کاروانِ وقت اور شب معراج

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
[align=center]کاروانِ وقت اور شب معراج​

جو ازل سے بھی ہے رواں دواں نہ قرار نہ قیام ہے
وہی یعنی وقت کا کاروں جسے اپنے کا م سے کام ہے

نہ کسی کے سامنے وہ جھکے نہ کسی کے واسطے وہ رُکے
نہ کسی کا وہ کبھی منتظرنہ کسی کی راہ کبھی تکے

جو ہے ساتھ اس کو وہ لے جھکے رہے پیچھےجو اسے چھوڑ دے
ہے وہ کا میاب وکامراں جو ہمیشہ وقت کا ساتھ دے

یہی وقت سب پے ہے حکمراں ہے اسی کے زیر نگیں جہاں
نہ کر ےکسی کا لحاظ یہ نہ کبھی کسی پہ ہو مہرباں

اسے بس گزرنے کام ہے یہی کرتا ہے صبح کو شام ہے
ہے خلافِ شان اسی ٹہرنا ذرا رکنا اس کو حرام ہے

مگر اک دفعہ وہ ٹھر گیا وہ کسی کے واسطے رُک گیا
وہ نبی کی عصمتِ ذات تھی کہ وہ ان کے سامنے جھک گیا

کہ وہ رات تھے معراج کی وہ عروجِ شانِ حبیب تھی
وہ بلائے اپنے قریں انہیں یہ رضائے رب مجیب تھی

چلے فرش سے گئے عرش پر گئے عرش سے سوئے لا مکاں
گئے لا مکاں سے ورے جہاں نہ کوئی مکاں تھا نہ تھا زماں

وہ جلالتوں کا تھا مستقر جہاں ذاتِ احد تھی جلوہ گر
وہ پہنچے جو شہ بہرور تو تھا حال ِما زاغ البصر

ہوئے رب کے دید سے مستفیض ولقائے حق بھی ہوا نصیب
بڑے کرو فر سے نکل کر پھر سوئے فرش آگئے وہ حبیب

تو تھا گرم آپ کا بستر جو گئے تھے اٹھ کے مرے نبی
تھا وضو کا پانی بھی بہہ رہا کڑی در کی وہ بھی تھی ہل رہی

تو خدا کے اذن سے دیکھئے جو رُ کا تھا وقت وہ چل پڑا
ابھی چل رہا ہے چلے گا اور یہ کارواں ہے بہت بڑا

منیر احمد جامی[/align][size=x-large]
[/size]
 
Top