صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا باہمی اتحادواتفاق

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی

خلافت کے لیے ان سے زیادہ طاقتور اور کوئی والی نہیں ہوسکتا۔​

حضورﷺ کے بعض صحابہ نے یہ سنا کہ حضرت عبد الرحمن اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر تنہائی میں کچھ بات کی ہے۔ چنانچہ یہ حضرات حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان میں سے ایک صاحب نے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی سختی کو جانتے ہی ہیں اور آپ ان کوہمارا خلیفہ بنا رہے ہیں۔ اس بارے میں جب آپ کاپروردگار آپ سے پوچھے گا تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے؟اس پر حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:ذرا مجھے بٹھا دو۔ کیاتم مجھے اللہ سے ڈراتے ہو؟ جو تمہارے معاملہ میں ظلم کو توشہ بنا کر لے جائے وہ نامراد ہو۔ میں اپنے پروردگار سے کہوں گا:اے اللہ! جو تیری مخلوق میں سب سے بہترین تھا میں نے اسے مسلمانوں کا خلیفہ بنایا تھا۔ میں نے جو بات کہی ہے وہ میری طرف سے اپنے پیچھے کے تمام لوگوں کو پہنچادینا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ لیٹ گئے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا:لکھو!

بسم اللہ الرحمن الرحیم​

یہ وہ معاہدہ ہے جو ابو بکر بن ابی قحافہ نے دنیا کی زندگی میں دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے اورآخرت کے زمانہ میں داخل ہوتے ہوئے کیا ہے جبکہ کافر مومن ہوجاتا ہے اور فاجر کوبھی یقین آجاتا ہے اور جھوٹا سچ بولنے لگتاہے۔ میںنے عمر بن خطاب کو اپنے بعد تمہارا خلیفہ بنایاہے۔ تم ان کی سنو اور ان کی بات مانو۔ میں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ ، اس کے دین اور اپنی ذات اورتمہارے ساتھ بھلائی کرنے میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ اگر (خلیفہ بن کر) عمر نے عدل سے کام لیا تویہی میرا ان کے بارے میں گمان ہے اور اسی کا مجھے ان کے بارے میں علم ہے اور اگر وہ بدل گئے تو ہر آدمی جوگناہ کمائے گا اسی کا بدلہ پائے گا۔ میں نے تو خیر ہی کاارادہ کیا ہے اور مجھے غیب کا علم نہیں۔

وسیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون

اور عنقریب ان لوگوں کو معلوم ہوجائے گا جنہوں نے( حقوق اللہ وغیرہ میں) ظلم کررکھا ہے کہ کیسی جگہ ان کو لوٹ کر جانا ہے۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ​

پھر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے حکم فرمایاتو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس تحریر پر مہر لگادی۔ پھر بعض راوی یہ بھی کہتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے اس تحریر کا ابتدائی حصہ لکھوایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی باقی رہ گیاتھا اور کسی کا نام لکھوانے سے پہلے حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ بے ہوش ہوگئے تھے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی طرف سے لکھ دیا کہ میں نے تم پر حضرت عمر کو خلیفہ مقرر کیاہے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب ہوش میں آئے تو فرمایا:آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ مجھے سنائیں۔ انہوں نے حضرت عمر کا نام پڑھ کر سنایا تو حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے کہا:اللہ اکبر۔پھر فرمایا:میرا خیال یہ ہے کہ(آپ نے حضرت عمر کا نام خود اس لئے لکھ دیاکہ ان کا نام لکھوائے بغیر) اگر اس بے ہوشی میں میری روح پرواز کرجاتی تو آپ کو خطرہ تھا کہ لوگوں میں( خلیفہ کے بارے میں) اختلاف ہوجا تا ۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اسلام اور اہل اسلام کی طرف سے بہترین بدلہ عطاء فرمائے۔ اللہ کی قسم! آپ بھی اس( خلافت)کے اہل ہیں۔ پھر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کے حکم دینے پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس معاہدہ نامہ پر مہرلگاکر باہر نکلے اور حضرت عمر بن خطاب اور حضرت اسید بن سعید قرظی رضی اللہ عنہماان کے ساتھ تھے۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہنے لوگوں سے کہا:جس آدمی کا نام اس میں ہے کیا تم اس سے بیعت کروگے؟ لوگوں نے کہا:جی ہاں۔ بعض لوگوں نے کہا:ہمیں اس آدمی کا نام معلوم ہے اور وہ عمر ہے۔

ابنِ سعد کہتے ہیں کہ یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہنے کہی تھی ۔ چنانچہ تمام لوگوں نے ( حضرت عمررضی اللہ عنہسے بیعت کا) اقرار کیااور وہ سب اسی پرراضی تھے اور سب بیعت ہوگئے۔پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نے تنہائی میں بلایا اور ان کو بہت سی وصیتیں کیں۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ ان کے پاس سے چلے گئے۔پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور یہ دعاء مانگی:

اے اللہ! میں نے اپنے اس عمل سے مسلمانوں کے فائدے اور بھلائی کا ہی ارادہ کیا ہے۔ مجھے ڈر تھا کہ ( میں اگر عمر کو خلیفہ نہ بناتا تو) مسلمان میرے بعد فتنہ مبتلا ہوجائیں گے۔(مسلمانوں کے فائدے کے لیے) میں نے یہ کام کیاہے جسے آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور صحیح فیصلہ کرنے کے لیے میں نے اپنی پوری کوشش کی ہے اور جوان میں سب سے بہترین آدمی تھا، سب سے زیادہ طاقتور تھا اور مسلمانوں کے فائدے کوسب سے زیادہ چاہنے والا تھا اسے میںنے ان کا والی بنایا ہے اور میرے لیے آپ کا مقرر کردہ موت کا وقت آچکا ہے۔
 
Top