وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ۔
میرے علم میں بھی نہیں ہے کہ کسی حنفی عالم کی خاص اسی روایت پر تحقیق کا۔
موسوعۃ الحدیث ۔ دار العلوم کراچی میں یقیناََ اس کا ذکر ہوگا ۔ لیکن یہ نیٹ پر نہیں ہے ۔اور اس تک پہنچ نہیں ہے ۔
اس کے ہم معنی جو صحیح مشہور روایت ہے
مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ ثُمَّ اجْتَمَعَا فَقَالَا: إِنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ , أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ , وَقَدْ جِئْتُكَ أَسْتَشِيرُكَ , فَقَالَ: " هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ " قَالَ: نَعَمْ , قَالَ: " فَالزَمْهَا , فَإِنَّ الْجَنَّةَ عِنْدَ رِجْلِهَا
اس سے امام طحاوی ؒ نے مشکل الآثار میں
بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْوَاحِدِ مِنْ أَبَوَيْهِ: هَلْ بِرُّهُ بِلُزُومِهِ إِيَّاهُ أَفْضَلُ مِنَ الْجِهَادِ , أَوِ الْجِهَادُ أَفْضَلُ مِنْهُ؟
میں استدلال کیا ہے
وَفِيمَا رَوَيْنَاهُ فِي هَذَا الْبَابِ مِنْ حَدِيثِ مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ مَا قَدْ دَلَّ أَنَّهُ فِي الْأُمِّ كَهُوَ فِيهِمَا
جو ان کی طرف سے تصحیح ہے ۔
لیکن خاص الجنۃ تحت اقدام الامہات ۔کے بارے میں معلوم نہیں ۔
البتہ کچھ دوسرے علماء کی طرح حنفی علماء میں سے صاحب مرقاۃ المفاتیح ، صاحب رد المحتار ، اور صاحب اوجز المسالک نے یہ روایت بغیر کسی تنقید و جرح کے صرف نقل کی ہے ۔
البتہ میرے خیال میں یہ روایت حنفی اصول کے لحاظ سے شاید حسن کے درجہ میں ہے ۔ وہ اس طرح کہ ۔۔ اس کے دو طریق میں سے ایک ابن عباسؓ سے مروی طریق زیادہ ضعیف ہے ۔جو ذہبیؒ نے میزان میں بھی نقل کیا ہے ۔
البتہ حضرت انس ؓ کی روایت جو کچھ کتب میں ہے ۔ کچھ قابل قبول ہی لگتی ہے
اس میں سب سے عالی سند امام دولابیؒ کی ہے ۔ویسے امام دولابیؒ بھی غالباََ حنفی ہیں ۔
ان کی سند یہ ہے ۔۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الدَّقِيقِيُّ الْوَاسِطِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ الْمُهَاجِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ
اس میں منصور اور ابو النضر پر بحث ہے ۔الدقیقی ثقہ ہیں ۔
ابو النضر البصری الابار کو بعض ائمہ نے لا یعرف نقل کیا ہے لیکن لگتا ہے کہ جنہوں نے بھی نقل کیا ہے ان کے علم میں
امام احمد بن حنبلؒ کا قول نہیں آسکا،جو حافظ دولابیؒ نے نقل کیا ہے۔ جس میں اس راوی کا تعین ہے کہ یہ مشہور ثقہ راوی
جریر بن حازمؒ ہیں
۔
سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَحْمَدَ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبِي يَقُولُ: «جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ كُنْيَتُهُ أَبُو النَّضْرِ الْأَبَّارُ»
یہ بڑی وزنی شہادت ہے ۔
جریر بن حازم کی کنیت ابو النضر تو سارے ہی نقل کرتے ہیں ۔ البتہ الابار کی نسبت امام احمدؒ نے فرمائی ہے ۔
اور حافظ دولابیؒ بھی اس کو استدلال کے طور پر ہی نقل کر رہے ہیں ۔
چناچہ جنہوں نے لایعرف کہا ہے وہ عدم علم ہے ۔
جریر بن حازم سے احادیث ان کے بیٹے وہب بن جریر بن حازم بھی روایت کرتے ہیں ۔(سیر)
اور وہب بن جریر سے مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الدَّقِيقِيُّ الْوَاسِطِيُّ بھی احادیث روایت کرتے ہیں (تہذیب)
یہ الدقیقی وہی ہیں جو دولابی والی روایت میں منصور سے مذکورہ حدیث روایت کرتے ہیں ۔
اور جریر بن حازم ؒ ، بقول ذہبی ؒ کئی حضرات ان کو تابعی صغیر مانتے ہیں ۔
اور امام بخاریؒ ، کلاباذیؒ ، ذہبیؒ ، وغیرہ جریر ؒ کا ایک قول نقل کرتے ہیں جو حضرت انس ؓ کے بارے میں ہے ۔
وَقَالَ وهب، عَنْ أَبيه: مات أَنس بْن مالك سنة تسعين، وأنا ابْن خمس سنين.
اور معرفۃ الصحابہؓ ابو نعیم میں ابو النضر الابار کی حضرت انسؓ کے بارے میں ایک روایت ہے ۔
مَنْصُورُ بْنُ الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الْأَبَّارِ، قَالَ: «وُلِدَ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ثَمَانُونَ وَلَدًا، ثَمَانِيَةٌ وَسَبْعُونَ ذَكَرًا، وَابْنَتَانِ، إِحْدَاهُمَا حَفْصَةُ، وَالْأُخْرَى تُكَنَّى أُمَّ عَمْرٍو»
اور زیر بحث حدیث ابو نضر حضرت انسؓ سے براہ راست نقل کرتے ہیں ۔
ان باتوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جریر بن حازم کو چھوٹی عمر میں حضرت انسؓ کی صحبت ملی ہے اور انہوں نے دو تین روایات سنی ہیں ۔ اسی لئے حضرت انس ؓ کے بارے میں ان سے معلومات بھی منقول ہیں ۔
چناچہ جریر بن حازم ؒ ہی ابوالنضر الابار ہیں ۔
امام احمدؒ کے تعین کے بعد ضرورت تو نہیں بس ویسے ہی شوق کے تحت یہ باتیں نقل کی ہیں ۔
اب اس روایت میں واقعی بحث جو ہے وہ منصور بن المہاجر کے بارے میں ہے ۔ جن کو حافظ نے مستور فرمایا ہے ۔
لیکن کئی علماء کے اصول پر اور خصوصاََ حنفی علماء کے اصول پر یہ راوی عادل ہی نظر آتے ہیں ۔
یہ اہل واسط سے ہیں جیسا کہ دولابیؒ نے بھی فرمایا ہے ۔ اور تاریخ واسط میں ان کا ذکر ہے ۔
تاریخ واسط کے مصنف اسلم بحشلؒ حافظ اور ثقہ ہیں ۔ لیکن وہ اپنی کتاب میں توثیق و تجریح کے اقوال عموماََ نقل نہیں کرتے ۔
بس راوی کے تذکرہ میں اس سے مروی روایات بیان کرتے ہیں ۔
محقق تاریخ واسط کا کہنا ہے کہ اس کتاب کا نام تاریخ محدثی الواسط ہونا چاہیے تھا۔
تاریخ واسط میں منصور بن مہاجر اور ان کے بھائی کا بھی یوں ہی ذکر ہے ۔منصور کے ترجمہ میں ان کی ایک روایت جو بیان کی ہے وہ بھی حضرت انسؓ سے ہے
اور تاریخ واسط میں منصور کی کچھ اور جگہہ بھی روایات ہیں ۔
یہ اس لئے ذکر کیا گیا ہے کہ اس سے راوی کی علمی مصروفیات کا معلوم ہوتا ہے ۔ چناچہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل واسط کے ایک محدث تھے ۔
منصور کے شاگرد دیکھیں تو تہذیب الکمال میں تقریباََ دس ہیں ۔ اور کتب میں مزید بھی ہیں ۔ اور ان میں اکثر ثقہ ہیں ۔
زیر بحث حدیث میں بھی دیکھیں کے جن کتب میں اس روایت کی تخریج کی گئ ہے تقریباََ سب میں منصور سے راوی مختلف ہیں اور تقریباََ ۴ ہیں اور غالباََ سارے ہی ثقہ ہیں ۔
ابن حبان ؒ کا ثقاہت کا ایک اصول ہے ۔ اس بارے میں علماء مختلف الرائے ہیں ۔ لیکن میں نے جہاں تک دیکھا ہے ان کی توثیق قبول کی جاتے ہے ۔ جہاں پر عموماََ اعتراض ہوتا بھی ہے تو اختلافی مسائل جس میں معارض میں زیادہ قوی دلیل ہوتی ہے اس کی وجہ سے اعتراض ہوتا ہے ۔
ابن حبان ؒ نے منصور کا ذکر اگرچہ نہیں کیا ۔ لیکن منصور ان کی ثقاہت کی شرط پر پور ا اترتے ہیں بلکہ منصور بن مہاجر ، ان کئی راویوں سے اونچے درجہ کے ہیں جن کی ابن حبان ؒ نے توثیق کی ہے ۔ منصور سے تو کئی ثقات روایت کرتے ہیں ۔
اور منصور کا ذکر تہذیب الکمال اور تاریخ اسلام ذہبی میں بھی بغیر جرح و تعدیل کے ہے ۔
یہ دونوں بھی مجہول راوی کا مجہول ہونا بیان کرتے ہیں ۔ انہوں نے نہیں کیا ۔
اور پھر منصور بن مہاجر کا ذکر ابن ابی حاتم ؒ نے جرح و تعدیل میں بغیر جرح کے ذکر کیا ہے ۔اور کئی علماء خصوصاََ حنفی علماء کے نزدیک یہ توثیق کی علامت ہے ۔ ان ائمہ کے دلائل کے لئے رفع و التکمیل ۲۳۰ کی تعلیق میں زیر عنوان
سكوت المتكلمين في الرجال عن الراوي الذي لم يجرح ، ولم يأت بمتن منكر : يعد توثيقا له.
دیکھیں ۔ جہاں محقق حنفی عالم شیخ عبد الفتاح ابو غدۃ ؒ نے طویل بحث کی ہے ۔
الرفع والتکمیل اللکنوی ت ابو غدۃ
چناچہ یہ سند حسن ہی معلوم ہوتی ہے ۔ اور یہ تو ویسے بھی ترغیب و فضائل کی روایت ہے ۔اسی لئے
خطیب بغدادیؒ نے بھی جامع اخلاق میں باب ذِكْرُ شَيْءٍ مِنْ وُجُوبِ طَاعَةِ الْأَبَوَيْنِ وَبِرِّهُمَا۔۔۔ میں
ابن جوزیؒ نے البر والصلہ میں الْبَابُ الثَّامِنُ فِي تَقْدِيرِ الْأُمِّ فِي الْبِرِّکے ذیل میں
قوام السنۃ الاصبہانیؒ 535ھ نے الترغیب میں باب في الترغيب في بر الوالدين
کے ذیل میں بھی یہ روایت نقل کی ہے ۔
ان حضرات کا طرز شاید کچھ متساہل ہو ۔لیکن ایک عالم ہیں حافظ ذہبیؒ
اور ان کا طرز سب کو معلوم ہے کہ وہ قابل اعتراض روایت پر خاموش نہیں رہتے ۔ اور زیادہ ضعیف روایات نقل کرنے والے مصنفین پر تنقید بھی کرتے ہیں ۔انہوں نے ا س قسم کی ابن عباسؓ سے مروی روایت پر میزان میں تنقید نقل بھی کی ہے ۔
ان کی ایک کتاب ہے الکبائر ۔ اس میں ان کے طرز کے خلاف کئی بہت ضعیف روایات ہیں ۔ تو ایسا کیوں ہے ؟
چناچہ ایک عرب کے مشہور سلفی عالم شیخ مشہور بن حسن آل سلمان نے اس بات کی تحقیق کی کہ جو مطبوعہ نسخہ ہے وہ سارا امام ذہبی کا نہیں ہے بلکہ اس میں اضافات ہیں ۔ جو اصل مخطوطہ الکبائر کا ہے اس میں ایسی روایات بالکل نہیں ہیں ۔
چناچہ انہوں نے الکبائر کو اپنی تحقیق سے شائع کیا ۔ اس کے مقدمہ میں یہ باتیں کی ہیں ۔
اس تمہید کے بعد عرض ہے کہ ذہبیؒ کی اصل کتاب میں ((والدین کی نافرمانی))کے گناہ کے ضمن میں انہوں نے الجنۃ تحت اقدام الامہات کی روایت کو نقل کیا ہے ۔
امام ذہبیؒ کا طرز چونکہ مشہور ہے اس لئے یہ وزنی استدلال ہے ۔
اور اس روایت کا متن منکر بھی نہیں جب کہ شروع میں گزری صحیح حدیث جو مشکل الآثار کے علاوہ مسند احمد ، نسائی اور بہت سی کتب میں ہے اس کی تائید کرتی ہے ۔
اس کے علاوہ وہ مشہور روایت جو صحیح مسلم ،کی ہے ۔ امام بخاریؒ نے بھی اپنی کتاب بر الوالدین میں نقل کی ہے ۔ بہت سی کتب میں ہے ۔
رغم أنف من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كليهما فلم يدخل الجنة
اس کا مفہوم بھی تائید کرتا ہے ۔
اور بھی والدین کی رضا پر جنت والی روایات تائید میں ہوسکتی ہیں ۔
واللہ اعلم۔
نوٹ۔ یہ مضمون غیر عالم کا ہے ۔ کسی حنفی عالم سے پکا کرا لیں (مسکراہٹ)