ؓ نے نہیں رکھا۔
اور ناموں کے احکام میں احادیث میں ذکر ہے کہ عبد اللہ اور عبد الرحمٰن سب سے افضل نام ہیں ۔
اور انبیاء کے نام ، اور نبی کریمﷺ کے نام رکھنے کی فضیلت میں بھی روایات موجود ہیں ۔
جب نبی کریم ﷺ نے تینوں بیٹوں کے نام تبدیل فرمائے تو حسنؓ ،حسینؓ ، محسنؓ ،نام رکھے تو ساتھ یہ فرمایا کہ میں نے حضرت ہارون علیہ السلام کے بیٹوں کے نام پر ان کا نام رکھا ہے ۔
اس سے حضرت علیؓ نے یہ سمجھ لیا ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام کے علاوہ جو اُن کے قریب کے لوگ ہوں صالحین اُن کے نام بھی رکھنا مستحسن ہے ۔

اور یہ تو بالکل ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی نام رکھتا ہے تو اپنی ذاتی پسند کی وجہ سے رکھتا ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ شیعہ حضرات کی تمام تاریخ دور حاضر تک دیکھیں تو اہل بیت میں سے چند لوگ جو اُن کے نزدیک معتبر ہیں انہی کے ناموں پر وہ نام رکھتے ہیں ۔
ہاں البتہ یہ سوال ہے کہ اگر یہ نام عرب میں رائج ہی تھے تو رائج تو سینکڑوں نام تھے ، حضرت علی ؓ کا انتخاب یہی کیوں تھا۔
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ سارے نام شیعوں میں خصوصاََ آج کل ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے ایسا کیوں ہے ؟ یہ بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے ۔

حضرت سیدنا علی المرتضٰى رضی اللہ عنہ کسی کو محبوب رکھنے کے سلسلہ میں تبرکاََ ایک روایت نقل کی جاتی ہے ۔

أبو حنيفة قال: حدثنا أبو جعفر محمد بن علي قال:
جاء علي بن أبي طالب إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنهما حين طعن فقال: رحمك الله, فوالله ما في الأرض أحد كنت ألقى الله بصحيفته أحب إلي منك.


حضرت امام باقر ؒ نے فرمایا:
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس اس وقت گئے جب ان کو نیزہ مارا گیا تھا، اور فرمایا:۔
’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے ، بخدا روئے زمین پرآپ سے زیادہ مجھے کوئی شخص ایسا محبوب نہیں کہ میں اس کے صحیفہ کو لے کر اللہ جل شانہ سے ملنے کو پسند کروں ۔‘‘


یہ روایت امام ابوحنیفہ ؒ نے اپنے استاذ امام ابو جعفر محمد باقر ؒ سے نقل کی ہے ۔یعنی نہایت بلند پایہ سند ہے ۔
(کتاب الآثار ،امام ابوحنیفہؒ - بروايت امام ابويوسف ، ص215 - بروايت امام محمد بن حسن ،ج2ص737)
جزاک اللہ خیر
 
Top