اے امریکی یہ ہے اسامہ

nicesahil

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اے امریکی یہ ہے اسامہ
(ایک امریکی کے استفسار کا جوا[/size]ب حسین بن محمود کے قلم سے)

مجھ تک یہ پیغام ایک بھائی نے پہنچایا اس نے کہا ہے کہ یہ پیغام ایک امریکی نے ایک مباحثے کے دوران لکھا، یہ بھائیوں کے ہاتھوں ہوتا ہوا مجھ تک پہنچا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں امریکی کو اس کے اس سوال کا جواب دوں۔
شروع میں مجھے تردد ہوا لیکن بھائیوں نے مجھے بتایا کہ بظاہر وہ حق کا متلاشی ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم کسی کو حق سننے سے روک بھی نہیں سکتے،
سو یہ امریکی اپنی نگاہیں ہم پر ٹکادے اور اسامہ کی تعریف میں لکھے گئے ان چند عاجزانہ کلمات کو غور سے پڑھے۔
جو پیغام مجھ تک پہنچا وہ یہ ہے:
I’m an American, and I really don’t believe everything my government says. I was moved by the way the media dealt with the death of Osama bin Ladin. I thought he was hated by the Muslims because of his ways; At least; that’s what the officials told us in our country. I realized, after his death, that he was loved by most of you! I want to know exactly what Osama meant to you as Muslims. I want to know the truth from you, and not from the media, because I simply don’t trust the media. Please be straightforward and honest. I really want to know the truth.
میں ایک امریکی ہوں اور جو میری حکومت کہتی ہے میں اس کی تصدیق نہیں کرتا اسامہ بن لادن کی موت پر میڈیا نے جو رویہ اختیار کیا اس سے میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے میں سمجھتا تھا کہ اسے اس کے اختیار کردہ راستوں کی وجہ سے مسلمانوں میں پسند نہیں کیا جاتا امریکہ میں ہماری حکومت نے ہم سے یہی کہا تھا لیکن اس کی موت کے بعد مجھے پتہ چلا کہ کم از کم آپ کی اکثریت کے نزدیک وہ محبوب اور پسندیدہ تھے۔
میں تحریری طورپر جاننا چاہوں گا کہ آپ کے مسلمان ہونے کے ناطے اسامہ کا کیا مطلب ہے میں اس حقیقت کو آپ کے ذریعے۔ ہی جاننا چاہتا ہوں نہ کہ میڈیا کے ذریعے۔ مجھے امید ہے کہ آپ اخلاص کے ساتھ واضح جواب دیں گے میں واقعی اور عملی حقیقت جاننا چاہتا ہوں۔
جواب: اے امریکی آج میں آپ کو ایک ایسے شخص کے متعلق بتاؤں گا جس کا قصہ کسی افسانے جیسا ہے ۔۔۔ وہ ایک افسانہ ۔۔۔ افسانہ ہی ہے ۔۔۔۔ جسے سارا جہاں دیکھ چکا۔
ان کا نام اسامہ اور ان کے والد کا نام محمد اور ان کے دادا کا نام وعوض ہے پورا نام اس طرح ہے اسامہ بن محمد بن عوض ان کے والد محمد یمن سے آئے اور اگر آپ نہیں جانتے تو جان لیں کہ یمن زمین کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے اور اس کی تہذیب زمین کی مضبوط ترین تہذیبوں میں سے ہے اور اہل یمن خالص عربی ہیں۔
نوجوان محمد جزیدہ عرب کے مغرب میں واقع جدہ کی بندرگاہ پر مزدوری کرنے کے لیے یمن سے نکلے پھر جلد ہی یہ معصوم جوان جزیرہ عرب کا سب سے بڑا کنٹریکٹر (ٹھیکدار) بن گیا اور اپنے کردار ، سچائی اور استقامت کے سبب وہاں مشہور ہوگیا اور وہاں کے حاکم خاندان سے مضبوط تعلقات استوار کرلیے۔
اے امریکی مجھے نہیں معلوم آپ اسلام کے متعلق کتنا کچھ جانتے ہیں لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ مسلمانوں کی ۳ مقدس مساجد ہیں مسجد حرام جومکہ میں ہے مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مدینہ میں ہے اور مسجد اقصی جو قدس فلسطین میں ہے ان تین مقامات کے علاوہ مسلمانوں کے اور مقدس مقامات نہیں ہیں۔ اور مسلمانوں کے نزدیک اہمیت وعظمت کے مطابق میں نے آپ کے لیے انہیں ترتیب وار بیان کردیا ہے۔
شاید آپ کعبہ سے واقف ہوں یہ مکہ میں ایک چکور عمارت ہے جس پر سیاہ غلاف چڑھایا یا گیا ہے اگر آپ اس متواضع عمارت جو کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے لڑکے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر بنائی تھی کے ارد گرد دیکھیں گے تو ایک بڑی عمارت ہے جسے اسامہ کے والد محمد نے بنایا ہے اور اگر مسجد رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصاویر تلاش کرسکیں تو مدینہ کی ایک خوبصورت بلند وبالاعمارت کو دیکھیں گے اس عمارت کی تعمیر کا شرف بھی اسامہ کے والد محمد کو حاصل ہے۔ اور فلسطین میں جب یہودیوں نے معاہدے سے قبل مسجد اقصی کو جلا ڈالا تھا تو مسجد میں ترامیم کرنے کے لیے عرب لیگ کی جانب سے ٹینڈر جاری ہوا پھر اس کی ترمیم کا شرف بھی اسامہ کے والد محمد کو حاصل ہوا۔
میں نے آپ کو بتایا کہ اسامہ کے والد یمن کے تھے لیکن میں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کی والدہ شام کی تھیں اس اعتبار سے وہ یمن اور شام کے فرزند ہوئے اور یہ دونوں ملک دنیا کی قدیم ترین اور گہری ترین تہذیبوں کے امین ہیں چنانچہ اسامہ تہذیب وتاریخ کے فرزند بھی ہوئے لیکن ان کی ولادت حجاز میں ہوئی جو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کا مقام ہے اس طرح اسامہ اس روح کا نام ہے جس نے تہذیب وتاریخ کو عقیدہ صحیحہ سے ملادیا۔
اسامہ کے والد کی شان میں مزید اضافہ ہوگیا جب انہوں نے ملک جزیدہ عرب کے تمام ورکرز کو چھ ماہ تک تنخواہ اداکی یہ اس وقت کی بات ہے جب جزیرہ شدید مالی بحران سے دوچار تھا اس طرح جزیزہ عرب کے امراء وملوک کے ہاں انہیں انتہائی خاص اور بلند مقام ومرتبہ حاصل ہوگیا۔
اور یہی وہ گھرانہ ، یہی وہ خاندان اور یہی وہ جاہ وعزت اور یہی وہ تہذیب وتاریخ ہے کہ جس میں اسامہ تھا۔ اسامہ نے سخت لیکن نیک ماحول میں نشونما پائی ان کے والد اپنی جاہ وعزت اور مال ودولت کے باوجود اپنی اولاد کی تربیت وپرورش محنت ومشقت اور صبر واستقامت اور ہمت وحوصلہ پر کرنا چاہتے تھے لہٰذا اسامہ ایک دیندار، سلجھے ہوئے اور عمل سے محبت کرنے والے فرد کی حیثیت سے پروان چڑھے وہ دیگر امیرزادوں کے جیسے نہ تھے جنہیں ان کی مال ودولت اور جاہ وعزت اور شہرت بگاڑ چکی ہو۔
عین عالم شباب میں ان کی زندگی میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی سوویت یونین سیکولر افواج مسلم افغانستان میں داخل ہوگئیں یہ خبر ارض حرمین میں بھی پہنچی اور اسامہ دیگر جوانوں کی طرح ان خبروں کو مسلسل ملاحظہ کرتے رہتے لیکن اپنے دیندار سلجھے ہوئے مزاج کے سبب وہ ان جیسے نہ تھے وہ کچھ کرکے دکھانے والے مرد تھے محض خبریں پڑھنے اور سننے والے نہیں۔
لھٰذا انہوں نے افغانستان کے پڑوس پاکستان میں مسلسل آنا جانا شروع کردیا حتی کہ ۲۹ سال قبل ۱۹۸۲ء میں ۲۵ سال کی عمر میں انہوں نے افغانستان داخل ہونے کا فیصلہ کرلیا اور وہاں انہوں نے افغان مجاھدین کے ساتھ مل کر سویت یونین کے خلاف جھاد کیا حتی کہ انہیں اس کے خلاف فتح ملی اور انہوں نے اسے افغانستان سے مار بھگایا اس تاریخی شکست کے نتیجے میں سویت یونین ٹوٹ گیا بہت سے ریاستیں اس سے الگ ہوگئیں اور وہ روس (روسیاہ) رہ گیا۔
اس مرد جوان کی زندگی کا یہ پہلا تجربہ تھا پھر اس کے بعد ایک ایسی خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی کہ جس نے دنیا کا تقشہ بدل دیا یعنی ۱۹۹۱ ء میں امریکی افواج جزیدہ عرب میں داخل ہوگئیں وہ جزیزہ عرب کہ جس میں مسلمانوں کا سب سے بڑا مقدس مقام ہے۔
ایسا اس وقت ہوا جب صدام حسین نے ۱۹۹۰ء میں اپنی افواج کویت میں داخل کردیں اس سے پہلے اسامہ جزیدہ عرب کے حکام کو صدام حسین کے ارادہ سے آگاہ کرتے رہے تھے لیکن انہوں نے ان کی بات نہ سنی اس واقعے کے ہوجانے کے بعد اسامہ نے جزیرہ عرب کے حکام کو پیش کش کی کہ وہ اپنے ساتھی مجاھدین کے ساتھ مل کر صدام حسین کو کویت سے بے دخل کردیں لیکن ان حکام نے امریکی اور اس کی حلیف افواج کے مھبط وحی (نزول وحی کے مقام) جزیرہ عرب میں داخلے کو ترجیح دی اور اسامہ کا اندازہ درست ثابت ہوا کہ انہوں نے اس حادثہ کے شروع میں ہی لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ یہ افواج یہاں رہنے کے لیے آئی ہیں۔
یہ واقعہ تاریخی حقائق کا وہ لمحہ ہے جس نے زمین پر ہونے والے تمام حادثات وواقعات کی بنیاد ہی بدل دی۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر اسلامی فوج سرزمین حرمین میں داخل ہوئی تاریخ میں!پہلی مرتبہ جزیرہ عرب کے حکام نے پانچ لاکھ افراد پر مشتمل مکمل تربیت یافتہ اور ہر طرح کے جنگی سازوسامان سے لیس غیر مسلم افواج کو جزیرہ عرب جزیرہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں داخلے کی اجازت دی۔
اے امریکی آپ نے سچ کہا کہ آپ اپنی حکومت کو سچا نہیں سمجھتے انہوں نے (امریکی حکمرانوں) نے ساری دنیا سے کہا تھا کہ ستمبر(۹/۱۱) کا واقعہ تاریخی تبدیلی کا لمحہ ہے جبکہ حقیقت میں یہ واقعہ جزیرہ عرب کے غیر مسلم فوج کے زیر قبضہ آجانے کا بھر پور ردعمل تھا۔
۱۹۸۹ ء میں سوویت یونین کے افغانستان چھوڑنے کے بعد افغان آپس میں لڑنے لگے تو اسامہ نے اس باہمی لڑائی میں حصہ لینا مناسب نہیں سمجھا اور سوڈان روانہ ہوگئے وہاں سیاسی اور رفاہی کاموں میں حصہ لینے لگے لیکن امریکی حکومت کو سوڈان میں اسامہ کی موجودگی پسند نہ آئی چنانچہ اس نے سوڈانی حکومت پر اسامہ کو نکالنے کے لیے زور دینا شروع کردیا پھر جب اسامہ نے محسوس کیا کہ سوڈان میں ان کی موجودگی کو پسند نہیں کیا جارہا تو وہ افغانستان لوٹ آئے اور اپنے ہم خیال مجاھدین کو اکٹھا کرنے لگے اور انتظار کرنے لگے یہاں تک کہ طالبان تحریک اٹھ کھڑی ہوئی اور افغان شہر اس کے زیر کنٹرول آنے لگے جب اسامہ نے دیکھا کہ طالبان اصلاحی عمل میں مخلص ہیں تو وہ ان کے ساتھ اس تاریخی محاذ میں شامل ہوکر دیگر افغانی حملہ آوروں سے لڑنے لگے حتی کہ افغانستان کی اکثریت کو انہوں نے مل کر متحد کردیا اس طرح اسامہ طالبان کے قائد اور امیر ملا عمر کے قریبی اور گہرے دوست بن گئے۔
سرزمین عرب میں امریکی داخلے پر سارا ہی عالم اسلام غضبناک تھا کیونکہ جو خصوصیت اس سرزمین کو حاصل ہے وہ کرہ ارض کی اور کسی بھی جگہ کو حاصل نہیں۔ نیز عراق میں امریکی مداخلت اور وہاں کے ۱۵ لاکھ مسلمانوں (جن میں سے آدھے بچے تھے) کے امریکی قتل عام اور فلسطین پر یہود کے قبضے کے سلسلے میں ہر طرح سے مالی اور عسکری امریکی معاونت نے افغانستان کو سوویت یونین سے آزاد کروانے کے لیے راہ جھاد میں نکلنے والے اسامہ اور ان کے رفقاء پر گہرا اثر ڈالا اور انہوں نے محسوس کیاکہ امریکہ پہلے تو ان کے خلاف پوشیدہ طور پر جنگ کرتا رہا ہے اور اب اس نے ان کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے ۔ انہیں اس بات کا بھی احساس ہوا کہ مسلمانوں کو پیش آنے والی اکثر مشکلات کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی ہے ۔ چنانچہ اسامہ نے اعلان کردیا کہ امریکہ جزیرہ عرب سے چلا جائے امریکہ نے ہر جگہ مجاھدین کا تعاقب شروع کردیا اور عرب ممالک کو بھی حکم دیا کہ وہ افغانستان سے لوٹ کرآنے والے مجاہدین کو پکڑ کر جیلوں میں بند کریں اور وہاں انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنائیں۔
بوسنیا، ہرسک، شیشان، کوسوو،سوڈان، صومالیہ، فلپائن، چین اور کشمیر وغیرہ ممالک میں مسلمانوں کی اغیار سے جنگ شروع ہوگئی ان تمام ممالک میں مسلمانوں پر ظلم ڈھایا جانے لگا اور اسامہ ان تمام مسلمانوں کی مدد کرنے اور ظلم وسرکشی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے انہیں اموال اور افراد ہر طرح کی مدد فراہم کرتے رہے۔ اس طرح ان کی آواز گونجنے لگی اور تمام مسلمان انہیں پہچاننے لگے ۔
اسامہ اور ان کے ساتھیوں نے یہ حقیقت اچھی طرح سمجھ لی کہ امریکہ ہی ہے جو اسلامی ممالک کی مطلق العنان )ڈکٹیٹر( حکومتوں کی مدد کرکے مسلمانوں کو درپیش اکثر مشکلات کا ذمہ دار ہے ۔ حکام اور ذمہ داران کو بگاڑنے اور اسلامی ممالک کو ترقی کرنے سے روک دینے میں بھی امریکہ ہی ذمہ دار ہے اور امریکہ کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے فلسطین پر قابض یہودیوں کو اپنی اولاد (ولد الحرام) قراردیا اور پھر فلسطین کے مسلمانوں کے قتل عام کے لیے انہیں فنڈز اور جدید اسلحہ فراہم کیا جبکہ فلسطین کو بھی مسلمانوں کے ہاں تقدس واحترام کا خاص مقام حاصل ہے جس طرح جزیرہ عرب کو حاصل ہے ۔
عرب فلسطین میں ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سے بھی پہلے سے رہتے آرہے ہیں شاید آپ اپنی کتاب جسے آپ مقدس سمجھتے ہو اس سے جان سکیں کہ ابراہیم علیہ السلام نے عراق سے فلسطین کی جانب ہجرت کی تھی جبکہ عرب وہاں پہلے سے تھے پھر ابراہیم علیہ السلام کے ہاں یعقوب علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور یعقوب علیہ السلام ہی )اسرائیل (کے نام سے مشہور ہیں۔ یعقوب علیہ السلام نے مصر ہجرت کی (مصر میں داخل ہونے والے اولاً ان کے بیٹے یوسف علیہ السلام تھے پھر یوسف علیہ السلام نے مصر کا بادشاہ بننے کے بعد اپنے والد یعقوب علیہ السلام اور اپنی قوم کو مصر بلوالیا تھا۔ مترجم) اور ان کی اولاد وہاں ۴۰۰ سال رہی پھر وہاں سے موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں سیناء کی سرزمین تیہ چلے گئے جہاں وہ ۴۰ سال رہے پھر بنی اسرائیل عربوں کو شکست دے کر فلسطین میں داخل ہوگئے اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس زمانے میں بنی اسرئیل ہی فلسطین کی مبارک سرزمین کے عربوں سے زیادہ مستحق تھے کیونکہ عرب اس وقت بت پرست تھے جبکہ بنی اسرائیل اللہ پر ایمان رکھتے تھے۔
اس کے بعد بنی اسرائیل چند صدیاں فلسطین میں رہتے رہے حتی کہ عیسی علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا اور یہود (سابقہ بنی اسرائیل) نے ان کے ساتھ کفر کیا اور ان کی پیروی اختیار کرنے والوں پر بدترین مظالم ڈھائے پھر اللہ کا کرنا کہ عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں نے فلسطین کو یہود سے چھین لیا کیونکہ یہود موسی علیہ السلام کا دین چھوڑ چکے تھے اور عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ پھر فلسطین عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کے پاس رہا جو ان کی شریعت میں تحریفیں اور تبدیلیاں کرتے رہے حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار عربوں نے فلسطین کو رومیوں سے واپس لے لیا پھر وہ ۱۳۰۰ سال تک مسلمانوں کے زیر حکومت رہا۔
اور جب مسلمان اپنے دین اور اپنے نبی کی تعلیمات سے دور ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر برطانیہ / فرانس کو مسلط کردیا برطانیہ / فرانس نے اسے اپنے تسلط میں رکھا لیکن مسلمان باز نہ آئے اور دین کی جانب نہ پلٹے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور اس مبارک سرزمین پر مسلمانوں کے بدترین دشمن یہود کو مسلط کردیا سرزمین فلسطین مسلمانوں کے ہاتھ سے اس وقت نکلی جب وہ اپنے دین کی تعلیمات سے دور ہوگئے سمجھدار مسلمان یہ بات سمجھ گئے اور فلسطین آزاد کروانے کے لیے مسلمانوں کو دین کی طرف پلٹنے کی دعوت دینے لگے اور اسی دعوت کی راہ میں بہت سے مسلمان علماء فوت ہوگئے اور اسامہ بن لادن بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے دین اسلام کی حقیقی تعلیمات کی جانب رجوع کرنے کی دعوت دی تاکہ مسلمان ایک دفعہ پھر فلسطین حاصل کرلیں۔
اے امریکی اسامہ کے عقیدے اور ان کے فکر ومنھج کو جاننے کے لیے یہ تاریخی مقدمہ ضروری ہے اور مجھے نہیں معلوم آپ اسامہ کے متعلق کیا کچھ جانتے ہیں لیکن میں ستمبر (۹/۱۱) کے واقعات کے بعد ان کی ایک تاریخی قسم آپ کو یاد دلاتاہوں انہوں نے کہا تھا:
اس عظمت والے اللہ کی قسم جس نے آسمان کو کسی ستون کے بغیر بلند کیا امریکہ اور امریکہ میں رہنے والے اس وقت تک چین کی نیند نہ سو سکیں گے جب تک ہمیں فلسطین میں واقعتا ایسی زندگی نصیب نہ ہو اور جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سرزمین سے ساری کافر افواج چلی نہ جائیں ۔
اور اسامہ کی تاریخ وسیرت سے آگاہ ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ اس کے بعد اسامہ اس قسم کو پورا کرنے کے لیے زندہ رہے۔ انہوں نے)امریکی حکمران( آپ سے کہا ہوگا کہ اسامہ دہشت گرد ہے ہم اس سے انکار نہیں کرتے لیکن ہم جس بات کا انکار کرتے ہیں وہ دہشت گرد کا معنی ومطلب (تعریف) ہے جو وہ اب تک واضح نہ کرسے۔
جاپان ،ا لمانیہ اور سوویت یونین کے خلاف امریکہ جنگیں لڑچکا ہے میں سوچتا ہوں کہ اگر جاپان ، کیلیفورنیا، واشنگٹن اور ایریزونا پر قابض ہوجائے تو آپ کیا کریں گے۔ اور اگر المانیہ واشنگٹن ڈی ، سی اور فلوریڈا پر قابض ہوجائے یا روس جارجیا اور نیویارک اور ورجینیا پر قابض ہوجائے تو کیا آپ گھر میں بیٹھ کر انتظار کریں گے کہ وہ اپنی مرضی سے نکل جائیں ۔
اگر کچھ امریکی قابض جاپان یا قابض ہٹلری المانیا قابض روس کے مقابلے میں کھڑے ہوجائیں تو کیا ہوگا۔ کیا ان کے خلاف لڑنے والے امریکی دہشت گرد کہلائیں گے اور اگر اس قبضے کے خلاف امریکہ جاپان المانیا یا روس کے اندر دھماکے کرنے لگے تو کیا یہ دہشت گردی کہلائے گی۔
ہم اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اسامہ دہشت گرد ہیں انہوں نے واقعی اپنے دشمنوں کو دہشت زدہ رکھا لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ اسامہ دہشت گرد کیوں بنا؟
شاید میں آپ کو اسامہ کی شخصیت کے حوالے سے کچھ بتاسکوں!
وہ نرم مزاج، کم گو، کم مسکرانے والے، شرمیلے، سخی، مہربان ، منکسر المزاج اور گناہوں سے بہت دور رہنے والے تھے مال ودولت کے باوجود وہ فقیروں کی طرح رہتے اور انہی کے جیسی خوراک کھاتے اور انہی کے جیسے بستر پر سوتے تھے اگر آپ ان سے گفتگو کرنا چاہتے تو وہ اپنی پوری توجہ آپ کی جانب مبذول کردیتے آپ سمجھتے کہ شاید اس دنیا میں ایک آپ ہی ان کے دوست ہیں بہت ہلکے اعصاب رکھتے تھے (یعنی کسی کا دکھ دیکھ کر جذباتی ہوجاتے تھے) شعروادب وقراء ت کو پسند کرتے تھے اور گھڑ سواری کے دلدادہ تھے ان کے ساتھ ہر بیٹھنے والا اگرچہ دشمن ہی ہو ان کے دوسروں کے لیے ادب واحترام کی وجہ سے ان سے محبت کرنے لگتا اس سب کے باوجود وہ سمجھدار تھے اپنے چچوں اور ماموں سے فطانت وذکاوت کے جانشین بنے تھے۔
بہادر تھے اپنی تہذیب سے شجاعت وبہادری کے وارث بنے تھے ۔ ہر مومن اپنی جائے ولادت سے ہی ایمان کا جانشین بنتا ہے۔
یہ اسامہ کی چند صفات ہیں ان میں ایک رتی برابر بھی مبالغہ نہیں ہے انہیں دیکھنے والا ، ان کے ساتھ رہنے والا یا ان سے ملنے والا ہر شخص ہی اس پر شاہد ہے ۔
تو آیئیے ہم سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان صفات کا حامل شخص دہشت گرد کس طرح بنا۔
جیساکہ میں نے آپ کو بتایا کہ اسامہ جزیرہ عرب میں پیدا ہوئے اور اس جزیرے کی اکثریت آزادی کے دلدادہ ہیں زمین پر اور کوئی بھی ایسی قوم نہیں پائی جاتی جو آزادی سے اس قوم جیسی محبت کرتی ہو یہی وجہ ہے اس جزیرے کے باشندوں نے قریبی متمدن شہروں کی جانب ہجرت کرجانے کے بجائے دسیوں صدیاں صحراؤں میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ وہ کسی بادشاہ یا امپائر کے زیر حکومت نہیں رہ سکتے اور وہ ایک ایسی سرزمین پر کئی صدیوں سے جی رہے ہیں جہاں نہ پانی ہے نہ درخت نہ جاندار مگر شازونادر اس سخت اور مشکل ماحول کی وجہ سے اس جزیرے والوں میں ایک طرح کی خوداری، گھمنڈ اور بیزاری پیدا ہوچکی ہے چنانچہ اس کے باشندے کسی کے غلام یا محکوم یا طرفدار بن جانے کو پسند نہیں کرتے۔
اور تاریخ میں کبھی کسی بادشاہ یا حاکم نے ان پر حکومت نہیں کی حتی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں رسول بناکر بھیجا گیا جنہوں نے ان پر دین کی حکومت قائم کی اور اگر دین نہ ہوتا تو کوئی بھی انہیں ہر گز محکوم نہ بنا پاتا لھذا اس جزیرے کے باشندے اللہ کی حاکمیت کے سوا اور کسی کی بھی حکومت کے سامنے نہیں جھکتے۔
عموماً تمام اہل جزیرہ اور خصوصاً اسامہ کی ان امریکی افواج پر ناراضگی کے پس پردہ عوامل یہ ہیں کہ امریکی افواج نے ان کے جزیرے کو گندہ اور ان کے شہروں پر قبضہ کرلیا۔
شاید آپ جزیرہ عرب کو مملکت سعودیہ عربیہ کے نام سے جانتے ہیں جوکہ آل سعود کی جانب منسوب ہے ان کا نام عبدالعزیز تھا اور وہ موجودبادشاہ کے والد تھے انہوں نے اس جزیرے کو اسلامی حکومت کے ارادے سے اپنی سلطنت میں بزورتلوار شامل کیا اور اہل جزیرہ سے لڑائی کی تاکہ اسے دین کے پرچم تلے لاسکیں اس کے بعد انکشاف ہوا کہ ان کے برطانیہ کے ساتھ انتہائی گہرے تعلقات تھے پھر امریکیوں کے ساتھ پھر ان کی اولاد نے امریکی افواج کو آزادی کویت کے نام پر جزیرہ عرب میں داخلے کی اجازت دے دی اس طرح پرچم دین کے ساتھ ان کی اور ان کی اولاد کی خیانت منکشف ہوگئی ۔
اے امریکی ۔۔۔اسامہ نے آپ کی ریاست کے خلاف اعلان جنگ چند بنیادی اسباب کی بناء پر کیا تھا۔
۱۔ اس نے فلسطین میں قابض یہودیوں کو اپنی اولاد قراردیا ۔
۲۔ اس نے جزیرہ عرب اور مھبط وحی (جائے نزول وحی) پر قبضہ کیا۔
۳۔ بہت سے اسلامی ممالک میں اس نے مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑی۔
۴۔ اسلامی ممالک میں اس نے مطلق العنان ( ڈکٹیٹرز) حکومتوں کی مدد کی۔
۵۔ اس نے اسلام کے خلاف جنگ چھیڑی اور اسلامی ممالک میں اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی اور مسلمانوں کی اقدار اور اخلاقیات بگاڑنے کی کوشش کی۔
٦ ۔یکے بعد دیگر آنے والی امریکی حکومتیں گزشتہ ۳۰ سالوں کے دوران تقریبا دس ملین ( ۱ کروڑ) مسلمانوں کے قتل کا سبب بنیں۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے یہ شر میلا، منکسر المزاج ، نرم دل اور صلح جو شخص ، ایک بہت بڑے اور خطرناک دہشت گرد اور اپنے طرز کے انوکھے جنگجو اور حریف میں تبدیل ہوا۔ ان اسباب میں سے کوئی بھی ایک سبب کسی بھی معمولی عزت رکھنے والے مرد کو تبدیلی کردینے کے لیے کافی ہے تو سب جمع ہوکر کیا تباہی لائیں گے ۔
صورتحال اس طرح نہیں جس طرح آپ کو میڈیا پر بتائی گئی حقیقت یہ ہے کہ زمین پر بسنے والے اکثر مسلمان امریکی حکومت اور اس کی پالیسیوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور آئے روز صبح وشام اس کا اظہار بھی کرتے ہیں اور عرب ممالک میں بذریعہ میڈیا آپ کو امریکی حکومت کی جو تائید نظر آتی ہے وہ یا تو دکھاوا اور دھوکہ ہوتا پے یا قوم کے غداروں کی جانب سے ہوتا ہے یہ مسلمانوں سے اتفاق نہیں رکھتے اور عام طور پر یہ مسلمان نہیں ہوتے ۔
اسلامی ممالک میں بھی کچھ بے دین (سیکولر) اور موقع ومفاد پرست اور خودغرض پائے جاتے ہیں جیساکہ امریکہ میں تمہارے ہاں بھی پائے جاتے ہیں وہ بھی وسیع پیمانے پر اور اس طرح کے لوگ ہی میڈیا، مال اور اختیارات کے مالک ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ انہیں امریکی حکومت کی حمایت کی وجہ سے ہی ملا ہوتا ہے۔
آپ نے پوچھا کہ ہمارے لیے اسامہ کے کیا معنىٰ ہیں تو زمین پر بسنے والے مسلمانوں کی اکثریت کی ترجمانی کرتے ہوئے میں آپ سے کہتا ہوں :
اسامہ کی عظمت اسلام سے گوندی ہوئی قدیم ترین انسانی تہذیب کا نام ہے اسامہ مسلمانوں کے زندہ ضمیر کا پیغام ہے ۔ اسامہ امت اسلامیہ میں نئے سرے سے جاگزین ہونے والی روح کا نام ہے۔
اے امریکی۔۔۔ اسامہ تاریخ کے ہر دور میں ظلم کو للکارنے والی آواز ہے ۔
اے امریکی۔۔۔ اسامہ ایک ایسے مردم حق کا نام ہے جس نے سیاسی صفات حاصل کرکے مسلمانوں کے مسائل حل کرنے میں صرف کردیں ۔
وہ تمہارے اس جارج واشنگٹن کے جیساہے کہ جس نے امریکہ کو متحد کرکے برطانیہ کے خلاف امریکی خودمختاری کی جنگ کی قیادت کی۔
وہ اس کلینکون کے جیسا ہے کہ جس نے امریکہ کے غلاموں کو آزاد کرواکر شمالی اور جنوبی ریاستوں کو متحد کیا۔
وہ اس مارٹن لوتھر کی طرح ہے کہ جس نے امریکہ میں کالوں (نیگرو) کی آزادی کی جنگ لڑی ۔۔۔۔ (واضح رہے شیخ اسامہ رحمہ اللہ کی مثال ان کفار لیڈروں سے دینا محض حق پرستی کی توضیح وتفہیم کےلئے ہے نہ کہ نظریات وتحاریک میں یگانگت ویکجہتی ثابت کرنے کے لیے اور مؤلف حفظہ اللہ نے یہ طرز شاید اس لیے اختیار کیا کہ ان کا مخاطب ایک امریکی ہے اور مخاطب کی حالت پیش نظر گفتگو عین حکمت ہے ۔ واللہ اعلم ۔ مترجم)
لیکن اسامہ ان لوگوں سے مختلف اس لیے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں جو اپنے عقیدے اور دین کی خاطر لڑتا اور جھپٹتا ہے۔
وہ ان سے مختلف ہیں کیونکہ ان کی جنگ قومیت یا مختصر اور تنگ یا وطنی نہیں بلکہ عالمی اور وسیع تر ہے۔
وہ ان لوگوں سے مختلف ہیں کیونکہ ان کے دشمن زمین پر اپنی اور دوسری اقوام پر ظلم کرنے والی زمین کی ساری حکومتیں ہیں۔
اگر آپ اسامہ کے خلاف مصروف جنگ حکومتوں پر نگاہ ڈالیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی اقوام پر ظلم ڈھانے اور ان کے وسائل چوری کرنے کے حوالے سے مشہور ومعروف ہیں۔ لیکن اسامہ نے ان ظالموں کو رسوا کردیا اور یہ خواہش کی کہ لوگ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں یہی وہ چیز ہے جس نے ساری حکومتوں کو ان کا پیچھا کرنے اور ان کی آواز دبانے کی کوششوں میں متفق ومتحد کردیا تاکہ لوگ اور عوام سوئے رہیں اور وہ ان پر ظلم ڈھانے اور ان کے وسائل چوری کرنے میں مگن رہیں۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ نے اپنی زندگی مسلمانوں کے متحد کرنے اور انہیں ان کے گلوں میں پڑے حکومتی غلامی کے پھندوں سے آزاد کرانے میں صرف کی اور یہ حکومتیں ہرامریکی حکومت کی دوست رہی ہیں۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ نے مسلمانوں اور ان کے دین کی عزت وبقاء کے لیے جنگ کی ۔
اے امریکی۔۔۔ اسامہ انسانی اقدار کی حقیقی غیرت وصداقت اور فخر کا نشان تھے ایک ایسی صداقت جسے آپ اور آپ جیسے دیگر امریکی وائٹ ہاؤس کے حاکموں اور مشرق ومغرب کی تمام حکومتوں میں نہیں پاتے۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ اس زمین پر بسنے والے ہر چہرے کو روشن کردینے والی آخری خوبصورت شئے تھی میں نے خوبصورت اس لیے کہا کہ زمین کی ساری حکومتوں نے حقائق کو مسخ کیا جھوٹ کو سچھ کہا اور مکروفریب اور خودغرضی کی سیاست کی جبکہ اسامہ نے سیاست کو اس کے حقیقی اور اصلی معانی کو جانب موڑا جو اہل علم ودانش کے ہاں مسلمہ ہیں ان کے نزدیک سیاست حق کو حقداروں تک پہنچادینے ، صداقت ، امانت، آزادی ، عزت وکرامت، ایثار وقربانی، عوامی املاک سے کنارہ کشی اور عوامی مفادات ومصالح کو ثابت کرنے کا نام ہے۔
اے امریکی ۔۔۔ شاید آپ ان میں سے اکثر الفاظ کے معانی سے ناواقف ہوں اس میں ہم آپ کو قصوروارنہ ٹھہرائیں گے کیونکہ آپ ایسے ماحول میں رہتے ہیں جہاں ہر طرف خودپسندی ، انانیت، جعلسازی ، سرمایہ کاری کے نام پر مخفی غلامی اور ڈیمو کریسی کے نام پر ڈھایا جانے والا قانونی ظلم راج کرتا ہے ۔
مجھے نہیں معلوم کہ آپ تہذیب کی کس سطح پر ہیں میں یہ بھی نہیں جانتا کہ میری لکھی ہوئی اکثر باتیں آپ سمجھ سکیں گے یا نہیں لیکن میں اسامہ کے متعلق ان سنجیدہ کلمات سے زیادہ لکھنے کی طاقت نہیں رکھتا کیونکہ وہ اعلیٰ اقدار کے زمانہ انحطاط میں سنجیدہ اور باوقار زندگی گزارنے والی شخصیت تھے وہ معزز شاہ سواروں ، بہادر جنگجوؤں اور وفا دار امراء کے زمانے کی شخصیت تھے ۔

اے امریکی ۔۔۔اسامہ ان تمام اقدار کا نام ہے جن کے خلاف آپ کی حکومت زمین کے ہر حصے پر برسرپیکا ر ہے۔
اسامہ ان تمام اعلیٰ صفات کا نام ہے جن سے متصف ہونے کا جھوٹا دعوی بھی آپ کی مفلس حکومت بھی کرتی ہے۔
اسامہ ان مضبوط اور عمدہ اخلاق کا نام ہے جن کے حامل ہونے کا دعوی آپ کے ہاں کے شرفاء کرتے ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ان سے عاری اور سرعام بدنام ہوتے ہیں۔
اسامہ اس عظمت کا نام ہے جو آپ کو تاریخ کی کتابوں میں نظر آئے گی ۔
مسلمانوں کے لیے اسامہ کیا معنے رکھتا تھا ۔
اے امریکی۔۔۔۔ اسامہ ان کئی ملین افراد کانام ہے جو دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے خود مرجاتے ہیں اپنی قیمتی ترین شئے اپنی جان نچھاور کردیتے ہیں تاکہ ان کے بعد والے وہ بہتر زندگی گزارسکیں جس کے وہ مستحق ہیں۔
اے امریکی ۔۔۔اسامہ امت کی اس روح اوردھٹرکن کا نام ہے جو ایک طویل قامت اور لاغر جسم اختیار کرچکی تھی ۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ دھوکے کے زمانے میں حق کی اور ذلت کے زمانے میں عزت کی اور گراوٹ کے زمانے میں بلندی کی صدا تھے۔
اسامہ بھول کے زمانے میں یاد اور طبعی موت کے زمانے میں اسانوں کا دھڑکتا ہوا دل تھے ۔
انسانی ورثے میں ہر نام کا کوئی نہ کوئی معنی ہوتا ہے اور ہمارے عربی ورثے میں اسامہ نام ہے اس تاریخی شیر کا کہ زمین میں ہر جانب جس کی چنگھاڑ سنائی دیتی رہی اور پھر وہ تورابورا کے غاروں اور سلیمان وہند وکش کے پہاڑوں میں واپس چلا آیا اور اپنے شکار کے تاک میں رہا۔
اے امریکی ۔۔۔ میرا یہ پیغام اپنی قوم کے ہر فرد کو پہنچادو کہ اسامہ ہر آزاد مسلمان کے دل میں زندہ ہے اور ان کی تاریخی قسم مسلمانوں کے رگ وپے میں رچ بس چکی ہے اور اب امریکیوں سے امن پہلے سے زیادہ دور ہوجائے گا اور ان کے آنے والے ایام ان کے شہروں کی تاریخ متاکر رکھ دیں گے ۔
کیونکہ اب اسامہ کے بھائیوں اور بیٹوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ امریکہ کی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے نابود کردیں گے۔
اے امریکی ۔۔۔ شاید آپ کو اس بات پر تعجب ہو آپ نے تو فقط تعارف مانگا تھا اور آپ کو یقین ہے کہ آپ کی حکومت کے پاس اسقدر مادی وسائل ہیں جو اسے ساری زمین کا محافظ بناتے ہیں۔
اے امریکی ۔۔۔ آپ اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ جب عقیدہ مومنوں کے دلوں مین گھس جائے تو پھر لڑائی اسلحہ سے نہیں نہ ہی اسباب جنگ سے ہوتی ہے بلکہ پھر مردوں کے دلوں کو پھیردینے والی مدد (آسمانی مدد ) اترا کرتی ہے۔
امریکی ۔۔۔۔ اسامہ ۱۲۰۰ سوسال سے زائد کرہ ارض پر حکمرانی کرنے والی قوت کا نام ہے۔
امریکہ تو زمانہ قدیم میں معروف تھا ہی نہیں اسے تو کولمبس نے ان نقشوں کی بنیاد پر دریافت کیا تھا جو اندلس اور اطالیہ کے مسلمان علماء نے ترتیب دئیے تھے اس اعتبار سے امریکہ میں آپ کا وجود مسلمانوں کے ان قدیم علوم کا مرہون منت ہے جو امریکہ ویورپ کی بیداری کا سبب بنے وہ بیداری جو درحقیقت اسلامی تہذیب سے حاصل کردہ تھی لیکن اس حقیقت کو چھپایا اور بدلا گیا۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ اس لیے آئے کہ مسلمانوں کو ان کی تھذیب یا د دلائیں انہیں ان کادور عروج اور سنہری تاریخ یاد دلائیں تاکہ ان سے کہیں:
زمین پر بسنے والی اقوام کے درمیان اپنا حقیقی مقام ومرتبہ حاصل کرنے کے لیے اپنے دین کی طرف پلٹ جاؤ۔
مسلمانوں کو انسانیت کی قیادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ساری اقوام پر غالب رہنے کے لیے بھیجا گیا ہے اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ اپنی کتاب میں اس حقیقت کو واضح طور پر بیان فرمایا :
﴿ھوالذی ارسل رسوله بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کله﴾
ترجمہ : وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق دیکربھیجا تاکہ وہ اسے دیگر تمام ادیان (نظامہائے زندگی) پر غالب کردے
اللہ تعالیٰ نے اس زندہ وجاوید حقیقت کو مضبوط تر کرنے کے لیے قرآن مجید میں ۳ مقامات پر اسی طرح بیان فرمایا ہے۔
اے امریکی۔۔۔ اسامہ زمین پر رونما ہونے والی نئی تبدیلی کا نقطہ آغاز تھے انہوں نے ایک طویل انتظار کے بعد مسلمانوں کے دلوں میں اسلام کے ضمیر کو بیدار کیا اور اپنے خون کی سیاہی سے عظمت کی وہ تختی لکھی جو مسلمانوں کی زندگی سے مٹ جانے والی تھی۔
اے امریکی ۔۔۔ کیا ٓپ جانتے ہیں کہ مسلمان اسامہ کی تعزیت قبول نہیں کررہے ۔
اے امریکی۔۔۔ شاید آپ کو تعجب ہو کہ بہت سے اسلامی ممالک میں مسلمان ایک دوسرے کو اسامہ کے قتل کی مبارکباد دے رہے ہیں اور کچھ تو لوگوں میں مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں ۔ کیا آپ اس بات کا مطلب سمجھتے ہیں کہ لوگ ایسے شخص کے قتل پر مٹھائیاں تقسیم کررہے ہیں جو ان سے ان کے اپنے دل سے بھی زیادہ قریب تھا۔
اگر مجھے ذرہ بھی اختیار ہوتا تو میں اپنے آپ کو اور اپنی ساری اولاد کو اسامہ پر نچھاور کردیتا تاکہ وہ زندہ رہیں میں نے اب تک اسامہ پر اپنے آنسو نہیں بہائے اور اگر میں روتا ہوں تو اس لیے کہ مجھے وہ اعزاز (شہادت کی موت) نہ ملا جو اسامہ کو مل گیا۔
ایسے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں لیکن ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جو مرنے کے لیے تیار ہوں ۔
اے امریکی ۔۔۔ اسامہ ان حقوق کے لیے نہ صرف ہر لمحہ مرنے کے لیے تیار رہتے تھے بلکہ ہر آن اور ہر پل وہ اس کی تمنا کیا کرتے تھے
کیونکہ عقیدے کے لیے مرجانا سچے مومن کی سب سے بڑی آرزو ہوا کرتی ہے۔
شاید کہ میں نے آپ سے کچھ زیادہ کہہ دیا لیکن اسامہ اور مسلمانوں کے نزدیک اسامہ کے مطلب ومعنی کے حوالے سے بہت ہی کم بتاسکا ہوں.
اور اگر میں جان لوں کہ آپ اکتائیں گے نہیں تو میں اسامہ اور اسامہ کے معنی ومطلب اور اسامہ کی حقیقت وصداقت کے متعلق اتنا لکھوں کہ آپ مسلسل کئی روز تک اسے پڑھتے رہیں۔
اور شاید کہ میں اپنے ان دراز کلمات کو چند مختصر کلمات میں سمیٹ سکوں کہ اسامہ سچی تہذیب اور انسانی ارتقاء کا نام ہے ۔
میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اس میں سکون کے ساتھ خوب غور وخوص کریں۔
واللہ اعلم وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم
تحریر حسین بن محمود
۶ جمادی الاخری ۱۴۳ھ
[size=x-large]
 

زوہا

وفقہ اللہ
رکن
ماشاءاللہ
کیا خوب جواب دیا ہے، اور اسامہ کا تعارف کراکے آپ نے اس کی غلط فہمی دور کردی- اس اچھی پوسٹ پر شکریہ
 

nicesahil

وفقہ اللہ
رکن
شكريہ
يہ جواب ميں نے نہيں بلكہ شيخ حسين بن محمود كاہے جو ايك عرب عالم دين ہيں.اوپر لكھا ہوا ہے حسين بن محمود كے قلم سے.پسند كرنے كا شكريہ
 
Top