آہ: شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مولانا محمدسعیدی ناظم ومتولی مظاہر علوم (وقف)سہارنپور
ریحانۃ الہندشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس صاحب علیہ الرحمہ ابن جناب شبیراحمدصاحب ؒ۲۵؍رجب المرجب ۱۳۵۵ھ مطابق ۲؍اکتوبر۱۹۳۷ء شنبہ کے دن اپنے گاؤں چوکیا،کھیتاسرائے ضلع جون پور(یوپی) میں پیداہوئے ،والدہ ماجدہ کاسایہ ایسے وقت سرسے اٹھا ،جب آپ صرف ۵سال ۱۰ماہ کے تھے (سرکاردوعالم صلی اللہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا جب وصال ہواتواس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمرمبارک بھی تقریباً یہی تھی)۔
والدہ ماجدہ کے انتقال کے بعدآپ اپنی نانی کے پاس رہنے لگے،ایک دفعہ نانی اپنے لڑکے یعنی حضرت شیخ کے ماموں کی اس لئے پٹائی کررہی تھیں کہ وہ پڑھنے میں تساہل اورتغافل کررہے تھے،حضرت شیخ نے کم عمری کے باوجوداسی دوران نانی جان سے عرض کیاکہ میں بھی پڑھنے جاؤں گا۔اس عرض وگزارش پرفوری عمل کیاگیا،زادِراہ تیارہوا،کھاناپکااوروہاں سے تقریباًڈیڑھ میل کے فاصلہ پرایک مکتب کے لئے اپنے ماموں کے ساتھ روانہ ہوئے ،کم عمری کی وجہ سے آپ تھک گئے توماموں نے جوخودبھی لڑکے تھے اورپڑھنے کے لئے جارہے تھے،اپنے کندھے پراٹھالیا،جب تھک گئے تواتاردیااوراس طرح مکتب پہنچ گئے ،حالات کچھ ایسے بنے کہ وہاں نہ پڑھ سکے اورپھرایک دوسرے مکتب میں پڑھنے کے لئے بٹھائے گئے، وہاں بغدادی قاعدہ پڑھا،آپ کے ماموں نے تعلیم ترک کردی توآپ کاپڑھنابھی موقوف ہوگیا۔کچھ دن بعدایک پرائمری اسکول آپ ہی کے گاؤں میں قائم ہوگیاتوآپ اس اسکول میں جانے لگے ،درجہ دوم تک وہاں پڑھاپھردرجہ سوم کیلئے مانی کلاں کے ایک پرائمری اسکول میں داخل ہوئے ۔
آپ کے والدماجدسادہ مزاج،دیندار،پابندصوم وصلوۃ،پرانی وضع رکھنے والے ،انگریزی دورسے شناسااورانگریزیت کی زہرناکیوں سے واقف تھے، اس لئے آپ نے مناسب نہیں سمجھاکہ اپنے جگرگوشہ کوایسی تعلیم دلائی جائے جس کی بنیادکفرپرہواورجس کاحاصل صرف مادیات کاحصول ہو۔ہندی انھیں پسندنہیں تھی کیونکہ ہندی اسکولوں میں بھی کفراورشرک کی بھرمارہے ۔چنانچہ حضرت شیخ مدظلہٗ نے خوداپناایک واقعہ تحریرفرمایاہے کہ میں ایک دن ایک ہندی کتاب پڑھ رہاتھاجس میں لکھاتھاکہ ’’طوطارام رام کرتاہے‘‘والدماجدنے یہ سناتوفرمایاکہ’’ بس بہت پڑھ لیاکتاب رکھ دو‘‘اوراس طرح آپ کی عصری تعلیم موقوف ہوگئی۔
ابتدائی دینی تعلیم فارسی سے سکندرنامہ تک علاقہ کے مکاتب میں حاصل کی،ابتدائی عربی سے مختصرالمعانی،مقامات حریری،شرح وقایہ، نورالانوار تک کی تعلیم مدرسہ ضیاء العلوم مانی پور جون پورمیں حاصل کی،اکثرکتابیں حضرت مولاناضیاء الحقؒ سے،مولانانورمحمدؒسے تعلیم الاسلام اورشرح جامی بحث اسم حضرت مولاناعبدالحلیم ؒناظم مدرسہ ریاض العلوم گورینی سے پڑھیں۔
مظاہرکی خاموش تعلیم ،یہاں کے اکابرواسلاف کی مشک بارتربیت ،روح وروحانیت،اصلاح باطن،اذکار ومجاہدات ، افکاروتخیلات،سادگی وقناعت، شرافت نفس اورتواضع وللہیت کی نورانیت عالم میں اپناشہرہ بلندکئے ہوئے تھی اورہرخوردوکلاں یہ شعرگنگناتاتھا ؎
بڑا نام مشہور دارالعلوم
پڑھائی میں اول مظاہرعلوم
یہی وجہ ہے کہ اس عہدمیں طلبہ اولاًیہیں داخلہ کی خواہش وکوشش کرتے تھے ،اس سلسلہ میں بہت سے واقعات حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریا مہاجرمدنیؒکی ’’آپ بیتی‘‘ میں درج ہیں اوربعض واقعات ’’پرانے چراغ‘‘ سے بھی معلوم کئے جاسکتے ہیں۔
حضرت شیخ محمدیونس علیہ الرحمہکے استاذباکمال حضرت مولاناعبدالحلیم ؒخوداسی ادارہ کے فارغ وفاضل اورشیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا مہاجرمدنیؒکے مسترشدتھے ،اسلئے حضرت والاکے مزاج اورطبیعت میں ’’مظاہر‘‘ سمایاہوا تھاچنانچہ ۱۵؍شوال ۱۳۷۷ھ ۵؍مئی ۱۹۵۸ء دوشنبہ کو آپ استاذ محترم کے اشارہ پرمظاہرعلوم فروکش ہوئے، دفترکی جانب سے داخلہ امتحان کیلئے فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ کانام نامی اسم گرامی تجویزہوا اور حضرت موصوف نے حضرت مفتی صاحبؒ کو مختصرالمعانی ،شرح وقایہ ،قطبی،مقامات حریری، نورالانوارکاامتحان دیکر کامیابی حاصل کی ، ۱۳۷۸ھ آپ کایہاں پہلا سال تھا،امسال آپ نے جلالین ،ہدایہ اولین،میبذی اور سراجی وغیرہ سے اپنی تعلیم کاآغاز کیا ۔
اگلے سال ۱۳۷۹ھ میں بیضاوی شریف،میرقطبی،ہدایہ ثالث ،مشکوٰۃ،مقدمہ مشکوٰۃ،شرح نخبۃ الفکر،سلم العلوم اورمدارک پڑھیں۔
۱۳۸۰ھ میںبخاری شریف،مسلم شریف،ترمذی شریف،طحاوی شریف،نسائی شریف،ابودؤدشریف،ابن ماجہ شریف، مؤطاامام محمدؒ،مؤطاامام مالکؒ اورشمائل ترمذی پڑھ کرپوری جماعت میں امتیازی نمبرات سے کامیاب حاصل کی،یہاں اس وقت اعلیٰ نمبرات ۲۰ تھے ،آپ نے نہ صرف یہ کہ متعدد کتابوں میں ۲۱۔۲۱نمبرات حاصل کئے بلکہ بعض کتابوں میں ( ۲ / ۱ ۲۱) نمبرات ملے اورمجموعی طورپر بھی آپ کے نمبرات پوری جماعت میں سب سے زیادہ تھے ،اس طرح آپ اپنے ساتھیوں میںشروع ہی سے ممتاز اوربرترقرار پائے۔
آپ نے بخاری شریف شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒسے،ابوداؤدشریف حضرت مولانا محمداسعد اللہؒ ناظم مدرسہ سے،مسلم شریف حضرت مولانامنظوراحمدخانؒ سے اورترمذی ونسائی حضرت مولانا امیراحمد کاندھلویؒ سے پڑھیں۔
دورۂ حدیث شریف کے رفقاء میں حضرت مولاناسیدمحمدعاقل سہارنپوری مدظلہ،حضرت مولاناشجاع الدین حیدرآبادی،حضرت مولانااجتباء الحسن کاندھلوی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکرہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں فقیہ الاسلام حضرت مولانامفتی مظفرحسینؒ نے آپ کی سرپرستی فرمائی،شفقت وکرم کا وہ معاملہ جوایک باپ اپنے بیٹے کیساتھ رکھتاہے ،حضرت مفتی صاحبؒنے آپ کے ساتھ فرمایاجس کا تذکرہ خود حضرت شیخ مدظلہٗ کبھی کبھی خصوصی مجلسوں میںبھی فرماتے رہتے ہیں۔
فراغت کے بعدبھی آپ کے تقرروترقی میںحضرت مفتی صاحبؒکی شفقتیں اورنوازشیں شامل رہیں، چنانچہ مدرسہ کا قدیم ریکارڈ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت شیخ الحدیث دامت برکاتہم ۱۳۸۱ھ کوبمشاہرہ ۷؍روپے عارضی معین مدرس مقررہوئے ۔ یکم ربیع الثانی ۱۳۸۲ھ کو مستقل استاذہوگئے اوریکم شوال ۱۳۸۴ھ کوبمشاہرہ ساٹھ روپے مدرس وسطیٰ تجویزکئے گئے۔
’’جن چار اساتذہ ٔ حدیث کے سامنے آپ نے زانوئے تلمذ طے کیااوردورہ کی تمام کتابیں پڑھیں ، اگلے چار برسوں میں ان میںسے دواساتذہ جوارِ رحمت میں پہنچ گئے ، یعنی حضرت مولاناامیر احمد صاحب اورحضرت مولانامنظور احمد خان صاحب ؒ اوردو اساتذہ حدیث یعنی حضرت مولاناشیخ زکریا اورحضرت مولانا محمداسعداللہ صاحب نے اپنے ضعف وپیری اورعوارض وامراض کی وجہ سے ترک تدریس کا فیصلہ کرلیابالخصوص حضرت شیخ زکریاؒ کے قلب میں تو عشق ومحبت کی وہ چنگاریاں دبی ہوئی تھیں جوان کو حرمین شریفین کے قیام وہجرت پر مجبورکررہی تھیں( اگر چہ شیخ الحدیث صاحب کے نواسے نے اپنی ایک تحریرمیںحضرت کی مدینہ ہجرت کا مبنیٰ بعض تلامذہ کی جانب سے پیش آنے والی تکالیف کوقرار دیا ہے فیاأسفی علی خفۃ عقلہ)مگر ان دونوںحضرات کے سامنے اپنے اکابر وبزرگوں کے لگائے ہوئے پودے ’’مظاہر علوم‘‘ کی فکر تھی ،کہ کہیں مخالف وتند ہواؤں میں اس پر کوئی آنچ نہ آئے اسلئے اس کی آبیاری اور بنیاد کے مضبوط رکھنے کی فکر اپنے قیام سے زیادہ تھی ۔
یہ وہ زمانہ ہے جب تقریباًتمام پرانے چراغ گل ہو چکے تھے ،شجرہائے سایہ دارمرجھاچکے تھے، شگفتہ پھول کمہلاگئے تھے صرف دواہم شخصیات باقی تھیں جوخودبھی چراغ سحری تھیں تاہم ان کے دل کی ہردھڑکن مظاہرعلوم تھا،ان کاہرسانس ادارہ کاتحفظ وتشخص تھا،ان کی آہ سحرگاہی کا مرکزومحورمظاہر تھا، ایک عشق رسول میں مدینۃ النبی جانے کیلئے بے قرارتودوسراعشق الٰہی میں حضورِرب کے لئے تیار اور اِدھرمظاہرجس کاماضی نہایت شاندارلیکن مستقبل موہوم ومدھم یہ سوچ کران دونوں حضرات نے طے کیا کہ ناممکن ہے کہ ملت اسلامیہ بانجھ ہوجائے ،ایسانہیں ہوسکتاکہ مظاہر جیساشجرسایہ دارخشک ہوکرقصۂ پارینہ بن جائے۔ چنانچہ مولانامحمدایوب مدظلہٗ آگے لکھتے ہیں
’’ کسی بھی ادارہ میںدو منصب اہم ہوتے ہیں ایک ناظم ومہتمم کا اور ایک شیخ الحدیث کا اور ان دونوں اکابر کے سامنے یہ منصب اس کے اہل کو سپرد کرنے کی فکر اوراس کا داعیہ تھا ،اسلئے کہ وعید نبوی بھی ہے اذا وسد الامر الی غیراھلہ فانتظرالساعۃ چنانچہ مناسبت واستعداد کو دیکھ کر حضرت اقدس مولانامفتی مظفر حسین صاحب ؒ کو ناظم مدرسہ کیلئے اورحضرت الاستاذمولانامحمدیونس صاحب کو شیخ الحدیث کیلئے رفتہ رفتہ تیارکیا اورجب جس کاموقع آیا اس کو وہ منصب سپردکردیاگیا۔‘‘(الیواقیت ص:۱/۱۷)
مناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہ ؒاورشیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒنے طے کیاکہ ان دونوں مسندوں کے لئے دوافراد ایسے تیارکئے جائیں جواپنے اپنے مقام پرمکمل ہوںچنانچہ نظام مدرسہ کیلئے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب کیا جائے جو تدبیروتدبر، حالات وشوؤن سے آگہی،واقعات وپس منظرسے واقفیت،روایات وتعامل کی معلومات،احکامِ وقتیہ کے نتائج وثمرات،فتن وفتنہ پردازوں کی سرکوبی کاہنر رکھتا ہو، ازمیزان تابخاری پڑھانے کافن اپنے اندرسموئے ہوئے ہو ،علو نسبت،صلاحیت وصالحیت،تقویٰ ودیانت اورامانت جیسی خوبیوں سے مرصع ہوتو مسندحدیث کیلئے امہات کتب کے علاوہ محدثین وفقہاء کے حالات ، مختلف علوم وفنون پردسترس،حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ اوران کے تمام متبعین کے دلائل وبراہین پرنظر،فقہ حنفی کا اثبات،زہدوقناعت،عبادت وریاضت،خاکساری ومسکنت،تواضع وفروتنی،مآخذومظان پرعبورکامل،دیگر مسالک وممالک کے علماء وصلحاء اورماہرین کے تذکارسے روشناس ہواورسب کی ابحاث پڑھنے،بتانے اور سنانے کے بعداپنے مسلک ومشرب کی شاندارتشریح وتوضیح وغیرہ بنیادی مسائل ومعاملات پرمکمل گرفت رکھتا ہو۔
مجھے یہ کہنے اورلکھنے میں کوئی تأمل یاترددنہیں کہ اکابر کایہ انتخاب لاجواب تابناک اورروشن مستقبل کی ضمانت ثابت ہوا،حضرت مفتی مظفرحسینؒ جیسے بالغ نظرمفکرومدبراورصالح انسان کامظاہرجیسی باوقاردرسگاہ کے منصب نظامت پرفائزہونامشیت الٰہی تھاتودوسری طرف شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدیونس ؒ کامسندحدیث کے لئے انتخاب بلاشبہ عنایت الٰہی ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒنے ایک دفعہ مدینہ منورہ سے تشریف لائے مدرسہ کی عمارت دارالطلبہ جدیدکی مسجدمیں خطاب کے دوران فرمایاکہ میں نے تین دعائیں کی تھیں ان میں سے دو دُعائیں قبول ہوگئی ہیں ۔
(۱)مدرسہ کواس کے شایان شان ناظم مل جائے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ دعاقبول فرمالی اور’’قاری مظفر‘‘ جیساعالم اس ادارہ کاناظم بنا۔
(۲)دوسری دعامیں نے یہ کی تھی کہ میرے شیخ حضرت مولاناخلیل احمدؒکی’’ بذل المجہود‘‘شائع ہوجائے ، الحمدللہ وہ بھی شائع ہوگئی۔
(۳)تیسری دعامیں نے یہ کی تھی میراانتقال مدینہ پاک میں ہوجائے ،آپ حضرات بھی دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، الحمدللہ باری تعالیٰ نے حضرت شیخ الحدیثؒکی یہ دعابھی قبول فرمالی اورجنت البقیع میں جگہ ملی۔
بہرحال حضرت مولانامحمدیونسؒکوحضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒکی جانشینی کے لئے انتخاب محض عنایت الٰہی ہے چنانچہ ۱۳۸۴ھ میں جب آپ کے استاذحضرت مولاناامیراحمدکاندھلویؒ کا وصال ہوگیاتوآپ استاذحدیث بنائے گئے،پوری تفصیل حضرت والامدظلہٗ کے قلم سے آپ بھی پڑھتے چلیں۔
’’ذی الحجہ ۱۳۸۴ھ میں حضرت استاذی مولاناامیراحمدصاحب نوراللہ مرقدہٗ کے انتقال ہوجانے کی وجہ سے مشکوٰۃ شریف استاذی مفتی مظفرحسین ناظم اعلیٰ مظاہرعلوم کے یہاں سے منتقل ہوکر آئی جو’’باب الکبائر‘‘ سے پڑھائی پھرآئندہ سال شوال ۱۳۸۵ھ میں مختصرالمعانی ،قطبی،شرح وقایہ مشکوٰۃشریف مکمل پڑھائی اورشوال ۱۳۸۶ھ میں ابوداؤدشریف،نسائی شریف، نورالانوارزیرتعلیم رہیں اورشوال ۱۳۸۷ھ سے مسلم، نسائی، ابن ماجہ مؤطین زیردرس رہیں، اس کے بعدشوال ۱۳۸۸ھ میں بخاری شریف ومسلم شریف وہدایہ ثالث پڑھائی‘‘ (الیواقیت الغالیۃص ۱۹و۲۰)
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندھلویؒنے حضرت شیخ مدظلہٗ کے پہلے سال کی تدریس بخاری ومسلسلات کاذکرخیراپنی نامورالبیلی کتاب’’آپ بیتی‘‘میں بھی کیاہے۔
حضرت شیخ مولانامحمدیونسعلیہ الرحمہکی تدریس بخاری کاسلسلہ الحمدللہ بہت جلدعلماء وخواص میں مقبول ہوتاچلاگیاجب بخاری شریف کی تکمیل کاموقع ہوتاتوعوام وخواص کی حالت دیدنی ہوتی تھی ،خودحضرت والا کواگرمعلوم ہوجاتاکہ حضرت شیخ الحدیث مہاجرمدنیؒکی آمدان دنوں میں متوقع ہے توبخاری کی ایک دوحدیث روک لیتے تاکہ حضرت شیخ الحدیث کاندھلویؒسے ختم بخاری کرایا جائے،چنانچہ خودحضرت شیخ الحدیث مہاجر مدنیؒ ایک جگہ اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں تحریرفرماتے ہیں۔
’’سہارنپور واپسی پر معلوم ہوا کہ مولانا یونس صاحب نے بخاری کا ختم روک رکھا ہے ا س لئے حسبِ سابق دوشنبہ کی صبح کو ساڑھے نوبجے زکر یا اورناظم صاحب بھی پہنچ گئے ،معلوم ہوا کہ ایک حدیث روک رکھی ہے،عبارت تو خود مولانا نے پڑھی ،دعاء کے بعد زکریا اور ناظم صاحب تو واپس آگئے ، اس کے بعد مولوی یونس صاحب نے سبق ختم کرا یا ،دعاء مولوی وقار صاحب نے کرائی اور اس کے بعد ناظم صاحب نے طلباء کو کچھ نصیحتیں فرمائیں۔(آپ بیتی:حضرت شیخ الحدیث مولانامحمدزکریاؒ)معلوم ہوا کہ ختم بخاری کا یہ شانداراورجاندار سلسلہ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ کے قدیم اوردیرینہ روایت ہے چنانچہ ایک اورموقع پر تحریر فرماتے ہیں کہ
’’ ۱۲؍اگست ۷۵ ء ۳ ؍شعبان ۹۵ ھ بخاری شریف کا ختم ہوا، اول’’ مسلسل بالأولیۃ‘‘ کی حدیث پڑھی گئی ، اس کے بعد مولوی یونس نے بخاری کی آخری حدیث پڑھی ، متن دونوں کا زکریا نے پڑھا ، اس کے بعد کھا نا کھایا ‘‘(آپ بیتی)
الیواقیت الغالیۃ فی تحقیق وتخریج الاحادیث العالیۃ کے جامع رقم طرازہیں:
’’آپ کی علمی عظمتوں اورتدریسی صلاحیتوںکااکابر نے اعتراف کیا بالخصوص آپ کے شیخ ومرشد محدث وقت حضرت مولانامحمدزکریا کاندھلوی ثم المہاجر المدنی نے آپ کو اس طرح حدیث شریف کے لئے تیارکیاجس طرح حضرت شیخ کو ان کے شیخ واستاذ حضرت مولاناخلیل احمد مہاجر مدنی نے تیار کیا تھا‘‘۔ (الیواقیت ص:۱/۱۶)
حضرت شیخ مہاجر مدنی ؒ کو حضرت مولانامحمدیونس صاحب کی صلاحیتوں کا خوب اندازہ تھا جس کی ترجمان حضرت والاؒ کی یہ تحریر انیق ہے ۔
ابھی کمسن ہیں وہ کیا عشق کی باتیں جانیں
عرضِ حال دلِ بیتاب کو شکوہ سمجھے
ابھی تدریسِ دورہ کا پہلا سال ہے اوراس سیہ کار کو تدریسِ دورہ کا اکتالیسواں سال ہے اور تدریس حدیث کاسینتالیسواں سال ہے ، اللہ تعالیٰ تمہاری عمرمیں برکت دے اورمبارک مشغلوں میں تادیررکھے جب سینتالیس پر پہنچ جاؤ گے تو ان شاء اللہ مجھ سے آگے ہوگے ۔فقط
(نوٹ :اس پرچہ کو نہایت احتیاط سے کسی کتاب میںرکھیں ،چالیس سال کے بعد پڑھیں)
حضرت شیخ محمدیونس علیہ الرحمہ کووالد ماجد حضرت مولانااطہرحسین ؒ سے قلبی لگاؤاوردوستانہ تعلق تھا ، بارہا حضرت شیخ مدظلہ ٗ غربت کدہ پروالد صاحب سے ملاقات کیلئے تشریف لاتے اوردیر تک دونوں بزرگ محو گفتگو رہتے ، کئی بار گھرکی معمولی سی دہلیزمیںکپڑا بچھادیا جاتا اورحضرت شیخ اس پر تشریف فرماہوکر ناشتہ کرتے ۔
جناب بھائی علاؤ الدین صاحب سیفی محلہ یحییٰ شاہ پکاباغ سہارنپوراکابر کے منظورِنظراوراہل مظاہر کے خاص اہل تعلق میں تھے ،اکثران کے یہاں دعوت ہوتی ، جس میں اکثر علماء مظاہر تشریف فرما ہوتے ،فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسین ؒ ،والد محترم حضرت مولانااطہر حسین ؒ ،حضرت مولانامحمدیامین صاحبؒ ،حضرت شیخ مولانا محمدیونس صاحب علیہ الرحمہ ،مولانابشیر احمد صاحبؒ اورمولاناانیس صاحب دیوبندی بالخصوص اس دعوت کے شرکاء ہوتے اورمولاناانیس احمدمرحوم سے اکثر مزاح بھی ہوتا جوبڑا دلچسپ اور کیف افزامنظر پیش کرتا ۔
یہ بزرگانِ دین کھانے پینے میں بڑے محتاط اورورع وتقویٰ کے خوگرتھے ،اس لئے دعوت کے سلسلہ میںبہت محتاط واقع ہوئے تھے ،کسی کی دعوت جلد قبول نہ فرماتے اگر تحقیق کے بعد حلال کایقین ہوجاتا تودعوت قبول کرنے میںسنت نبوی پرعمل پیرا ہوتے اورمعمولی آدمی کی دعوت بھی قبول فرمالیتے اوراہتمام کے ساتھ اس میں شرکت فرماتے تھے ۔
حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ کبھی کبھی والد ماجد حضرت مولانااطہرحسین ؒ سے خوابوں کی تعبیر بھی معلوم کرتے اوروالد صاحب کی بتائی ہوئی تعبیر کو دوسرے معبرین کی تعبیر پر ترجیح دیتے اوران کے علم وتقویٰ کی بھی قدرفرماتے ،ہر دو بزرگوں کے درمیان دیرینہ مخلصانہ ربط وتعلق برقرار رہا ،دونوں ہی علم وعمل اورتقویٰ وطہارت میںآفتاب وماہتاب رہے ۔
مولانامحمدایوب صاحب نے حضرت والاکی درسی خصوصیات پرجن تأثرات کااظہارکیاہے وہ بلامبالغہ مبنی برحقیقت ہیں:
’’ہمارے حضرت الاستاذ کے درس حدیث میں ہم نے وہ پایا جو اورجگہوں پر نظر نہیںآیا، بخاری شریف کادرس کیا ہوتا ہے ایک بحر نا پیداکنار ، محدثین ومتکلمین ،مفسرین وشراح کرام اور ائمہ جرح وتعدیل کے ناموں کی ایک فہرست ذہن نارسا میں نقش ہوتی جاتی ہے ، رواۃ پر سیر حاصل کلام اورکوئی قول بغیر حوالہ کے نہیں اور کوئی حوالہ نقل درنقل نہیں بلکہ اصل تک پہنچنے کی کامیاب کوشش ہوتی ہے۔ شرح حدیث اقوال ائمہ ، دلائل طرفین اوران میں موازنہ وجہ ترجیح وغیرہ سب کچھ ہی بیان ہوتا گویا فتح الباری وعینی ، قسطلانی وکرمانی سب ہی کا خلاصہ اور لب لباب ہمارے سامنے ہوتا ۔ اس طرز تدریس کا فائدہ یہ ہوا کہ پڑھنے والوںمیں ذوق تحقیق پیدا ہوا، لکھنے پڑھنے کاایک ڈھنگ آگیا اس وقت بے شمار مدارس عربیہ میں شیخ الحدیث اور اساتذہ ٔ حدیث حضرت الاستاذہی کے شاگر د یا شاگردوں کے شاگرد ہیں جو پورے شرح وبسط اوراطمینان ووثوق کے ساتھ حدیث وعلوم حدیث کے نکات بیان کررہے ہیں ‘‘ ۔(الیواقیت ص:۱/۱۸)
آپ بچپن ہی سے نیک وصالح ہیں تقویٰ وطہارت آپ کی سرشت میں داخل ہے اورنظافت ونفاست آپ کا شعار ودثار ہے ،اس لئے آپ شروع ہی سے حضرات اساتذہ کی دعاؤں کاخصوصی مرکزاوران کی توجہات وعنایات کاہمیشہ محور رہے،چنانچہ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمدزکریا مہاجرمدنیؒ نے آپ کو بیعت فرمایا تو۵؍محرم الحرام ۱۳۹۶ھ کومناظراسلام حضرت مولانامحمداسعداللہؒ ؒنے اجازت وخلافت عطا فرمائی اورفقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین نوراللہ مرقدہٗ گویاباپ کے درجہ میں رہے اورآپ کی ہرممکن راحت کاخیال فرماتے رہے ۔
’’حضرت اقدس مولانامحمداسعداللہ صاحب سابق ناظم اعلی مدرسہ مظاہرعلوم نے بروزپنجشنبہ ۵؍محرم الحرام ۱۳۹۶ھ میں ظہرکے بعداجازت مرحمت فرمائی جس کاازخودشہرہ ہوگیاچونکہ احقرکابیعت کاتعلق حضرت قطب العالم شیخ الحدیث کاندھلویؒتم المہاجرالمدنی نوراللہ مرقدہ سے تھا اسلئے حضرت ناظم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اجازت کے بعدبھی اپنے حضرت نوراللہ مرقدہ سے ہی تربیت کاتعلق رہااوربحمداللہ بالکل کبھی اجازت کاکوئی خیال بھی نہیں آتاتھاگواہل اللہ کے ارشادکی دل میں قدرتھی اورہے‘‘۔
اسی سال ۵؍ذی قعدہ کوحضرت شیخ محمدیونس علیہ الرحمہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریامہاجرمدنیؒکی مجلس میں حسب معمول حاضرتھے ، حضرتؒنے آپ کواپنے قریب بلایااورفرمایاکہ
’’میراارادہ تین چارسال سے تجھے اجازت دینے کاہے لیکن تیرے اندرتکبرہے‘‘
حضرت والافرماتے ہیں کہ میں خاموش رہااورالحمدللہ حضرت کے کہنے پرطبیعت پرذرہ برابراثرنہیں ہوا، اس کے بعدمیں نے عرض کیاکہ حضرت والا کوحضرت ناظم صاحب کی اجازت کاعلم ہوگیاہوگا؟فرمایاکہ ’’ہاں‘‘میں نے عرض کیاکہ حضرت !میری سمجھ میں نہیں آیاکہ حضرت ناظم صاحب نے کیوں اجازت دی؟حضرت ؒنے اس پرکیاارشادفرمایایادنہیں رہاپھرفرمایاکہ ’’تجھے میری طرف سے اجازت ہے‘‘اس طرح حضرت شیخ مدظلہٗ نسبت تھانوی ورشیدی دونوں کے جامع ہوگئے۔
حضرت شیخ علیہ الرحمہ کی سعادت اورخوش نصیبی کی معراج یہ ہے کہ تقریباً پچاس سال سے حدیث نبوی کی خدمت کررہے ہیں،اس طویل عرصہ میں فضلاء مظاہرکی وہ تعدادجنہوں نے آپ کے سامنے زانوئے تلمذطے کیا ہے وہ ہزارہا ہزارہیں جن میں سے بعض تومرکزی اداروں میں شیوخ حدیث اوربعض دیگراعلیٰ مراتب پر فائزہیں۔
حدیث کی خدمت اوراحادیث کے سلسلہ میںآپ کی معلومات کا دائرہ بہت ہی وسیع ہے جس کا اندازہ صرف اسی سے کیا جاسکتاہے کہ شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریا بھی بعض علمی سوالات آپ سے کرتے تھے،حضرت مولاناابو الحسن علی میاں ندویؒ، حضرت مولاناعبیداللہ بلیاویؒ اور خداجانے کتنے اعاظم رجال نے تحقیقی سلسلہ میں آپ سے رجوع کیاہے گویاآپ معرفت متون حدیث واسماء رجال کی شناخت بن چکے ہیں اورمظاہر کاوہ تفوق جواس کو حدیث کے سلسلہ میں حاصل ہے،آپ نے اس کو تمام اقداروروایات کے ساتھ برقراررکھاہواہے۔
ایک محدث کے لئے جوشرائط ہوسکتی ہیں حضرت والاکے اندربحمداللہ وہ تمام شرائط اور صفات ومیزات بدرجہ ٔاتم موجودہیں ، احوال زمانہ پر اطلاع جو ایک عالم دین کیلئے انتہائی ضروری ہے ، حضرت شیخ کو وافر مقدار میں حاصل ہے ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک گوشہ نشین ، زاہدوقانع،اورمستغنی شخص کتب حدیث وتفسیراوراس کے متعلقہ علوم وفنون پرکامل دسترس کے علاوہ مختلف ملکوں کے حالات ،ماحول اوروہاں کی اقداروروایات اور تحریکات تک سے واقف ہے، چنانچہ اس کی صرف دومثالیں تحریرہیں۔
’’سری لنکا ‘‘کے ایک شیخ الحدیث بغرض حصول اجازت حدیث حاضر خدمت ہوئے ،حضرت والا نے ایک حدیث کی تلاوت فرماکراجازت عنایت فرمائی ،اس کے بعدسری لنکاکی شخصیات و حالات ، مزاج ، رہن سہن ،بودوباش پربھی گفتگو فرمائی ۔
’’ملیشیا ‘‘کے ایک محدث حاضر خدمت ہوئے ان کو اجازت حدیث عطا فرمائی پھر وہاں کی تحریکات ، مذاق ومعیار ،شخصیات ، جغرافیائی کیفیات اور حالات کا اس طرح تجزیہ کیا جیسے وہ نگاہ کے سامنے ہوں ، مجلس میں بیٹھنے والے متحیر تھے کہ ایک گوشہ نشیں پوری دنیا کے حالات پر کس طرح نظر رکھتا ہے ‘‘ (الیواقیت ص:۱/۱۸)
تقویٰ اورپرہیزگاری میں بھی آپ مثالی شخصیت کے حامل ہیں ،مدرسہ کے خلفشارکے بعدسے آپ نے تنخواہ لینا ترک فرمادیا۔آپ الحمدللہ ملک وبیرون ملک کے اسفارکے علاوہ حج وزیارت کی سعادت سے کم وبیش ہرسال مشرف ہوتے رہتے ہیں۔
ملی ہمدردی وخیرخواہی کے سلسلہ میں آپ کے بے شمار واقعات ہیں،چنانچہ دوسال پہلے مظفرنگرفسادات میں سیکڑوں مسلمان شہیداورہزاروں افرادبے گھر ہوگئے تھے ،مدرسہ نے مصیبت زدگان کے لئے اہل خیرسے تعاون کی اپیل کی ،فسادزدہ لوگوں تک براہ راست امدادی سامان پہنچانے کانظام بنایاگیا،سہارنپورکے غیور،باہمت وباحمیت مسلمان جوالحمدللہ مدرسہ کی ہرآوازپراٹھ کھڑے ہوتے ہیں اس موقع پربھی انہوں نے دامے ، درمے ،قدمے ،سخنے تعاون کیا،مہمان خانے کے کشادہ ہال اوروسیع صحن سازوسامان سے بھرگئے ،کتنی ہی مرتبہ بڑے بڑے ٹرکوں کے ذریعہ مدرسہ کے عملہ کووہاں بھیج کرسامان تقسیم کرایاگیا۔جب یہ خبرحضرت شیخ الحدیث مولانامحمدیونس علیہ الرحمہ تک کشاں کشاں پہنچی توحضرت والانے اپناتمام نیا پراناسامان یہاں بھجوانے کے علاوہ فسادزدگان کیلئے خطیررقم بھی ارسال فرمائی،اسی طرح دوران سفرحضرت والاکوجوہدایااورتحائف ملتے ہیں وہ کتنے ہی اہمیت کے حامل کیوں نہ ہوں ، مختلف مدارس میں تقسیم فرمانے کا معمول ہے جوخداددادجود وسخاکا رہین منت ہے ۔
ملک وبیرون ملک کے مختلف علماء کبارنے آپ سے وقتاًفوقتاًجوعلمی سوالات کئے اورآپ نے ان کے محققانہ جوابات تحریرفرمائے وہ تمام جوابات کاپیوں کی شکل میں محفوظ تھے،اللہ تعالیٰ نے بعض اہل علم کواس کی توفیق عطافرمائی کہ انہوں نے ان علمی شہ پاروں کو یکجامرتب ومدون کرکے شائع کردیاہے ،چنانچہ جناب مولانامحمدایوب سورتی کی کوششوں سے یہ بیش قیمت مجموعہ’’الیواقیت الغالیہ فی تخریج احادیث العالیہ‘‘کے نام سے کئی جلدوں میں شائع ہوچکاہے اوربعض اہل علم کی کوششوں سے فن کے اعتبارسے الگ الگ اجزاء شائع ہورہے ہیں اس سلسلہ میں’’ نوادرالحدیث‘‘ کے نام سے ایک جزء بھی شائع ہوچکاہے۔
اس کے علاوہ کئی مفیدتالیفات اورتقاریرشائع ہوچکی ہیں جن میں ’’تخریج احادیث مجموعہ چہل حدیث‘‘ ’’فیوض سبحانی‘‘وغیرہ منظر عام پر آچکی ہیں۔
بہت سے علمی شہ پارے ہنوزپردۂ خفامیں ہیں جن میں سے مقدمہ ہدایہ،سوانح حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، مقدمہ بخاری،الیواقیت واللٰالی،جزء حیات الانبیاء،تخریج احادیث اصول الشاشی،مقدمہ مشکوٰۃ،مقدمہ ابوداؤد،جزء معراج، جزء المحراب،جزء رفع الیدین،جزء قراء ت،ارشادالقاصدالی ماتکررفی البخاری واسنادواحد،قابل ذکر ہیں ۔
تعلیم وتعلم کے بابرکت سلسلہ کے علاوہ بیعت وارشادکامبارک سلسلہ بھی جاری ہے اورملک وبیرون ملک کی بعض اہم مقتدرشخصیات آپ کے ذریعہ سلوک کی منزلیں طے کررہی ہیں،خلفاء ومجازین کی بھی ایک بڑی تعداد ہے ۔اللّٰہم زِدفَزِدْ
راقم الحروف کو بھی حضرت کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے کا شرف حاصل رہا اورحضرت سے غیر معمولی استفادہ کاموقع ملا ہے ، طبعی طورپر حضرت سے زمانہ طالب علمی سے ہی مناسبت رہی ،احقر کوحدیث شریف سے شغف اوراس سے مناسبت در حقیقت فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفرحسین ؒ ، شیخ الادب حضرت مولانا اطہرحسین ؒ کی توجہات سامیہ کے علاوہ حضرت شیخ کے تلمذ اوران سے استفادہ کاہی نتیجہ ہے ،طبعی مناسبت اورقلبی انسیت کاثمرہ ہے کہ ہفتہ عشرہ میںعموماً زیارت منامی حاصل ہوتی رہتی ہے ،بعض منامات میں حضرت کے احوال رفیعہ سے آگاہی کاحصول بھی اسی مناسبت کا نتیجہ ہے ،گذشتہ سالوں میں حضرت علالت کے دوران جب مدینہ منورہ زیر علاج تھے ،لوگوں پر مایوسی طاری تھی اورحضرت کی مزید حیات کی بظاہر کوئی امیدنہ تھی ،اس وقت احقر کو دعا کی سعادت نصیب ہوتی رہی اوراسی ضمن میں منجانب اللہ یہ بشارت مل گئی کہ ابھی حضرت والا بقیدحیات رہ کر مزید خدمت حدیث کا مبارک مشغلہ جاری رکھیں گے ۔
افسوس کہ آسمان علم وہدایت کا یہ نیر تاباں آج ۱۷؍شوال المکرم ۱۴۳۸ھ مطابق ۱۱؍جولائی ۲۰۱۷ء بروز سہ شنبہ میڈی گرام ہسپتال سہارنپورمیں ہمیشہ ہمیش کے لئے غروب ہوگیا ۔