مولانا اشرف علی تھانویؒ کی کتب ، ان کے ملفوظات ، خطبات وغیرہ جتنے اہتمام سے شائع ہوتے ہیں ۔ متقدمین ائمہ احناف کی کتب پر اتنی توجہ نہیں ہوتی۔
حضرت کی کتب چھاپتے رہیں اور امت اسکو پڑھتی رہے تو کسی کتاب کے چھاپنے کی ضرورت نہیں۔ حکیم الامت نے کس موضوع پر کتاب نہیں لکھی
اس جملہ پر دوبارہ غور کر لیں ۔اور پہلی عبارت آپ کی اس عبارت کی وجہ سے لکھی گئی ہے۔
یہ تو بہت ہی پہلے کی طبع شدہ ہے۔
حسن ظن تو یہی ہے کہ جملہ لکھتے وقت پہلی عبارت کی طرف توجہ نہیں ہوگی۔
مولانا تھانوی صاحبؒ کے اور اسی طرح حافظ ابن تیمیہؒ وابن قیمؒ کے علم و فضل کا انکار نہیں ہے ۔ان کی تو صرف مثال دی گئی ہے ۔ بے شک ان کی کتب پر محنت کریں ۔ لیکن جو ان سے بڑے درجہ کے ائمہ متقدمین ہیں ۔ان پر محنت نہیں کرنا چاہیے ؟۔
امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار ، مسانید ، فقہ اکبر ، اور دوسری تصانیف ، صاحبین کی کتب ، کی بہت کم اردو عربی میں خدمت ہوئی ہے ۔
امام زفرؒ ، امام حسن بن زیاد ؒ ، کی فقہ اور مروی احادیث کتب میں بکھری ہوئی ہیں ۔ ان پر کام ہونا چاہیے۔
امام طحاویؒ کی معانی الآثار ابھی تک عربی میں کوئی اچھی تحقیق نہیں ہے ۔اردو میں بھی اس پر بہت کم کام ہوا ہے ۔اور ان کی دوسری کتب ۔ امام جصاصؒ کی احکام القرآن کی کوئی اچھی تحقیق موجود نہیں ہے ۔اور سینکڑوں ائمہ احناف کی کتب اور اتنے زیادہ مخطوطات تحقیق کے منتظر ہیں ۔اس پر ایک ضخیم کتاب لکھی جاسکتی ہے ۔