حضرات صحابہ کرام کے حقوق وآداب

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
محترم خالد فیصل ندوی

قال الله تعالیٰ: ﴿السابقون الاولون من المھاجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان رضی الله عنہم ورضوا عنہ واعد لھم جنت تجری تحتھا الانھار خلدین فیھا ابداً ذلک الفوز العظیم﴾ (سورہٴ توبہ:100)

ترجمہ: مہاجرین وانصار میں سے جو سب سے پہلے (ا یمان لانے میں) سبقت کرنے والے ہیں اور پھر جن لوگوں نے احسان واخلاص کے ساتھ ان کی پیروی کی ہے ، الله تعالیٰ ان سب سے راضی ہو گئے اور وہ سب (بھی) الله تعالیٰ سے راضی ہو گئے او رالله تعالیٰ نے ان سب کے لیے ایسی جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی ، ان میں یہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ، یہی بڑی کام یابی ہے ۔

بلاشبہ حضرات صحابہٴ کرام رضی الله عنہم دین اسلام کے ترجمان وعلم بردار، قرآن عظیم کے محافظ وپاسبان ، سنت نبوی ( علی صاحبہا الصلوة والسلام) کے عامل ومبلغ ، بلند سیرت وکردار کے حامل وداعی او رامت مسلمہ کے محسن ومعمار ہیں، یہی وجہ ہے کہ امت مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام ومرتبہ حاصل ہے ، کیوں کہ الله تعالیٰ کی خصوصی ہدایت وراہ نمائی اور حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مثالی تعلیم وتر بیت نے ان کو مکمل اسلامی سانچہ میں ڈھال کر پوری امت مسلمہ، بلکہ پوری انسانیت کے لیے بہترین نمونہ وآئیڈیل بنا دیا تھا۔ قرآن مجید میں ہے کہ ”اور اسی طرح ہم نے تم ( مومنوں) کو ایک متوازن امت بنایا ہے، تاکہ تم دنیا کے عام لوگوں پر گواہ رہو“۔ (سورہ بقرہ:143) اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا ہو یا اسے آپ صلی الله علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو، خواہ ایک لمحہ کے لیے کیوں نہ ہو۔

حضرات صحابہٴ کرام کی کل تعداد حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے وقت کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی اور جن صحابہٴ کرام سے کتب حدیث میں روایات منقول ہیں ، ان کی تعداد ساڑھے سات ہزار ہے اور ان صحابہٴ کرام کا تعارف حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی کے قلم گہربار نے کیا خوب کرایا ہے :

” آپ صلی الله علیہ وسلم کے تیار کیے ہوئے افراد میں سے ایک ایک نبوت کا شاہ کار ہے او رنوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخار ہے، انسانیت کے مرقع میں، بلکہ اس پوری کائنات میں حضرات پیغمبروں کو چھوڑ کر اس سے زیادہ حسین وجمیل ، اس سے زیادہ دل کش ودل آویز تصویر نہیں ملتی ، جو ان کی زندگی میں نظر آتی ہے ، ان کا پختہ یقین ، ان کا گہرا علم ، ان کا سچا دل، ان کی بے تکلف زندگی، ان کی بے نفسی ، خدا ترسی، ان کی پاک بازی، پاکیزگی، ان کی شفقت ورافت او ران کی شجاعت وجلادت ، ان کا ذوق عبادت اور شوق شہادت ، ان کی سیم وزر سے بے پروائی او ران کی دنیا سے بے رغبتی ، ان کا عدل، ان کا حسن انتظام دنیا کی تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ مختلف قبائل، مختلف خاندانوں او رمختلف حیثیتوں کے افراد ایک خوش اسلوب، متحدالقلوب خاندان میں تبدیل ہو گئے او راسلام کی انقلاب انگیز تعلیم او رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی معجزانہ صحبت نے ان کوشِیر وشکر بنادیا۔“( دو متضاد تصویریں)

اور ایک غیر مسلم مغربی فاضل ” کائتانی“ اپنی کتاب” سنین اسلام“ میں صحابہ کرام کو بہترین خراج تحسین پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہے کہ ” یہ لوگ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اخلاقی وراثت کے سچے نمائندے، مستقبل میں اسلام کے مبلغ اور محمد صلی الله علیہ وسلم نے خدا رسیدہ لوگوں تک جو تعلیمات پہنچائی تھیں ، اس کے امین تھے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مسلسل قربت او ران سے محبت نے ان لوگوں کو فکر وجذبات کے ایک ایسے عالم میں پہنچا دیا تھا ، جس سے اعلیٰ اور متمدن ماحول کسی نے دیکھا نہیں تھا ، درحقیقت ان لوگوں میں ہر لحاظ سے بہترین تغیر ہوا تھا او ربعد میں انہوں نے جنگ کے مواقع پر مشکل ترین حالات میں اس بات کی شہادت پیش کی کہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے اصول وافکار کی تخم ریزی ، زرخیز زمین میں کی گئی تھی ، جس سے بہترین صلاحیتوں کے انسان وجود میں آئے ، یہ لوگ مقدس صحیفہ ( قرآن مجید) کے امین او راس کے حافظ تھے او رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جو لفظ یا حکم انہیں پہنچا تھا، اس کے زبردست محافظ تھے۔“

ان صحابہ کرام کے فضائل ومناقب قرآن وحدیث میں بہت کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں ( بقرہ ، آل عمران، نساء ، مائدہ، اعراف، انفال، توبہ ، حج، مومنون، نور، فرقان، سجدہ ، احزاب، فتح، حدید ، مجادلہ، حشر اور بینہ) میں حضرات صحابہ کرام کی بہت سی امتیازی صفات او رکمالات مختلف انداز واسلوب میں بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے قابل ذکر خصوصیات یہ ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخبومختار بندے ہیں او رحضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے بعد پوری دنیا کے لیے اسوہ ونمونہ ہیں۔ ( سورہ حج:78) نیز یہ حضرات الله تعالیٰ کے نہایت محبوب اور پسندیدہ بندے ہیں او ربخشے بخشائے ہیں، حتی کہ الله تعالیٰ نے ان کو ﴿رضی الله عنہم ورضوا عنہ﴾ کا پروانہ خوش نودی عطا فرما دیا ہے۔ ( سورہ توبہ: 100) اور الله تعالیٰ نے دنیا میں ان کی خلافت وحکومت کی بشارت دی ہے (سورہ حج:21) اور آخرت میں الله تعالیٰ نے ہر صحابی سے ان کے ایمان ، انفاق او رجانی قربانیوں کے نتیجہ میں ”جنت“ کا اہم وعدہ فرمایا ہے ۔ ( سورہ حدید :10)

اسی طرح احادیث مبارکہ میں حضرات صحابہٴ کرام کے مناقب بہت تفصیل کے ساتھ مذکور ہیں احادیث کی تمام کتابوں میں بہت اہتمام کے ساتھ مناقب صحابہ  بیان ہوئے ہیں کہ حضرات صحابہٴ کرام تمام انسانوں سے بہتر ہیں ، ایک حدیث شریف میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ ”سب سے بہتر میرے زمانہ کے لوگ ہیں ۔“ (بخاری ومسلم) ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم لوگ تمام روئے زمین کے انسانوں سے بہتر ہو ۔“ (بخاری ومسلم) حضرات صحابہٴ کرام الله تعالیٰ کے منتخب وچنندہ بندے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”الله تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم السلام کے علاوہ تمام مخلوق میں سے میرے صحابہ کو چھانٹا ہے او ران میں سے چار ( ابوبکر ، عمر ،عثمان اور علی) کو ممتاز کیا ہے،ان کو میرے سب صحابہ سے افضل قرار دیا ہے۔“

حضرت عبدالله بن مسعود فرماتے ہیں کہ ” آپ صلی الله علیہ وسلم (کے انتخاب) کے بعد ( الله تعالیٰ نے ) لوگوں کے قلوب پر نظر ڈالی تو کچھ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے اصحاب او راپنے دین کے ناصر ومدد گار اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے وزراء اور نائبین کے طور پر منتخب فرمایا۔“ (مؤطا امام محمد) اسی طرح حضرات صحابہٴ کرام  دنیا میں پوری امت کے امن وامان کے باعث ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ  میری امت کے امن وامان کا ذریعہ ہیں ، جب میرے سارے صحابہ الله تعالیٰ کو پیار ے ہو جائیں گے تو میری امت پر تمام وہ آفات او رمصائب ٹوٹ پڑیں گے ، جن کی وعیدین کو دی گئی ہیں۔“ ( مسلم)

حضرات صحابہٴ کرام اس دنیا میں خیر وبرکت اور فتح ونصرت کے موجب ہیں ، ایک حدیث میں ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا جائے گا اور ( بوقت روانگی وجہاد) لوگ اس تلاش وجستجو میں ہوں گے کہ کیا اس لشکر میں کوئی صحابی  موجود ہیں؟ ایک صحابی اس لشکر میں مل جائیں گے او رانہیں کی برکت سے الله تعالیٰ مسلمانوں کے اس لشکر کو فتح نصیب فرمائیں گے۔“(بخاری ومسلم) او رحضرات صحابہ کرام قیامت کے دن اپنے مدفون علاقہ کے لوگوں کے قائد او ررہنما بن کر اٹھائے جائیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ” کوئی صحابی کسی سر زمین وعلاقہ میں نہیں وفات پاتے ہیں مگر وہ روز وقیامت اس علاقہ کے لوگوں کے قائد اور رہنما بن کر اٹھائے جائیں گے۔“ (ترمذی) حضرات صحابہ کرم میں سے ہر ایک صحابی جنت میں جائیں گے او رجہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جہنم کی آگ اس مسلمان کو چھو نہیں سکتی ہے ، جس نے مجھے دیکھا ہے یا میرے دیکھنے والوں کو دیکھا ہے۔“ (ترمذی)

قرآن وحدیث میں حضرات صحابہٴ کرام کے کچھ حقوق وآداب بیان ہوئے ہیں ، ان میں سے قابل ذکر اہم حق یہ ہے کہ ان کے شایانِ شان ان کی تعظیم وتکریم کی جائے، کیوں کہ حضرات صحابہ کرام کے اکرام کرنے کا حکم آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی امت کو بالکل واضح انداز میں دیا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” میرے صحابہ کا اکرام کرو، کیوں کہ صحابہ تم تمام میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔“ (نسائی) حضرات صحابہ کے اکرام کا تقاضا ہے کہ ان کے تذکرہ کے وقت ان کا پورا پورا پاس ولحاظ رکھا جائے ، پوری رعایت برتی جائے اور تحریر وتقریر کے وقت ان کے بارے میں بڑے احتیاط سے کام لیا جائے ، کیوں کہ حضرات صحابہٴ کرام کے پاس و لحاظ کرنے میں ہم مسلمانوں کا ہی فائدہ ہے ، روز قیامت حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت نصیب ہو گی او رحوض کوثر تک پہنچنا ممکن ہو سکے گا ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہ کے بارے میں میری رعایت کرے گا ، میں قیامت کے دن اس کا محافظ ہوں گا۔“ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ ”جو میرے صحابہ کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوض کوثر پر پہنچ سکے گا او رجو ان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا او رمجھے دور ہی سے دیکھے گا۔“ (حکایاتِ صحابہ)

حضرات صحابہٴ کرام کی تعظیم کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ان سے محبت اورتعلق رکھا جائے، کیوں کہ ان سے محبت وتعلق رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اوران سے عداوت وبغض رضائے الہٰی سے محرومی کا باعث ہے اوردنیا وآخرت میں بڑے نقصان وخسارہ اور رسوائی وعذاب کا موجب ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بہت ہی جامع انداز میں ہم مومنوں کو مؤثر تنبیہ فرمائی ہے کہ ” الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے بارے میں ڈرو، الله تعالیٰ سے میرے صحابہ کے سلسلہ میں ڈرو ، میرے بعد ان کو ملامت کا نشانہ مت بناؤ ، جو شخص ان سے محبت رکھتاہے، میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت رکھتا ہے اورجوان سے بغض رکھتا ہے وہ میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھتا ہے ، جو شخص ان کو اذیت وتکلیف دے اس نے مجھ کو اذیت دی اور جس نے مجھ کو اذیت دی اس نے الله تعالیٰ کو اذیت دی اور جو شخص الله تعالیٰ کو اذیت دیتاہے ، بہت ممکن ہے کہ الله تعالیٰ ایسے شخص کو ( دنیا وآخرت میں )سزا اورعذاب میں مبتلا کر دے ۔“ (ترمذی)

ایک دوسری حدیث میں بہت ہی بلیغ وموثر اسلوب میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” میرے صحابہ کو برامت کہو ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تب بھی وہ ان کے ایک مد ( ایک کلو وزن کے برابر ایک پیمانہ) یا نصف مد (جو) خرچ کرنے کے برابر بھی ثواب کا مستحق نہ ہو گا۔“ (بخاری ومسلم) یقینا حضرات صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا الله تعالیٰ ، فرشتوں اور تمام مومنوں کی لعنت وملامت کا موجب ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ”جو شخص حضرات صحابہٴ کرام کو گالیاں دے ، اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت اور تمام آدمیوں کی لعنت ہے ، نہ اس کا فرض مقبول ہے او رنہ نفل۔“ (حکایاتِ صحابہ) ایک دوسری حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایسے گستاخ پر لعنت بھیجنے کا صریح حکم دیا ہے کہ “ جب تم لوگ حضرات صحابہ کرام کو گالی دیتے ہوئے ( منافق) لوگوں کو دیکھو تو کہو کہ تمہاری بد گوئی پر الله تعالیٰ کی لعنت ہو ،( ترمذی) یہ حقیقت قابل ذکر ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام  کو گالی دینا حرام او رگناہ کبیرہ میں سے ہے ۔اس لیے تمام مومنوں کو چاہیے کہ حضرات صحابہ کرام  کی تنقیص وتنقید سے بچیں ، صرف ان کی تعریف وتوصیف کریں، کیوں کہ ان کی تعریف ایمان کی علامت ہے او ران کی تنقیص (بے عزتی ) نفاق کی پہچان ہے۔ حضرت ایوب سختیانی نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ ” جو صحابہ کی بے ادبی کرتا ہے وہ بدعتی ، منافق او رسنت کا مخالف ہے، مجھے اندیشہ ہے کہ اس کا کوئی عمل قبول نہ ہو، یہاں تک کہ ان سب کو محبوب رکھے اوران کی طرف سے دل صاف ہو ۔“ (حکایات صحابہ) اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حضرات صحابہٴ کرام کی شان عالی میں گستاخی کرنے والوں سے دوری اختیار کی جائے اور ان سے ہر گز کوئی تعلق نہ رکھا جائے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اپنی امت کو زور دار انداز میں متنبہ فرمایا ہے کہ ”بلاشبہ الله تعالیٰ نے ( تمام بندوں میں ) مجھے منتخب فرمایا ہے او رمیرے لیے اصحاب، انصار او ررشتہ داروں کو منتخب فرمایا ہے ، عنقریب کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میرے صحابہ کو بُرا کہیں گے اور ان کی تنقیص ( بے ادبی) کریں گے، پس تم ان کے ساتھ میل ملاپ نہ کرنا ، نہ ان کے ساتھ کھانا پینا اور نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کرنا۔ “( مرقاة)

حضرات صحابہٴ کرام  کا دوسرا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال وافعال میں او ران کے اخلاق میں ان کی اتباع وپیروی کی جائے، کیوں کہ الله تعالیٰ نے سابقین اولین صحابہٴ کرام کی اتباع واقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوش نودی کی بشارت دی ہے۔ (سورہ توبہ:100) او ران کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ ونمونہ قرار دیا ہے او ران کے عمل کو مثالی قرار دیا ہے۔ ( سورہ حج:78) اسی طرح احادیث مبارکہ میں ان کی اتباع وپیروی کی تاکید وترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے ، ایک حدیث میں ہے کہ ” میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، جس کی اتباع کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔“ محققین اہل سنت والجماعت نے سورہ توبہ (آیت :100) سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اصحابِ نبی صلی الله علیہ وسلم مقتدایان امت ہیں اورتمام صالحین ان کے تابع ہیں۔ (تفسیر ماجدی) چناں چہ حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے بعد حضرات صحابہٴ کرام کے نقش قدم پر چلنا دنیا وآخرت میں کام یابی وکام رانی کا موجب ہے ایک طویل حدیث میں ہے کہ ” میری امت تہتر(73) فرقوں میں تقسیم ہو گی، ایک فرقہ کے علاوہ سب فرقے جہنم میں جائیں گے۔ حضرات صحابہٴ کرام نے پوچھا یا رسول الله ! جنت میں جانے والا فرقہ کون سا ہو گا ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ جو فرقہ اس راستہ پر جما رہا جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں۔“ (ترمذی) اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے بعض اوقات بعض خاص صحابہٴ کرام کی اتباع وپیروی کرنے کا حکم عالی فرمایا ہے ، آپ صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ” میں تم لوگوں میں اپنے قیام کی مقدار نہیں جانتا، پس میرے بعد دو صحابہٴ کرام کی اقتدا کرنا اور آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر او رحضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔“ (ترمذی) او رایک دوسری حدیث میں چاروں خلفائے رشداین کی سنت پر گام زن ہونے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ” میری سنت او رحضرات خلفائے راشدین کی سنت تم تمام پر واجب ہے اور اس کو اپنی ڈاڑھوں (دانتوں) سے مضبوط پکڑ لو۔“ (ابوداؤد)

مذکورہ بالا دوحقوق کے علاوہ حضرات صحابہ کرام کے او ربھی حقوق وآداب ہیں ان میں سے سب سے زیادہ قابل ذکر حق ” دفاع صحابہ“ ہے ، موجودہ حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے ، اس حق سے پہلوتہی باعث لعنت ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے کہ ” جب فتنے یا بدعت ظاہر ہونے لگیں او رمیرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لا کر صحابہٴ کرام کا دفاع کرے اور جوشخص حضرات صحابہ کا دفاع نہیں کرے گا تو اس پر الله تعالیٰ کی لعنت ، فرشتوں کی لعنت او رتمام لوگوں کی لعنت ہو اورالله تعالیٰ نہ اس کے فر ض قبول فرمائیں گے اور نہ ہی نفل۔“ ( مرقاة) بہرکیف حضرت قاضی عیاض نے اپنی مشہور کتاب ” شفاء“ میں حضرات صحابہٴ کرام کے اہم حقوق بیان کرتے ہوئے کیا خوب تحریر فرمایا ہے کہ ” ان حضرات کو برائی سے یاد نہ کرے، بلکہ ان کی خوبیاں او ران کے فضائل بیان کیاکرے اور عیب کی باتوں سے سکوت کرے، جیسا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ” جب میرے صحابہ کا ذکر ( براذکر) ہو تو سکوت کیا کرو۔“

یقینا حضرات صحابہ کرام تاریخ ساز، عہد آفریں شخصیات کا مجموعہ ہیں او ریہ حضرات الله تعالیٰ کی نعمت عظمی کے پر تو، حضرت رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تربیت کا ثمرہ او راسلام کی صداقت کی دلیل وحجت ہیں اور یہ حضرات بلاشبہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان میں” زمین کانمک او رپہاڑی کا چراغ“ تھے، جن سے ان کی اپنی ہم عصر دنیا نے رشد وہدایت کا نور حاصل کیا اور آج کی تاریخ میں بھی ان کی بلند سیرت وکردار کی شعاعوں سے ہم اپنی زندگیاں منور کر سکتے ہیں اوران کی مثالی زندگی سے اپنی دنیا وآخرت دونوں سنوار سکتے ہیں اور دونوں جگہ کام یاب وکامراں ہو سکتے ہیں ، الله تعالیٰ ہم تمام مومنوں کو ان کے نقش قدم پر خلوص واحسان کے ساتھ چلنے کی توفیق ارزانی فرمادے او ران کی محبت وعظمت ہمارے دلوں میں راسخ فرما دے ۔ آمین

﴿ربنا اغفرلنا ولاخواننا الذین سبقونا بالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غلا للذین آمنوا ربنا انک رؤف رحیم﴾(حشر:10)
 
Top