محمد عربی کی عظمت

ziya

وفقہ اللہ
رکن
محمد عربی کی عظمت

اس زمین نے انسانی تاریخ میں ایک سے بڑے ایک انسان پیدا کئے لیکن محمد ا دنیا بھر کے عظیم ترین انسانوںمیں سب سے بڑے اورسب سے عظیم انسان ہیں آپ جیسا نہ کوئی پیدا ہوا اورنہ کوئی پیدا ہوگا اوریہ ایسی حقیقت ہے کہ اس کی شہادت صرف مسلمان ہی نہیںدیتے ہیںبلکہ انصاف پسندغیر مسلم بھی بر بناء اعتراف حق اس حقیقت کا اظہار کرتے ہیں جس کی بہترین مثال مائیکل ہارٹ کی مشہورکتاب ’’سوبڑے سب سے بڑے محمد‘‘ ( ہے )
اس کتاب میں سب سے پہلے محمد کا ذکر کیاگیا اور آپ کودنیا کا سب سے بڑاانسان قرار دیا گیا ،یہ رسول عربی محمد کی عظمت کی دلیل ہے ۔
آپ کی عظمت کا راز تو یہی ہے کہ قدرت نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو ادب سکھایا تاکہ آپ کاقلب منیر عقل کامل کریمانہ اخلاق کے ذریعہ ایسے صاف شفاف آئینہ کا کردار پیش کریں جس میں رحمت حق وعدالت الٰہیہ کا عکس نظر آئے ، آپ ا رسالت کی سچی تعبیر ہیں جس کی اشاعت کیلئے سارے عالم کے لئے آپ رسول بنائے گئے ؟
رسول اکرم رہبر انسانیت ہیں اورہر سچے مخلص انسان کے لئے نمونہ ہیں ، سچے ایمان درست سماجی شعورکے رہنما ہیں ۔
محمد دنیا میں تشریف لائے اوراپنی قوم وبرادری میں پورے چالیس سال رہے ہر شخص آپ کی اخلاقی بلندی ،عقلی پختگی امانت ودیانت اورصداقت کا قائل تھا جیسے ہی آپ ا وحی الٰہی کا محور بنے بس کا یا پلٹ گئی ایسا لگا آپ بدل گئے اورآپ اس دنیا کے رہنے والے نہیں ہیں ،پھر معجزے ظاہر ہونے لگے ، تعجب وحیرت واستعجاب میں ڈالنے والی چیزیں رونما ہونے لگیں ۔
وحی الٰہی سے جب آپ کا قلب یقین سے منورہوگیا ، آپ کو ہر چیز میں اللہ کا نور نظر آنے لگا ،قدرت کے مظاہر جاہ وجلال ، حسن وجمال ،قدرت وعظمت کے دلائل ،حکمت ورحمت کے آثار آشکارا ہونے لگے ، نفس وآفاق زمین وآسمان، زندگی وموت ،فطر ت وطبیعت کے اسرار ورموزدکھائی دینے لگے ، ان مشاہدات سے آپ کی فطرت متاثر ہوئی اوردل کی گہرائی سے یہ جملے زبان حق پر جاری ہوگئے ’’اے اللہ ہر خوبی تیرے لئے ہے ، آپ ہی زمین وآسمان اوران دونوں کے بیچ جو مخلوقات ہیںسب کے نگہبان ہیں ،آپ ہی کے لئے ہر تعریف ہے ، آپ آسمان وزمین کے مالک ہیں ، تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں،آپ حق ہیں ،آپ کا وعدہ حق ہے ، آپ سے ملنا برحق ہے ،آپ کا فرمان ،آپ کی جنت ودوزخ ،انبیاء اورقیامت بر حق ہے ۔
اے اللہ آپ کا تابعدار ہوا ،آپ پر ایمان لایا ،آپ ہی پربھروسہ ہے ،آپ ہی کی طرف رجوع کرتا ہوں، آپ ہی کے لئے لڑائی مول لیتا ہوں ،آپ ہی کوفیصل بناتا ہوں ،آپ میری اگلی پچھلی خطاؤں کو بخش دیجئے ، آپ ہی اول آپ ہی آخر ،آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ،آپ ہی کے ہاتھ میں ہرطاقت وتدبیر کی کنجی ہے ۔
وحی ربانی نے آ پ کے اند ر انقلاب برپا کردیا ،یہ حقائق وکیفیات آپ کے دل پر چھائی رہتیں ،شب وروز اسی میں گذرتے ،بیداری ونیندمیں یہی خیال رہتا ،ہر دن بے چینی واضطراب بڑھتا جاتا ۔
آپ کا زہدورع دنیاوی لذت سے بیزاری اسی حقیقت کی آئینہ دار تھی یہ کیفیت آپ کی پرسکون خشو ع وخضوع کی حامل نماز میںاورہمہ وقت یاد حق اورگرم جوش دعاؤںمیں چھائی رہتی ، آپ کا قلب مبارک آپ کی عقل سلیم ان حقائق کی مظہر تھی ۔
 

ziya

وفقہ اللہ
رکن
انسانیت کے سراپا
وحی نے آپ کے تمام گوشوںکو روشن کیا ،آپ نے حقیقت کبریٰ کا ادراک کیا ، خیر کے مخفی محرکات بلندی کے جذبات میں حرکت آگئی ،اللہ نے فرمایا ’’اللہ کی رحمت کی بہ دولت آپ ان کے لئے نر م خوہیں‘‘(عمران ۱۶۰) آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے (نساء ۱۱۳)اوربے شک آپ انتہائی عظیم اخلاقی بلندیوںپر فائزہیں‘‘۔(قلم ۴)
آپ ا ہمہ وقت اللہ کی یاد میں مشغول رہتے ،صلہ رحمی فرماتے ،کسی کے ساتھ اس طرح پیش نہ آتے جو ملنے والا نا پسند کرے ،معذرت قبول فرماتے جو ملنے آتا سلام میں پہل فرماتے ،مصافحہ کرتے ، جب کوئی کچھ مانگتا تو آپ کبھی رد نہ فرماتے اس کی ضرورت پوری کرتے یا انتہائی نرم گفتگوسے معذرت فرماتے ، صبر وانتظار کی تلقین کرتے ،آپ خندہ پیشانی سے ملتے ،کشادہ دست تھے ،جو آپ کے پاس آتا اس کا اکرام کرتے ،کبھی تو اپنی چادر مبارک اس کے بیٹھنے کے لئے بچھادیتے ،اپنے پاس سے خرچ کرتے،باکمال لوگوں کی عزت کرتے اور ان کا دل خوبیوں کی بنیادپر جیت لیتے ،آپ کبھی خفا نہ ہوتے غصہ نہ آتا ،بہت جلد آپ خوش ہوجاتے ،لوگوںکے مقابلے لوگوں پر سب سے زیادہ رحم کرنے والے اورنفع پہنچانے والے تھے ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچتے
’’آپ سب سے بڑے سخی ،کشادہ دل ،سچے ،عہد کے پکے ، نرم خو،عزت نواز تھے جو آپ کو پہل پہلے دیکھتا مرعوب ہوتا پھر جب ملنے جلنے لگتا تو دیوانہ ہوجاتا ۔‘‘
کیامحمدا کے علاوہ کسی میںیہ برگزیدہ صفات ہیں ؟ جو نمونہ بن سکے ،لوگوں کیلئے روشنی کا ساماںبن سکے ، خیر کے دریچے کھول سکے ،رہتی دنیاتک کے لئے مینارۂ نوربن سکے ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’بے شک تمہارے پاس تم میں ہی کا رسول آیا جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گذرتی ہے جو تمہاری منفعت کا خواہشمندرہتا ہے ،ایمان داروں کے ساتھ بڑا ہی شفیق ومہربان ہے (توبہ ۱۲۸)
تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اورروز آخرت سے ڈرتا ہو اورکثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو رسول اللہ کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا (احزاب ۲۱)اورہم نے آپ کو اورکسی بات کے واسطے نہیں بھیجا مگر دنیا جہاں کے لوگوں پر مہربانی کرنے کے لئے (انبیاء ۱۵۷)
رسول اللہ انے ایسی فاضلانہ زندگی کی دعوت دی جس کی بنیا دصحیح عقیدے ،بہتر اخلاق ،صرف اللہ کی بندگی پرقائم ہو ،حکمت وموعظت کی راہ اپنائی ،بحث ومباحثہ کی نوبت آئے تو اس میں تلخی سے گریزاںرہے اورپوری قوت ارادری اورایمان کے رسوخ کے ساتھ دعوتی سرگرمیاں انجام دیتے رہے اورکامیابیوں کی چوٹی تک پہنچے جس کی مثال نہ ملی نہ ملے گی ۔آپ نے زندگی کے دھارے کو موڑدیا ،فلسفے ونظرئے بدل دئے ، انسانوںکی رہنمائی کی ،رب کی راہ دکھائی ،اپنے وجود سے آشنا کرایا ،انجام سے باخبر کیا ،ایک تابعدار مسلمان امت چھوڑگئے جو ان اقدار کی قائل ہے اوران حقائق پر ایسا ایمان رکھتی ہے جس کے باعث اسلام کا جھنڈاچہار دانگ عالم میں بلند ہوا ،ظلم وفسادکا خاتمہ ہوا ،عدل وانصاف ،احسان وبھلائی کے اصول قائم ہوئے ۔
رسول اللہا عیدکے دن چند بچوں کے پاس سے گذرے جو کھیل رہے تھے ،آپ نے دیکھا کہ ایک بچہ تنہاغمزدہ بیٹھا ہوا ہے کھیل میں حصہ نہیں لے رہا ہے ، تو آپ نے اس سے پوچھا کیابات ہے بیٹے ؟اس نے آپ بیتی کہہ ڈالی ، میں یتیم ہوں ،میری ماں نے دوسری شادی رچائی ہے ، میری دیکھ ریکھ کرنے والا کوئی نہیں ، اس لئے میں تنہا رنج میں مبتلا ہوں آپ نے اس بچے کو سینے سے لگایا اورفرمایا کیا تمہیں یہ پسند نہیں کہ تمہارے باپ محمد ہوں اورتمہاری ماں عائشہ ہوں اوربہن فاطمہ ۔آپ نے اسے لباس پہنایا ،پھر تو وہ بچہ خوشی سے پھولانہ سمایا سب سے بہتر باپ سب سے اچھی ماں اورسب سے اچھی بہن کے بیچ پلا بڑھا ۔
کعب ابن عجرہ کہتے ہیں ہم لوگ ایک جماعت کے ساتھ مسجد میں رسول اللہ کے ساتھ بیٹھے تھے ، انصار ومہاجر دونوں تھے ،بنی ہاشم بھی تھے اتنے میں یہ بات چل پڑی کہ ہم میں سے رسول اللہا کو کون زیادہ پسند ہے ؟
انصار نے کہا ہم آپ پر ایمان لائے ،آپ کی اتباع کی ،آپ کے لئے لڑے آپ کے لئے ڈھال بنے ، اس لئے ہم رسول اللہ کے پسندیدہ اورقریبی ہیں ۔
مہاجروں نے کہا ! ہم ہی تو وہ لوگ ہیں جوآپ کے ساتھ ہجرت میں شریک رہے اپنے اہل وعیال قبیلے وکنبے اورمال وجائیدادکو چھوڑدیا ،جن چیزوںکو تم نے کیا ہم اس میں بھی تمہارے شریک رہے اس لئے ہم رسول اللہ سے زیادہ قریب ہیں ۔
بنوہاشم نے کہا ہم تو خانوادہ رسول سے تعلق رکھتے ہیں اورانصارومہاجرین کی تمام قربانیوںمیں بھی شریک ہیں اس لئے ہم رسول اللہ سے زیادہ قریب ہیں ۔
 

ziya

وفقہ اللہ
رکن
اسی دوران حضورتشریف لائے اورپوچھنے لگے کیا آپ لوگ کسی بات میں مشغول تھے ، ہم نے ماجرا سنادیا آپ نے فرمایا کیا میں فیصلہ کردوں ؟ہم نے عرض کیا ضرور اے اللہ کے رسول حضور!ماں باپ قربان !آپ ا نے فرمایا اے انصار !میں تمہارا بھائی ہوں ،نعرۂ تکبیر’’اللہ اکبر ‘‘سے فضا گونج اٹھی ،اے مہاجروا!میں تو تم میں ہی کا ایک فرد ہوں پھر نعرہ بلند ہوا ۔
اے بنو ہاشم !آپ مجھ سے ہیں میری طرف ہیں آپ کے اس حکیمانہ جواب سے سب خوش ہوگئے ۔ رسول اللہ ا کو اخلاق وسیرت کا یہ ایک نمونہ ہے ۔
پہلی کرن آخری روشنی
ہر طرف تیرگی تھی نہ تھی روشنی
آپ آئے تو سب کو ملی روشنی
بزمِ عالم سے رخصت ہوئیں ظلمتیں
جب حرا سے ہویدا ہوئی روشنی
چاند سورج کا انساں پرستار تھا
آپ ؐ سے قبل اندھیر تھی روشنی
اسوۂ مصطفیٰؐ کی یہ تفسیر ہے
روشنی، روشنی، روشنی، روشنی
ہے وہ خورشید اخلاقِ خیر البشرؐ
جس سے پاتا ہے ہر آدمی روشنی
یہ شعور آپؐ ہی سے ملا ہے ہمیں
موت ہے تیرگی زندگی روشنی
آپ ؐ کے نقشِ پا سے ضیا بار ہیں
دھوپ ،سورج ،قمر ، چاندنی روشنی
سوئے عرش ِ علیٰ مصطفیٰ کا سفر
روشنی کی طلب گار تھی روشنی
مصطفیٰؐ کی توصیف کرتا رہا
عمر بھر میرے گھر میں رہی روشنی
خلقتِ اولیں خاتم المرسلین
آپؐ پہلی کرن آخری روشنی
دین حق کے سوا جس قدر ازم ہیں
اِ ن سے حاصل نہ ہوگی کبھی روشنی
راہِ حق آدمی کو دکھاتی رہی
ہر زمانے میں اسلام کی روشنی
اہل ِ اسلام کے ہیں عقائد جدا
کتنے فرقوں میں اب بٹ گئی روشنی
ایک اُمی لقب کا یہ اعجازؔ ہے
آدمی کو ملی علم کی روشنی
(مفتی محمد ارشد فاروقی (
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
دین حق کے سوا جس قدر ازم ہیں
اِ ن سے حاصل نہ ہوگی کبھی روشنی
راہِ حق آدمی کو دکھاتی رہی
ہر زمانے میں اسلام کی روشنی
اہل ِ اسلام کے ہیں عقائد جدا
کتنے فرقوں میں اب بٹ گئی روشنی
ایک اُمی لقب کا یہ اعجازؔ ہے
آدمی کو ملی علم کی روشنی
بہت شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top