سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت رضی الله عنھم کی باہم محبت

محمد نبیل خان

وفقہ اللہ
رکن
سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ اور اہلبیت رضی الله عنھم کی باہم محبت

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ دورِفاروقی میں مدائن کی فتح کے بعد حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے مسجد نبوی میں مال غنیمت جمع کر کے تقسیم کرنا شروع کیا۔ امام حسن رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں ایک ہزار درہم نذر کیے۔پھر امام حسین رضی اﷲ عنہ تشریف لائے تو انہیں بھی ایک ہزار درہم پیش کیے۔ پھر آپ کے صاحبزادے عبداﷲ رضی اﷲ عنہ آئے تو انہیں پانچ سودرہم دیے۔ انہوں نے عرض کی‘ اے امیرالمٔومنین ! جب میں عہد رسالت میں جہاد کیا کرتا تھا اس وقت حسن و حسین بچے تھے۔ جبکہ آپ نے انہیں ہزار ہزار اور مجھے سو درہم دیے ہیں۔

حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ تم عمر کے بیٹے ہو جبکہ ان والد علی المرتضٰی‘ والدہ فاطمۃ الزہرا‘ نانا رسول اﷲ ﷺ‘ نانی خدیجہ الکبریٰ‘ چچا جعفر طیار‘ پھوپھی اْم ہانی‘ ماموں ابراہیم بن رسول اﷲﷺ‘ خالہ رقیہ و ام کلثوم و زینب رسول کریم ﷺکی بیٹیاں ہیں رضی اﷲ عنہ۔ اگر تمہیں ایسی فضیلت ملتی تو تم ہزار درہم کا مطالبہ کرتے۔ یہ سن کر حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ خاموش ہو گئے۔

جب اس واقعہ کی خبر حضرت علی رضی اﷲ عنہ کوہوئی تو انہوں نے فرمایا‘ میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ’’عمر اہل جنت کے چراغ ہیں۔‘‘ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا یہ ارشاد حضرت عمر رضی اﷲ عنہ تک پہنچا تو آپ بعض صحابہ کے ہمراہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے گھر تشریف لائے اور دریافت کیا‘ اے علی! کیا تم نے سنا ہے کہ آقاو مولی ﷺ نے مجھے اہل جنت کا چراغ فرمایا ہے۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ ہاں! میں نے خود سنا ہے۔

حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے فرمایا‘ اے علی! میری خواہش ہے کہ آپ یہ حدیث میرے لیے تحریر کردیں۔ سیدنا علی رضی اﷲ عنہ نے یہ حدیث لکھی‘

’’ یہ وہ بات ہے جس کے ضامن علی بن ابی طالب ہیں عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ کے لئے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا‘ اْن سے جبرائیل علیہ السلام نے‘ اْن سے اﷲ تعالٰی نے کہ:

ان عمر بن الخطاب سراج اھل الجنۃ۔

عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں‘‘

سیدنا علی رضی اﷲ عنہ کی یہ تحریر حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے لے لی اور وصیت فرمائی کہ جب میرا وصال ہو تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینا۔ چنانچہ آپ کی شہادت کے بعد وہ تحریر آپ کے کفن میں رکھ دی گئی۔

(ازالتہ الخفاء، الریاض النضرۃ ج ا:۲۸۲)

اگران کے مابین کسی قسم کی مخاصمت ہوتی تو کیا دونوں حضرات ایک دوسرے کی فضیلت بیان فرماتے؟ یہ واقعہ ان کی باہم محبت کی بہت عمدہ دلیل ہے۔
 
Top