از حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی ، جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآبا
[/align]
رمضان المبارک کی آمد قریب ہےمساجد میں حفاظ کی تعیناتی کا عمل جاری ہے ۔بہت سے حفاظ رمضان کے مہینہ کو اپنے لئے سال بھر کی آمدنی کا موسم سمجھتے ہیں ،اور باقاعدہ رقومات طے کر کے قرآن کریم سنانے کا معاہدہ کیا جاتا ہے ۔حالانکہ یہ طریقہ شریعت کی رو سے قطعاً جائز نہیں ہے ۔اس پر سخت نکیر کر نے کی ضرورت ہے ،تاکہ قرآن کریم کو نفس تلاوت کی کمائی کا ذریعہ بنا نے پر روک لگائی جا سکے ۔ بعض حضرات دا نستہ یا نا دانستہ طور پر اس معاملہ کو جائز قرار دینے کی کو شش کرتے ہیں ،اور اس کے لئے طرح طرح کی تا ویلات کا سہارا لیتے ہیں ، ضرورت ہے کہ ان تا ویلات کی کمزوری کو اجاگر کیا جائے ، تاکہ ناواقف حضرات کسی دھوکہ میں نہ رہیں حسنِ اتفاق کہ اس مسئلہ سے متعلق دارا لافتاء مدرسہ شاہی میں ایک استفتاء آیا جس میں مستفتی نے بنگلا دیش کےایک مفتی صاحب کے جواز کے فتویٰ کو پیش کر کے اس پر دارالافتاء کی رائے مانگی تھی ،چنانچہ مفتی جامعہ حضرت مولانا مفتی شبیر احمد صاحب نے اس کا مفصل جائزہ لیا ،اور قرآن وسنت وفقہ کی روشنی میں عدمِ جواز کے دلائل کو منقح کر کے پیش فرمایا ۔اور اس بارے میں حضرات اکابرکی آرا کاخلاصہ بھی جمع فر مادیا جس سے منصف واہلِ علم حضرات یقیناً اطمینان حاصل کر سکیں گے .
اجرت ختم قرآن سے متعلق ایک اہم فتویٰ
حضرت مفتی صاحب الجامعۃ الاسلامیہ دارلعلوم خولنا بنگلادیش ، دامت بر کاتہم ۔ بعد سلام مسنون گزارش ہے کہ ہم لوگ رمضان شریف میں ختم تراویح پڑھ کر حافظ صاحب کو پیسہ دیا کرتے ہیں ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ پیسہ دینا جائز ہے یا نہیں ۔اور جائز نہ ہو تو کوئی ایسی صورت ہے کہ جس کی وجہ سے جائز ہو ،دلیل کے ساتھ جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فر مائیں ۔
العارض حافظ محمد قطب الدین محمود نوا پا ڑہ متعلم کڑیا مدرسہ خولنا ، بنگلا دیش۔
الجواب بیدہ ازمۃ التحقیق: رمضان کے مہینہ میں ختم تراویح پڑھ کر اجرت دینا جائز ہے ،چاہے وہ امام حافظ ہو یا قاری ، تھوڑا پڑھا ہو یا پورا ختم پڑھا ہو۔ کیونکہ رمضان کے مہینہ کی تراویح میں قرآن پاک کو ختم کرنا سنتِ مؤکدہ ہے ۔اور تراویح خاص طور سے ختم قرآن ہی کے لئے ہے جیسا کہ تراویح نماز کی جماعت سنتِ مؤکدہ یعنی واجب کے قریب قریب ہے۔ویسا ہی پانچ وقت کی نماز کیلئے اذان دینا وامامت کرنا سنتِ مؤکدہ ہے تو اس کے لئے اجرت لینے میں جیسے کوئی منع نہیں ہے اسی طرح تراویح کی نماز میں اجرت لینے میں کوئی منع اور رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ دونوں ہی ضروریات دین میں شامل ہیں ،اور تراویح نماز میں ختم قرآن کرنا صرف تلاوت مجردہ نہیں ہے ۔اس کے متعلق مندرجہ ذیل اقوال علماء متاخرین کے یہ ہیں ۔ مسلمانوں پر جس عبادت کو فرض کیا گیا ہے اس عبادت پر اجرت لینا جائز نہیں ہے یہ متقدمین کا فتویٰ ہے ۔ کیونکہ متقدمین حضرات کے زمانہ میں معلم اور استاذ قرآن وحدیث کو نیکی سمجھ کر تعلیم دیا کرتے تھے ۔اور طلبہ ومتعلمین حضرات ان لوگوں کے احسان کا بدلہ احسان ہی کے ذریعہ دیا کرتے تھے ۔اور ان دونوں فر یق یعنی استاذ اور شاگرد کے درمیان کوئی شرط نہیں ہوتی تھی ۔ بعد میں یہ حالت پیش آئی کہ مذکورہ چیز امت سے رخصت ہو نے لگی ، جس کی وجہ سے نہ اس قسم کے استاذ ملتے ہیں نہ اس قسم کے طلبہ کہ بلا اجرت دین کا کا م کریں ۔اسی وجہ سے متأخرین میں سے بعض حضرات نے عبادت مؤکدہ پر اجرت لینے کی اجازت کو اچھا سمجھا اور اس پر فتویٰ دیا۔
صاحبِ ہدایہ شیخ الاسلام بر ہان الدین مر غینانیؒ نے لکھا ہے ۔ ولا الاستیجار علی الازان والحج وکذ االامامۃ وتعلیم القرآن والفقہ (وبین السطور ھذا علی رأی المتقدمین ) لقولہ علیہ السلام اقرؤٔ القرآن ولاتا کلوا بہ وفی اٰخرما عھد رسو ل اللہ علیہ السلام الیٰ عثمان بن ابی العاص وان اتّخذت مؤذنا فلا تاخذ علی الاذان اجراً وبعض مشائخنا ( وبین السطور مشائخ بلخ ) استحسنو االاستیجار علی تعلیم القرآن الیوم لانہ ظھر التوانی فی امور الدینیہ ففی الامتنا ع یضیع حفظ القرآن وفی االحاشیہ علی الامتناع شان المتقدمین من اصحابنا بنوا جوابھم علی ما شاھدو فی عصرھم من رغبۃ الناس فی التعلیم بطریق الحسبۃ ومروۃ المتعلمین فی مجا زاۃ الاحسان با لاحسان من غیر شرط واما فی زماننا ھٰذ العدم المعلمین جمیعاً ۔( ہدیہ ۔۳ا۔ ۲۸۷)
عمدۃ المتأخرین علامہ ابن عابدین نقل فر ماتے ہیں ۔ولا لاجل الطاعات مثل الاذان والحج والامامۃ وتعلیم القرآن والفقہ ویفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن والفقہ والامامۃ والاذان ۔( الدر المختار ۔۶ج۔ص ۵۵)ان قولوں سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اس زمانے میں امامت واذان اور تعلیم قرآن ودیگر اجرت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
رمضان شریف میں نمازِ تراویح کی امامت دوسری نماز کی امامت سے الگ کوئی نماز نہیں ہے ۔دلیل ۱) الاذان سنۃ (وبین السطور مؤکدۃ ) ہدایہ۔ج ۱۔ص ۸۷) (۲) الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ لقول علیہ السلام الجماعۃ من سنن الھدیٰ ۔ الہدایہ ۔۱ج۔ص۱۲۱ (۳)الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ ای تشبیہ الواجب فی القوۃ الکفایۃ۔ج ۱"""۔ص ۲۹۹)(۴) لان المؤکدہ فی حکمالواجب فی لحوق الاثم با لترک (رد المحتار ۔۱ص ۸۴)(۵) والسنۃ فیھا ( فی ترویحہ ) الجماعۃ (ہدایہ ج۱ص ۱۵۱) (۶) واکثر المشائخ علیٰ ان السنۃ فیھا الختم مرۃ فلا یترک لکسل القوم وفی الحاشیۃ والختم مرۃ سنۃ مؤکدۃ (ہدایہ ج ۱ص ۱۵۱ )تراویح ختمِ قرآن کے لئے ہے ۔عمدۃ المتأخرین علامہ ابن عابدین نقل فر ماتے ہیں ۔ثم اذا ختم قبل اٰ خر الشھر قیل لا یکون لہ تر ک التراویح فیما بقی لانھا شرعۃ لاجل ختم القرآن مرۃ قال ابو علی النسفی وقیل یصلیھا ویقرأ فیھا ما شاء ذکرہ فی الذخیرۃ ( الدر المختار ج۲ص ۴۷)
غلط فہمی کا ازالہ : تلاوتِ مجردہ اور ایصال ثواب پر تراویح کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔ کیونکہ تراویح کی نماز میں ختم قرآن ہوتا ہے اور تراویح کی نماز دوسری نماز کی طرح ہے ۔ رکوع، سجدہ اور ارکان کے اعتبار سے جسمیں کوئی کمی نہیں کی جاتی اس کے باوجود اس کو کس طرح تلاوت مجردہ پرقیاس کیا جاتا ہے اسی وجہ سے تلاوت مجردہ کی طرح اجرت لینے کو نا جائز کہنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ کیونکہ تلاوۃِ مجردہ کے معنیٰ صرف تلاوت کر کے اس کا ثواب پہنچانا اجرت لے کر جو تراویح کے ساتھ کسی قسم کی مشابہت نہیں رکھتی ، بلکہ پانچ وقت کی نماز ، جمعہ اور عیدین کی نماز پڑھانے والے امام کو ضروریات دین کے خاطر اگر اجرت دینا جائز ہے تو تراویح کی نماز پرھانے والے امام کو اجرت دینا کس طرح نا جائز ہو سکتا ہے ؟ ۔ نماز تراویح سنت مؤکدہ اور ختم قرآن بھی سنت مؤکدہ ہے اگر حافظ کو اجرت نہ دی جائے تو وہ قرآن بھول جائیگا اور صرف تراویح کے لئے کوئی حافظ نہیں ملے گا اگر مل بھی جائے تو عدد کے اعتبار سے بہت ہی کم ۔ اب ہر جگہ میں حافظ کو اجرت دی جارہی ہے تو اسکے عموم بلویٰ ۔الضرورات تبیح المحضورات ،اصول کے تحت ضروریات ِ دین کی خاطر وقتیہ نماز کی طرح تراویح پرھانے والے حافظ کو بھی اجرت دینا جائز ہے ۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم واحکم
[align=center] غلام الرحمن ۔خادم دار الافتا ء دارالعلم مدرسہ خولنا ، بنگلہ دیش۲۔۸۔ ۱۴۲۴ھ
مذکورہ فتویٰ سے متعلق دارالعلوم دیوبند کے ایک طالبعلم کا استفتاء
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بخدمت مفتیان کرام دار الافتا ء جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بعد سلامسنون گزارش ہے کہ مذکورہ فتویٰ کے بارے میں آپ حضرات کی کیا رائے ہے ۔اگر یہ مسئلہ صحیح ہے تو تائید فر مائیں ،اور اگر غلط ہے تو مدلل ومفصل تحریر فر ماکر شکریہ کا موقع عنایت فر ما ئیں ۔عین نوازش ہو گی ۔فقط والسلام العارض مصطفیٰ کمال بنگلہ دیشی ۔متعلم دار العلوم دیو بند۔
اجرتِ تراویح کے عدمِ جواز پر دار الافتاء جامعہ قاسمیہ مرادآباد کی طرف سےایک جامع اور مفصل فتویٰ
برادرعزیز جناب مولوی مصطفیٰ کمال صاحب متعلم دارالعلوم دیوبند!آں عزیز نے ختمِ قرآن کے اُجرت کے جواز پر جناب مفتی غلام رحمٰن صاحب کا مفصل فتویٰ روانہ فر مایا ہے۔اس فتویٰ کو بار بار پڑھا گیا اور اس کے با المقابل حضرات فقہاء کرام اور اکابر اہل فتاویٰ کی عبارات اور ان کی آرا پر بھی بار بار نظرڈالی گئی اور آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ مذکورہ فتویٰ فقہاء عظام اکابر اہل فتاویٰ اور جمہور امت کے خلاف ہے اور جتنے قیاس واستدلال سے کام لیا ہے وہ بھی در حقیقت بر محل نہیں ہے ۔اسلئے مذکورہ فتویٰ صحت پر محمول نہیں ہے ۔اور نہ ہی تراویح میں قرآن سنا کر اُجرت لینا جائز اور درست ہے ،لینے والے اور دینے والے دونوں گنہگار ہوں گے۔مذکورہ فتویٰ سے متعلق چند مخصو ص مُسامحت کی نشاندھی کی جاتی ہے۔(۱) مذکورہ فتویٰ میں تراویح کے ختمِ قرآن کو تعلیم پر قیاس کیا گیا ہے ۔یہ قیاس درست نہیں کیونکہ ختمِ قرآن ایک مستقل چیز ہے اور تعلیم قرآن اس سے الگ دوسری چیز۔اس لئے کہ تراویح میں قرآن پڑھنے اور استاذ وشاگرد کے درمیان تعلیم دینے میں بڑا فرق بہت بڑا فرق ہے ،کیونکہ تعلیم قرآن میں سیکھنا سکھانا مقصود ہوتا ہے۔ایک ایک آیت کو بار بار پڑھ کر اور پڑھا کر استاذ کی طرف سے شاگرد کو سکھانے اور یاد کرانے میں محنت ہوتی ہے اور تراویح میں قرآن پڑھنے والے اور سننے والے کے درمیان یہ محنت اور سیکھنا اور سکھانا لازم نہیں آتا ۔ بلکہ وہ محض تلاوتِ مجردہ کے مشابہ ومرادف اور اسی کے حکم میں ہے ۔ ثم استثنوا تعلیم القراٰن من الطاعات وبعضھم استثنیٰ ایضاً تعلیم الفقہ والامامۃ والاذان والاقامۃ کما علمت ذٰلک مما نقلناہ عن المتون وغیرھا وھٰذا من اقویٰ الا دلۃ علیٰ ما قلنا من ان ما افتوا بہٖ لیس عاما فی کل طاعۃ بل ھو خاص بما نصوا علیہ مما وجد فیہ علۃالضرورۃ والاحتیاج (رسائل ابن عابدین ۱ / ۱۶۳)
(۲) فاضل مفتی صاحب نے تراویح میں قرآن سننا نے کو عام نمازوں کی امامت کے مشابہ قرار دینے میں بڑی عرق ریزی سے کام لیا ہے ،اور ساتھ میں حضرات،فقہا اور اکابر اہل فتاویٰ کی رائے پر بڑے زوردار الفاظ سے رد فر مایا ہے ،کہ تلات مجردہ اور ایصال ثواب پر تراویح کا قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے، اس میں فاضل مفتی صاحب کو سخت مسامحت ہوئی ہے انہوں نے استدلال کرتے وقت محض تراویح کا لفظ استعما کیا ہے ۔تراویح میں ختم قرآن کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن سیاق وسباق اور مفتی صاحب کا مقصد اس عبارت سے یہی ہے کہ تراویح میں قرآن سنانے کو تلاوت مجردہ پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے ۔فاضل مفتی صاحب کو اس تردید میں مسامحت اس لئے ہوئی ہے کہ انہوں نے نماز تراویح اور ختم قرآن کو ایک ہی کر دیا ہے اور دونوں چیزوں کو ایک دوسرے سے جزو لا ینفک بنا دیا ہے ۔ جیسا کہ انہوں نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ تراویح پڑھنے کی بنیاد قرآن سنا نا ہے ۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر غیر حافظ عالمِ دین تراویح کی نماز میں امامت کرے گا تو کیا تراویح کی نماز صحیح نہ ہوگی؟
میرے خیال میں تو فاضل مفتی صاحب تو ضرور جواب دیں گےکہ تراویح کی نماز صحیح ہو جائیگی ۔تو پھر تراویح میں ختم قرآن لازم کہاں سے آیا ۔بلکہ بعض دفعہ لوگوں پر شاق گزرنے کی صورت میں بغیر ختم کے مختصر صورتوں سے قرآن پڑھنا زیادہ افضل ہے ۔ جیسا کہ فقہاء کی حسب ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہتے۔وقیل من سورۃالفیل الیٰ الاٰ خر مرتین وھو الاحسن عند اکثر المشائخ وفی اکثر المعتبرات الافضل فی زماننا ان یقرأ بما لایؤدی الیٰ تنفیر القوم عن الجماعۃ لان تکثیر الجماعۃ افضل من تطویل القراءۃ وبہ یفتیٰ (مجمع الانھرجدیدبیروت۱/ ۲۰۳)
در حقیقت صحیح بات یہی ہے کہ دو سنتیں الگ الگ ہیں ۔جیسا کہ موصوف نے بھی اپنی تحریر کے اخیر میں اقرار کیا ہے ۔
(۱) نفس تراویح کی نماز جو مختصر سے مختصر سورتوں کے ذریعہ بھی پوری ہو جاتی ہے ۔جیسا کہ جن مساجد میں ختم قرآن نہیں ہوتا ہے ان میں سے اکثر مساجد میں الم تر کیف سے تراویح کی نماز ہوتی ہے ،اس سے بھی تراویح کی سنت مکمل طریقہ ادا ہو جاتی ہے جیسا کہ فقہاء کی عبارت ذیل سے یہ بات صاف واضح ہو جاتی ہے لو قرأ ثلاثا ً قصاراً او اٰیۃً طویلۃً فی الفرض فقد احسن ولم یسئ فما ظنک با التراویح وفی فضا ئل رمضان للزاھد ،افتیٰ ابو الفضل الکرمانی والو بری انہ اذا قرأ فی التراویح الفاتحہ واٰیۃ او اٰیتین لا یکرہ ومن لم یکن عالما باھل زمانہ فھو جاہل ۔۰الدر المختار مع الشامی زکریا ۲/ ۴۹۸ ) والمتأخرون کانو ا یفتون فی زماننا بثلاث اٰ یات قصار او ایۃ طویلۃ حتیٰ لا یمل القوم ولا یلزم تعطیلہا (شامی زکریا ۲ / ۴۹۸)وفی التجنیس واختار بعضھم سورۃ الاخلاص فی کل رکعۃ وبعضھم سورۃ الفیل ای البداءۃ منھا ثم یعیدھا وھذا احسن لئلا یشتغل قلبہ بعدد الرکعات قال فی الحلیۃ ،وعلیٰ ھذااستقر عمل ائمۃ اکثر المساجد فی دیارنا (شامی زکریا ۲ / ۴۹۸) ای البداءۃ منھا الیٰ اٰخرہ ای ا لیٰ اٰ خر القراٰن فی عشر رکعات ثم یعید من سورۃ الفیل الیٰ الاخر فی العشر الثانی ۔ (تقریرات رافعی ۹۴ مع الشامی زکریا ج۲ص ۴۹۸)
تراویح میں سہولت سے ہو سکے تو قرآن کو ختم کیا جائے ۔اس میں تفصیل یہ ہے کہ اگر آسانی سے ہو سکے تین ختم کرے یہ بھی نہ ہو سکے تو ایک ختم کرے اور اگر ایک ختم بھی لوگوں پر شاق گزرے پھر قرآن ختم نہ کرے بلکہ مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح کی نماز پڑھ لی جا ئے جیسا کہ حسب ذیل فقہی عبارت سے واضح ہو تا ہے ؕ والختم مرۃ سنۃ ومرتین فضیلۃ وثلاثا افضل ولا یترک الختم لکسل القوم لٰکن فی الاختیار الافضل فی زماننا قد ر ما لا یثقل علیھم ۔(الدر المختار مع الشامی زکریا ۲ /۴۹۷)
اب ان عبارتوں سے صاف واضح ہو گیا کہ تراویح اور ختم قرآن دونوں الگ الگ دو چیزیں ہیں ۔ تراویح کی سنت عمومی سنت مؤکدہ ہے ۔عالم ،حافظ ،عامۃ المسلمین سب کے لئے نفس تراویح جو مایجوز بہ الصلوٰۃ قراءت کے ذریعہ پوری ہو سکتی ہے سنت مؤکدہ ہے ۔ جیسا کہ دنیا کی لاکھوں مساجد میں مختصر قرأت اور الم تر کیف سے تراویح کی نماز ہو رہی ہے اور لوگ اسی تراویح کی سنت کا ثواب حاصل کرہے ہیں ۔اور تراویح میں قرآن ختم کر نے کی سنت بالکل الگ دوسری چیز ہے ۔اور یہ سنت عمومی اور آفاقی نہیں ہے بلکہ خصوصی اور جزوی ہے اور وہ بھی بشرطیکہ گنجائش اور بشرطِ سہولت ہے ،اس سنت کو حاصل کر نے کے لئے ناجائز اور حرام طریقہ یعنی اُجرت دے کر قرآن سننا اور اُجرت لیکر قرآن سنانا کس طرح جائز ہو سکتا ہے ؟ جو کہ نہ تراویح کی جزو حقیقی ہے ،اور نہ ہی تراویح کیلئے لازم ہے جیسا کہ فقہا کی اس قسم کی عبارت واضح ہوتا ہے ۔ویمنع القاری للدنیا والاٰخذ والمعطی اٰثمان ،فا لحاصل ان ماشاع فی زماننا من قراءۃ الاجزاء با لا جرۃ لا یجوز ،لان فیہ الامر با لقراءۃ واعطاء الثواب للا ٰمر والقراءۃ لِاجل المال فاذا لم یکن للقاری ثواب لعدم النیۃ الصحیحۃفاین یصل الثواب الی المستاجر ولو لا الاجرۃ ماقرأ احد لاحد فی ھذ الزمان ، بل جعلوا القراٰن العظیم مکسبا ووسیلۃ الیٰ جمع الدنیا انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ( شامی زکریا۹/ ۷۷ شامی کراچی ۶ / ۵۶)۔
(۳) فاضل مفتی صاحب نے علامہ شامی ؒ کے ایک غیر مفتیٰ بہ اور کمزور قول کو نقل کرکے دعویٰ کیا ہےکہ تراویح ختم قرآن ہی کیلئے ہے یعنی تراویح کا مقصد ہی ختم قرآن کرنا ہے ۔ نفس تراویح مقصد نہیں ہے لہذا اگر پانچ دن میں دس دن میں قرآن ختم ہو جائے تو آئندہ دوسرے تیسرے عشرہ میں اگر تراویح نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ یہ فقہاء کے اقوال میں نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار قول ہے ۔مفتی کیلئے معتبر اور مفتیٰ بہ قول کی موجودگی میں غیر مفتیٰ بہ اور کمزور وضعیف قول پر فتویٰ جاری کرنا ممنوع ہے ۔اس مسئلہ میں مفتیٰ بہ اور معتبر قول یہی ہےکہ تراویح صرف ختم قرآن ہی کیلئے نہیں ہے ، بلکہ یہ مستقل سنت ہے جو ماہ رمضان کے شروع سے آخر تک مسلسل جاری رہتی ہے ۔ لہذا جن مساجد میں قرآ ن ختم ہو جاتا تو بقیہ ایام آخیر تک مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح کا سلسلہ جاری رکھنا مسنون اور افضل ہے اسی طرح جن مساجد میں ختم قرآن نہیں ہوتا اور مختصر قراءت سے نماز تراویح پڑھی جاتی ہے ان میں بھی پورا رمضان بغیر ختم قرآن کے نماز تراویح پرھنا سنت مؤکدہ ہے ۔اسی پر فقہا کا فتویٰ ہے جیسا کہ حسبِ ذیل عبارات فقہیہ سے واضح ہوتا ہے ۔
لو حصل الختم لیلۃ التاسع عشر اوالحادی والعشرین لاتترک التراویح فی بقیۃ الشھر لانھا سنۃ مؤکدۃ کذا فی الجواہر النیرۃ الا صح انہ یکرہ لہ الترک کذا فی السراج الوھاج ( ہندیہ۱/ ۱۱۸ )ولو ختم التراویح فی لیلۃ ثم لم یصل التراویح جاز بلا کراھۃ ما شرعت التراویح الا للقراءۃ وقیل الا فضل ان یقر أ فیھا مقدار ما یقرأ فی المغرب وقیل اٰیتین متو سطین ،وقیل اٰیۃ طویلۃ او ثلاث اٰیات قصار وھزا احسن وبھذا افتی المتأخرون (مجع الانھر الجدید بیروت۱/ ۲۰۴۹ وقیل من سورۃ الفیل الیٰ الآخر مرتین وھو الاحسن عند اکثر المشائخ وفی اکثر المعتبرات الافضل فی زماننا ان یقر أ بما لا یؤدی الیٰ تنفیر القوم عن الجماعۃ لان تکثیر الجماعۃ افضل من تطویل القروأۃ وبہ یفتی (مجمع الانھر الجدید بیروت ۱ /۲۴۰ )واما لذی سنن الصحابۃ فصلوٰۃ التراویح فی لیا لی رمضان ،وقولہ اما صفتھا فی سنۃ کذا روی الحسن عن ابی حنیفہ انہ قال: القیام فی شھر رمضان سنۃ لا ینبغی تر کھا ۔( بدائع الصنا ئع زکریا۱ / ۲۴۴)
(۴) ٘مذکور فتویٰ میں بھی ختم قرآن پر اُجرت کے جوا زکیلئے فاضل مفتی صاحب نے بار بار اس طرح کی عبارتیں لکھی ہیں کہ جب عام نمازوں کی امامت پر اجرت دینا جا ئز ہے تو رمضان شریف میں نماز تراویح کی امامت دوسری نماز کی امامت سے الگ کوئی نماز نہیں ہے ۔اور کہیں لکھا ہے کہ تراویح کی نماز دوسری نماز کی طرح رکوع ،سجدہ ارکان کے اعتبار سے اس میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ، تو عجیب حیرت کی بات یہ ہے کہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کی تراویح میں ختم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور جب دلیل اور قیاس اور مقیس علیہ اور مشبہ مشبہ بہ پیش کرتے ہیں تو اس میں نماز تراویح کو پیش کرتے ہیں ، ختم قرآن کا ذکر نہیں کرتے حالانکہ موضوع بحث ختم قرآن پر اجرت کا جواز اور عدم جواز ہے ۔ نفس تراویح پر اجرت پر اجرت کا جواز اور عدم جواز نہیں ہے ۔ اگر کسی جگہ الم تر کیف سے تراویح کی نماز ہو تی ہے اور امام اس پر اجرت لیتا ہے تو میری معلومات میں فقہاء متأخرین اور اکابر اہل فتاویٰ میں سے کسی نے بھی اس کے عدم جواز کا فتویٰ نہیں دیا ہے ۔یہ عجیب خلطِ مبحث ہے ۔حالانکہ اخیر میں موصوف نے تراویح اور ختم قرآن کو الگ الگ دو سنتیں جدا گانہ تسلیم بھی کیا ہے ۔حضرات فقہا ء اور اکابر اہل فتاویٰ ختم قرآن کی سنیت کے بھی قائل ہیں ،اور اس پر اجرت لینے کی حرمت کے بھی قائل ہیں ۔موضوع بحث ختم قرآن والی سنت ہے نہ کہ نماز تراویح والی سنت نیز تلاوت قرآن پر اجرت لینے کی ممانعت نص قطعی سے ثابت ہے اور اذان واقامت پر اجرت لینا نص قطعی سے ثابت نہیں ہے ۔اسی لئے دونوں ایک نہیں ہیں ،اور نہ ہی ایک دوسرے کے لئے مقیس علیہ بن سکتے ہیں ،اسی لئے فقہا نے صاف الفاظ میں اسکی وضاحت کر دی ہے کہ ضرورت کی بنا پر تعلیم قرآن ، فقہ ، حدیث، تفسیر ،اذان ،امامت ،قضا اور افتاء پر اجرت کی گنجائش دے کر صاف الفاظ میں فر مایا ہے کہ ان کے ما عدا پر اجرت لینا جائز نہیں ہے ،پھر مزید قرأت قرآن کو خاص طور پر متعین کر کے ذکر کیا ہے کہ اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔ جیسا کہ فقہا کی حسبِ ذیل عبارت سے واضح ہوتا ہے ۔وقد اتفقت کلمتھم جمیعا علی التصریح باصل المذہب من عدم الجواز ثم استثنوا بعدہ ما علمتہ فھذا دلیل قاطع وبرھان ساطع علی ان المفتی بہ لیس ھو الا ستجار علی کل طاعۃ بل علیٰ ماذکروہ فقط مما فیہ ضرورۃ ظاھرۃ تبیح الخروج عن اصل المذھب من طرد المنع فان مفاھیم الکتب حجۃ ومفھوم لقب علیٰ ما صرح بہٖ الا صولیون بل ھو منطوق فان الا ستثنا من ادوات العموم کما صرحوا بہ ایضاً (شامی زکریا ۹ / ۷۶) یظھر لک ان العلۃ فی جواز الا ستیجار علیٰ تعلیم القر اءۃ والفقہ والاذان والامامۃ ھی الضرورۃ واحتیاج لناس الیٰ ذالک وان ھذ امقصودۃ علیٰ ھذہ الا شیاء دون ما عد اھا مما لا ضرورۃ الیٰ الاستیجار علیہ (رسائل ابن عابدین۱/ ۱۶۱) ثم استثنوا تعلیم القر اٰن من الطاعات وبعضھم استثنیٰ ایضاً تعلیم الفقہ والامامۃ والاذان والا قامۃ کما علمت ذالک مما نقلنا ہ عن المتون وغیرھا وھذا من اقویٰ الادلۃ علیٰ ما قلنا من ان ما افتوا بہ لیس عاما فی کل طاعۃ بل ھو خاص بما نصوا علیہ مما وجد فیہ علۃ الضرورۃ والاحتیاج(رسائل ابن عابدین ۱/ ۱۶۳)ان ما اجازہ المتأخرون انما اجازہ للضرورۃ ولا ضرورۃ فی الاستیجار علیٰ لتلاوۃ فلا یجوز (رسائل ابن عابدین ۱/ ۱۶۸)
اوپر جو یہ بات لکھی گئ کہ الم ترکیف وغیرہ سے نفس تراویح کے اجرت کے عدم جواز کا کوئی قائل نہیں ہے یہ صرف اس وقت ہے جب کہ صرف امامتِ تراویح ہی مقصود ہو ختم قرآن مقصود نہ ہو اگر ختم قرآن کو مقصود بنا کر تراویح کیلئے الگ سے امام رکھنے کا حیلہ کیا جائیگا تو یہ حیلہ مفید حلت نہ ہوگا ۔ چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اسطرح ایک سوال کے جواب میں تحریر فر مایاہے کہ یہ جواز کا فتویٰ اس وقت ہے جب اما مت ہی مقصود ہو ۔ حالانکہ یہاں مقصود ختم تراویح ہے اور یہ محض حیلہ دیانات میں جو کہ معاملہ بین العبد وبین اللہ ہے حیل مفید جواز واقعی کو نہیں ہوتے ۔ لہذا یہ ناجائز ہوگا (امداد الفتاویٰ۱/ ۴۸۵)اس لئے یہ غلط فہمی ہر گز نہیں ہونی چاہئے کہ جب نفس تراویح میں امامت پر اجرت کی حلت ہو ئی تو ختم قرآن پر بھی حلت آجائیگی ختم قرآن پر اجرت بحر حال حرام رہے گی۔
(۵) موصوف نے اس بات پر بہت زور لگایا ہے کہ سنت کو سنت پر قیاس کیا جائے ،کہ اذان بھی سنت، امامت بھی اور ختم قرآن بھی سنت ہے ۔جب اذان وامامت کی سنت ضرورت کی بقاء کے لئے اجرت لینا دینا درست ہے تو ختم قرآن کی سنت کے بقا کے لئے اجرت لینا درست ہو نا چاہئے ۔ موصوف کا اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لئے یہی مرکزِ استدلا ہے ۔اس میں موصوف نے یہ خیال نہیں کیا ہے کہ جماعت اور اذان کی سنیت اپنی اپنی جگہ مستقل با لذات ہے مگر ترا ویح میں ختم قرآن کی سنت مستقل با الذات نہیں ہے ۔بلکہ ایسی ضمنی اور اضافی سنت ہے کہ اس سنت کے بغیر نفس نماز تراویح میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ اس کی سنت بدستور باقی رہ جاتی ہے ،کہ اذان اور امامت ایسی مستقل بالذات سنت ہے کہ اگر مؤذن نہ ہو تو اذان کا وجود نہیں ہو سکتا ،اسی طرح اگر امام نہ ہو تو جماعت کا وجود نہیں ہو سکتااور اذان وجماعت کا وجود ضروریات دین وشعائر اسلام میں سے ہے ،اور ان کی اجرت کی ممانعت قرآن کریم کی نصوص قطعی سے ثابت نہیںہے اس لئے فقہائے متأخرین نے ضرورت کی وجہ سے ان کی اجرت کے جواز پر فتویٰ دیا ہے ، مگر نماز تراویح میں قرآن کریم کے ختم کرنا ایسی مستقل بالذات سنت نہیں ہے کہ اس کے نہ ہو نے کی وجہ سے نفس نماز تراویح اور نفس نماز تراویح کی امامت کو وجود ختم ہو جاتا ہو ، بلکہ نفس نماز تراویح اور اس کی امامت بدستور باقی رہ جاتی ہے ، نیز ختم قرآن کی تلاوت اور تلاوت مجردہ دونوں با کل یکساں ہیں ، اور تلاوت مجردہ پر اجرت کی حرمت قرآن کریم کی نصِ قطعی سے ثا بت ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ولاتشتروا باٰ یاتی ثمنا قلیلا ( سوری مائدہ آیت ۴۴) تو پھر ایسی صورت میں ختم قرآن کی سنت اذان وامامت کی سنت کے برابر کیسے ہو سکتی ہے ؟ اور ختم قرآن کی سنت کو اذان وامامت کی سنت کے برابر قرار دے کر اس پر اجرت کو جائز کہنا قطعا غلط اور بے عقلی کی بات ہوگی ۔اسی وجہ سے حضرات فقہاء نے ضرورت کی وجہ سے جن امور میں اجرت لینے کی گنجائش دی ہے ان کو نامزد بھی کر دیا ہے ۔اور ان کے ماعدا میں اجرت کو نا جائز کہا ہے ۔اور ختم قرآن کی اجرت بھی ما عدا میں شامل ہے ۔ جیسا کہ حسبِ ذیل عباراتِ فقہیہ سے واضح ہو تا ہے ۔ان ما اجازہ المتأخرون انما اجازہ للضرورۃ فی الاستیجار علی التلاوۃ فلا یجوز ( رسائل ابن عابدین۱ / ۱۶۸) یظھر لک ان العلۃ فی جواز الاستیجار وعلیٰ تعلیم القر اٰن والفقہ والاذان والامامۃ ھی الضرورۃ واحتیاج الناس الیٰ ذالک وان ھذا مقصور علیٰ ھذا الاشیاء دون ما عداھا مما لا ضرورۃ الی الا ستیجار علیہ ( رسائل ابن عابدین ۱ / ۱۶۱)
(۶) موصوف نے جواز کیلئے ایک علت یہ بھی بیان کی ہے کہ اگر حافظ کو اجرت دے کر اس کا قرآن نہ سنا جائے تو حافظ صاحب قرآن بھول جا ئیں گے ۔اس لئے الضرورات تبیح المحظورات کے تحت ضروریات دین کی خاطر وقتیہ نماز کی طرح حافظ صاحب کو بھی اجرت دینی چاہئے ۔تو اب سوال یہ ہے کہ حافظ صاحب کے قرآن یاد رکھنے کی ذمہ داریہی مقتدی حضرات ہیں خودحافظ صاحب اس کے مکلف ہیں ۔کیا حافظ صاحب اگر قرآن بھول جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں قرآن بھولنے کی جو سزا ہے اس میں عوام الناس بھی شامل ہوں گے یا صرف حافظ صاحب پر ہو گی ۔ شاید مفتی صاحب کو یہ کہنے پر مجبور ہو نا پڑے گا کہ قرآن بھولنے کی سزا صرف حافظ صاحب کو ملے گی ۔عوام اور مقتدیوں کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو گا ۔حدیث شریف ملاحظہ فر مائیے ۔ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قا: قال رسول اللہ ﷺ عرضت علیٰ اجور امتی حتی القذاۃ یخرجھا الرجل من المسجد وعرضت علیٰ ذنوب امتی فلم ار ذنبا اعظم من سورۃ من القر اٰن او اٰ یۃ اوتیھا رجل ثم نسیھا ،( تر مذی شریف۲ / ۱۱۹) نیز کیا حافظ صاحب کو قرآن یاد کرنے اور پڑھنے کا سال بھر میں یہی ایک مہینہ ہے یا بارہ مہینے اور ہمیشہ قرآن پڑھنے اور یاد رکھنے کا مکلف ہے ۔اس میں شاید مفتی صاحب یہی جواب دیں گے کہ ہمیشہ قرآن پڑھنے اور یاد رکھنے کا مکلف ہے ۔ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ رمضان میں پڑھنے کا شوق زیادہ ہوتا ہے ۔اسی لئے حافظ صاحب کے قرآن بھولنے کے خطرہ کو عمومی
سطح پر ضروریات دین میں شامل کرنا کہاں تک درست ہے ۔نیز جو حفاظ اجرت کے بغیر قرآن نہیں پڑھتے ہیں ان کے قرآن بھول جانے سے دین اور قرآن پر کوئی اثر نہیں پرتا ۔اللہ نے خود فر مایا ہے انا لہ لحٰفطون (سورہ حجر آیت ۹) اس کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ نے خود ہی لے لی ہے ۔نیز خود ہمارے شہر مرا دآباد میں تقریبا چھ سو مسجدیں ہیں ۔ رمضان آنے سے کئی مہینہ پہلے سے ایک مسجد میں کئی کئی حافظ بغیر اجرت کے قرآن سنانے کے لئے ذمہ دارانِ مسجد کی خوشامد کرتے رہتے ہیں کہ کسی طرح قرآن سنانے کا موقع مل جائے ۔پھر مفتی صاحب کا یہ گمان کرنا کہاں تک درست ہے کہ دنیا کے تمام حفاظ کا یہی حال ہے کہ اجرت کےبغیر پڑھنے کیلئے تیار نہیں ہو تے ۔
اب اخیر میں حضرات اکابر علماء اور اولو العزم ایلِ فتاویٰ جن کے ایک ایک فرد کے فتویٰ کو سند کے درجہ میں ما نا جاتا ہے ان میں سے گیارہ مستند اکابر کا متفقہ فتویٰ الگ الگ طور پر مختصر انداز سے نقل کر دیتے ہیں تا کہ امت میں اس سلسلہ میں بیداری پیدا ہو اور صحیح مسئلہ پر عمل کر سکے ۔اور ہر کسی کے الٹے سیدھے اور غلط فتویٰ سے گریز کر سکے۔
(۱) حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ فر ماتے ہیں : تراویح میں جو کلام اللہ پڑھے یا سنے اس کی اجرت دینا حرام ہے ۔ (فتویٰ رشیدیہ ۳۹۲)
(۲) حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ فر ماتے ہیں : اجرت دے کر قرآن سننا شرعا جائز نہیں ،لینے والا دینے والا دونوں گنہگار ہیں اور اگر بغیر تعین اجرت سنایا جائے اور ختم قرآن کے بعد بطور تبرع دیا جائے تو اصح قول کی بنا پر یہ صورت بھی نا جائز ہے ۔ ( فتاویٰ مطاہر علوم المعروف بفتاویٰ خلیلیہ۱ / ۴۸ )
(۳) حضرت مولانا اشرفعلی تھانویؒ فر ماتے ہیں : حاصل جواب یہ ہوا کہ رواجِ مذکورہ فی السوال محض باطل اور مخالف شرع ہے اور ایسا ختم ہر گز موجبِ ثواب نہیں ، بلکہ موجبِ معصیت ہے ( امداد الفتاویٰ ۱ / ۴۸)
حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ فر ماتے ہیں : قرآن مجید تراویح میں سنانے کی اجرت لینا دینا جا ئز نہیں ہے ( کفایت المفتی۳/۲۶۵)
(۵) حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب ؒ فر ماتے ہیں : اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور بحکم المعروف کا لمشروط جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور نا جائز ہے ۔اس حالت میں صرف تراویح پڑھنا اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے قیام رمضان کی فضیلت حاصل ہو جائیگی ۔( فتاویٰ دارا لعلوم ۴ /۲۴۶)
(6) حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ فر ماتے ہیں : چھو ٹی سورتوں سے نماز ترا ویح ادا کریں ،اجرت دے کر قرآن نہ سنیں کیونکہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے ۔( جوا ہر افقہ۱/ ۳۸۲)
اور امدا د المفتیین میں فر ماتے ہیں : اجرت لے کر قرآن پڑھنا اور پڑھوانا گناہ ہے اس لئے تراویح میں چند مختصر سورتوں سے بیس رکعت پڑھ لینا بلا شبہ اس سے بہتر ہے کہ اجرت دے کر پورا قرآن پڑھوائیں ۔ ( امداد المفتیین ۳۶۵)
(۷) حضرت مفتء محمود حسن گنگوہی ؒ فر ماتے ہیں : محض تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ،دینے والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے ۔ اور ثواب سے محروم رہیں گے ۔اگر بلا اجرت سنانے والا نہ ملے تو الم تر کیف سے تراویح پڑھیں ۔( فتا ویٰ محمودیہ ج۷ ص ۱۷۱)
حضرت مفتی رشید احمد صاحب فر ماتے ہیں : خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کر نے کی بہ نسبت زیادہ قبیح ہے اس لئے کہ اس میں دو گنا ہ ہیں ۔ایک قرآن سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہالتِ اجرت کا گناہ ( احسن الفتاویٰ ۳ / ۵۱۴)
(۹) حضرت مفتی محمد یٰسین صاحب فرماتے ہیں : تراویح میں ختم قرآن پر اجرت مقرر کرنا خواہ صراحۃً ہو جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں یا بطور عرف وعادت ہو جیسا کہ عموماً آجکل رائج ہے ،دونوں صورتوں میں جائز نہیں ۔( فتاویٰ احیاء العلوم۱ / ۱۹۸)
(۱۰) حضرت مفتی عبد الرحیم صاحب ؒ فر ماتے ہیں : بیشک تراویح میں اجرت لینا دینا نا جائز ہے ۔لینے والا اور دینے والا دونوں گنہگار ہو تے ہیں ۔اس سے اچھا یہ ہے کہ الم تر کیف سے تراویح پڑھی جائے ، ( فتاویٰ رحیمیہ ۱۳۴/۹)
(۱۱) بریلوی مکتب فکر کا فتویٰ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ بریلوی مکتب فکر کے بھی مشہور ومعروف علام جناب مولانا مفتی امجد علی صاحب قادری اعظمی کا ایک فتویٰ بعینہٖ یہاں لکھ دیا جائے تاکہ بریلوی مکتب فکر کے لوگ بھی اس مسئلہ سے متنبہ ہو جائیں اور حرام میں مبتلا ہو نے سے محفوظ ہو جائیں ۔ ملاحظہ ہو : آجکل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ حافظ قرآن کو اجرت دے کر تراویح پرھواتے ہیں یہ ناجائز ہے دینے والا اور لینے ولا دونوں گنہگار ہیں ۔اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کر لیں کہ یہ لیں گے ، یہ دیں گے ،بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے ۔اگر چہ اس سے طے نہ ہو ا، یہ بھی نا جائز ہے ۔ کیونکہ المعروف کا المشروط ،ہاں اگر کہہ دیں کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ صاحب کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے کہ الصریح یفوق الدلالۃ ۔( بہار شریعت ۴/ ۳۵ قادی بکڈپو)
اب اس تفصیل سے واضح ہو گیا کہ تمام فقہا متقدمین اور متأ خرین اور تمام مستند اکبر اہل فتاویٰ کا اجماع اور اتفاق اس بات پر ہے کہ تراویح میں ختم قرآن کر کے اجرت لینا اور دینا دونوں حرام اور گناہ عظیم ہیں ۔اس لئے مسلمانوں کو اس کے خلاف فتویٰ سے متنبہ ہو جانا اور دوری اختیار کرنا لازم اور ضروری ہے ۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم ۔(انوار رحمت حضرت مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی ص ۴۷۷تا ۴۹۶)