ایک نوجوان کا حیران کن اور متاثر کن واقعہ

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبر کاتہ!
یہ مضمون روزنامہ اسلام لاہور 2016-11-04 کو سفحہ آواز خلق میں شائع ہوا۔ جس کے مصنف شہر یار اصغر مرزا صاحب ہیں۔ شہر یار اصغر مرزا ساحب کو ان کے دوست نے یہ واقعہ سنایاتھا۔ یہ واقعہ نہایت متاچر کن اور حیران کن ہے۔ سوچا اس کو آپ سے شئیر کیا جائے۔ سو اس کو وہاں سے نقل کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر رہاہوں۔ والسلام

اس مضمون کے پڑھنے سے ایمان مضبوط ،اللہ اور اس کے گھر سے محبت میں اضافہ ہوگا۔( ان شاءاللہ)
ایک نوجوان کا حیران کن اور متاثر کن واقعہ
میں اور میرے ماموں نے حسب معمول حرم شریف مکہ مکرمہ میں نماز جمعہ ادا کی اور گھر واپسی کے لیے روانہ ہوئے۔شہر سے باہر نکل کر سڑک کے کنارے ایک سنسان مسجد آتی ہے مکہ مکرمہ آتے جاتے سپر ہائے وے پر بار ہااس مسجد پر نظر پڑتی رہتی ہے اور ہم ہمیشہ یہاں سے گزر جاتے ہیں مگر جس چیز نے آج توجہ میری طرف کھینچ لی تھی وہ تھی ایک نیلے رنک کی فورڈ کار جو مسجد کی خستہ حال دیوار کے ساتھ کھڑی تھی چند لمحے سوچتا رہا اس کار کا اس سنسان مسجد کے پاس کیا کام مگر میں نے کچھ جاننے کا فیصلہ کرتے ہوئے کار کی رفتار کم کرتے ہوئے اپنی کار کو مسجد کی طرف جاتے ہوئی کچی سڑک پر ڈال دیا۔میرے ماموں جو عام طور پر واپسی کا سفر غنودگی میں گزارتے ہیں،انہوں نے بھی اپنی آنکھیں ملتے ہوئے حیرت سے پوچھا کیا بات ہے اِدھر کیوں جارہے ہو؟
ہم نے اپنی کار کو مسجد سے کچھ دور فاصلہ پر روکا اور مسجد کی طرف چلدیے مسجد کے اندر سے کسی کی پُرسوز آواز میں سورۃ الرحمن کی تلاوت کرنے کی آواز آرہی تھی،پہلے تو یہی ارادہ کیا کہ باہر رُک کر ہی اس خوبصورت تلاوت کوسنیں ،مگر یہ سوچ کر اس بوسیدہ مسجد میں جہاں شاید اب کوئی نہ آتاہو،اندر جاکر دیکھنا تو چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے ہم نے اندر جاکر دیکھا ایک نوجوان مسجد میں جائے نماز بچھائے ہاتھ میں چھوٹا سا قرآن شریف لیے بیٹھا تلاوت میں مصروف ہے اور مسجد میں اس کےسوا اور کوئی موجود نہیں ہےمیں نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا اُس نے نظریں اٹھاکر ہمیں دیکھا صاف لگ رہا تھاکہ کسی کی غیر متوقع آمد اس کے وہم و گمان میان بھی نہیں تھی،حیرت اس کے چہرے سے عیاں تھی اس نے ہمیں وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ کہا۔
میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے عصر کی نماز پڑھ لی ہے نماز کا وقت ہوگیا ہے اور ہم نماز پڑھنا چاہتے ہیں. اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر میں نے اذان دینا شروع کی تو نوجوان قبلہ کی طرف رُخ کیے مسکرا رہا تھا،کس بات پر یا کس لیے یہ مسکرا رہا تھا مجھے معلوم نہیں تھا عجیب معمہ سا تھاپھر اچانک ہی اس نوجوان نے ایک ایسا جملہ کہاکہ مجھے اپنے اعصاب جواب دیتے نظر آئے . نوجوان کسی دے کہ رہا تھا مبارک ہو آج تو تو باجماعت نماز ادا ہوگی. مجھے میرے ماموں نےتعجب کی نگاہ سے دیکھاجسے میں نے نظر اندا کرتے ہوئے اقامت کہنا شروع کردی جبکہ میرا دماغ اس نوجوان کے اس فقرے پر اٹکا ہوا تھاکہ مبارک ہو آج تو باجماعت نماز ہوگی. دماغ میں بار بار یہی سوال آرہا تھا کہ یہ نوجوان آخر کس سے باتیں کر رہا ہے مسجد میں ہمارے سوا کوئی بندہ نہیں مسجد ویران پڑی ہے .کیا یہ بندہ پاگل تو نہیں؟ نماز پڑھ کر میں نے نوجوان کی طرف دیکھاجو ابھی تک تسبیح میں مشغول تھا۔میں نے اس سے پوچھا بھائی کیا حال ہے آپ کا؟ اس نے بخیرو عافیت میں جواب دیا۔ میں نے دوبارہ اس سے کہا اللہ آپ کی مغفرت فرمائے آپ نے میری نماز سے توجہ کھینچ لی ہے۔ نوجوان نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے؟ میں نے کہا جب میں اقامت کہ رہا تھا تو آپ نے ایک بات کہی تھی مبارک ہو آج تو با جماعت نماز ہوگی۔ نوجوان نے کہا اس میں ایسی حیرت والی کونسی بات ہے۔ میں نے کہا اس میں حیرت والی تو کوئی بات نہیں مگر آپ کس سے بات کر رہے تھے ؟ نوجوان میری بات سن کے مسکرایا تو ضرور مگر جواب دینے کے بجائے اس نے اپنی نظریں زمین کی طرف جھکالیں،گویا سوچ رہا ہوکہ میری بات کا جواب دے یا نہ دے۔میں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ تم پاگل ہو تمہارا چہرہ بہت ممطمئن ہے اور ماشاءاللہ تم نے ہمارے ساتھ نماز بھی ادا کی ہے۔ اس بار اُس نے نظریں اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور کہا میں مسجد سے بات کر رہا تھا۔ اس کی بات مجھے عجیب سے مھسوس ہوئی اب تو میں سنجیدگی سے سوچنے لگا کہ یہ شخص ضرور پاگل ہے۔ میں نے ایک بار پھر اس سے پوچھا کیا کہاآپ نے؟ تم اس مسجد سے گفتگو کر رہے تھے،تو پھر کیا اس مجد نے آپ کو جواب دیا ہے؟ اس نے پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ مجھے ڈر ہے کہ آپ کہیں مجھے پاگل نہ سمجھنا شروع کردیں۔ میں نے مجھے تو ایسے ہی لگ رہا ہے یہ فقط پتھر ہیں اور پتھر بولا نہیں کرتے۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات ٹھیک ہے کہ یہ صرف پتھر ہیں اگر تم جانتے ہو کہ یہ پتھر ہیں جو نہ سنتے ہیں اور نہ بولتے ہیں تو باتیں کس سے کیں؟ نوجوان نے ایک بار پھر اپنی نظریں زمین کی طرف کرلیں اور اب کی بار اس نے نظریں اٹھائے بغیر ہی کہاکہ میں مسجدوں سے عشق کرنے والا انسان ہوں ، جب کبھی بوسیدہ مسجد دیکھتاہوں تو اس کے بارے میں سوچتا ہوں مجھے اُن ایام کا خیال آجاتا ہے جب لوگ اس مسجد مین نماز پڑھتے ہونگے۔ پھر میں اپنے آپ سے ہی سوال کرتا ہوں کہ اب یہ مسجد کتنا شوق رکھتی ہوگی کہ کوئی تو ہو جو اس میں آکر نماز پڑھے کوئی تو ہو جو اس میں آکر اللہ کا زکر کرے۔میں مسجد کی اس تنہائی کے درد کو محسوس کرتا ہوں کہ کوئی تو ہو جو اِدھر آکر تسبیح کرے،کوئی تو ہو جو جو یہاں آکر چند آیات تلا وت کرکے اس کی دیواروں کو ہلادے۔ میں محسوس کرسکتاہوں کہ یہ مسجد کس قدر اپنے آپ کو باقی مساجد میں تنہا پاتی ہوگی۔کس قدر تمنا رکھتی ہوگی کہ کوئی آکر چند رکعتیں اور چند سجدے ہی ادا کر جائے، کوئی بھولا بھٹکا مسافر،یا راہ چلتا انسان آکر ایک اذان ہی بلند کردے۔ پھر میں خود ہی ایسی مسجد کو جواب دیا کرتا ہوں کہ اللہ کی قسم میں ہی ہوں جو تیرے آبادنوں جیسے ماحول کو زندہ کرونگا۔پھر میں ایسی مسجد میں داخل ہوکر دورکعت نماز پڑھتاہوں اور قرآن شریف کے ایک پارہ کی تلاوت کرتا ہوں۔ میرے بھائی تمہیں میری باتیں عجیب لگیں گی ، مگر اللہ کی قسم میں مسجدوں سے پیار کرتاہوں، میں مسجدوں کا عاشق ہوں۔
میری آنکھیں آنسووں سے بھرگئیں اس کی باتیں اس کا احساس اسکا عجیب کاکام اور اس کا عجیب سلوب کیا عجیب شخص ہے جس کا دل مسجدوں میں اتکا رہتا ہے۔ اب میرے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ صرف اتنا کہتے ہوئے کہ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے میں نے اسے سلام کیا مجھے اپنی دعاؤن میں یاد رکھنا کہتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ مگر ایک حیرت ابھی بھی باقی تھی۔نوجوان نے مجھے آواز دی تو میں دروازے باہر جاتا جاتا رُک گیا۔ نوجوان کی نگاہیں ابھی بھی جھکی ہوئی تھیں اور مجھے کہ رہا تھا کہ جب ایسی ویران مساجد میں نماز پڑھ لیتا ہوں تو یہ دعا مانگتاہوں
’’اے میرے پروردگار اے میرے رب! اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں نے آپ کے ذکر، آپ کے قرآن کی تلاوت اور آپ کی بندگی سے اس مسجد کی وحشت و ویرانگی کو دور کیا ہے تو اس کے بدلے میں آپ میرے ماں باپ کی قبر کی وحشت و ویرانگی کو دور فرما دیجئے، کیونکہ آپ ہی رحم وکرم کرنے والے ہیں۔‘‘
مجھے اپنے جسم میں سنسناہٹ سی محسوس ہوئی اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور میں پھوٹ پھوٹ کے رودیا۔ کیسی عجیب محبت تھی س کو اپنے والدین سے کس طرح تربیت پائی تھی اس نے ۔ اور ہم کس طرھ تربیت دے رہے ہیں اپنی اولاد کو۔ اور ہم کتنے نا فرض شناس ہیں اپنے والدین کے چاہے وہ زندہ ہوں یا فوت شدہ ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں صحیح راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ، نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے اور کاتمہ بالایمان نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین
 
Top