مایوس کن حالات میں حضرت صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ علیہ کے چند اشعار

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
[size=x-large]حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی رحمۃ اللہ برصغیر میں محتاج تعارف نہیںجو لوگ قاری صاحب کا دیدار کرتے وہ بے ساختہ کہنے پر مجبور ہو جاتے . جنید وشبلی کے قافلے کا یہ پچھڑا ہوا مسافر ہے.

تمنا ہے کہ اب کوئی جگہ ایسی کہیں ہو تی
اکیلے بیٹھے ہو تے یاد ان کی دلنشیں ہو تی

نشیمن اب تلک جنگل میں اپنا ہو گیا ہوتا
شریعت کی اجازت گر مجھے حاصل کہیں ہو تی

وطن میں آکے رہنے کی میری بس ایک خواہش تھی
جہالت دور ہوتی اور کچھ حالت درست ہوتی

مگر دو سال کا عرصہ ہوا اس سعی وکوشش میں
کہ کوئی ہو جائے مگر صورت نہیں ہوتی

بہت وعدے کئے لوگوں نے مجھ سے ہر جگہ لیکن
نہیں پو رے کئے اب تک توقع بھی نہیں ہو تے

مسلمانوں کی بستی میں مکاتب تک نہیں قائم
مساجد گر کہیں ہیں بھی اذان ان میں نہیں ہوتی

نماز وروزہ وحج وزکوٰۃ وصدقہ واجب
کوئی واقف بھی ان سے تو پا بندی نہیں ہو تی

مساکین ویتا میٰ پر بہت ہی ظلم کرتے ہیں
حقوق ان کے نہیں دیتے نہ شنوائی کہیں ہو تی

بس دنیا ہی دنیا ہے دلوں میں یہاں کے لوگوں کے
ہمیشہ دھن اسی کی ہے مکاں ہوتا زمیں ہوتی

نہ صورت ان کی اسلامی نہ سیرت ان کی اسلامی
نصیحت ناصحوں کی بھی نہیں کچھ کار گر ہوتی

کہیں موجود بھی ہیں صورتیں گر دینداروں کی
وہ بیشک کام کی ہوتیں اگر کچھ روح بھی ہوتی

ہزاروں روپیہ شادی میں بے جا خرچ کرتے ہیں
خدا کے نام پر پیسہ تو کیا پائی نہیں ہوتی

نہیں ان کو خبر کہ اک دن ایسا بھی آئیگا
بڑی حسرت وہاں ہوگی دوبارہ زندگی ہوتی

نہ ہوتاخرچ مجھ پرگر میری ماں اور بیوی کا
زمیں اس راہ میں میری کبھی کی بک چکی ہوتی

میں ہوں جس خاندان کا اگر وہ میرا ساتھ دیدیتے
خوشا مد غیر کی کرنے میں کیوں ذلت مجھے ہوتی

خدا کا کوئی بندہ بھی نہیں ایسا نظر آتا
شریک درد ہو جاتا تو کچھ دل بستگی ہوتی

شکایت غیر کی کیوں کر رہا ہے اس سے کیا حاصل
تمنا کیوں نہ بر آتی اگر نیت درست ہوتی

نمونہ انبیاء کا بن سلف سے کر سبق حاصل
کہ منزل سخت ہوتی ہے نہیں جب روشنی ہوتی

خدا وندا توئی اب غیب سے سامان پیدا کر
نہیں ثاقب کی اب کو شش کہیں بھی کار گر ہوتی



[/size]
 
Top