قرآن کریم کی روشنی میں افراد سازی ۔۔۔۔۔ از اخترامام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منورواشریف، سمستی پور، بہار
قرآن دینِ کامل کی ایک نمائندہ کتاب ہے، یہ ایسی کتابِ ہدایت ہے، جو انسانیت کو سب سے سیدھی اور معتبر راہ دکھاتی ہے، انّ ہذا القرآنَ یہدي لِلَّتِي ہِيَ أقوَمُ (الاسراء:۹)
ترجمہ: بیشک یہ قرآن سب سے سیدھے اور مضبوط راستے کی رہنمائی کرتا ہے۔
یہ روشنی کا پیغامبر ہے، یہ ایک مینارئہ نور ہے، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔
ترجمہ: اللہ نے تمہارے لیے قرآن نازل کیا، رسول تم پر اللہ کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں؛ تاکہ ایمان اور عمل صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔
یہ ایک نسخہٴ کیمیا ہے جو خاک کو کیمیا اور ذرہ کوجوہر بناتا ہے،اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحتمندوں کے لیے سامانِ سکون ہے، یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے کہ اگر مضبوط اور بلند وبالا پہاڑوں پر اتارا جاتا تو وہ اس کا وزن برداشت نہ کرپاتے اور ہیبت سے ریزہ ریزہ ہوجاتے:
ترجمہ: ”اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتاردیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبتِ الٰہی سے ریزہ ریزہ ہوچکا ہے۔“
قرآن آج بھی تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ساری مشکلات کا حل ہے، جس طرح قرآن نے صدیوں پیشتر ایک حد سے زیادہ گری ہوئی قوم کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچادیا تھا اور اسی کتابِ ہدایت کی بدولت ایک انتہائی پچھڑا ہوا معاشرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ اور مہذب معاشرہ میں تبدیل ہوگیا، جن لوگوں کو کسی مہذب اور شریف آدمی کی نقل اتارنے کاسلیقہ نہیں تھا، وہ ساری مذہب اور تعلیم یافتہ دنیا کے لیے آئیڈیل بن گئے، جن کو اپنا چھوٹا سا گاؤں چلانے کی لیاقت نہیں تھی، ان میں پوری روئے زمین پر حکمرانی کی اہلیت پیداہوگئی، جن کو ایک چھوٹی سی سوسائٹی پر کنٹرول نہیں تھا اور جو ساری دنیا میں اپنی خانہ جنگی اور سر پھٹول کے لیے بدنام تھے، ان کو ایسا قانون مل گیا جس نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرودیا،․․․ یہ سب اسی کتابِ مقدس کا اعجاز تھا․․․ اس کی معجزانہ قوتیں آج بھی زندہ ہیں، ان کو برتنے اور استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، آج اس کتابِ ہدایت کو ہم نے سردخانے میں ڈال دیا ہے اوراس ہدایت وانقلاب والی کتاب کو صرف ایک برکت والی کتاب میں تبدیل کردیا ہے۔
ضرورت ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ وہ کیا چیزیں تھیں، جن کو برت کر ایک گئی گذری قوم اتنی آگے بڑھ گئی اور وہ کیا باتیں تھیں، جن کو چھوڑ کر آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے والی قوم پستی کی گہرائیوں میں چلی گئی، بقول ڈاکٹر اقبال رحمه الله :
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
قرآن آج بھی قوموں اور افراد کو بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، شخصیتوں کی تعمیر کا نسخہ آج بھی پوری طرح کارگر ہے، قرآن کا دامن اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے، ہم ان میں سے بطورِ نمونہ چند کوذکر کرتے ہیں:
قوتِ ایمانی
جہاں تک میں نے قرآن کو پڑھا ہے، قرآن نے سب سے زیادہ زور ایمان ویقین پر دیا ہے، کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول اسی قوتِ ایمانی کا ہے، ایمان کا درجہ فرد یا قوم کی زندگی کے لیے روح کا ہے، یہ شخصیت کو زندگی اور زندگی کو توانائی بخشتا ہے، اس کے بغیر دنیا میں نہ کوئی پنپ سکتا ہے اور نہ ابھرسکتا ہے، شخصیت بنتی ہے اسی بنیاد پر، اس کو ہٹاکر کی جانے والی ہر کوشش فقط خسارہ کا سودا ہے، جس کا نظارہ ہردور میں چشمِ فلک نے کیا ہے اور جس پر ماہ وسال کی گردشیں گواہ ہیں، قرآنِ کریم نے صدیوں کے اسی تجربہ پر تصدیق کی مہر لگائی ہے:
ترجمہ: قسم ہے زمانے کی، بیشک انسان گھاٹے میں ہے سوائے ایمان والوں کے جنھوں نے نیک اعمال کیے، ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کی۔
یہ سورت شخصیت سازی کے مسئلے میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس سورة کا موضوع ہی انسانیت کی تعمیر اور نفع ونقصان کے معیار کا تعین ہے، قرآن پورے یقین کے ساتھ (اور قرآن کا ہر بیان یقینی ہوتا ہے) اور ہر قسم کے شک وشبہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ: جو لوگ ایمان والے نہیں ہیں، وہ گھاٹے میں ہیں،اگرچہ کہ وہ بظاہر نفع میں دکھائی دیں، اوراگر کوئی صاحبِ ایمان گھاٹے میں دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے اپنے ایمان پر محنت کرنی چاہیے، قرآنِ کریم نے ایسے ایمان والوں کو ہدایت کی ہے:
یٰأیہا الذین آمنوا آمِنوا (اے ایمان والو! تجدِید ایمان کرو)
قرآن اور صاحبِ قرآن نے نزولِ قرآن کے آغاز سے پوری مکی زندگی صرف ایمان کی محنت پر گذاری اور عمل کی جگہ پر نماز اور تلاوتِ قرآن کے علاوہ کوئی حکمِ شرعی بندوں کو نہیں دیا گیا، بندوں میں یہ یقین بنایاگیا کہ اصل چیز اللہ کی رضا ہے، ساری محنت اسی لیے کی جانی چاہیے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اس لیے زندگی کے ہر مسئلے میں یہ دیکھنا ہوگا کہ اللہ کی مرضی کیاہے؟ اللہ کی مرضی اور اس کا حکم جان لینے کے بعد پھر اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہ جاتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنِ الحکمُ اِلاّ للِّٰہ علیہ توکلّتُ وعلیہ فلیتوکل المتوکلون (یوسف:۸)
ترجمہ: ”فیصلہ صرف خداکا چلے گا، اسی پر میرا بھروسہ ہے اور بھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔“
وَمن لم یَحْکُمْ بما انزلَ اللّٰہ فاولٰئک ہم الفاسقون․ (مائدہ:۷)
ترجمہ: ”اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق جولوگ فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔“
ما کان لموٴمنٍ ولا موٴمنة اذا قضی اللّٰہُ ورسولُہ أَمْرًا أن یکونَ لہم الخِیَرة․
ترجمہ: ،،جب اللہ اور اس کے رسول نے کسی قضیہ میں فیصلہ سنادیا تو پھر کسی موٴمن مرد یا عورت کے لیے اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔“
نماز اور تلاوتِ قرآن بھی اگرچہ عمل کے درجہ کی چیز ہے؛ لیکن یہ بھی ایمان ہی کا تکملہ ہیں، ایمان کو غذا انھیں کے وسیلے سے ملتی ہے، خدا سے رابطہ کا یہی ذریعہ ہیں، بندہ انھیں واسطوں سے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، یہ دونوں چیزیں عبدومعبود کے رشتے کو مضبوط کرتی ہیں، اس طرح گویا یہ بھی ایمان ویقین ہی کا حصہ ہیں۔
ایمان نام ہے دل سے مان لینے کا اور اسلام نام ہے سرِتسلیم خم کردینے کا، جس کو قرآن اتباع، اطاعت اورانقیاد وغیرہ اصطلاحات سے ذکر کرتا ہے، قرآن اپنے ماننے والوں کا شروع سے یہ ذہن بناتا ہے کہ رب کے سامنے اپنے کو ہر طرح سرینڈر کردینا ہی بندگی ہے، ایسے لوگوں کو قرآن رضوانِ الٰہی کا پروانہ دیتا ہے:
ترجمہ: ”اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، یہ سعادت رب سے ڈرنے والوں کو ملتی ہے۔“
قرآن نے یہ فکردی ہے کہ قوتوں کا سرچشمہ رب العالمین ہے، موت وحیات کے تمام مسائل کی ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے، مال واسباب صرف ظاہری ذرائع ہیں، نہ یہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلے کو بناسکتے ہیں، فیصلے تمام تر احکم الحاکمین کے دربار سے ہوتے ہیں:
أیحسب أن مالَہُ أخلَدَہُ، کلاّ لَیُنْبَذَنَّ في الحُطَمة (سورہٴ ہمزة:۳،۴)
ترجمہ: ”کیاوہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا ہرگز نہیں یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیاجائے گا۔
اِنْ یَنْصُرْکُمُ اللّٰہَ فلا غالبَ لَکُم واِن یَخْذُلْکُم فمن ذا الذی ینصرُکم من بعدہِ فلیتوکلِ المتوکلون (آل عمران:۱۷)
ترجمہ: ”اگر اللہ تمہارا مددگار ہوتو تم پر کوئی غالب نہیںآ سکتا، اوراگر اللہ تمہیں رسوا کریں تو پھر اس کے بعد تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، پس بھروسہ صرف اللہ پر کرنا چاہیے۔“
اس طرح کی بیشمار آیات ہیں، جن میں قرآن نے بندہ کا رشتہ پروردگار سے جوڑنے پر زور دیا ہے اور جب بندہ کا تعلق اپنے رب سے ہوجاتا ہے، تو دنیا کے سارے رشتے اس کے زیرِ سایہ چلے آتے ہیں، انسان میں خدا اعتمادی سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، انسان کے دل میں اپنے پروردگار کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز سے پیار جاگ جاتا ہے،اور تمام وہ اچھی باتیں جو اللہ کو پسند ہیں، وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اورہر ایسے کام سے ڈرتا ہے، جن سے پروردگار ناراض ہوتا ہے، اس طرح انسان فضائل واخلاق کا پیکر، امن ومحبت کا پیامبر اور خداشناشی وخودشناشی کا سنگم بن جاتا ہے، اس کو دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے، اس کی پیشانی میں خدا کا نور جھلکتا ہے، اس کے پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے، اس کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، اس طرح ایک معیاری اور تعمیرپسند سوسائٹی کی بنیاد پڑتی ہے․․․
تو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے، یہ نہ ہوتو ساری چیزیں کھوکھلی ہیں۔
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا اہم ترین درجہ عملِ صالح کا ہے، قرآنِ کریم نے سورئہ والعصر میں اس کو دوسرے مقام پر رکھا ہے، جو لوگ آرزوؤں اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں اور کام سے زیادہ منصوبے بنانے پر اپنے اوقات صرف کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی تعریف ہو، قرآن ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اچھے کاموں کے بغیر دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا، اچھی شخصیت اچھے کاموں سے بنتی ہے، پھر اچھے اعمال کی ایک طویل فہرست ہے، جو قرآن میں بکھری پڑی ہے، اہلِ علم ان سے بخوبی واقف ہیں، بطورِ نمونہ ایک دو آیات کا حوالہ دیتا ہوں:
سورئہ موٴمنون کی درج ذیل آیت میں بعض اعمال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو کامیابی کا مدار قرار دیاگیا ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الموٴمنون الذین ہُم في صلاتِہم خاشِعون والذین ہُم عَنِ اللَّغْوِ مُعرِضون والذین ہم للزکوٰة فاعلون والذین ہُمْ لفروجِہم حافِظُون والذین ہم لامٰنٰتہم وعَہْدِہم راعون والذین ہم علٰی صلاتہم حافظون (موٴمنون:۱)
ترجمہ: ”بیشک وہ ایمان والے کامیاب ہیں، جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جو بیکار باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، جو زکوٰة ادا کرتے ہیں، جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ کرتے ہیں، اور جو نمازوں کے پابند ہیں۔“
ترجمہ: ”نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق ومغرب کی جانب کرو؛ بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ اللہ پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب اور نبیوں پر ایمان ہو (اور اعمال میں) اور مال سے بے پناہ محبت کے باوجود اس کو اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرے، نماز ادا کرے، زکوٰة دے، وعدہ کرے تواس کو پورا کرے، مصیبت وتکلیف اور جنگ میں صبر وثبات کا مظاہرہ کرے، یہی لوگ راست باز اور تقویٰ والے ہیں۔“
سورئہ فرقان میں ہے:
وعبادُ الرحمٰن الذین یَمْشُون علی الارضِ ہوناً واذا خاطَبَہم الجاہلونَ قالوا سلٰماً والذین یبیتون لرَبِّہم سُجَّدًا قیامًا والذین یقولون ربَّنا اصرِف عذابَ جہنمَ انَّ عذابہا کان غرامًا، انّہا سَائَتْ مستقرًا ومقاماً والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذٰلک قوامًا والذین لایدعون مع اللّٰہ الٰہاً آخر ولا یقتلون النفس التي حَرَّم اللّٰہُ الاّ بالحقِّ ولایزنون ومن یفعل ذٰلک یَلْقَ اثاماً․․․ والذین لایشہدون الزورَ واذا مرّوا باللغو مرّوا کِراماً والذین اذا ذکروا بآیٰتِ ربِّہم لم یَخِرّوا علیہا صُمًّا وعُمیاناً والذین یقولون ربنا ہب لنا من أزواجّنا وذریٰتِنا قرةَ أعیُنْ واجعلنا للمتقین امامًا (فرقان:۶)
ترجمہ: ”اور اللہ کے نیک بندے وہ ہیں، جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں اور جب ناسمجھ لوگ ان کو مخاطب کرتے ہیں تو سلام کہہ کر گذرجاتے ہیں، جو راتوں میں اٹھ کر پروردگار کے حضور سجدہ و قیام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور فرما، اس کا عذاب پوری تباہی ہے،اور وہ برا ٹھکانہ اور مقام ہے، جو خرچ میں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ فضول خرچی کرتے ہیں؛ بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں،جو اللہ کے علاوہ کسی معبود کو نہیں پکارتے،جو کسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو خدا نے منع کیا ہے، اور نہ بدکاری کرتے ہیں، کہ جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہوگا، اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے،اور جب کبھی لغویات سے گذرتے ہیں تو سنجیدگی اور وقار سے گذرجاتے ہیں، اور جب خدا کی آیات ان کو سنائی جائیں تو وہ اندھے اوربہرے نہ ہوجائیں، اور یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش اور ہم کو پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔“
اسی طرح سورئہ شوریٰ،آل عمران، قصص، دہر وغیرہ میں متعدد آیات میں اعمالِ خیر کی تفصیل دی گئی ہے۔
موافق ماحول
تیسرا اہم ترین محرِّک اچھا ماحول ہے، جس کو قرآن نے وتَواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (اور ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کریں) سے تعبیر کیا ہے اس لیے کہ جس سوسائٹی میں حق بات کہی اور سنی جاتی ہو اور جس کی بنیاد محض جذباتیت اور اشتعال کے بجائے صبر وتحمل اور ایک دوسرے کے لیے برداشت کے جذبہ پر ہو، اس سے بہتر سوسائٹی دنیا میں کیاہوسکتی ہے؟
انسان کی ذہنی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا حصہ ہے، انسان کواگر اچھا ماحول اور موافق گردوپیش میسر آجائے تو اس کی شخصیت بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی ہے، بہتر ماحول علم وعمل کی کمی کی بھی مکافات کردیتا ہے، یعنی علم وعمل میں انسان نسبتاً کمتر ہو؛لیکن اسے موافق ماحول اور اچھی صحبت مل جائے تو علم وعمل کی کمی کے باوجود وہ اپنا مقام بنالیتا ہے، انسان کے آگے بڑھنے کے لیے ماحول سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں ہوتا، علم وعمل کی تمام خوبیوں کے باوجود اگر انسان کو موافق ماحول اور بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو اس کی ترقی وتعمیر میں بڑی مشکلات پیش آئیں گی، علم وعمل کو ماحول ہی پروان چڑھاتا ہے،اسی لیے نماز، روزہ اور دیگر عبادات میں اللہ نے ماحول بنانے پر زور دیا ہے، یہ نماز باجماعت، رمضان کا اجتماعی روزہ، حج کااجتماع، عید، جمعہ، کسوف، استسقاء وغیرہ کا اجتماع، یہ سب اسی لیے ہے کہ عمومی ماحول میں کوئی بڑا سے بڑا کام بھی آسان ہوجاتا ہے، اس طرح سوسائٹی کے اکثر افراد کو نیک کاموں کی توفیق ہوجائے تو ایک شاندار معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، قرآن کریم نے درج ذیل آیت میں اسی حقیقت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے:
ترجمہ: تم ایک بہتر امت ہو جو اچھائیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔
قرآن زندگی کے تمام معاملات میں اسی طرح کی وحدت کو پسند کرتا ہے،اور معاشرہ کی انارکی اور انتشار کوناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، آیت کریمہ ہے واعتصموا بِحَبْلِ اللّٰہِ جمیعاً ولا تفرَّقوا․ (آل عمران:۱۱)
ترجمہ: اور خدا کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑلو اور باہم انتشارمت پیداکرو۔
ایک جگہ ارشاد ہے:
وأطیعوا اللّٰہَ ورسولَہُ ولا تنازَعُوا فتفشَلُوا وتذہبَ ریحُکم (انفال:۶)
ترجمہ: اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو ورنہ ہمت ہار بیٹھوگے اور تمہاری ہوا اکھڑجائے گی۔
قرآن چاہتاہے کہ اسلامی معاشرہ باہم محبت واخوت کی بنیاد پرترقی کرے اور سب بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے مددگار ہوں:
سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔
قرآن حسب ونسب سے زیادہ دینی اخوت کا وکیل ہے:
فان لم تعلموا آبائَہُم فَاخوانُکم في الدینِ وموالیکم (احزاب:۱)
ترجمہ: اگر تم کو ان کے خاندان کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے بھائی اور اہلِ تعلق ہیں۔
حضور صلے اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
”سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے مثل ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے تو سارا بدن دکھ محسوس کرتا ہے اوراگر سر میں درد ہوتو پورا جسم تکلیف میں ہوتا ہے (صحیح مسلم کتاب البر والصلة،ج:۲،ص:۳۸۹ مصر)
آج یہی چیز مسلم سوسائٹی سے ختم ہوگئی اور وہ رنگ ونسل، خاندان، علاقہ اور زبان کی تنگ نظریوں میں مبتلا ہوگئی اورانسان کی ترقی اوراس کی شخصی تعمیر کاراستہ مشکل ہوگیا۔
حسنِ ادب
اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے، ادب سے شخصیت میں نکھار، وقار اور زندگی میں جاذیبت اور محبوبیت پیداہوتی ہے، اگر بچہ میں شروع سے ادب کی عادت ڈالی جائے اور اچھے آداب اسے سکھائے جائیں تو وہ بڑا انسان بن سکتا ہے اور قوم وملت کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے، زندگی کے ہر مرحلے کے لیے قرآن نے ادب کا درس دیا ہے، ہم بطور نمونہ دو تین چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
# انسان جب ایک ساتھ رہتا ہے توایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ایسے موقع پر اگر انسان حدود کی رعایت نہ کرے تو بہت سے فتنے پیدا ہوں گے؛ اس لیے قرآن نے اس کے لیے کچھ حدود وآداب مقرر کیے ہیں مثلاً اجازت لے کر جاؤ نیز اجازت کا طریقہ یہ ہے کہ: دروازہ سے باہر سلام کرو!ذیل کی آیت کو پڑھیے:
ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں مت جاؤ؛ مگر اجازت لے کر اور گھروالوں کو سلام کرکے، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے؛ تاکہ تم سبق حاصل کرو۔
# اگر دوسرے کے گھر کی عورتوں سے کچھ لینا ہوتو اس کا ادب یہ بتایاگیا:
ترجمہ: جب تم کو سلام کیا جائے تو اس کا جواب اور بہتر پیرایے میں دو یا کم از کم اسی کو دہرادو۔
# حضور صلے اللہ علیہ وسلم سے خصوصی ملاقات کے آداب پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کہتاہے:
یٰاہا الذین آمنوا اذا ناجیتم الرسولَ فقدِّموا بینَ یدی نَجْوٰیکم صدقةً ذٰلک خیرٌ لکم وأطہر فان لم تجدوا فان اللّٰہ غفور رحیم (مجادلة:۱۲)
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے اکیلے میں ملنا چاہوتو پہلے صدقہ کرو،اس میں تمہارے لیے خیر اور پاکیزگی ہے، اگر اس کی طاقت نہ ہوتو اللہ بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔
اس حکم کا ایک مخصوص پس منظر تھا جو کچھ دنوں کے بعد ختم کردیاگیا؛ لیکن فی الجملہ اس سے بڑوں کے دربار میں جانے کے آداب پر روشنی پڑتی ہے اور چھوٹوں کو کیا تیاری کرنی پڑتی ہے، اس کی حیثیت جھلکتی ہے،اور اس سے چھوٹوں میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔
# حضور صلے اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کے آداب پر قرآن نے بتایاکہ آپ سے عام لوگوں کی طرح گفتگو نہ کرو؛ بلکہ اس کا دھیان رکھو کہ تمہاری آواز نبی صلے اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے:
ترجمہ: بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پر زندگی گذارو، اگر تم کو وہ پسند نہ آئیں تو بھی ممکن ہے کہ ایک چیز تم کواچھی نہ لگے اوراللہ نے اس میں بہت خیر رکھا ہو۔
اسی بات کو ایک حدیث میں ارشاد فرمایاگیا:
”اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر اس سے نفرت نہ کرو کہ غور کروگے تواس میں کوئی دوسری بات اچھی نکل آئے گی۔“ (صحیح بخاری ومسلم کتاب النکاح باب الوصیة بالنساء)
# زمین پر چلنے کا ادب بتایاگیا:
ولاتمشِ في الارضِ مرحاً انک لن تخرِقَ الأرضَ ولن تبلُغَ الجبالَ طولاً (بنی اسرائیل:۴)
ترجمہ: زمین میں اکڑکر نہ چلو کہ نہ تو زمین کو پھاڑسکتا ہے اور نہ پہاڑوں تک اونچائی میں پہنچ سکتا ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے:
ولا تمشِ في الارضِ مرحاً ان اللّٰہَ لا یحبُّ کلَّ مختالٍ فخور (لقمان:۲)
ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چل، بیشک اللہ کسی مغرور اور متکبر کو پسند نہیں کرتا۔
# گفتگو کا سلیقہ بتایاگیا کہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ اور سامنے والے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے، ارشاد ہے:
فقولا لہُ قولاً لیناً (طہ:۲) ترجمہ: ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔
شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہ کی بھی شدید ضرورت ہے، قرآنِ کریم نے ایسے شخص کی کامیابی کی ضمانت دی ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا:
قد أفلح مَنْ زکّٰہا (الشمس) ترجمہ: جس نے اپنا تزکیہ کیا وہ یقینا کامیاب ہوگیا۔
قرآن کریم نے فرائضِ رسالت میں اس کو شمار کیا ہے۔
یتلو علیہم آیاتہِ ویزکیہم (آل عمران:۱۶۴)
ترجمہ: رسول صلے اللہ علیہ وسلم ان کو خدا کی آیات سناتے ہیں اور انکا تزکیہ کرتے ہیں۔
تزکیہ کا مطلب ہے اصلاحِ قلب اور اصلاحِ باطن، جب تک انسان کا باطن درس نہیں ہوتا، ظاہری وضع داری سے کچھ نہیں ہوتا؛ بلکہ باطن کے فساد کے ساتھ دکھاوے کا تقویٰ نفاق کو جنم دیتا ہے، اور اس سے شخصیت بننے کے بجائے اور بگڑجاتی ہے، دورخاپن انسانیت کے لیے بدترین لعنت ہے، قرآن اور صاحبِ قرآن نے اصلاحِ باطن پر بہت زیادہ توجہ دی ہے، اور ایمان کو دل ونگاہ میں راسخ کرنے کی تلقین کی اوراس کے لیے خوف خدا، آخرت کی جواب دہی، جہنم کا ڈر اور دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی کے حوالے دیے ہیں اور دکھاوے کے ہر عمل پر وعید سنائی ہے۔
# نماز بہت بڑی عبادت ہے لیکن غفلت وریا کے ساتھ ادا کی جائے تو ثواب کے بجائے گناہ بن جاتی ہے:
فویلٌ للمصلین الذین ہم عن صلاتِہم سَاہون الذین ہم یُراوٴن (ماعون)
ترجمہ: ”ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے، جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اور محض دکھانے کے لیے نمازپڑھتے ہیں“:
ان المنافقین یخٰدعون اللّٰہ وہو خادِعُہم واذا قاموا الی الصلٰوةِ قاموا کُسالیٰ یراوٴن الناسَ ولا یذکرون اللّٰہ الا قلیلاً (نساء:۲۱)
ترجمہ: منافقین خدا کو دھوکہ دیتے ہیں؛ حالانکہ وہ خود دھوکہ میں مبتلا ہیں، یہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور اللہ کو بس برائے نام ہی یاد کرتے ہیں۔
ترجمہ: ”اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتاکر، یا ایذا پہنچاکر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔“
# دورُخا پن کو قرآن نے منافقوں کی خاص عادت قرار دیا ہے:
ترجمہ: اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مسلمانوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے لیے احادیث میں بھی شدید وعیدیں آئی ہیں:
ایک حدیث میںآ یا ہے کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب سے بدتر دورُخے شخص کو پاؤگے جو کچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور (بخاری کتاب الأدب باب ما قیل في ذي الوجہین)
ایک اور حدیث میں ہے:
”دنیا میں جس شخص کے دورخ ہوں گے قیامت کے دن اس کے منہ میں دوزبانیں ہوں گی“ (ابوداؤد کتاب الادب باب ذي الوجہین)
ایک بار حضرت عبداللہ بن عمر رضي الله عنهما سے کہا گیا کہ ہم لوگ امراء وحکام کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں اور وہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں، بولے ہم لوگ عہدِ رسالت میں اس کا شمار نفاق میں کرتے تھے۔ (صحیح بخاری باب ما قیل فی ذی الوجہین)
# انسان کے باطنی امراض میں بدگمانی خطرناک مرض ہے، ایسے شخص کو کبھی سکون نہیں ملتا اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتا ہے، قرآن اس کو بڑا گناہ قرار دیتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین کرتا ہے:
ترجمہ: اے ایمان والو! زیادہ بدگمانی سے بچا کرو بیشک بعض بدگمانی گناہ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس طرح بدگمانی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح بدگمانی کے مواقع سے خود کو بچانا بھی ضروری ہے۔
ایک دفعہ حضور صلے اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، رات کو ازواجِ مطہرات میں سے کوئی آپ سے ملنے آئیں، آپ صلے اللہ علیہ وسلم اُن کو واپس پہنچانے چلے کہ اتفاقاً راستہ میں دو انصاری صحابی آگئے، وہ آپ کو دیکھ کر واپس پھرنے لگے، آپ نے فوراً آواز دی اور فرمایا یہ میری بیوی فلاں ہیں، انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! اگر مجھے بدگمانی ہی کرنی ہوتی تو آپ کے ساتھ کرتا، ارشاد ہوا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے (صحیح مسلم باب انہ یستحب لمن روی خالیاً بامرأة یقول ہذہِ فلانة)
# باطنی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری بخل ہے، قرآن نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے، ارشاد فرمایا:
ولا یَحسبنَّ الذین یبخلون بما آتٰہم اللّٰہُ مِنْ فضلہِ ہو خیرًا لہم بل ہو شرلہم سیطوقون ما بخلوا بہِ یومَ القیٰمة (آل عمران:۱۸)
ترجمہ: اور جولوگ اس مال کو جو خدانے اپنی مہربانی سے ان کو دیا ہے روکے رکھتے ہیں، وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں؛ بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہیں، جس مال کو بچانے کے لیے وہ بخل کے شکار ہیں، وہ ان کے گلے میں طوق بناکر لٹکادیا جائے گا۔
اس مضمون کی بہت سی آیات قرآن میں موجود ہیں، طوالت کے خوف سے ترک کرتا ہوں۔
اسی طرح حرص وطمع، حسد وبے ایمانی، غیظ وغضب، بغض وکینہ، فخر وغرور، خودبینی و خودنمائی اور خودرائی وغیرہ بہت سے اندرونی امراض ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل ودماغ سے ہے، جن کا قرآن نے خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے اور ان کی اصلاح پر زور دیا ہے، طوالت کے ڈر سے صرف آیات کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں (دیکھئے نساء:۹، حشر:۱، حجر:۶، نساء:۵، کہف:۱۰، بقرہ:۳۲، نساء:۱، اعراف:۲۴، حشر:۱، حجر:۴، اعراف:۲،۴-۵، ابراہیم:۳، مومنون:۳، ہود:۳، مومن:۴، نحل:۳، بنی اسرائیل:۴، لقمان:۲، نساء:۸، بقرة:۱۳، وغیرہ۔ ماخذ
شخصیت سازی کے لیے جس طرح عملی زندگی میںادب واخلاق، صلاح وتقویٰ، کردار کی بلندی، دل ونگاہ کی پاکیزگی اور لب ولہجہ کی شائستگی ضروری ہے، وہیں تعلیم وتربیت اور فکری بالیدگی کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اس سے زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے اور انسان دوررس نتائج کے حامل کارناموں کو انجام دینے کے قابل ہوجاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے جہاں نبی کریم ﷺ کے فرائضِ منصبی پر روشنی ڈالی ہے، وہاں ایمان واخلاق کے بعد تعلیم کا تذکرہ بھی کیاہے:
ترجمہ: خدا نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیاکہ ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں؛ جب کہ پہلے یہ لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔
یہ آیتِ کریمہ فرائضِ رسالت اورکارہائے نبوت کے سلسلے میں سنگِ میل کادرجہ رکھتی ہے، اس میںقرآنِ کریم نے کارِ نبوت کی تمام تفصیلات کو صرف تین عنوانات کے تحت سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔
۱- تلاوتِ آیات ۲- تزکیۂ اخلاق وعمل ۳- تعلیمِ کتاب وحکمت
٭ تلاوت آیات میں بنیادی تعلیم (جس کو قرأت بھی کہہ سکتے ہیں) اور ایمان ویقین کی آبیاری اور محنت کی ساری تفصیلات داخل ہیں، اس لیے کہ شخصیت کی ابجد قرأت سے شروع ہوتی ہے اور اسی راستے سے قلب وروح میں ایمان اور عقیدہ کا تخم پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس میں رسوخ حاصل ہوتا ہے؛ اسی لیے وحی کا پہلا سبق اس طرح شروع کیاگیا:
ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔
عبد اور معبود کے درمیان رابطہ اور تعلق کی جتنی تفصیلات ہیں، وہ بھی تلاوت آیات کی ضمن میں آتی ہیں؛ اس لیے کہ قرآن خدا کا کلام ہے اور خدا کا کلام پڑھنا گویا اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا ہے، رابطہ کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی؛ اسی لیے پوری مکی زندگی میں جس کو ہم مختصر لفظوں میںایمانی دور کہہ سکتے ہیں، اس میںکلمۂ ایمان اور نماز اور تلاوت کے ماسوا کوئی حکمِ شرعی (اعمال کی قبیل سے) ہم کو نہیں ملتا اور یہ سب رابطۂ الٰہی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیت بتاتی ہے کہ ایمان یعنی اللہ اور بندے کے تعلق پر محنت فرائض نبوت کی پہلی منزل ہے اور انسان کی شخصیت کی تعمیر میں بھی اس کا درجہ اولین ہے جیساکہ گذشتہ سطور میں ہم عرض کرچکے ہیں۔
دوسرا مرحلہ تزکیہ ہے اس کی اہمیت پر ہم پچھلے صفحات میں گفتگو کرچکے ہیں۔
تیسرا اور آخری مرحلہ تعلیم وتفکیر ہے، یہی چیز نبی آخر الزماں ﷺ کو تمام نبیوں اور رسولوں میںامتیاز بخشتی ہے، یہی آپ کا نسخۂ انقلاب ہے، یہی بات اس آخری امت کو امتِ وسط بناتی ہے، یہی دعائے خلیلؑ اور نوید مسیحؑا کا حاصل ہے، یہ ختمِ نبوت کی علامت ہے، اسی سے حضور خاتم النّبیین ﷺ کے بعد اس امت کی بقاوابستہ ہے اور یہی چیز افراد واقوام کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
کتاب سے مراد قرآنِ کریم ہے اور اس میں خدا کی وہ کتاب بھی شامل ہے، جو وسیع کائنات میں چہار طرف پھیلی ہوئی ہے، خود قرآنِ کریم بھی بار بار انسانوں کو خدا کی اس کھلی کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عہدِ گذشتہ کے واقعات سے عبرت آموز تأثر پیدا کرتا ہے۔
ترجمہ: کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیداکیے گئے، آسمان کس طرح اٹھائے گئے، پہاڑ کس طرح نصب کیے گئے اور روئے زمین کیسے پھیلائی گئی، آپ ان کو سمجھائیں، آپ ناصح اور سمجھانے والے ہیں، ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔
اس طرح کی بیشمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں بطورِ نمونہ یہی ایک کافی ہے۔
قرآن اس نئے دور میں علم وعرفان اور فکر وفلسفہ کا بانی ہے، پہلے کبھی علم کو وہ درجہ نہیںدیاگیا، جو اسلام میں دیاگیا؛ اسی لیے پہلے کی تاریخوں میں وہ آفاقی شخصیتیں بھی نہیں ملتیں جو عہدِ اسلامی کے آغاز کے بعد ملتی ہیں، قرآن نے دنیا کو نیا ذہن اور نئی فکردی،اشیا کے حقائق اور ان سے پیدا ہونے والے نتائج کی طرف ذہنوں کو متوجہ کیا اور ان کو علم وعرفان اور ظلم وجہل کا فرق بتایا، علم کے نور سے شخصیتوں میں چارچاند لگائے اور انسانوں کو ایک نئے علمی دور کے لیے تیار کیا، یہ قرآن کا وہ معجزانہ کارنامہ ہے، جو اسلام سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیںآیاتھا۔
ہم اس موقع پر قرآن کے اندازِ تربیت، ذہنی ارتقا کے مراحل اور کچھ علمی نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس سے اندازہ ہوگا کہ قرآن علم کی بنیاد پر افراد واقوام کو کس طرح تیار کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات کی بدولت ایک عام انسان کس طرح بڑے کارناموں کے لائق ہوجاتا ہے۔
ذہن سازی
قرآن نے ایمان وعمل کے بعد انسان کو علم وجہل، نور وظلمت اور تمدن ووحشت کا فرق سمجھایا؛ اس لیے کہ ذہنی تیاری کے بغیرکوئی نصب العین پورا نہیں ہوسکتا، جب تک انسان کو خیرو شر میں امتیاز نہ ہوگا؛ وہ شعوری طور پر خیرکو نہیں اپناسکے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب وروز کی گردش میں نشانیاں ہیں، عقل والوں کے لیے جو اللہ کا ذکر کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں (پھر بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تونے یہ سب بلاوجہ پیدا نہیںکیا، تو ہر عیب سے پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دعوت انقلاب
جب قرآن نے محسوس کیا کہ اب اس قوم کی حسیت جاگ اٹھی ہے اور اس کی قوت فکریہ اپنی پرواز کے لیے کسی وسیع خلا کو ڈھونڈھ رہی ہے، تو فوراً اس نے انقلاب اور حرکت وعمل کی دعوت دی اور اس کو سمجھایاگیا کہ دنیا میں انقلابات عدم کے پیٹ سے وجود میں نہیں آجاتے؛ بل کہ اس کے لیے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے، زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے، وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوارا نہیں کرتی؛ بل کہ ناممکنات سے امکانات اور مشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ حالات کے بدلنے کا انتظار نہیں کرتی؛ بل کہ دستِ ہمت سے وہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے اور اندھیروں سے ڈرکر، وہ اپنا سفر موقوف نہیں کرتی؛ بل کہ احکامِ الٰہی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے:
ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیںسکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
قرآن نے قوموں کے خیروشر کا مدار خود اس کے اپنے اعمال پر رکھ دیا ہے، جو قوم یہ کہتی ہو کہ کیا کریں حالات اور قسمت نے ہمیںپیچھے کردیا؟ وہ درحقیقت اپنی بزدلانہ کم ظرفی کا اظہار کرتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جو قوم جیسا عمل کرتی ہے اس کے ساتھ قدرت کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے:
ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔
قرآن نے صاف طور پر اس قوم کو خسارہ کا سودا کرنے والی قرار دیا ہے، جس میں نورِ باطنی کے ساتھ ساتھ اخلاق وعمل کی اسپرٹ موجود نہ ہو اور قرآن اس کے لیے تاریخِ عالم اور حوادثِ روزگار کو بطورِ شہادت پیش کرتا ہے، جیساکہ سورئہ والعصر کے حوالہ سے پچھلے سطور میںعرض کیاگیا۔
یہ کسی قوم کو تدریجی انقلاب کی طرف لانے کے لیے قرآن کے طرزِ تعلیم کا دوسرا مرحلہ تھا، فکر وعمل کی پیہم تاکیدات کے بعد جب یہ قوم کسی عمل کے لائق ہوگئی اور علم وفن، تہذیب وتمدن اور تجارت و سیاست کے میدان میں اترنے کے قابل ہوگئی، تو اس کو کچھ اشارات دیے گئے، ہدایات واحکام سے نوازا گیا، اسرارِ عالم سے پردہ اٹھایاگیا، عقل وخرد اور فکروفن کے وہ راز بتائے گئے جو آج تک کسی مصلحِ قوم نے اپنی قوم کو نہ بتائے تھے اور خود خالقِ کائنات نے اپنی دنیا کے بعض حقائق وعلل کی نشاندہی کی، جس کی روشنی میں چل کر آج دنیا فلسفۂ جدید اور سائنٹفک دور تک پہنچی۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جس کتابِ الٰہی نے فکر وفلسفہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کو آسمان وزمین اور مخلوقاتِ عالم میںغور کرنے کی دعوت دی وہ قرآن تھا، قرآن سے قبل کسی بڑے سے بڑے آشنائے راز نے بھی ان حقائق کا پردہ چاک نہ کیا، جو خدا کے خزانۂ غیب میں مستور تھے، اس طرح گویا قرآن ہی کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ فکروفن کی بھی پہلی کتاب ہے؛ مگر افسوس کہ خود ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور غیروں کے کاسہ لیس ہوکر رہ گئے:
دیکھ آکر کوچۂ چاکِ گریباں میں کبھی
قیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمِل بھی تو
وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہوگیا
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفِل بھی تو
زبان وقلم کی ضرورت
قرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا؛ اس لیے کہ عالم الغیب والشہادۃ خوب جانتا تھا کہ اب جو دور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دور ہوگا، خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا اور سائنٹفک دور زبان وقلم پر تعمیر ہوگا؛ چنانچہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم ﷺ پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہ تھے:
ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے علم سکھایا۔
قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے، اس سورہ کی ابتدا ہی میں اللہ نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے، جو قرآنی اسلوب میںقلم کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے:
ن والقلمِ وما یَسْطُرُوْن (القلم) ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کی جولوگ لکھتے ہیں۔
ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے، ان کو ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا تو دوسری طرف رموزِ کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے، جن سے قوتِ فکر کو مہمیز ملتی ہے۔
ظواہر طبیعی
قرآن نے بعض آیات میں ان اسباب طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں؛ مگر جمود یا غفلت کی بنا پر وہ ان میں غور نہیں کرتے اور نہ ان سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں:
ترجمہ: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھالیا اور آگ میں تپاکر زیور بناتے وقت یا کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے، اسی طرح اللہ حق وباطل کی مثال بیان کرتے ہیں، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہوجاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے، اسی طرح اللہ سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔
ترجمہ: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیںلاتے؟
اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچاگیا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں ’’بگ بینگ‘‘ نظریہ کہا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ایک بہت بڑے گولے (سپرایٹم) کی شکل میں تھا، معلوم طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزاء اپنے اندرونی مرکزکی طرف کھنچ رہے تھے اور انتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے پھرنامعلوم اسباب کی بنا پر اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا، اور اس کے تمام اجزاء بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے:
ترجمہ: اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ ان کو لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے؛ تاکہ لوگ راہ پائیں اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔
اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیاگیا ہے، جن میںایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے، جس کو جدید سائنس میںارضی توازن (Isostasy)کہاگیاہے، اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میںانسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے، زمین کہیں ہموار ہے تو کہیںپہاڑی دُرّے اور کہیں دریائی شگاف ہیں۔
اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ آسمان اور اس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طور پر ہے کہ وہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے اور شہابِ ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
ترجمہ: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کردیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں اور بہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگادیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطہ پر مسلسل چل رہے ہیں اور رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگادیا اورتمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا اور اللہ کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہوتو گنتی کاشمار پورا نہ کرسکوگے، بیشک انسان بڑا بے انصاف اور ناشکرا ہے۔
اس آیت میں قرآن نے تسخیر کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایاکہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گذار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں؛ بل کہ فروتر ہے، اسلام سے قبل انسان نادانی کی بنا پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میںاپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا اور انسان کو اس کا مقام یاد دلایا:
ترجمہ: بوجھل اور رس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سے پانی برسایا پھر تم کو خوب سیراب کیا؛ جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔
اس آیت کی کسی دقیق علمی تفسیر سے گریز کرتے ہوئے، اگر ظاہری معنی ہی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے، آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیاگیا ہے کہ ہوائوں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے؛ مگر قدرتی طورپر یہاں ابروباد کے رشتہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے۔۔۔ اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک، بجلی کی چمک اور بارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہوجاتے ہیں؛ بل کہ یہیں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کی شکل میں موجود ہے۔
چند علمی حقائق
قرآن میں جہاں ظاہر بینوں اور عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہر طبیعی سے استدلال کیاگیا ہے؛ وہیں اہل نظر اور اربابِ علم وعقل کے لیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، صحیح ہے کہ قرآن کوئی فلسفہ وسائنس اور فنونِ لطیفہ کی کتاب نہیں؛ بل کہ یہ اصل میں کتابِ ہدایت ہے، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر جمع کرنا ہے؛ مگر چونکہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہے اور ہر دور کے لیے کافی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے،اس بنا پر اس میں عام عقلی وبدیہی استدلالات سے لے کر دقیق سائنسی حقائق سے بھی تعرض کیاگیا ہے؛ تاکہ ہر قسم کا مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بہتر غذا مہیا کرسکے، ہمارے محققین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے؛ اس لیے تفصیل کے لیے انھیں کی طرف مراجعت کی جائے۔
میرا مقصد صرف کرگسوں میں پلے ہوئے شکست خوردہ شاہینوں کو یہ بتانا ہے کہ جس علم وفن کی تلاش اورجس آبِ حیات کی جستجو میںوہ مغرب کے بت کدوں کی خاک چھان رہے ہیں، وہ خود ان کے گھر میںموجود ہے، مغرب انھیں علم وفن کی بعض جزئیات سے آگاہ کرسکتا ہے اور آبِ حیات کے چند قطرات فراہم کرسکتا ہے؛ جب کہ خود ان کے گھر میں علم وفن کی کلیات پر مشتمل کتاب (قرآن) موجود ہے، وہ ایک قطرئہ آب کے لیے پریشان ہیں؛ حالانکہ خود ان کے مذہب کی سلسبیل سے چشمۂ حیات بہہ رہا ہے، وہ یورپ کے آشیانوں میں شاہبازی کے آداب سیکھنے جارہے ہیں؛ جب کہ قرآن ان کو اس سے بدرجہا بہتر طور پر سکھانے کو تیار ہے؛ بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں۔
ترجمہ: اور سورج اپنے ٹھکانہ کی طرف چل رہا ہے یہ عزیز وعلیم پروردگار کا مقرر کردہ نظام ہے اور چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں؛ یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہوجاتا ہے، نہ سورج کے بس میںہے کہ وہ چاند کو پکڑلے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، سب آسمانی سمندر میں تیررہے ہیں۔
اس آیت میںقرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میںکتنا دوٹوک نظریہ دیا ہے؛ مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانہ میں سائنس نے یہ نظریہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کررہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں؛ مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کردیا کہ یہ نظریہ غلط تھا اور صحیح نظریہ یہ ہے کہ: سورج بھی اپنے مدار پر گردش کررہا ہے۔
مغربی سائنس دانوں نے اس انکشاف کو جو اہمیت دی،اس کا اندازہ ایک مشہور ماہرِ فلکیات محقق ’’سیمون‘‘ کی کتاب کے اس اقتباس سے لگایاجاسکتا ہے، جو انھوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے:
’’اگر مجھ سے پوچھاجائے کہ سب سے اہم ترین حقیقت کیا ہے، جس کاانکشاف انسانی عقل نے کیاہے تو میں اس کے جواب میں سورج، چاند اور ستاروں کے نام لوںگا، جن کے بارے میں یہ انکشاف کیاگیا کہ یہ سب بسیط فضامیں گول گنبد کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ گردش کررہے ہیں، جو ہمارے احساس سے بالاتر ہے۔‘‘ (مضمون جریانُ الشمس: عبدالرحمن فرتاس، مجلہ العلم والایمان ۱۹۷۶ء)
کواکب کے بارے میں قرآنی نظریہ
کواکب وسیارات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ وہ آسمان کی نچلی سطح کو خوبصورت بھی بناتے ہیں اور مضر اثرات اور طاغوتی یورشوں سے حفاظت کاکام بھی کرتے ہیں:
ترجمہ: ہم نے آسمان کو زرق برق ستاروں سے سجایا اور ہرشیطان سرکش سے اس کو محفوظ کیا، وہ ملأ اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگاسکتے اور ہر طرف سے مارے جاتے ہیں؛ تاکہ ان کو بھگایا جائے اور ان کے لیے ایک دائمی عذاب ہے؛ مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔
زمین کے متعلق قرآنی تصور
قرآن نے آج سے چودہ صدی پیشترہی زمین کی خلقت، اس کی تشکیل اوراس کی حرکت کے متعلق مباحث دنیا کے سامنے رکھ دیے تھے جس پر جدید سائنس ایک حرف کا بھی اضافہ نہ کرسکی۔
٭ زمین کی خلقت کے متعلق قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ: زمین انسانی آبادی کے قابل چھ مرحلوں کے بعد ہوسکی۔
ترجمہ: اے نبی! کہہ دیجیے کیا تم لوگ اس ہستی کاانکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میںبنایا اور تم اس کے لیے ہم سر ٹھہراتے ہو، وہ رب ہے تمام جہان والوں کا اوراس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اوراس میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اس کی غذائوں کانظام چاردنوں میں بنایا ضرورت مندوں کی تکمیل کے لیے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان اور کائنات کو اللہ نے چھ(۶) یوم میں پیدا کیا، اس کے بعد ہی زمین انسانی آبادی کی متحمل ہوسکی؛ مگر یوم سے مراد یہاں لیل ونہار کے دومدار نہیں ہیں، جو سورج کی چوبیس (۲۴) گھنٹے کی گردش سے مکمل ہوتا ہے اور نہ قطبِ ارضی مراد ہے جو عموماً چھ (۶) ماہ کی گردش کے بعد دن یا رات کی صورت میں پیدا ہوتا ہے؛ بل کہ یوم سے مراد وہ قرآنی مدت ہے، جس کو قرآن کی دوسری آیات میں بیان کیاگیا ہے:
ترجمہ:فرشتے اور روح الامین وہاں تک ایک دن میںچڑھ کر پہنچتے ہیں، جس کی مقدار پچاس ہزار(۵۰۰۰۰) سال کے برابر ہے۔
اس طرح ان آیات سے وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل اصطلاحی طور پر چھ یوم یا چھ مرحلوں کے بعد ہوئی، جو ایک طویل ترین مدت ہے، آغاز کے وقت سے تکمیل تک کے درمیانی مراحل کیا تھے؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اور سائنس کی بھی مجال نہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک حرف بھی بتاسکے۔
زمین کا ابتدائی مادہ
قرآن زمین کے ابتدائی مادہ کے بارے میں کہتا ہے کہ: یہ پہلے پانی میں پوشیدہ تھا اور پانی ہی اس کی اصل علت ہے، زمین اس کے اندر سے نمودار ہوئی۔
ترجمہ: اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا؛ جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا؛ تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔
علم زولوجی کی رسائی بھی اس سے آگے تک نہیںہوسکی ہے، اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ:
’’زمین کو اس کی ابتدائی حالت میں بخارات نے ڈھانپ رکھا تھا، جو بعد میں پانی سے تبدیل ہوگیا، پھر وہ پانی نشیب میں اترنے لگا اوراس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے۔‘‘ (احمد محمود سلیمان، مضمون القرآن والعلم: مجلہ العلم والایمان، شمارہ ۷۱ نومبر ۱۹۸۱ء)
درمیانی مراحل
عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گذری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے:
ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کردیا۔
اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پرروشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالمِ آب میںمستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھیلنا شروع ہوا، اور پھرسطحِ ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہوگئیں۔
زمین کا قالب
قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ (گیند) کی طرح گول ہے یعنی خطِ استواء سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے اور اس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے؛ مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے:
ترجمہ: کیا انھوں نے غور نہیں کیا؟ کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں، حکم صرف اللہ کا رہے گا، کوئی اس کے حکم کو ٹال نہیں سکتا اور حساب لینے میں اسے کچھ بھی دیر نہیں لگے گی۔
ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ دادائوں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گذرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں تو کیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔
ننقص من أطرافہا کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھوٹی معلوم ہوتی ہے، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے؛ اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استواء سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔
خلقت انسانی کے بارے میں قرآنی نظریہ
اسی طرح قرآن نے انسانی تخلیق اور اس کے درمیانی مراحل پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے، قرآن کے بیان کے مطابق جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے، تو کچھ مدت کے بعد وہ بستہ خون بن جاتا ہے، اس کے بعد یہ خونِ بستہ، گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہوجاتا ہے، اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں اور پھر اس پر گوشت کی موٹی تہیں جم جاتی ہیں اور کچھ دنوں رحمِ مادر میں تربیت اور نشوونماپاکر ایک نئی صورت میں دنیا کی کھلی فضا کے اندر وہ آجاتا ہے، جس کو ہم ولادت کہتے ہیں:
ترجمہ: پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو بستہ خون کی شکل دی، پھر بستہ خون کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، اس کے بعد لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھادیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بناکر کھڑا کیا؛ پس بڑا ہی بابرکت ہے اللہ جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔
یہ چند نمونے ہیںجو قرآن کے جدید علمی حقائق کے تعلق سے پیش کیے گئے۔
علم کی طلب
قرآنِ کریم کی اُن تعلیمات نے مسلمانوں میں حصولِ علم کا اسپرٹ پیدا کیا اور وہ اس راہ میں بڑھتے چلے گئے، ان کے جذبۂ صادق پر حضور ﷺ کے الفاظ نے مہمیز کاکام کیا، آپ ﷺ نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا:
إن العلمائُ ورثۃُ الأنبیائِ وإن الأنبیائَ لم یُوَرِّثوا دیناراً ولا درہماً وإنما ورَّثُوا العلمَ فَمَنْ أخَذَہٗ أخَذَ بِحَظٍ وَافِر (مشکوٰۃ)
ترجمہ: بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں ہے؛ بل کہ ان کی وراثت علم ہے، پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بڑا وافر حصہ پایا۔
پھر یہ کارواں بڑھتا گیا اور علمی طور پر ساری دنیا پر چھاگیا اور پوری روئے زمین ان کے زیرنگیں آگئی، اس لیے کہ علم تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، علم کے ساتھ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہوسکتا ہے اور علم کے بغیر دس قدم بھی پہاڑ ہوجاتا ہے۔
عہد ماضی کی ایک جھلک
ہم اگر اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ مسلمان علم وفن کے میدان کے کیسے شہسوار تھے اور ساری دنیا میں امامت کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوا؟ یہ تاریخ کی ایسی حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اس موقعہ پر میں کسی مسلم مؤرخ کا حوالہ دینے کے بجائے ایک غیرمسلم مؤرخ کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں، ایک انگریز مؤرخ جارج سارٹن نے اپنی کتاب ’’قدمۃ في تاریخ العلم‘‘ (جو پانچ ضخیم جلدوں میںہے) میں علوم وفنون کی تاریخ، ان سے متعلق تجدید ی کارناموں کی تفصیل اور تجدیدی کام کرنے والی اقوام وشخصیات کا جائزہ پیش کیا ہے،اس نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر نصف صدی کے بعد حالات اور تقاضے بدل جاتے ہیں اور نئے حالات کے مطابق علوم وفنون کی تجدید واصلاح کا کام کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی مرکزی شخصیت ضرور پیدا ہوتی ہے،اس طرح اس نے ہر نصف صدی پر ایک مجدد کی تلاش کی ہے۔
وہ ۴۵۰ قبل مسیح سے لے کر ۴۰۰ قبل مسیح کے وقفہ کو ’’عہدِ افلاطون‘‘ (ولادت ۴۲۷ وفات ۳۴۷ قبل مسیح) کہتا ہے، اس کے بعد کی صدیوں میں یکے بعد دیگرے ارسطو (ولادت ۳۸۴ وفات ۳۲۲ قبل مسیح) پھر اقلیدس (۳۰۰ قبل مسیح)، پھر ارخمیدس (ولادت ۲۸۷ وفات ۲۱۲ قبل مسیح) نے علوم کی تجدید واصلاح کاکام کیا، اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی کے آغاز سے ساتویں صدی کے آغاز تک کا زمانہ اس کے نزدیک چین کے علمی ارتقاء وتجدید کا زمانہ ہے، اس کے بعد ۷۵۰ء سے لے کر ۱۱۰۰ء تک کا ساڑھے تین سو (۳۵۰) سالہ طویل عہد خالص مسلمانوں کا عہد ہے،اس پوری مدت میں علوم وفنون کی تمام ترخدمات مسلمانوں نے انجام دیں، یکے بعد دیگرے ان میں مجددین علوم آتے رہے اور علوم کی خدمت انجام دیتے رہے، جابر بن حیان (۸۱۵ء) سے لے کر خوارزمی (۸۴۹ء) ، رازی (۸۶۴-۹۳۲ء) تاریخ داں سیاح مسعودی (۹۵۶ء) البیرونی (۹۷۳ء-۱۰۴۸ء) اور عمر خَیّام (۱۱۳۲ء) تک مجددین وخُدّام علوم کی لمبی فہرست ہے؛ جنھوں نے علمِ کیمیا، الجبرائ، طب، جغرافیا، ریاضیات، الفیزیا اور فلکیات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، جن میںکوئی عربی ہے، تو کوئی ایرانی، کوئی ترکی ہے تو کوئی افغانی، خطہ اور رنگ ونسل سے گذرکر محض اسلامیت نے ان سب کو خدمت وتجدیدِ علوم سے جوڑ رکھا تھا، جارج سارٹن کی نگاہ میں اتنے طویل عرصے تک یورپ میںکوئی قابل ذکر آدمی نظر نہیں آتا، گیارہویں صدی کے بعد ہی جرارڈ کرمونی اور روچربیکن جیسے کچھ مفکرین پیدا ہوئے اور علم وعقل میں مقام حاصل کیا، درمیان کی صدیاں بھی اسلامی مفکرین سے خالی نہیں رہیں؛ بل کہ علامہ ابن رشد (۱۱۲۶ء-۱۱۹۸-) نصیرالدین محمد موسیٰ (۱۲۰۰ء-۱۲۷۳ء) ابن النفیس مصری (۱۲۸۸ء) اور ابن خلدون (۱۳۳۲ء ۱۴۰۴ء) جیسے عبقری علماء نے علم وفن کی وہ خدمات انجام دیں، جن کے سامنے یورپی علماء کے کارنامے پھیکے نظر آتے ہیں۔ (مضمون: أمۃ العلم من أجل نہضۃ علمیۃ في العالم الاسلامي: الأستاذ عبدالسلام رسالہ: الیونسک آب- ایلول ۱۹۸۱ء ص۵۱)
یہ تو وہ علوم ہیں، جن کو علومِ جدیدہ کہا جاتاہے اور جن پرنئی دنیا فخر کرتی ہوئی نہیںتھکتی، رہ گئے علومِ اسلامی،ادب وبلاغت، فنونِ لطیفہ، آرٹ، تعمیر وغیرہ، علومِ اخلاق، فلسفۂ اخلاق، فلسفۂ تاریخ، سیروتراجم، سلوک وروحانیت، فقہ وقانون، زراعت وتجارت اور سیاست وقیادت وغیرہ تو ان کے خادموں اور مجددوں کی بہت لمبی فہرست ہے، جن میں کوئی قوم وملت مسلمانوں کی ہمسری کا دعویٰ نہیںکرسکتی۔
یہ ہے اس کتابِ مقدس کا اعجاز جوہرزمانے میںاور ہر محاذ پر شخصیات اور افراد کی کھیپ کی کھیپ تیار کرتی رہی ہے اور اس کی یہ صلاحیت آج بھی اسی طرح قائم ہے، فقط ہمیںاس سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔