مولانا عطاء اللہ شاہ بخاریؒ تین چار بار ہمارے ہاں آئے۔ وہ بڑی دلچسپ باتیں کرتے تھے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے قومی مزاج کی بات ہو رہی تھی۔ کہنے لگے:
’’ اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہو گی۔ اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا راستہ دکھایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو نہ کرو،مگر اس نے دین کو مشعلِ راہ بنانے کے بجائے اپنے اعصاب پر سوار کر لیا ہے۔ اس کے جذبات میں کنکری ڈالو تو لہریں پیدا نہیں ہوں گی، ایک دم ابال آجائے گا۔‘‘
ایک مرتبہ مولانا تشریف لائے تو میرے دادا کے پاس ایک جوشیلے مسلم لیگی بیٹھے تھے۔ انھوں نے مولانا سے ، جو کٹر نیشنلسٹ تھے، بحث شروع کر دی۔ مولانا بحث پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ ہوں ہاں میں ٹالنے لگے۔ میرے دادا نے کہا مولانا آپ تو ان کے دلائل کا جواب ہی نہیں دے رہے ہیں۔ کہنے لگے:
’’ جنگل میں رہنے والے بندروں کی بعض خصوصیات عجیب ہوتی ہیں۔ جنگلی بندر کسی درخت پر بیٹھا اور شیر اس درخت کے نیچے سے گزرنے لگے تو فوراً آنکھیں بند کر کے ڈال چھوڑ دیتا ہے۔ ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ادھر کسی نے نعرہ لگایا’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ اُدھر انھوں نے آنکھیں بند کیں اور ڈال چھوڑی۔ اب ایسے لوگوں سے میں کیا بات کروں۔‘‘
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جیّد عالم دین اور مجلس احرار اسلام کے رہنما تھے۔ اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی اس جماعت کا نصب العین تھا۔ آزادئ وطن کی جدوجہد میں یہ کانگریس کے ساتھ تھی اور اسلامی تعلیمات و اقدار کے احیا کے لیے جمعیۃ العلمائے ہند کی ہم نوا تھی، جس کے مقتدر ارکان میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا احمد سعید ، مفتی کفایت اللہ، مولانا داؤد غزنوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاری وغیرہ شامل تھے۔ مجلس احرار اسلام بنیادی طور پر پنجاب کی جماعت تھی۔اس کے رہنماؤں میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری،شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین، آغا شورش کاشمیری سیاست میں بھرپور عملی حصہ لیتے رہے۔ یہ سب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ پرانے احراریرہنماؤں میں اب صرف نواب زادہ نصر اللہ خاں عملی سیاست میں سرگرم ہیں پاکستان کے بزرگ سیاستدان کی حیثیت سے سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ( اب نواب صاحب بھی مرحوم ہوگئے اور اپنے پیش رو قافلۂ احرار سے جاملے)
مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری ساری عمر برصغیر کی آزادی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے قربانیاں دیتے رہے۔ ان کا شمار برصغیر کے چوٹی کے مقررین میں ہوتا تھا۔ ان کی سیاسی اور مذہبی تقاریر عموماً رات کو نمازِ عشا کے بعد شروع ہوتیں اور فجر کی اذان سے قبل ختم ہوتیں۔ مجھے ان کی دو ایسی تقاریر سننے کا اتفاق ہوا ہے جن میں ہزاروں افراد کا مجمع رات بھر ساکت و صامت بیٹھا رہا۔ ایک مرتبہ مائیک خراب ہو گیا تو انھوں نے اسے ہٹا دیا۔ ان کی آواز اتنی پاٹ دار تھی کہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بالکل آخر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی اپنے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پوری وضاحت اور صفائی سے سنائی دے رہی تھی۔ تقریر کے دوران وہ نہایت دلکش لحن میں بر محل اشعار سناتے جاتے۔ اندازِ بیاں میں بلا کی روانی اور شگفتگی تھی۔ ان کے جلسوں میں وہ لوگ بھی خاصی تعداد میں ہوتے جو ان کے سیاسی و مذہبی خیالات سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔ وہ ان جلسوں کو درہم برہم کرنے کے لیے نہیں، مولانا کی تقریر سے حظ اٹھانے جاتے تھے۔
(ماخوذ، ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ خلیق ابراہیم خلیقؔ ۔ صفحہ، ۷۴۔ ۲۷۳)
بشکریہ نقیب ختم نبوت ملتان
’’ اس سے زیادہ جذباتی قوم دنیا کے پردے پر نہیں ہو گی۔ اس کے دین نے اسے اعتدال اور حقیقت پسندی کا راستہ دکھایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ دین میں غلو نہ کرو،مگر اس نے دین کو مشعلِ راہ بنانے کے بجائے اپنے اعصاب پر سوار کر لیا ہے۔ اس کے جذبات میں کنکری ڈالو تو لہریں پیدا نہیں ہوں گی، ایک دم ابال آجائے گا۔‘‘
ایک مرتبہ مولانا تشریف لائے تو میرے دادا کے پاس ایک جوشیلے مسلم لیگی بیٹھے تھے۔ انھوں نے مولانا سے ، جو کٹر نیشنلسٹ تھے، بحث شروع کر دی۔ مولانا بحث پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ وہ ہوں ہاں میں ٹالنے لگے۔ میرے دادا نے کہا مولانا آپ تو ان کے دلائل کا جواب ہی نہیں دے رہے ہیں۔ کہنے لگے:
’’ جنگل میں رہنے والے بندروں کی بعض خصوصیات عجیب ہوتی ہیں۔ جنگلی بندر کسی درخت پر بیٹھا اور شیر اس درخت کے نیچے سے گزرنے لگے تو فوراً آنکھیں بند کر کے ڈال چھوڑ دیتا ہے۔ ہندوستان کے بہت سے مسلمانوں کا یہی حال ہے۔ ادھر کسی نے نعرہ لگایا’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ اُدھر انھوں نے آنکھیں بند کیں اور ڈال چھوڑی۔ اب ایسے لوگوں سے میں کیا بات کروں۔‘‘
مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری جیّد عالم دین اور مجلس احرار اسلام کے رہنما تھے۔ اسلام کی سربلندی اور وطن کی آزادی اس جماعت کا نصب العین تھا۔ آزادئ وطن کی جدوجہد میں یہ کانگریس کے ساتھ تھی اور اسلامی تعلیمات و اقدار کے احیا کے لیے جمعیۃ العلمائے ہند کی ہم نوا تھی، جس کے مقتدر ارکان میں مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا احمد سعید ، مفتی کفایت اللہ، مولانا داؤد غزنوی، مولانا حفظ الرحمن سیوہاری وغیرہ شامل تھے۔ مجلس احرار اسلام بنیادی طور پر پنجاب کی جماعت تھی۔اس کے رہنماؤں میں مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی،مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری،شیخ حسام الدین، ماسٹر تاج الدین، آغا شورش کاشمیری سیاست میں بھرپور عملی حصہ لیتے رہے۔ یہ سب اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ پرانے احراریرہنماؤں میں اب صرف نواب زادہ نصر اللہ خاں عملی سیاست میں سرگرم ہیں پاکستان کے بزرگ سیاستدان کی حیثیت سے سب ان کا احترام کرتے ہیں۔ ( اب نواب صاحب بھی مرحوم ہوگئے اور اپنے پیش رو قافلۂ احرار سے جاملے)
مولاناسید عطاء اللہ شاہ بخاری ساری عمر برصغیر کی آزادی اور اسلام کی سر بلندی کے لیے قربانیاں دیتے رہے۔ ان کا شمار برصغیر کے چوٹی کے مقررین میں ہوتا تھا۔ ان کی سیاسی اور مذہبی تقاریر عموماً رات کو نمازِ عشا کے بعد شروع ہوتیں اور فجر کی اذان سے قبل ختم ہوتیں۔ مجھے ان کی دو ایسی تقاریر سننے کا اتفاق ہوا ہے جن میں ہزاروں افراد کا مجمع رات بھر ساکت و صامت بیٹھا رہا۔ ایک مرتبہ مائیک خراب ہو گیا تو انھوں نے اسے ہٹا دیا۔ ان کی آواز اتنی پاٹ دار تھی کہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر بالکل آخر میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی اپنے اتار چڑھاؤ کے ساتھ پوری وضاحت اور صفائی سے سنائی دے رہی تھی۔ تقریر کے دوران وہ نہایت دلکش لحن میں بر محل اشعار سناتے جاتے۔ اندازِ بیاں میں بلا کی روانی اور شگفتگی تھی۔ ان کے جلسوں میں وہ لوگ بھی خاصی تعداد میں ہوتے جو ان کے سیاسی و مذہبی خیالات سے شدید اختلاف رکھتے تھے۔ وہ ان جلسوں کو درہم برہم کرنے کے لیے نہیں، مولانا کی تقریر سے حظ اٹھانے جاتے تھے۔
(ماخوذ، ’’منزلیں گرد کی مانند‘‘ خلیق ابراہیم خلیقؔ ۔ صفحہ، ۷۴۔ ۲۷۳)
بشکریہ نقیب ختم نبوت ملتان