ایک صاحبِ دل کا سفرِ حج عاقلانہ نہیں عاشقانہ ___________عبدالعزیز
کوئی شخص مضمون نگارہو،تحریر اس کی شاہکار ہو، صحافی وفنکار ہو، دین اور دنیا سے یکساں طور پر واقف کار ہو، زبان وادب کا ماہر اور قلمکار ہو اگر وہ خانہ کعبہ اور آستانہ رسولؐ پر حاضری دیتا ہو، اپنا سفرنامہ قلم بند کرتا ہو تو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی تحریر کتنی دلکش اور کس قدر جاذب نظر ہوگی اور اس کی واردات قلبی کا کیا حال ہوگا۔ اس میں صرف زور قلم اور البیلے طرز کی تحریر نہیں ہوگی بلکہ صاحب دل مصنف کاغذکی سطح پر اپنے دل کے ہزار ٹکڑے پھیلادیئے ہوں گے کچھ اس طرح کہ کوئی فرد اگر اسے حج کیلئے سفر کرنے سے پہلے پڑھ لیتا ہے تو یقیناًتصورات وتجلیات کی دنیا میں ہی نہیں بلکہ ایک حد تک مشاہدات وتجربات کی دنیا اسے نظر آنے لگتی ہے۔ پھر جب وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اور اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ مکہ ومدینہ پہنچتا ہے تو سفرنامہ اس کے لئے معاون اور معلم کی طرح رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
یہ سفرنامہ ایک ایسے ہی صاحب دل اور صاحب طرز ادیب کا ہے جس کی تحریریں آج بھی زندہ ہیں اور منہ بولتی ہوئی تصویر یں ہیں ۔ راقم کی زائرین سے درخواست ہوگی کہ آپ اپنے مقدس سفر سے پہلے ضرور ایک نظر دیکھ لیں حج سے متعلق بہت کچھ معلوم ہوجائے گا ، دل میں بھی سوز گداز کی کیفیت پیدا ہوجائے گی ۔ہم جانتے ہیں کہ حج مجموعہ عبادات کا نام ہے مگر جب کہ لوگ روح عبادت سے روشناس ہوں۔ اس کتاب میں عبادت کی روح بھی خوبصورت اور دلنشیں الفاظ میں بیان کی گئی ہے۔ سفر کامیابی سے طے کرسکیں گے ، دل میں ہر وقت خدا کی یاد ہوگی اور زبان خدا وندقدوس کے ذکر سے تر رہے گی قدم قدم پر اللہ کی مہربانیوں اور کرم فرمائیوں کا مشاہدہ ہوتا رہے گا۔کتاب کی کچھ جھلکیاں پیش کرنے کی راقم السطور سعادت حاصل کرتا ہے ۔پوری کتاب سے جو فوائد حاصل ہونگے ظاہر ہے چند سطروں سے وہ فوائد حاصل نہیں ہوسکتے یہ سطریں ممکن ہے آپ کو کتاب کے اوراق تک پہنچانے میں معاون ومددگار ثابت ہوں۔ کوئی شخص مضمون نگارہو،تحریر اس کی شاہکار ہو، صحافی وفنکار ہو، دین اور دنیا سے یکساں طور پر واقف کار ہو، زبان وادب کا ماہر اور قلمکار ہو اگر وہ خانہ کعبہ اور آستانہ رسولؐ پر حاضری دیتا ہو، اپنا سفرنامہ قلم بند کرتا ہو تو آپ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی تحریر کتنی دلکش اور کس قدر جاذب نظر ہوگی اور اس کی واردات قلبی کا کیا حال ہوگا۔ اس میں صرف زور قلم اور البیلے طرز کی تحریر نہیں ہوگی بلکہ صاحب دل مصنف کاغذکی سطح پر اپنے دل کے ہزار ٹکڑے پھیلادیئے ہوں گے کچھ اس طرح کہ کوئی فرد اگر اسے حج کیلئے سفر کرنے سے پہلے پڑھ لیتا ہے تو یقیناًتصورات وتجلیات کی دنیا میں ہی نہیں بلکہ ایک حد تک مشاہدات وتجربات کی دنیا اسے نظر آنے لگتی ہے۔ پھر جب وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اور اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ مکہ ومدینہ پہنچتا ہے تو سفرنامہ اس کے لئے معاون اور معلم کی طرح رہنمائی کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
صاحب سفر نامہ نے کتاب کا جو مقصد بتایا ہے ملاحظہ فرمائیں :
’’کعبہ کی تجلیات وربوبیت آج بھی وہی ، مدینہ کے انوار رسالت آج بھی وہی، بندوں کے سروں میں سودائے عبدیت وہی، افراد امت کے دلوں میں ہوائے شوق وہی، کتاب اصلاً مجموعہ ٹھہری انہیں نقوش وتاثرات کا‘‘
مقصد سفر کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:
’’سفر سیروتفریح کے لئے نہ تھا۔تحصیل ’’علوم ‘‘و تکمیل’’فنون‘‘ کیلئے نہ تھا۔ علمی وادبی ’’تخلیقات‘‘ تاریخی واثری’’تفتیش‘‘ کے لئے نہ تھا۔ کشمیرو شملہ کا نہ تھا۔ لندن وپیرس ، آکسفورڈ وکیمبرج کا نہ تھا۔ ہاں وہاں کے لئے بھی نہ تھا جہاں گرج گرج کر تقریریں کی جاتی ہیں اور جھگڑ جھگڑکر رزولیوشن پاس ہوتے ہیں۔ سفر چلچلاتی ہوئی ریگ والی زمین کی طرف تھا۔ گرمی کے موسم میں اس آسمان کی چھت کے نیچے تھا جس کا آفتاب تمتمایا ہوا ہوتا ہے۔ ہوٹلوں اور پارکوں ، آبشاروں اور سبزہ زاروں کی طرف نہ تھا، خشک اور چٹیل میدانوں، بے آب وگیاہ ویرانوں اور آگ وخاک برسانے والے ریگستانوں کی جانب تھا۔ ایک گنہگار امتی، اپنے شفیع وشفیق آقا کے آستانے پر حاضر ہورہاتھا۔ بندے کی حاضری اپنے مولیٰ کے دربار میں۔ بھاگا ہوا غلام تھک ہار کر ، پچھتاکر اور شرما کر پھر اپنے مالک کی طرف رخ کررہاتھا۔‘‘
وقت سفر کی آواز بھی سنتے چلئے :
’’مولیٰ ہر بے کس کی لاج تیرے ہاتھ میں ہے! ہر مفلس کا آسرا تیرا ہی دست کرم ہے! بلایا ہے تو اپنے در سے محروم نہ واپس کرنا۔اپنے اس غضب سے پناہ میں رکھنا کہ اس آستان پاک تک پہنچ کر انوار صاحب خانہ کی نوازش سے یکسر محرومی رہے۔ نہ ہو کہ مکان پر حاضری کے بعد بھی لامکان والے مکین کی تجلیات قبول پذیرائی حجاب ہی میں رہیں۔ بیت کے ساتھ رب البیت کے انوار جمال کی بھی جھلک اپنے ظرف وبساط کے لائق نصیب ہو۔ مردوں کو جلانے والے مالک، مایوسوں کو خوش خبری دینے والے مولیٰ، بے کسوں کی دستگیری کرنے والے آقا! دلوں کے زخم پر مرہم رکھنے والے پروردگار ! تجھ سے بھاگا ہوا تیرا نافرمان غلام، تیرے اور تیرے حبیبؐ کے آستان پاک پر سر رکھنے کو حاضر ہورہاہے۔ دعاؤں کا قبول کرنا تیرے ہی ہاتھ ہے او دعاؤں کی توفیق دینا بھی تیرے ہی ہاتھ میں۔‘‘
صاحب سفر حجاز اپنی غفلتوں کا بھی ذکر کئے بغیر نہیں رہتے :
حج بیت اللہ چند شرائط کے جمع ہوجانے پر ہر مسلمان پر اسی طرح فرض عین ہے جس طرح ہر روز پانچ وقت کی نماز یہاں نماز ہی کا فریضہ کب خوش دلی اور اپنے شرائط کے ساتھ ادا ہوپاتا ہے جس میں نہ کچھ خرچ ہے اور کوئی خاص محنت، جو فریضہ حج کے نہ اداکرنے کا رونا رویا جائے۔ عمر کی گھڑیاں خاموشی اور تیزی کے ساتھ گزرتی رہیں۔ دن ہفتوں میں، ہفتے مہینوں میں، مہینے برسوں میں تبدیل ہوتے رہے اور اس فریضہ کی ادائی کا خیال تک نہ آیا۔ کلام مجید کی آیات میں اور رسول برحق کی احادیث میں خدا معلوم کتنی بار ادائے حج کی فرضیت اور تاکید نظر سے گزری اور عدم ادائے حج کی وعیدیں بار بار پڑھیں، پر قلب کی غفلتوں اور نفس کی شرارتوں اور ہوش وخرد کی ہرزہ کاریوں نے ہمیشہ مشورہ یہی دیا کہ یہ اوامر واحکام دوسروں ہی کے لئے ہیں۔ اپنے کو ان سے کیا تعلق اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ عمر کی کتنی بیش بہا فرصتیں اور زندگی کی کتنی جاکرنہ آنے والی مہلتیں،اسی غفلت ، اسی بے حسی اور اسی قساوت قلب کی نذر ہوگئیں۔
ہندستان کے طول وعرض میں بے شمار سفر، بہ ضرورت اور بلا ضرورت کر ڈالے لیکن جو ایک ہی جگہ سفر کرنے اور حاضری دینے کی تھی وہاں سر کے بل چلنا کجا، پیروں کے بل بھی جانا نصیب میں نہ آیا۔ بنگلوں اور کوٹھیوں ، حویلیوں اور ڈیوڑھیوں کے گرد چکر لگانے میں ایک عمر گذر گئی۔ پر وہ آستان پاک جو اس قابل تھا کہ اس کے گرد وطواف کرنے میں ساری عمر تمام کردی جاتی اور اس پر پروانہ وار اپنی جان نثار کردی جاتی، گردش تقدیر نے محروم رکھا تو اس کی جبیں سائی سے! ملک کے گوشہ گوشہ کی سیر کرڈالی،پر نہ تو فیق ہوئی تو ایک اس سرزمین کی زیارت سے مشرف ہونے کی جس کی سربلندی پر آسمان کو بھی رشک ہے۔ جہاں کھڑے ہوکر اللہ کے خلیل(علیہ الصلوۃ والسلام) نے اپنے رب کی توحید کی منادی کی تھی اور جس کی ریگ کے ذروں پر اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم ممکن ہے کہ آج تک ثبت رہ گئے ہوں۔
محرومیوں کی حکایت دراز، اور کوتہ سنجیوں کا سلسلہ طویل، لیکن رحمت باری بے حساب اور فضل خداوندی بیکراں ، بڑے بڑے مجرم اپنی سیہ کاریوں کی پوٹ کی پوٹ لے کر آئے اور بحرکرم کے ایک قطرہ نے سارے دفتروں کی سیاہیاں دم بھر میں سفیدی سے بدل دیں۔ روتے کانپتے آئے اور ہنستے کھلکھلاتے واپس گئے۔ اقلیم سخن تاجدار خسروِ نامدار نے اسی مضمون کو یوں ادا کیا ہے :
قطرۂ ز آب رحمت تو بس است
شستنِ نامۂ سیاہ ہمہ
اور ایک قصباتی کج مج زبان نے اپنی بولی میں یوں عرض کیا ہے:
سمجھے تھے سیہ کاری اپنی ہے فزوں حد سے
دیکھا تو کرم تیرا اس سے بھی سوا پایا
بالآخر، جس کی رحمت ابر کرم بن کر سوکھی کھیتوں کو آن کی آن میں سرسبز وشاداب کردیتی ہے اس کی مشیت اس کی متقاضی ہوئی کہ ایک محروم عمل، مردہ قلب کو اپنے حرم محترم کی حاضری وطواف اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آرام گاہ کی زیارت سے مشرف فرمادے۔ چنانچہ ارادہ ہوا، منصوبے بندھے اورزبان پہلی بار لبیک اللہم لبیک لاشریک لک لبیک کے تلفظ پر کھلی!ملکوتیوں کی سجدہ گاہ اور ایک سراپا عصیاں کی جبیں !ایاز قدر خود بشناش عقل اس خوش قسمتی پر دنگ خرد اس بوالعجبی پر حیران
ہے آرزو کہ ابروِ پر خم کو دیکھئے
اس حوصلہ کو دیکھئے اور ہم کو دیکھئے
لیکن ربوبیت کے عجائب بے شمار ہیں۔ اپنا نام رب العالمین ارشاد فرمایا ہے۔ رب الصالحین نہیں فرمایا۔ مرتبہ فلاح پر صرف اتقیاء وصالحین ، ابرار واخیار ہی نہیں پہونچائے جاتے ، ربوبیت کا تعلق اشرار وفجار سے بھی ہے۔ دستگیری صرف نیکوں ہی کی نہیں، بدوں اور بدتر سے بدتروں کی بھی ہوتی رہتی ہے۔ ہوائے بہار جب چلتی ہے تو چمن کے خوشبو دار پھولوں اور چراگاہ کی گھاس کی پتیوں دونوں کو مہکا دیتی ہے۔مولانائے محترم آداب سفر حج بھی بیان کرتے ہیں اور اپنے ہفتہ وار ’سچ‘ کے ناظرین سے اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کو معاف کرنے کی درخواست بھی کتنے واضح الفاظ میں کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں :
آداب سفر حج سے ہے کہ اس سفر کو سفرِ آخرت کا نمونہ سمجھے۔احرام کی چادروں کو کفن کی چادروں کا نمونہ تصور کرے۔ اور چلتے وقت اپنے تمام ملنے والوں اور اپنے سے تعلق رکھنے والوں سے اپنی خطاؤں کی معافی طلب کرے۔ ناظرین سچ تک فرداً فرداً پہنچنا ممکن نہیں۔ ان کے حقوق کی ادائی میں مدیر سچ کی جانب سے خدا معلوم کتنی غفلتیں اور کتنی کوتاہیاں اب تک ہوئی ہوں گی اور خدا معلوم کتنوں کی دل آزاریاں ان اوراق کے ذریعہ سے ہوچکی ہوں گی، سب کی خدمت میں بمنت ولجاجت گزارش ہے کہ اپنے اس خادم کی بڑی اور چھوٹی ، دانستہ اور نادانستہ ساری خطاؤں کو اللہ کے واسطے صدق دل سے معاف فرمائیں ۔ وہ جو حاکموں کا حاکم ہے، ان کی خطاؤں کو بھی معاف فرمائے گا۔ اس دربار کے سچے سفیر کی بشارتیں اور وعدے اس باب میں تصریحاً موجود ہیں۔
التماس عفو کے بعد دوسری گزارش سچ کی برادری سے یہ ہے کہ اس خادم کو دعائے خیر سے محروم نہ رکھا جائے اور زاہد وفاسق سب کی سننے والے کی بارگاہ میں بار بار عرض کیا جائے کہ اس گنہگارکو حج مبرور اور زیارت مقبول نصیب ہو۔حکم ملا ہے کہ توشۂ سفر کا سامان رکھو اور پھر خود ہی ارشاد ہوا ہے کہ بہترین توشہ سفر تقویٰ ہے۔ (وتزودفان خیرالزاد التقویٰ) یہاں تقویٰ کیساتقویٰ کا سایہ بھی نہیں پڑنے پایا سہارا جو کچھ ہے وہ کسی رؤف ورحیم کی رحمت بے حساب اور کرم بے انداز کا ہے۔ اور اس کے بعد اگر کسی توشہ کی طلب وہوس ہے تو وہ اہل دل کی دعائیں ہیں۔ زہے نصیب اس کے جس کے نصیب میں یہ توشہ آجائے۔
شان کریمی کے حوصلے دیکھنا، کیسے نامہ سیاہ کو نوازا جارہاہے۔ کس ننگ خلائق کو سرفراز کیا جارہاہے، شاعر نے صدیوں پیشتر اپنے تخیل کی رو میں کہا تھا۔
بطوافِ کعبہ رفتم بہ حرم رہم نہ دادند
تو برونِ در چہ کر د ی کہ درونِ خانہ آئی
لگ بھگ ایک صدی پہلے کا حج
یہ حضرت مولاناعبدالماجددریاآ بادیؒ نے ۱۹۲۹ء میں حجاز کا سفر مبارک کیا۔ سفر کے بعد اپنے ہفتہ وار ’سچ ‘ لکھنؤ میں قسط وار شائع کیا۔ جسے بڑی دلچسپی سے پورے ہندستان میں پڑھا جاتا رہا۔ اس وقت سفر کی صعوبتوں کا کیا حال تھا اور بمبئی جیسے شہر میں دو دو ہفتے پانی والے جہاز کا کس طرح انتظار پر انتظار کیا جاتا تاریخوں پر تاریخیں کیسے تبدیل ہوتیں اور پانی والے جہاز میں کتنا مشقت بھرا سفر ہوتا ۔ سفرنامہ میں پڑھنے کے لائق ہے۔اس وقت کی بمبئی بھی کیسی تھی اس کی بھی مولانائے محترم نے تصویر کشی کی ہے۔حاجیوں سے لوگوں کو کس قدر والہانہ الفت محبت تھی اس کا بھی ذکر ہے۔ جہاز کے زائرین حرم کی خود غرضیوں کی بھی جھلک ہے۔اس وقت مکہ کی سڑکیں خستہ حال تھیں، اونٹ، گدھے اور خچر کی سواریوں پر لوگ سفر کرتے تھے ۔ شوروغل کا بھی سماں رہتا تھا۔اکا دکا کاریں سڑکوں پر کہیں کہیں نظر آتی تھیں۔راقم کو۲۰۰۴ء میں سفر حج نصیب ہوا۔ ۱۹۲۹ء اور ۲۰۰۴ء کے درمیان بلکہ اب زمین آسمان کا فرق ہے۔ شاہراہیں کشادہ اور پختہ ۔ صفائی ستھرائی میں بے مثال گاڑیوں کا وہی سیلاب جو دنیا کے بڑے اور خوبصورت شہروں میں نظر آتا ہے۔فلک بوس عمارتیں، فائیو اسٹار ہوٹلس بھی بڑی تعداد میں دکھائی دیتے ہیں۔ قاضی غلام محمدقادرصاحب جو مکہ میں رہتے ہیں فرماتے ہیں کہ ہر سال تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ دوچار سال بعد جانے والوں کو بھی زبردست تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔
حج کا پیغام
مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے سفر حج کی آپ بیتی سے دوسروں کو کیا ملے گا کے جواب میں لکھا ہے کہ ’’ہاں ایک پیام ملا، سچ کے ہر پڑھنے والے کیلئے، ہر مرد کیلئے ، ہر عورت کے لئے، ہر چھوٹے کیلئے، ہر بڑے کیلئے، ایک پیام ہے اور وہ ایک ہی پیام ہے جو مسجد حرام سے، خانہ کعبہ سے، مسجد نبویؐ سے، حجرہ مطہرہ سے، محراب شریف سے، منبر مبارک سے، منی کی قربان گاہ سے ، عرفات کے میدان سے، زمزم کے قطروں سے، خاک حرم کے ذروں سے ، سب کو ایک ہی پیام ملا اور وہ پیام ہے کونوانصار اللہ(کون ہے دین کے معاملے میں اللہ کا مددگار؟) وہ پیام دین کی نصرت کا ہے۔ ملائکہ رحمت نصرت دین کے مظاہروں کے اشتیاق میں ہیں خواہ وہ معرکہ بدر کی صورت میں ہوں یا واقعہ کربلا کی شکل میں! خدائے پاک نصرت دین کی توفیق سچ پڑھنے والوں اور سارے مسلمانوں کو مرحمت فرمائے۔‘‘
کاش! کونو انصاراللہ کے جواب میں سارے حاجی واپسی پر یہ کہیں نحن انصاراللہ (ہم ہیں اللہ کے مددگار)۔ دین کے لئے سب کچھ کر گزرنے کا عزم کریں اس پر کھرے اورپورے اتریں اور حق کا چراغ روشن کرتے ہوئے دنیائے فانی سے رخصت ہوں۔یہی حج کا پیغام ہے۔ یہی حج کا پیام ہے۔ عبادت اسی کو کہتے ہیں اطاعت اسی کا نام ہے۔