پٹنہ میں طویل قیام کے بعد ان کے مریدوں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی تھی کہ ایک باقاعدہ نظامِ حکومت کی ضرورت پیش آگئی‘ کلکتہ میں ان کے ارد گرد اس قدر ہجوم ہوگیا تھا کہ لوگوں کو مرید کرتے وقت اپنے ہاتھ پر بیعت کرانا ان کے لئے مشکل تھا۔ بالآخر انہیں پگڑی کھول کر یہ اعلان کرنا پڑا کہ ہر وہ شخص جو اس کے کسی حصے کو چھولے گا ان کا مرید ہوجائے گا ۔
۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے، اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے ،یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی، مگر اس ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوئے، یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی، انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے، ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا، جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ کہ ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہنچادیا، جہاں انہوں نے اپنے مرید بنائے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتح مندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔
۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا، وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تیغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا، صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا، ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا ،فتح کرلیا۔ پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا، اس چالاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا، اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادہ شیر سنگھ کے زیرکمان تھی، ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔
(ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰)
جنگ بالاکوٹ
بالاکوٹ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے آگے پہاڑی علاقہ میں واقع دریائے کنہار کے مغربی کنارے پر ہے‘ شیر سنگھ اور سید احمد کی فوجیں دریائے کنہار کے پار ایک دوسرے سے مقابل ہوئیں‘بالاکوٹ کا گاؤں دریا کے مغربی کنارے پر ایک ٹیلے پر واقع تھا‘ شیر سنگھ کی فوج کا پڑاؤ بالاکوٹ سے تھوڑی دورمشرقی کنار ہ پر تھا‘ شیر سنگھ دوراستوں سے بالاکوٹ پر حملہ آور ہوسکتا تھا:
۱- بالاکوٹ کے مشرقی کنارے سے دریا پار کے۔
۲- پکھلی کی طرف سے بالاکوٹ کے مغربی پہاڑ پر چڑھ کر۔
مٹی کوٹ پہاڑی کے دامن اور بالاکوٹ کے آباد حصہ کے درمیان کھیتوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا۔ سکھوں کے اقدام کو روکنے کے لئے اس نشیبی علاقہ میں بہت پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اسے دلدلی بنادیا گیا تھا۔ سید احمد نے پہاڑی پر جانے والی پوشیدہ پگڈ نڈیوں کی نگرانی کے لئے ایک مختصر سا دستہ تعینات کردیا تھا‘ مگر یہاں بھی غداری اپنا کام کرگئی‘پوشیدہ پگڈ نڈیوں کا پتا سکھوں کو بتا دیا گیا اور کسی کمک کے پہنچنے سے پہلے محافظ دستہ کو اچانک زیر کر لیا گیا۔ مجاہدین کے نقشہٴ جنگ پر یہ بہت بڑی ضرب تھی، کیونکہ اس کے فوراً بعد سکھ تمام پہاڑی پر چڑھ دوڑے جو بالاکوٹ پر سایہٴ افگن تھی۔
جنگ شروع ہوئی ،مجاہدین کی مختصر فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہوگئی‘ جنگ جم کر ہوئی اور دست بدست۔ سید احمد پہاڑی کے دامن میں بہادری سے لڑتے ہوئے گر گئے۔ کسی نے ان کو گرتے ہوئے نہیں دیکھا ،جو مجاہدین ان کے ساتھ لڑ رہے تھے وہ ان کے ساتھ شہید ہوگئے‘ سید صاحب اور ان کے رفقاء کی شہادت ۲۴/ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ ۶/مئی ۱۸۳۱ء تقریباً بروز جمعہ قبل از دو پہر ہوئی
معرکہٴ بالاکوٹ میں سکھ فوجوں کی تعداد تقریباً کم وبیش بیس ہزار تھی، جب کہ بالاکوٹ میں موجود مجاہدین کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ ابتداء میں حضرت سید صاحب کو بہت عمدہ کامیابیاں حاصل ہوئیں، مگر بعد میں اپنوں کی غداریوں ‘ انگریزوں اور سکھوں کی مسلسل سازشوں وغیرہ سے کامیابیاں سست پڑ گئیں، اگر چہ مخلصین کا جوش وخروش بڑھتا ہی رہا ،بالآخر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ جنگ وجہاد کرتے ہوئے ایک سرحدی مسلمان کی سازش سے مع شاہ محمد اسماعیل ودیگر رفقاء شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب ہم مختصر طور پر چند باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
۱- یہ تحریک آزادی ہند ۱۸۰۶ء یا ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کی آزادی ہند تک باقی رہی ،اس کی جنگی کارروائی صوبہ سرحد میں ۱۸۲۶ء میں شروع ہوتی ہے، چھ برس متواتر جنگ رہنے اور اکثر فتح مند ہونے اور اپنوں کی غداریوں کی بناء پر جبکہ ۱۸۳۱ء میں حضرت سید صاحب اور شاہ محمد اسماعیل صاحب اور بہت سے مجاہدین شہید ہوجاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں میں سے بہت سے حضرات اپنے اپنے وطن کو واپس آجاتے ہیں ،تب بھی ایک جماعت مسلمان مجاہدین کی وہاں باقی رہتی ہے اور اپنی تمام جد وجہد کی کارروائیوں کو سرگرمی کے ساتھ عمل میں لاتی رہتی ہے، وہ مایوس نہیں ہوتی، وہ جماعت ہزاروں سے بڑھتے بڑھتے بعض اوقات لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ”جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں یعنی انگریزوں کی طرف پھر گیا، سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی کی تھی یا جس سے بے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔“(باب اول ص:۲۳)
”۱۸۲۱ء میں امام صاحب نے اپنے خلفاء کو منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش وخروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی، انہوں نے بار بار جہاد کے جھنڈے کوتباہی سے بچاکر از سر نو بلند کردیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ‘ خود اپنے آپ سے بے پرواہ‘ بے داغ زندگی بسر کرنے والے‘ انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے ۔“ (باب دوم ص:۶۳‘۶۴)
۱۸۲۲ء میں وہ حج کرنے کی غرض سے مکہ مکرمہ چلے گئے، اگلے سال ماہ اکتوبر میں بمبئی میں وارد ہوئے ،یہاں پر آپ کی تبلیغی کوششوں کو وہی کامیابی حاصل ہوئی جو کلکتہ میں ہوئی تھی، مگر اس ولی کے لئے انگریزی علاقے کے پرامن شہریوں کی بجائے ایک اور زیادہ موزوں میدان موجود تھا۔ ۱۸۲۴ء میں سرحد پشاور کے وحشی اور پہاڑی قبیلوں میں آنمودار ہوئے، یہاں انہوں نے سکھ سلطنت کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تبلیغ شروع کردی۔ پٹھانوں کے قبائل نے نہایت جوش وخروش کی ساتھ ان کی دعوت پر لبیک کہی، انہوں نے کابل اور قندھار کا سفر اختیار کیا اور جہاں کہیں بھی گئے، ملک کو جہاد پر آمادہ کرتے رہے‘ اس طرح پر مذہبی احکام کی کامیابی کے لئے راستہ صاف کرنے کے بعد انہوں نے خدا کے نام پر ایک باقاعدہ فرمان جاری کیا، جس میں تمام مسلمانوں کو جہاد میں شریک ہونے کی دعوت دی گئی‘ کہ ۲۱/دسمبر ۱۸۲۶ء کو سکھوں کے خلاف جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس اثناء میں امام صاحب کے قاصدوں نے اس اعلان کو شمالی ہندوستان کے ان بڑے شہروں میں پہنچادیا، جہاں انہوں نے اپنے مرید بنائے ہوئے تھے ۔ اس کے بعد سکھوں کے خلاف ایک مذہبی جنگ شروع ہوگئی، اس جنگ میں کبھی ایک فریق غالب آیا اور کبھی دوسرے فریق کو فتح نصیب ہوئی۔ اس طرح انہوں نے جنگ چپاول میں فتح مندی سے اپنا نام یہاں تک پیدا کر لیا کہ سکھ حاکم ان قبائل کی حمایت خریدنے پر مجبور ہوگیا جو چھا پہ مارنے میں سب سے پیش پیش تھے۔
۱۸۲۹ء میں تو حالت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ میدان والوں یعنی سکھوں کو پشاور شہر کے متعلق بھی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا‘ سرحدی صوبہ کا دار الخلافہ تھا، وہاں کے صوبہ دار نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے دغابازی سے امام صاحب کو زہر دینے کی کوشش کی اور اس افواہ نے کوہستانی مسلمانوں کے جوش کو انتہائی درجہ تک پہنچادیا‘ وہ نہایت ہی جوش وخروش سے میدانی علاقوں پر ٹوٹ پڑے اور کفار کی تمام افواج کو تہ تیغ اور اس کے جرنیل کو مہلک طور پر زخمی کردیا، صرف شہر پشاور اس فوج کی وجہ سے بچ گیا جو شہزاد شیر سنگھ اور جرنیل وینطور کی ماتحتی میں تھا، ایک لشکر جرار اپنے قابل ترین جرنیل کی سرکردگی میں روانہ کیا‘ جون ۱۸۳۰ء میں شکست کھانے کے باوجود امام صاحب کی فوج نے بہت بڑی قوت کے ساتھ میدانی علاقہ پر قبضہ کرلیا اور اس سال کے اختتام سے پہلے خود پشاور کو بھی جو پنجاب کا مغربی دار السلطنت تھا ،فتح کرلیا۔ پشاور کے چھن جانے کا غم رنجیت سنگھ کے بے نظیر سیاسی تدبر کو بروئے کا لایا، اس چالاک سکھ نے معمولی معمولی ریاستوں کو ان کے اپنے مفاد کا واسطہ دے کر اسلامی فوج سے علیحدہ کرادیا، اس صورت حال کو دیکھ کر امام صاحب پشاور کو خالی کردینے پر مجبور ہوگئے۔ ۱۸۳۱ء میں سکھ فوج نے جو شہزادہ شیر سنگھ کے زیرکمان تھی، ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان کو شہید کرڈالا۔
(ہمارے ہندوستانی مسلمان مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر انگریز ص:۱۸‘۱۹‘۲۰)
جنگ بالاکوٹ
بالاکوٹ مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے آگے پہاڑی علاقہ میں واقع دریائے کنہار کے مغربی کنارے پر ہے‘ شیر سنگھ اور سید احمد کی فوجیں دریائے کنہار کے پار ایک دوسرے سے مقابل ہوئیں‘بالاکوٹ کا گاؤں دریا کے مغربی کنارے پر ایک ٹیلے پر واقع تھا‘ شیر سنگھ کی فوج کا پڑاؤ بالاکوٹ سے تھوڑی دورمشرقی کنار ہ پر تھا‘ شیر سنگھ دوراستوں سے بالاکوٹ پر حملہ آور ہوسکتا تھا:
۱- بالاکوٹ کے مشرقی کنارے سے دریا پار کے۔
۲- پکھلی کی طرف سے بالاکوٹ کے مغربی پہاڑ پر چڑھ کر۔
مٹی کوٹ پہاڑی کے دامن اور بالاکوٹ کے آباد حصہ کے درمیان کھیتوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا۔ سکھوں کے اقدام کو روکنے کے لئے اس نشیبی علاقہ میں بہت پانی چھوڑ دیا گیا تھا۔اور اسے دلدلی بنادیا گیا تھا۔ سید احمد نے پہاڑی پر جانے والی پوشیدہ پگڈ نڈیوں کی نگرانی کے لئے ایک مختصر سا دستہ تعینات کردیا تھا‘ مگر یہاں بھی غداری اپنا کام کرگئی‘پوشیدہ پگڈ نڈیوں کا پتا سکھوں کو بتا دیا گیا اور کسی کمک کے پہنچنے سے پہلے محافظ دستہ کو اچانک زیر کر لیا گیا۔ مجاہدین کے نقشہٴ جنگ پر یہ بہت بڑی ضرب تھی، کیونکہ اس کے فوراً بعد سکھ تمام پہاڑی پر چڑھ دوڑے جو بالاکوٹ پر سایہٴ افگن تھی۔
جنگ شروع ہوئی ،مجاہدین کی مختصر فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں تقسیم اور ایک دوسرے سے لا تعلق ہوگئی‘ جنگ جم کر ہوئی اور دست بدست۔ سید احمد پہاڑی کے دامن میں بہادری سے لڑتے ہوئے گر گئے۔ کسی نے ان کو گرتے ہوئے نہیں دیکھا ،جو مجاہدین ان کے ساتھ لڑ رہے تھے وہ ان کے ساتھ شہید ہوگئے‘ سید صاحب اور ان کے رفقاء کی شہادت ۲۴/ ذوالقعدہ ۱۲۴۶ھ ۶/مئی ۱۸۳۱ء تقریباً بروز جمعہ قبل از دو پہر ہوئی
معرکہٴ بالاکوٹ میں سکھ فوجوں کی تعداد تقریباً کم وبیش بیس ہزار تھی، جب کہ بالاکوٹ میں موجود مجاہدین کی تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ خلاصہ یہ کہ ابتداء میں حضرت سید صاحب کو بہت عمدہ کامیابیاں حاصل ہوئیں، مگر بعد میں اپنوں کی غداریوں ‘ انگریزوں اور سکھوں کی مسلسل سازشوں وغیرہ سے کامیابیاں سست پڑ گئیں، اگر چہ مخلصین کا جوش وخروش بڑھتا ہی رہا ،بالآخر ۱۸۳۱ء میں بمقام بالاکوٹ جنگ وجہاد کرتے ہوئے ایک سرحدی مسلمان کی سازش سے مع شاہ محمد اسماعیل ودیگر رفقاء شہید ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اب ہم مختصر طور پر چند باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہیں:
۱- یہ تحریک آزادی ہند ۱۸۰۶ء یا ۱۸۰۳ء سے شروع ہوئی اور ۱۹۴۷ء کی آزادی ہند تک باقی رہی ،اس کی جنگی کارروائی صوبہ سرحد میں ۱۸۲۶ء میں شروع ہوتی ہے، چھ برس متواتر جنگ رہنے اور اکثر فتح مند ہونے اور اپنوں کی غداریوں کی بناء پر جبکہ ۱۸۳۱ء میں حضرت سید صاحب اور شاہ محمد اسماعیل صاحب اور بہت سے مجاہدین شہید ہوجاتے ہیں اور باقی ماندہ لوگوں میں سے بہت سے حضرات اپنے اپنے وطن کو واپس آجاتے ہیں ،تب بھی ایک جماعت مسلمان مجاہدین کی وہاں باقی رہتی ہے اور اپنی تمام جد وجہد کی کارروائیوں کو سرگرمی کے ساتھ عمل میں لاتی رہتی ہے، وہ مایوس نہیں ہوتی، وہ جماعت ہزاروں سے بڑھتے بڑھتے بعض اوقات لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔
ڈاکٹر ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر لکھتا ہے: ”جب ہم نے پنجاب کا الحاق کیا تو تعصب کی اس رو کا رخ جو پہلے سکھوں کی طرف تھا، ان کے جانشینوں یعنی انگریزوں کی طرف پھر گیا، سکھوں کی سرحد پر جس بدامنی سے ہم نے چشم پوشی کی تھی یا جس سے بے پروائی کی تھی، وہ ایک تکلیف دہ وراثت کی صورت میں ہم تک پہنچی تھی۔“(باب اول ص:۲۳)
”۱۸۲۱ء میں امام صاحب نے اپنے خلفاء کو منتخب کرتے وقت ایسے آدمیوں کا انتخاب کیا جو بے پناہ جوش وخروش کے مالک اور بہت ہی مستقل مزاج تھے ،ہم دیکھ چکے ہیں کہ کس کس طرح متعدد بار جب یہ تحریک ناکام ہونے کے قریب تھی، انہوں نے بار بار جہاد کے جھنڈے کوتباہی سے بچاکر از سر نو بلند کردیا۔ پٹنہ کے خلفاء جو انتھک واعظ‘ خود اپنے آپ سے بے پرواہ‘ بے داغ زندگی بسر کرنے والے‘ انگریز کافروں کی حکومت کو تباہ کرنے میں ہمہ تن مصروف اور روپیہ اور رنگروٹ جمع کرنے کے لئے ایک مستقل نظام قائم کرنے میں نہایت چالاک تھے ۔“ (باب دوم ص:۶۳‘۶۴)