رحمن وشیطان کی جنگ تو ازل سے جاری ہے، بلکہ اس دن سے جاری ہے کہ جس روز سے ابلیس ملعون نے رب کعبہ کے حکم پر انسان کو سجدہ کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا او رحضرت انسان کو گمراہ کرنے کے عزم صمیم کا اظہار کیا۔ شیطان نے اپنے رب سے انسان کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرنے کا دعوی کیا اور اعلان کیا کہ روز قیامت اپنی تباہی و بربادی سے قبل آدم کی زیادہ سے زیادہ اولاد کو واصل جہنم کروانا چاہتا ہے ۔ اس مقصد کے لیے اس نے انسانوں میں سے اپنے نمائندے چنے، جنہوں نے مختلف طریقوں سے دین حنیف پر چلنے والوں کو گمراہ کیا۔ا نہیں میں سے ایک طریقہ نبوت کے جھوٹے دعوے کا تھا۔
یہ دعویٰ نبوت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی آمد کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں اور کوچوں میں جاری رہا۔ ان میں سے چند بدبختوں کے نام یہ ہیں: اسود، طلحہ اسدی، مسیلمہ کذاب ، سجاح بنت حارث تمیمیہ، مختار ابن ابوعبید ثقفی، حارث کذاب دمشقی ، مغیرہ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی، صالح بن ظریف برغواطی، بہاد نرید زوزانی نیشاپوری، اسحق اخرس مغربی، استاد میس خراسانی، یحییٰ بن فارس ساباطی، علی بن محمد خارجی ، یحییٰ بن زکریا ،علی بن فضل، یحییٰ ابو الطیب احمد بن حسین متنبی، حسین بن حمدان خصیمی یادورِ جدید کا محمدیوسف کذاب۔ یہ تمام کے تمام اہل ایمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔
انگریزوں کی آشیر باد سے بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان میں جہاد کی صدا کو ختم کرنے کے لیے احمدی کی شکل میں ایک نیا فتنہ سامنے آیا۔ اس فتنے نے گذشتہ سو سال میں مختلف رنگ اور مختلف شکلیں تبدیل کیں۔ ابتدا میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے ماننے والوں کی پہچان علیحدہ ملت کے طور پر کرانے کی کوشش کرنے لگا، جو مسلم شناخت سے الگ ہو ۔ اسی طرح کی کوشش 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت بھی کی گئی، جس کے شدید اثرات پاکستانی مجوزہ سرحدی معاملات پر بھی پڑے ، مگر آج صورت حال یہ ہے کہ احمدیوں کی پوری کوشش او رکاوش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو مسلمانوں کی اکثریت میں مدغم کرکے فلسفہ نبوت کے خلاف اپنی سازشیں جاری رکھیں ، مگر مسلمانانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں دستورِ پاکستان میں” مسلمان“ کی واضح تعریف کی جاچکی ہے، جو یہ ہے کہ:
”مسلمان وہ شخص ہے جو الله تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اکملیت پر یقین رکھتا ہو اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر آخری نبی کے بطور مکمل ایمان رکھتا ہو اور ایسے شخص پر ایمان اور تعلق نہ رکھتا ہو جو نبوت کی کسی بھی شکل میں دعویٰ نبوت کرتا ہے او رنبوت کے لفظ کی کسی بھی معنوی لحاظ سے نبوت کا اظہار کرتا ہے۔“ اور” غیر مسلم وہ شخص ہے جو عیسائیت، یہودیت، سکھ ، بدھ، پارسی یا قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو۔“
یہ تعریف 1974ء میں آئینی ترمیم کے بعد کی گئی، اس طرح اسلام کے تشخص کو مند مل کرنے کی ہر کوشش کے دروازے ، دریچے، کواڑ، کھڑکیاں اور درازیں بند کر دی گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ قادیانیت مذہبی، رنگ بھی رکھتا ہے اور اساسی تصور بھی، اس کو ان دونوں تناظر ہی میں دیکھنا، پرکھنا اور برتنا ہو گا۔ الزام برائے الزام سے ہٹ کر دلیل کی قوت اور ثبوت کی طاقت کے ساتھ دور جدید کے ذہنوں کے سامنے رکھنا ہو گا تاکہ ان کو گمراہی سے بچایا جاسکے، جھوٹے پروپیگنڈے کو تحقیق کے ذریعے ہی توڑا جاسکتا ہے۔
رب العالمین نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث کیے، ان کو علم سے نوازا اور انسان کو گمراہی سے بچانے کی تدبیر کی ۔
” کہو ہم ایمان لائے الله پر اور اس تعلیم پر جو ہماری طرف اتاری گئی ہے اور اس تعلیم پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب علیہم الصلوة والسلام اور ان کی اولاد پر اتار دی گئی تھی اور جو موسی، عیسی علیہما السلام اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ، ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور ہم الله کے مطیع اور فرماں برادر ہیں ، پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں ، جس طرح تم لائے ہو تو وہ سیدھے راستے پر ہیں ۔“ ( البقرہ :137,136)
پھر ہوا یوں کہ حضرت انسان باوجود انبیائے کرام علیہم السلام جیسی پاک ہستیوں کی محنت کے مارا گیا، جیساکہ سورة النحل میں الله پاک فرماتا ہے کہ:
” ہم نے ( اے محمد) تم سے پہلے مختلف امتوں کی طرف ہدایت بھیجی ، مگر اس کے بعد شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خو شنما بنا دیا ، چناں چہ آج وہی ان کا سرپرست بنا ہوا ہے اور وہ دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“
آخر کار آج سے 1400 سال پہلے خاتم النبیین، سید المرسلین، شفیع المذنبین، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس دنیا میں تشریف لائی، جن کے بارے میں رب کائنات خود کہتا ہے کہ:
” اے نبی! ہم نے تم کو گواہ اور خو ش خبری دینے والا، ڈرانے والا اور الله کے حکم سے الله کی طرف دعوت دینے والا ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔” ( الاحزاب:46,45)
اور پھر اہل ایمان کو قرآن میں یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ:
” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ، مگر وہ الله کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں ۔“ ( الاحزاب:40)
یعنی یہ اعلان خود رب العالمین کی طرف سے واضح اور صاف الفاظ میں ہے او را س میں کوئی ابہام نہیں۔ بخاری میں بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اپنے الفاظ اس حوالے سے اس طرح سے ملتے ہیں کہ:
” میری او رمجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی ، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑی ہوئی تھی، لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں او رمیں خاتم النبیین ہوں ( یعنی میرے آنے کے بعد نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے ، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے ، جسے پُر کروانے کے لیے کوئی نبی آئے)۔“
اسی طرح بخاری میں ہے کہ :
” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو کوئی دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا ، بلکہ خلفا ہوں گے۔“ ( بخاری ،کتا ب المناقب)
قارئین! قادیانیوں کو بنیادی طور پرجو چیز اہل ایمان سے علیحدہ اورجدا کرتی ہے ، وہ ہے قادیانیوں کی ختم نبوت کی نئی اور نرالی تفسیر ۔ گزشتہ چودہ سو سال سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ۔ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی کھلی ہدایت کا یہی مطلب صحابہ کرام نے سمجھا تھا اور ہر اس شخص سے جنگ کی اور مخالفت کی جس نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کیا ، پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں ، جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیان کبھی بھی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا، جس نے نبوت کا دعوی کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے تاریخ میں پہلی بات ” خاتم النبیین“ کی یہ نرالی تفسیر کی کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ” نبیوں کی مہر “ ہیں اور اس کا مطلب ( نعوذ بالله) یہ بیان کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا، اس کی نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہو گی ، اس کے ثبوت میں قادیانی لٹریچر کی بکثرت روایات اور عبارتوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، مگر ہم صرف تین پر ہی اکتفا کر سکتے ہیں :
” خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح موعود ( مرزا غلام احمد قادیانی) نے فرمایا کہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی ، جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ مستند ہو جاتا ہے ، اسی طرح آں حضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے ۔“ (ملفوظات احمدیہ، مرتبہ محمد منظو رالہی ، حصہ پنجم ، ص:290)
” ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، مگر ختم کے معنی وہ نہیں جو ” احسان“ کا سوادِ اعظم سمجھتا ہے اور جو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی شان اعلیٰ وارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے پنی امت کو محروم کر دیا ، بلکہ یہ کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں ، اب وہی نبی ہو گا جس کی آپ صلی الله علیہ وسلم تصدیق کریں گے … انہی معنوں میں ہم رسول کریم کو خاتم النبیین کہتے اور سمجھتے ہیں۔“ ( الفضل قادیانی، مورخہ22 ستمبر1919ء(
” خاتم مہر کو کہتے ہیں ، جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مہر ہوئے تو اگر ان کی امت میں کسی قسم کا نبی نہیں ہو گا تو وہ مہر کس طرح سے ہوئے اور یہ مہر کس پر لگے گی؟“ (الفضل قادیان،22 مئی1922ء)
آئیے! ہم یہاں ذرا تھوڑی دیر رک کر لفظ ”خاتم النبیین“ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، قرآن مجید میں سورة الاحزاب کی آیت نمبر40 کا ترجمہ کنزالایمان میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی( مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نے اس طرح کیا ہے کہ ” محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں! الله کے رسول ہیں اور سب نبیوں پر پچھلے اور الله سب کچھ جانتا ہے۔“
یہ دعویٰ نبوت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی آمد کے بعد بھی دنیا کے مختلف حصوں اور کوچوں میں جاری رہا۔ ان میں سے چند بدبختوں کے نام یہ ہیں: اسود، طلحہ اسدی، مسیلمہ کذاب ، سجاح بنت حارث تمیمیہ، مختار ابن ابوعبید ثقفی، حارث کذاب دمشقی ، مغیرہ بن سعید عجلی، بیان بن سمعان تمیمی، صالح بن ظریف برغواطی، بہاد نرید زوزانی نیشاپوری، اسحق اخرس مغربی، استاد میس خراسانی، یحییٰ بن فارس ساباطی، علی بن محمد خارجی ، یحییٰ بن زکریا ،علی بن فضل، یحییٰ ابو الطیب احمد بن حسین متنبی، حسین بن حمدان خصیمی یادورِ جدید کا محمدیوسف کذاب۔ یہ تمام کے تمام اہل ایمان کے ہاتھوں واصل جہنم ہوئے۔
انگریزوں کی آشیر باد سے بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان میں جہاد کی صدا کو ختم کرنے کے لیے احمدی کی شکل میں ایک نیا فتنہ سامنے آیا۔ اس فتنے نے گذشتہ سو سال میں مختلف رنگ اور مختلف شکلیں تبدیل کیں۔ ابتدا میں مرزا غلام احمد قادیانی اپنے ماننے والوں کی پہچان علیحدہ ملت کے طور پر کرانے کی کوشش کرنے لگا، جو مسلم شناخت سے الگ ہو ۔ اسی طرح کی کوشش 1947ء میں تقسیم ہند کے وقت بھی کی گئی، جس کے شدید اثرات پاکستانی مجوزہ سرحدی معاملات پر بھی پڑے ، مگر آج صورت حال یہ ہے کہ احمدیوں کی پوری کوشش او رکاوش ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے آپ کو مسلمانوں کی اکثریت میں مدغم کرکے فلسفہ نبوت کے خلاف اپنی سازشیں جاری رکھیں ، مگر مسلمانانِ پاکستان کی عظیم جدوجہد اور قربانیوں کے نتیجے میں دستورِ پاکستان میں” مسلمان“ کی واضح تعریف کی جاچکی ہے، جو یہ ہے کہ:
”مسلمان وہ شخص ہے جو الله تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی اکملیت پر یقین رکھتا ہو اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر آخری نبی کے بطور مکمل ایمان رکھتا ہو اور ایسے شخص پر ایمان اور تعلق نہ رکھتا ہو جو نبوت کی کسی بھی شکل میں دعویٰ نبوت کرتا ہے او رنبوت کے لفظ کی کسی بھی معنوی لحاظ سے نبوت کا اظہار کرتا ہے۔“ اور” غیر مسلم وہ شخص ہے جو عیسائیت، یہودیت، سکھ ، بدھ، پارسی یا قادیانی گروپ یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو۔“
یہ تعریف 1974ء میں آئینی ترمیم کے بعد کی گئی، اس طرح اسلام کے تشخص کو مند مل کرنے کی ہر کوشش کے دروازے ، دریچے، کواڑ، کھڑکیاں اور درازیں بند کر دی گئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ قادیانیت مذہبی، رنگ بھی رکھتا ہے اور اساسی تصور بھی، اس کو ان دونوں تناظر ہی میں دیکھنا، پرکھنا اور برتنا ہو گا۔ الزام برائے الزام سے ہٹ کر دلیل کی قوت اور ثبوت کی طاقت کے ساتھ دور جدید کے ذہنوں کے سامنے رکھنا ہو گا تاکہ ان کو گمراہی سے بچایا جاسکے، جھوٹے پروپیگنڈے کو تحقیق کے ذریعے ہی توڑا جاسکتا ہے۔
رب العالمین نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث کیے، ان کو علم سے نوازا اور انسان کو گمراہی سے بچانے کی تدبیر کی ۔
” کہو ہم ایمان لائے الله پر اور اس تعلیم پر جو ہماری طرف اتاری گئی ہے اور اس تعلیم پر جو ابراہیم، اسماعیل، اسحق، یعقوب علیہم الصلوة والسلام اور ان کی اولاد پر اتار دی گئی تھی اور جو موسی، عیسی علیہما السلام اور دوسرے نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی ، ہم ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے اور ہم الله کے مطیع اور فرماں برادر ہیں ، پس اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں ، جس طرح تم لائے ہو تو وہ سیدھے راستے پر ہیں ۔“ ( البقرہ :137,136)
پھر ہوا یوں کہ حضرت انسان باوجود انبیائے کرام علیہم السلام جیسی پاک ہستیوں کی محنت کے مارا گیا، جیساکہ سورة النحل میں الله پاک فرماتا ہے کہ:
” ہم نے ( اے محمد) تم سے پہلے مختلف امتوں کی طرف ہدایت بھیجی ، مگر اس کے بعد شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لیے خو شنما بنا دیا ، چناں چہ آج وہی ان کا سرپرست بنا ہوا ہے اور وہ دردناک سزا کے مستحق ہیں۔“
آخر کار آج سے 1400 سال پہلے خاتم النبیین، سید المرسلین، شفیع المذنبین، حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس دنیا میں تشریف لائی، جن کے بارے میں رب کائنات خود کہتا ہے کہ:
” اے نبی! ہم نے تم کو گواہ اور خو ش خبری دینے والا، ڈرانے والا اور الله کے حکم سے الله کی طرف دعوت دینے والا ایک روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔” ( الاحزاب:46,45)
اور پھر اہل ایمان کو قرآن میں یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ:
” محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ، مگر وہ الله کے رسول اور نبیوں کے سلسلے کو ختم کرنے والے ہیں ۔“ ( الاحزاب:40)
یعنی یہ اعلان خود رب العالمین کی طرف سے واضح اور صاف الفاظ میں ہے او را س میں کوئی ابہام نہیں۔ بخاری میں بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اپنے الفاظ اس حوالے سے اس طرح سے ملتے ہیں کہ:
” میری او رمجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے عمارت بنائی اور خوب حسین وجمیل بنائی ، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑی ہوئی تھی، لوگ اس عمارت کے گرد گھومتے پھرتے اور اس کی خوبی پر اظہار حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں او رمیں خاتم النبیین ہوں ( یعنی میرے آنے کے بعد نبوت کی عمارت مکمل ہو چکی ہے ، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے ، جسے پُر کروانے کے لیے کوئی نبی آئے)۔“
اسی طرح بخاری میں ہے کہ :
” نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قیادت انبیاء کیا کرتے تھے، جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو کوئی دوسرا نبی اس کا جانشین ہوتا، مگر میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا ، بلکہ خلفا ہوں گے۔“ ( بخاری ،کتا ب المناقب)
قارئین! قادیانیوں کو بنیادی طور پرجو چیز اہل ایمان سے علیحدہ اورجدا کرتی ہے ، وہ ہے قادیانیوں کی ختم نبوت کی نئی اور نرالی تفسیر ۔ گزشتہ چودہ سو سال سے تمام مسلمان بالاتفاق یہ مانتے رہے ہیں اور آج بھی یہی مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی مبعوث ہونے والا نہیں ۔ختم نبوت کے متعلق قرآن مجید کی کھلی ہدایت کا یہی مطلب صحابہ کرام نے سمجھا تھا اور ہر اس شخص سے جنگ کی اور مخالفت کی جس نے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کیا ، پھر یہی مطلب بعد کے ہر دور میں تمام مسلمان سمجھتے رہے ہیں ، جس کی بنا پر مسلمانوں نے اپنے درمیان کبھی بھی ایسے شخص کو برداشت نہیں کیا، جس نے نبوت کا دعوی کیا۔
مرزا غلام احمد قادیانی نے تاریخ میں پہلی بات ” خاتم النبیین“ کی یہ نرالی تفسیر کی کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ” نبیوں کی مہر “ ہیں اور اس کا مطلب ( نعوذ بالله) یہ بیان کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے بعد اب جو بھی نبی آئے گا، اس کی نبوت آپ صلی الله علیہ وسلم کی مہر تصدیق لگ کر مصدقہ ہو گی ، اس کے ثبوت میں قادیانی لٹریچر کی بکثرت روایات اور عبارتوں کا حوالہ دیا جاسکتا ہے، مگر ہم صرف تین پر ہی اکتفا کر سکتے ہیں :
” خاتم النبیین کے بارے میں حضرت مسیح موعود ( مرزا غلام احمد قادیانی) نے فرمایا کہ خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ کی مہر کے بغیر کسی کی نبوت کی تصدیق نہیں ہو سکتی ، جب مہر لگ جاتی ہے تو وہ کاغذ مستند ہو جاتا ہے ، اسی طرح آں حضرت کی مہر اور تصدیق جس نبوت پر نہ ہو وہ صحیح نہیں ہے ۔“ (ملفوظات احمدیہ، مرتبہ محمد منظو رالہی ، حصہ پنجم ، ص:290)
” ہمیں اس سے انکار نہیں کہ رسول کریم صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں ، مگر ختم کے معنی وہ نہیں جو ” احسان“ کا سوادِ اعظم سمجھتا ہے اور جو رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کی شان اعلیٰ وارفع کے سراسر خلاف ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نبوت کی نعمت عظمیٰ سے پنی امت کو محروم کر دیا ، بلکہ یہ کہ آپ نبیوں کی مہر ہیں ، اب وہی نبی ہو گا جس کی آپ صلی الله علیہ وسلم تصدیق کریں گے … انہی معنوں میں ہم رسول کریم کو خاتم النبیین کہتے اور سمجھتے ہیں۔“ ( الفضل قادیانی، مورخہ22 ستمبر1919ء(
” خاتم مہر کو کہتے ہیں ، جب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم مہر ہوئے تو اگر ان کی امت میں کسی قسم کا نبی نہیں ہو گا تو وہ مہر کس طرح سے ہوئے اور یہ مہر کس پر لگے گی؟“ (الفضل قادیان،22 مئی1922ء)
آئیے! ہم یہاں ذرا تھوڑی دیر رک کر لفظ ”خاتم النبیین“ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، قرآن مجید میں سورة الاحزاب کی آیت نمبر40 کا ترجمہ کنزالایمان میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی( مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز) نے اس طرح کیا ہے کہ ” محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں! الله کے رسول ہیں اور سب نبیوں پر پچھلے اور الله سب کچھ جانتا ہے۔“