حضرت امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری
حضرت امام سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو امام صاحب سے ہمسری کا دعویٰ تھا پھر بھی وہ امام صاحب کے علوم سے بے نیاز نہ تھے انہوں نے بڑے لطائف الحیل سے کتاب الرہن کی نقل حاصل کی اور اس کو اکثر پیش نظر رکھتے تھے ،زائدہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک دن سفیان کے سر ہانے ایک کتاب دیکھی جس کا وہ مطالعہ کر رہے تھے ان سے اجازت لے کر میں اسکو دیکھنے لگا تو امام ابو حنیفہ کی کتاب الرہن نکلی ، میں نے تعجب سے پو چھا کہ کہ آپ ابو حنیفہ کی کتابیں دیکھتے ہیں ؟ بولے کاش ان کی سب کتابیں میرے پاس ہو تیں .( عقود الجمان باب عاشر)
حسن بن مالک کا قول ہے کہ امام ابو یوسف فر مایا کرتے تھے ،کہ سفیان ثوری مجھ سے زیادہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا اتبار کر نے والے ہیں ،حضرت علامہ عثمانی نے لکھا ہےکہ اس امر کا ثبوت جامع تر مذی کے مطالعہ سے ہو سکتا ہے . ( مقدمہ فتح الملہم)
اس کے علاوہ حضرت ابو بعیم اصبہانی نے بھی کچھ روایات امام اعظم کی شان کے خلاف نقل فرمادی ہے جن کے راوی درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ،کیا اچھا ہوتا ایسے بڑے لوگ جو روایت حدیث کے وقت بال کی کھال نکالتے ہیں اور کسی طرح کے شک وشبہ کے پاس بھی نہیں پھٹکتے ایک ایک لفظ کو جانچ تول کر اور کسوٹی پر کس کر نقل کرتے ہیں امام اعظم ایسی عظیم و جلیل شخصیتوں کے بارے میں بھی اپنی محتاط روش کو بے داغ رکھتے تا کہ جواب دینے والے بضرورت جواب بھی اپنے محبوب ومحترم امام بخاری یا محدث ابو نعیم کےمتعلق کسی ادنیٰ سے ادنیٰ شکوہ بے احتیاطی وغیرہ پر بھی مجبور نہ ہوتے ،یہ ظاہر ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت قدر کو وہ حضرات ہم سے بھی زیادہ جانتے پہچانتے تھےاور ہم سے زیادہ ان کے دلوں میں ان کی قدر ومنزلت تھی .یہی وجہ ہے کہ محدث ابو نعیم اصبہانی نے امام اعظم کی مسانید کے 17 یا 21 روایت کر نے والوں میں سے ایک ہیں ،اور امام بخاری امام اعظم کے شاگردوں کے شاگر د ہیں .امام بخاری حضرت بن المدینی کے شاگر ہیں اور فر ماتے ہیں کہ میں نے علمی اعتبار سے اپنے آپ کو کسی سے حقیر وکمترنہیں سمجھتا بجز علی بن مدینی کے ( تہذیب التہذیب)
اور یہ علی بن مدینی یحییٰ بن سعید القطان کے شاگرد ہیں جوہر مضیہ میں ہے حضرت یحیٰی نماز عصر کے بعد مینارہ مسجد سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے اور امام احمد ،یحیی بن معین اور علی بن مدینی ان کے سامنے کھڑے ہو کر حدیثی سوالات کیا کرتے تھے اور نماز مغرب تک اسی طرح کھڑے کھڑے جواب سنتے تھے نہ وہ ان سے بیٹھنے کیلئے فر ماتے تھے اور نہ یہ ان کی عظمت وہیبت کی وجہ سے بیٹھتے تھے ،یہ حضرت یحییٰ القطان با وجود اس فضل وکمال کے امام اعظم کے حلقہ درس میں اکثر شریک ہو تے تھے اور ان کی شاگردی پر فخر کرتے تھے اور اکثر مسائل میں امام صاحب ہی کی تقلید کی ہے خود کہتے ہیں قد اخذنا باکثر اقوالہ ( تہذیب التہذیب ترجمہ امام ابو حنیفہ) تذکرۃ الحفاظ میں ذہبی نے وکیع بن الجراح کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ اور یحییٰ القطان دونوں امام ابو حنیفہ کے اقوال پر فتویٰ دیا کرتے تھےاور یحییٰ بن معین نے اسی طرح لکھا ہے پھر امام اعظم کے بعد بواسطہ ابن مبارک بھی امام اعظم کے شاگرد رہے ہیں ، نیز علی بن المدینی معلیٰ بن منصور کے بھی شاگرد ہیں اور وہ امام اعظم کے شاگرد ہیں اسی طرح اور بہت سے اساتذہ وشیوخ ہیں کہ ان کے واسطوں سے امام بخاری کو امام اعظم کے علمی فیوض وبر کات پہنچے ہیں اور امام بخاری نے بیسوں مسائل میں امام اعظم کی موافقت کی ہے .
اس کے بعد تیسرے نمبر پر خطیب بغدادی کا ذکر بھی مناسب ہے کہ انہوں نے تاریخ بغداد میں سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر امام اعظم کی شان رفیع کے خلاف بے سرو پا روایات کا ایک ڈھیر لگا دیا ہے جن کی تعداد تقریبا ڈیڑھ سو تک پہنچادی ہے ،اس کے جواب میں ملک معظم عیسیٰ بن ابی بکر ایوبی نے السہم المصیب فی کبد الخطیب لکھا اور ہمارے استاذ محترم حضرت شاہ صاحب قدس سرہ کو بڑی تمنا تھی کہ وہ چھپ جائے لیکن جب طبع ہو کر آئی تو اسکو جیسا خیال تھا نہ پایا، اس کے علاوہ سبط ابن الجوزی نے الانتصار لام ائمۃ الامصار دو جلدوں میں تا لیف کی اور خطیب کا پورا رد کیا اور ابو لمؤید الخوارزمی نے مقدمہ جامع المسانید میں بھی اچھا رد کیا ہے لیکن آخر میں حضرت الاستاذ المحترم شیخ محمد زاہد الکوثری قدس سرہ نے جو کافی وشافی رد لکھا وہ یقینا سب پر فائق ہے اس کا نام 'تانیب الخطیب علیٰ ماساقہ فی تر جمۃ ابی حنیفہ من الاکاذب' ہے یہ لاجواب کتاب قابل دید ہے جس میں ایک چیز کا روایت ودرایت سے جواب لکھا ہے اور تحقیق وتدقیق کی پوری پوری داد دی ہے اور الحند للہ امت پر جو خطیب کے جواب کا قرض تھا اس کو انہوں نے پورا پورا ادا کر دیا ہے . (انوا الباری شرح بخاری جلد اول ص 142تا 143)