مولاناسلیم اللہ خان علیہ الرحمہ اللہ کے حضورمیں حاضر

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مولاناسلیم اللہ خان علیہ الرحمہ
اللہ کے حضورمیں حاضر

@مفتی ناصرمظاہری
۱۵؍جنوری ۲۰۱۷۷ء تاریخ اسلام میں اس لئے بھی یادرکھی جائے گی کہ اس دن عالم اسلام کی قابل فخرہستی ، مملکت خدادادکے عظیم ترین عالم دین ،وفاق المدارس العربیہ کے صدرنشین ،ہزاروں قلوب کی دھڑکن اورلاکھوں مسلمانوں کی تمناؤں ،عقیدتوں اورمحبتوں کامرکزومحور،دارالعلوم دیوبندکے فاضل افضل،مفتاح العلوم جلال آباد کے استاذجلیل،شیخ الاسلام حضرت مولاناسیدحسین احمدمدنیؒ کے شاگردرشید،مفتی محمدرفیع عثمانی اورمفتی محمدتقی عثمانی مدظلہم جیسی بیشمارہستیوں اورہزاروں اساطین امت کے لائق فائق قابل فخراستاذومربی ، اتحادتنظیمات مدارس دینیہ کے سربراہ،جامعہ فاروقیہ کے مدارالمہام،شیخ جلیل،مردخلیل،فقیہ نبیل،رئیس الامت شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خانؒ عمرعزیزکی ۹۱؍بہاریں دیکھ کرہمیشہ ہمیش کیلئے مولائے حقیقی سے جاملے۔اناللّٰہ واناالیہ راجعون​
نرگس اپنی بے نوری پہ ہزاروں نہیں لاکھوں سال روتی رہے ،زمین چاہے جتنے چکرلگالے ،شمس وقمرکاطلوع وغروب اورلیل ونہارکی گردشیں مولاناکا نعم البدل پیش کرنے میں ناکام ہو ں گی کیونکہ مولاناوہ آفتاب درخشاں تھے جس کی تابانیوں میں حضرت مدنی ؒ کی تعلیمی روح موجود تھی ، مولاناوہ نیر تاباں تھے جس کی نورافشانیوں میں حضرت مولانامسیح اللہ خاں جلال آبادیؒ کی تربیت کا عنصر غالب تھا ،مولانانے تقریباً ایک صدی قبل اس جہانِ رنگ وبومیں آنکھیں کھولی تھیں جب امت کاسواداعظم موجود،ملت کاقیمتی اثاثہ محفوظ اورتہذیب اسلامی مامون ہی نہیں چاردانگ عالم پراپنی حکومت وحکمرانی بلکہ مکمل شوکت وحشمت ،رعب ودبدبہ اورزوربازوسے عالم کفروشیطنت میں زلزلہ برپاکئے ہوئے تھی۔افسوس کہ مولاناہم سے ایسے وقت میں وداع ہوئے جب طالوت اپنی مٹھی بھرنفری کے ساتھ جالوت کی فوج سے نبردآزماہے،جب شیطان اورشیطانی بندے رحمن کے بندوں کوبیخ وبن سے اکھاڑکرروئے زمین کواللہ کے نام پاک سے محروم کردینے کیلئے آمادہ وکمربستہ ہوچکے ہیں،جب فراعنہ وعمالقہ ایک ہوکرموسوی طائفہ اورعیسوی جماعت کی شانداروبے مثال جامع ’’مصطفوی فوج‘‘ کے پیراکھاڑنے پرتلی ہوئی ہے،جب شراربولہبی اپنی تمام ترمنصوبہ بندیوں ،سازشوں،کمینی حرکتوں اورناپاک ونجس طبیعتوں سے خوان اسلام کوآلودہ کرنے کے درپے ہے۔
متوسط قامت،ستواں ناک،کشادہ پیشانی،پیشانی پرنشان سجدہ،فکرمیں ڈوبی آنکھیں،عمامہ پوش، سفیدریش،بارعب چہرہ، گفتگومیں بزرگانہ انداز،کم گو،خوش صفات ان علامات سے ذہن وفکرکے کینوس پر جوتصویرابھرتی ہے اس کانام ہے حضرت مولاناسلیم اللہ خانؒ ۔
آپ نے۲۵؍دسمبر۱۹۲۶۶ء کومظفرنگرکی معروف بستی حسن پورلوہاری میںآنکھیں کھولیں،یہی وہ بستی ہے جس کو حضرت حاجی امداداللہ مہاجرمکیؒ کے پیرومرشدحضرت میانجی نورمحمدجھنجھانویؒ نے تاحیات روح وروحانیت سے مالامال رکھا،ابتدائی تعلیم مدرسہ مفتاح العلوم جلال آبادمیں حاصل کی،۱۹۴۲ء میں اعلیٰ تعلیم کیلئے دارالعلوم دیوبندمیں داخلہ لیا،۱۹۴۷ء میں دارالعلوم سے امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوئے،مفتاح العلوم کے روح رواں اورحکیم الامت حضرت تھانویؒ کے خلیفہ حضرت مولانامسیح اللہ خان ؒ آپ کی سنجیدگی ومتانت اورآگے چل کردین کی عظیم الشان خدمات انجام دینے کی صلاحیت کومحسوس کرچکے تھے کیونکہ یہ اللہ والے آنکھوں سے نہیں اللہ کے نورسے دیکھنے کے عادی ہوتے ہیں ۔اتقوامن فراسۃ المؤمن فانہ ینظربنوراللّٰہ۔
حضرت مولانامسیح اللہ خان ؒ چونکہ آپ کے استاذبھی تھے اس لئے آپ کوحکم دیاکہ مفتاح العلوم میں تدریسی خدمات انجام دیں،چنانچہ آپ نے آٹھ سال تک جلال آبادمیں تعلیم دی۔
ان آنکھوں کو بہت سی خدارسیدہ برگزیدہ ہستیوں کو دیکھنے کی سعادت ملی ہے، عارف باللہ حضرت مولاناقاری سیدصدیق احمدباندویؒ ، مفکراسلام حضرت مولاناسیدعلی میاں ندویؒ ،فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین مظاہریؒ ، فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعدمدنیؒ اورشیخ الحدیث حضرت مولاناانظرشاہ کشمیریؒ وغیرہ سینکڑوں صاحبان علم وتقویٰ کی خدمات اورلازوال شخصیت پرخامہ فرسائی کی توفیقات سے نوازاگیاہوں لیکن سچائی یہ ہے کہُ ان حضرات کی رحلت اورجدائی کے موقع پرامت میں بکثرت ایسی شخصیات موجودتھیں جن کی صحبت اورخدمت سے بندگان الٰہی کوخداکاراستہ ملتاتھا،ایک گیاتوکئی موجودہوتے تھے،جیسے سورج کے جاتے ہی چاندآموجود ہوتاہے ،چاندکی روشنی مدھم پڑتے ہی ستاروں کی روشنی سے راستوں کا تعین آسان ہوجاتاہے ، مگریہ کیاموت ہے کہ روشنی ختم ہوگئی ،چراغوں نے کثرت کے باوجوداپنی معنویت کھودی،جولوگ کل تک حدی خواں تھے آج مرثیہ خواں ہوگئے،تپتی،سلگتی اورآگ برساتی تیزدھوپ میں ہم جس شجرسایہ دارکے نیچے دم بھرسستانے کے لئے رکے تھے افسوس کہ وہی پیڑاکھڑگیااور ۔ع وہی چراغ بجھاجس کی لوقیامت تھی
میں غورکرتاہوں توسائنس دانوں ،فلکیات کے ماہرین اورذاتی تجربوں میں اس حقیقت کوپالیتاہوں کہ سورج اورچاندکی تیزروشنی میں ستارے ڈوبتے نہیں چھپ جایاکرتے ہیں،ڈوبتاتوسورج ہے جوروشنی بھی دیتاہے اوردوسری طرف فصلوں کوپکنے کابہترین موقع بھی فراہم کرتاہے،ڈوبتاتوچاندہے جورات کی تاریکیوں کوکافورکرتاہے توفصلوں میں مٹھاس اورچاشنی کاموقع بھی دیتاہے ،ستارے کیاڈوبیں اورکیاڈبوئیں ؟آپ پھل دارشاخ کوہی دیکھ لیجئے جوپھل دینے کے لئے جھکتے جھکتے بسااوقات ٹوٹ جایاکرتی ہے ،سایہ داردرخت پرخزاں کاموسم اثراندازہوجاتاہے مگروہ پیڑجوسایہ دارنہیں یاپھل دارنہیں تیزوتندہواؤں اورموسم کی شدت وحدت میں بھی نہیں گرتے کیونکہ بے فیض ہوتے ہیں۔ پھرغورکرتاہوں تودیکھتاہوں پھل داردرختوں پرپتھرپھینکے جاتے ہیں اوربدلے میں وہ درخت پھل واپس کرتے ہیں۔مزیدغورکریں توصبح صبح مالی گلستان میں جاکرپھول توڑلاتاہے لیکن گلستان نہ توآہ بھرتاہے نہ ہی پھولوں کے زیاں پرحرف وحکایت اورشکوہ شکایت کرتاہے ۔رات گزرتے ہی تازہ دم ہوکر نئے برگ وباراورنئے پھول اورپتوں کے ساتھ لہلہانے لگتاہے ۔یہ اللہ والے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں یہ گولیاں کھاکربھی گالیاں نہیں دیتے،یہ الزام تراشیوں پرکان نہیں دھرتے،یہ گالیاں دینے والوں کوبھی گلے سے لگالیتے ہیں ، یہ ستم گروں کے حق میں بھی دعائے خیرکرتے نظرآتے ہیں ،کیونکہ ان کے نبی کی بھی پوری زندگی عفوودرگزرسے عبارت ہے۔
عاجزی اورانکساری ان کی طبیعت میں ایسی رچ بس جاتی ہے کہ طبیعت میں علونام کی کوئی چیزنہیں رہ جاتی،علم اورعمل صالح کی دولت سے مالامال ہوتے ہیں،ہرشخص کواس کے مناسب حال عرفان کی دولت سے نوازتے ہیں اورتواضع میں اس صراحی کی طرح بچھے چلے جاتے ہیں جوخودتوپانی سے لبالب بھری ہے مگرتشنہ شخص کوجھک کرپانی پیش کرنے میں کوئی جھجک،کوئی عاراورکوئی ندامت محسوس نہیں کرتی۔
تواضع کاطریقہ سیکھ لو لوگو!صراحی سے
کہ جاری فیض بھی ہے اورجھکی جاتی ہے گردن بھی
انہوں نے حالات کی ناموافقت اورماحول کی نامساعدت کے باوجود جن کمالات عالیہ اورجمالات غالیہ سے نئی نسلوں کوروشناس کرایاوہ تاریخ کاایک اہم حصہ ہے،انہوں نے موسم باراں میں خودکوتیارکیا،موسم خزاں سے اپنے آپ کومحفوظ رکھ کراپنوں وبے گانوں کوخوب خوب نوازااورپوری زندگی ایسے اندازسے گزارگئے کہ دیکھنے والابے تکلف گنگنانے لگتاہے۔ ؂
خدایاد آئے جن کودیکھ کر وہ نور کے پتلے
نبوت کے یہ وارث ہیں یہی ہیں ظل سبحانی
یہی ہیں جن کے سونے کوفضیلت ہے عبادت پر
ان ہی کے اتقاء پرنازکرتی ہے مسلمانی
کیابتاؤں اورکیسے بتاؤں؟ بات کہیں سے کہیں چلی جاتی ہے،یادیں ہیں کہ سمٹنے کانام نہیں لیتیں،مولاناکی خدمات کے انمٹ نقوش ہیں کہ کتابوں کے دامن تنگ نظرآتے ہیں،ان کی بے پناہ ملی ہمدری ، امت کی فلاح وکامرانی کے لئے ان کاسوزدروں،دینی مدارس کے قدیم تعلیمی نصاب میں دورحاضرکی کلیدی اوربنیادی ضرورتوں کوداخل کرنے کی امنگ ان کے دل میں ابتداء ہی سے موجزن تھی مگربڑوں کے سامنے بولناگستاخی اوربلااجازت ازخودکچھ کرناجرم تصورکرتے تھے یہی وجہ تھی کہ آپ اورآپ کے رفیق حضرت مولاناعلامہ رفیق احمدبھیسانوی ؒ دونوں نے آٹھ سال تک مفتاح العلوم کی شاندارتدریسی خدمات اس طرح انجام دیں کہ دارالعلوم دیوبنداوردیگربڑے مدارس کے طلبہ مفتاح العلوم کارخ کرنے لگے ،یہی نہیں مفتاح العلوم کے تعلیم یافتہ طلبہ کامرکزی ادارے ترجیحی بنیادوں پرداخلہ لینے میں خوشی محسوس کرتے تھے ۔
آٹھ سال بعدآپ نے پاکستان کے مشہورتعلیمی مدرسہ دارالعلوم ٹنڈوالہ یارسندھ کومنتخب کیامگروہاں صرف تین سال ہی پڑھایاپھردارالعلوم کراچی پہنچے اورآن بان شان کے ساتھ دس سال تک درس نظامی کی مختلف کتابیں پڑھاتے رہے ،دریں اثنائحضرت علامہ یوسف بنوریؒ نے دارالعلوم کراچی کی تدریس کے دوران آپ سے اپنے دارالعلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن میں خارجی اوقات میں پڑھانے کی خواہش کااظہارکیاتووہاں بھی بعض اسباق پڑھاتے رہے ۔ان خدمات کے باوصف اندراندرآپ بے کیفی وبے چینی محسوس کرتے رہتے کہ میں امت کی جس اندازمیں خدمت انجام دیناچاہتاہوں اس میں کامیابی نہیں مل پارہی ہے، کامیابی پانے کے لئے اصول وضوابط کی حدبندیوں اورآئین وقوانین سے آزادیامستثنیٰ ہوناضروری ہے جوظاہرہے کہ کسی کے زیرانتظام رہکراِن افکاراورخوابات کوعملی جامہ پہناناناممکن ہے،کیونکہ ہرادارہ کے کچھ اصول اورضابطے ہوتے ہیں جن کی تعمیل اور بجاآوری عملہ کے لئے ضروری ہے، اس لئے مولانانے ایک بڑافیصلہ کیااوروہ تھا’’جامعہ فاروقیہ‘‘ کاقیام۔
۲۳؍جنوری ۱۹۶۷۷ء کوآپ نے جامعہ فاروقیہ کی بنیادرکھی ،مخلصانہ کوششیں جاری رہیں،مجوزہ نصاب تعلیم جاری کیااوراس میں سوفیصدکامیاب ہوئے۔آج جامعہ فاروقیہ کم عمری کے باوجودایک یونیورسٹی بناہواہے، تعلیمی وتعمیری میدان میں اس نے حیرت انگیزاورمسرت خیزترقی کی ہے ۔
نسل نوکیلئے کچھ نیاکرنے کاجذبہ اوراس میں خاطرخواہ کامیابی ،تدریسی میدان میں آپ کی پختہ استعداد اورصلاحیت اورقلیل عرصہ میں ملک ہی نہیں دنیاکے گوشہ گوشہ میں آپ کے جامعہ کی مقبولیت نے علماء دین کومجبورکیاکہ آپ کووفاق المدارس العربیہ کاناظم اعلیٰ بنایاجائے۔چنانچہ اس عہدہ پررہتے ہوئے آپ نے وفاق کے نصاب کو نیارنگ وآہنگ دیا،امتحان کی ترتیب میں شفافیت پیداکی،بے ضابطگیوں کودورکیا،صرف دورہ کے بجائے دیگربہت سے درجات کاامتحان لازمی قراردیا،تمام امتحان میں کامیاب افرادکیلئے خوشنما،دیدہ زیب سندات طبع کرائیں ، وزارت تعلیم سے پے درپے مذاکرات کرکے بلاکسی نئے امتحان کے مختلف درجات کوایم اے،بی اے،انٹر،میٹرک، مڈل اور پرائمری کے مساوی قراردیاگیا۔ اسی طرح وہ قدیم فضلاء وفارغین جووفاق کی اسنادکے معادلہ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے فوائدسے محروم تھے ان کیلئے خصوصی امتحانات کااہتمام کرایاتاکہ انھیں بھی وفاق کی سندیں فراہم کرائی جاسکیں۔
آپ سے پہلے وفاق سے الحاق کرنے والے مدارس کی تعدادنہایت کم تھی لیکن آپ کے آنے کے بعدبہت سے قابل ذکرمدارس کاالحاق ہوااوراب یہ تعدادپندرہ ہزارمدارس سے بھی تجاوزکرچکی ہے۔
آپ کے کارناموں میں سے ایک کارنامہ یہ بھی ہے کہ ان تمام مدارس میں ایک ہی نظام اورایک ہی نصاب پڑھایاجارہاہے اوراب کسی بھی مدرسہ کاکوئی بھی طالب علم کسی بھی مدرسہ میں داخلہ لے لے اس کی کوئی کتاب ترک نہیں ہوتی۔مولانابڑی خوبیوں کے مالک تھے،آپ کی ان ہی خوبیوں کودیکھتے ہوئے ۱۹۸۹ء میں وفاق کی نظامت علیا سے منصب صدارت پرمتمکن کئے گئے اورالحمدللہ تادم آخرآپ اس منصب جلیلہ پرفائزرہے۔
آپ فصیح وبلیغ زبان پرقدرت رکھتے تھے،کم الفاظ میں پوری بات کرنے کے عادی تھے ،مشکل ترین ابحاث کوچٹکیوں میں حل کرنے کا ہنرجانتے تھے ۔
آپ کے دروس بخاری شریف پرمشتمل ’’کشف الباری‘‘کی اب تک ۱۶۶؍جلدیں طبع ہوکرمنظرعام پرآچکی ہیں ۔اسی طرح مشکوۃ شریف کے دروس کامجموعہ ’’نفحات التنقیح‘‘کے نام سے شائع ہوکرمقبول ہوچکاہے۔
۲۰۰۰ء ؁؁ میں مظاہرعلوم (وقف) سہارنپوربھی تشریف لائے تھے،اُس وقت فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ مدرسہ کے منتظم تھے ،مولانا کے ہمراہ ایک جماعت تھی،آپ کے صاحب زادے نے دفتروالی مسجدمیں نمازبھی پڑھائی ، مظاہرعلوم (قف )کی زیارت کی،کتب خانہ بھی دیکھاجہاں تین لاکھ سے زائدکتابیں موجودہیں،مخطوطات بھی دیکھے اورخوشی کااظہارکیا۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسین ؒ سے مولاناکوکئی نسبتوں کی وجہ سے تعلق اورمحبت تھی مثلادونوں حضرات کاسلسلہ ایک ایک واسطے سے حکیم الامت حضرت تھانویؒ سے جاملتاہے۔
ثانیاً مظاہرعلوم (وقف) کے موقف کی زوردارتائیدمیں آپ ؒ کے استاذگرامی حضرت مولانامسیح اللہ خانؒ نے ایک مدلل کتاب’’اہتمام وشوریٰ’’ تحریرفرمائی چنانچہ آپ بھی اسی موقف کی حمایت فرماتے تھے۔
آپ کے رفیق غارحضرت مولاناعلامہ رفیق احمدبھیسانویؒ اخیرعمرمیں مظاہرعلوم (وقف) سہارنپور تشریف لے آئے تھے ،یہاں ان کے دم قدم سے نورانی فضااورملکوتی ماحول بن گیاتھاوہ مظاہرعلوم( وقف) کے صرف استاذحدیث ہی نہیں بلکہ ترجمان بھی تھے اوردلچسپی ودلجمعی کے ساتھ مدرسہ کی ترجمانی اس شان اورآن بان سے فرمائی کہ تاریخ ان لمحات کوکبھی فراموش نہیں کرسکے گی۔
مولاناسلیم اللہ خانؒ کومظاہر،اہل مظاہرحتی کہ یہاں سے بالواسطہ نسبت رکھنے والے سے بھی بے انتہا پیارتھا جس کااظہارآپ کے پاس جانے والوں اورملاقات کرنے والوں کی زبانی وقتاًفوقتاًسننے میں آتارہتا۔
۱۵۵؍جنوری کی صبح بذریعہ واٹسپ جب آپ کی رحلت کی اطلاع پڑھنے کوملی تودل جس رنج وکرب سے دوچار ہوا اس کااظہارلفظوں میں بیان کرناناممکن ہے۔اب جبکہ حضرت والاہمارے درمیان نہیں رہے توہمارافرض بنتاہے کہ ہم ان کیلئے ترقی درجات کی دعاکریں،ان کے لگائے ہوئے علمی پودوں کی آبیاری اوران کے قائم فرمودہ اداروں کی بادبہاری کیلئے دست بہ دعاہوجائیں ۔۔۔کیونکہ بگڑے کام بنانیوالی۔۔۔ اور۔۔۔بنے بنائے کام بگاڑنیوالی ۔۔۔ہست کو بود ۔۔۔اور۔۔۔بودکوہست کرنے والی۔۔۔ایک ہی توذات ہے۔۔۔ جس کوموت نہیں۔۔۔جس کوزوال نہیں۔۔۔جس کوفنانہیں۔۔۔حاکمیت اسی کوزیبااورخالقیت اسی کومناسب۔ربنااغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان۔
بشکریہ
 
Top