دیکھا ہے جو اِک میں نے وہی خواب بہُت ہے ورنہ تو وفا دوستو! کمیاب بہُت ہے
یہ دِل کی زمِیں بنجر و وِیران پڑی تھی تھوڑی سی ہُوئی تُُجھ سے جو سیراب بہُت ہے
کل لب پہ تِرے شہد بھری بات دھری تھی
اور آج کے لہجے میں تو تیزاب بہُت ہے
اِک میں کہ نِگوڑی کے لیئے جان بکف ہوں
اِک جنسِ محبّت ہے کہ نایاب...