تیسری ترا ویح

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
{۳} تیسری ترا ویح​

تِلْکَ الرُّ سُلُ تا لَنْ تَنَا لُوا ثلٰث

الَّذِ یْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّائِ وَالضَّرَّآئِ وَالْکَا ظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَا فِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ( اٰل عمرا ن آیت ۱۳۴)
تر جمہ متقی وہ لو گ ہیں جو خر ـچ کر تے ہیں خو شی میں اور تکلیف میں اور جو ضبط کرنے وا لے ہیں غصہ کو اور جو لو گوں کو معاف کر نے والے ہیں اور اللہ تعا لیٰ نیکی کرنے والو ں کو پسند کر تا ہے ,

محتر م! بفضل خدا آج ھم نے تیسر ی ترا ویح ادا کی ,آج پڑھی گئی سو رئہ ال عمران کی آیتوں میںسے ایک آیت میں نے آپکے سا منے پڑھی ہے جس آیت پا ک میں خا لق کا ئنا ت نے متقی کی تین علا متیں اور تین صفتیں بیا ن فر ما یا ہے جنکا تعلق انسا نی حقوق سے ہے ملا حظہ فر ما ئیں ان صفا ت میں پہلی صفت یہ بتلا ئی گئی کہ الذین ینفقون فی السر ا ء والضر ا ء یعنی وہ لو گ ہیں جو اللہ کی را ہ میں اپنا ما ل خر چ کر نے کے ایسے عا دی ہیں کہ ان پر فر اخی ہو یا تنگی مقدور بھر طا قت کے مطابق خرچ کر تے رہتے ہیں زیا دہ میں سے زیا دہ اور کم میں سے کم ,اس سے یہ با ت سمجھ میں آتی ہے کہ غر یب فقیر آدمی بھی اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں خرچ کر نے سے بالکل فا رغ نہ سمجھیں کیونکہ ہزا ر روپئے میں سے ایک روپیہ خرچ کر نے کا جو درجہ ہے اللہ تعا لیٰ کے نزدیک وہی ہزا ر پیسے میں سے ایک پیسہ خرچ کر نے کا بھی ہے
دو سری با ت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ تنگی کی حا لت میں بھی بقدر حیثیت خر چ کر تے رہنے سے خر چ کر نے کی مبا ر ک خصلت وعا دت ختم نہیں ہو گی اور شا ید حق تعا لیٰ اسی کی بر کت سے فرا غت اور فر اخی بھی عطا فر مادیں چنا نچہ پہلی صفت کا حا صل یہ ہو ا کہ مئومنین متقین اوراللہ کے مقبول بندے دوسر ے انسا نوں کو نفع پہنچا نے کی فکر میں زیادہ رہا کرتے ہیں خواہ ان پر فرا خی ہو یا تنگی،ام المؤمنین حضرت عا ئشہ ِؓنے ایک وقت صرف ایک انگور کا دا نہ خیرا ت میں دیا کیو نکہ اس وقت انکے پا س اسکے سو ا کچھ نہ تھا رسول اللہ صلی ا للہ علیہ وسلم کا ار شا د گر ا می ہے ۔
اِتَّقُواالنَّارَوَلَوْ بِشَقِّ تَمَرَۃٍ وَرُدُّوْاالسَّائِلَ وَلَوْ بِظِلْفِ شَاۃٍ
(ترجمہ ) یعنی تم جہنم کی آگ سے اپنے آپ کوبچا ئو اگر چہ ایک کھجو ر کا ٹکڑا صدقہ میں دیکر ہی ہو اور سا ئل کو خا لی وا پس نہ کرو اور کچھ نہ ہو تو بکر ی کے پا ئو ں کی کھر ہی دیدو تفسیر کبیر میں حضـر ت اما م رازی ؒنے یہ حدیث بھی نقل کی ہے کہ ایک روز رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لو گو ں کو صدقہ دینے کی تر غیب دی تو جن کے پا س سو نا چا ندی تھا انھوں نے وہ صد قہ میں دید یا،ایک شخض کھجو ر کے چھلکے لا یا کہ میرے پا س اور کچھ نہیں وہی صدقہ کر دیا ۔ایک اور شخص آیا اور عر ض کیا یا رسو ل ا للہ ؐمیرے پا س کو ئی چیز صد قہ کرنے کیلئے نہیں ہے البتہ میں اپنی قو م میں عزت دار سمجھا جا تا ہوں میں اپنی عزت کی خیرات کر تا ہوں کہ آئندہ کو ئی آد می مجھے کتنا ہی برا بھلا کہے میں اس سے ناراض نہیں ہونگا نبی کریم ؐکی عمد ہ تعلیما ت اور حضر ا ت صحا بہ کرام ؓکے عمل سے یہ با ت معلو م ہو تی ہے کہ اللہ کی را ہ میںخرچ کرنا صرف مالد ا روں اور اغنیا ہی کا حصہ نہیں ہے بلکہ غریب بھی اس صفت کے حا مل ہو سکتے ہیں کہ وہ بھی اپنی اپنی طا قت وحیثیت کے موا فق اللہ کی راہ میں کچھ خر چ کر کے اس عظیم صفت کو حا صل کرلیں اور انفا ق کے عمو م میں صرف ما ل ودولت ہی نہیں بلکہ ہر خر چ کر نے کی چیز دا خل ہے مثلاً اپنا وقت اور اپنی محنت وصلاحیت اللہ کی را ہ میں خرچ کر ے وہ بھی انفاق کی صفت میں دا خل ہے ۔
اللہ رب العز ت نے فی السر ا ء والضراء کی قید لگا ئی ہے یہی وہ حا لتیں ہیں جن میں عا دۃً انسا ن عا م طو ر پر خد ا کو بھو ل جا تا ہے ,جب ما ل و دو لت کی فر ا وا نی ہو تو عیش میں خد ا کو بھو ل جا تا ہے اور جب تنگی او ر مصیبت ہو تو بسا اوقا ت اسی کی فکر میں رہ کر خد ا سے غا فل ہو جا تا ہے تو آیت مذ کو رہ میں اشا رہ اس طر ف کیا اللہ کے مقبول بندے وہ ہیں جو نہ عیش میں خد ا کو بھو ل تے ہیں نہ مصیبت وتکلیف میں ۔
بہا در شا ہ ظفر دہلو ی نے اسی معنیٰ میں بہت خو ب کہا تھا ؎
ظفر آدمی اس کو نہ جا نیے گا ٭ خو اہ ہو کتنا ہی صا حب فہم وذکا
جسے عیش میں یا د خد ا نہ رہی ٭ جسے طیش میں خو ف خد ا نہ رہا
{دوسری صفت } متقی کی ایک خا ص صفت اور علا مت یہ ہے کہ اگر انکو کسی ایسے شخص سے سا بقہ پڑے جو ان کو اذیت اورتکلیف پہنچا ئے تو وہ متقی لو گ غصہ میں مشتعل اور مغلو ب نہیں ہوجا تے ,اور غصہ کے تقا ضے پر عمل کر کے انتقا م نہیں لیتے بدلہ نہیں لیتے ۔
{تیسری صفت} متقی کی ایک صفت یہ ہے کہ یہ انتقا م نہیں لیتے بلکہ دل سے معاف کرد یتے ہیں اور پھر اسی پر بس نہیں کر تے بلکہ تکلیف دینے وا لے کے سا تھ احسا ن کا معا ملہ فر ما تے ہیں اسی ایک صفت میں گو یا تین صفتیں شا مل ہیں،اپنے غصہ پر قا بو پا نا ،تکلیف دینے والے کو معاف کرنا ,پھر اسکے سا تھ احسان کا سلوک کر نا مذ کو رہ تینوں چیزوں کو اس آیت میں بیا ن فر ما یا گیا وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ وہ لو گ جو اپنے غصہ کو دبا لیتے ہیں اور لو گوں کا قصور معا ف کر دیتے ہیں اور اللہ تعا لیٰ احسا ن کر نے وا لو ں کو پسند فرما تے ہیں۔
{معا فی کا وا قعہ } بیہقی نے اس آیت کی تفسیر میں حضر ت سید نا علی ابن حسین ـؓکا ایک عجیب وا قعہ نقل فر ما تے ہیں کہ آپ کی ایک با ندی آپ کو وضو کر ا ر ہی تھی کہ ا چانک پا نی کا بر تن ا سکے ہا تھو ں سے چھو ٹ کر حضر ت علی بن حسین کے او پر گر ا، تمام کپڑ ے بھیگ گئے غصہ آنا طبعی امر تھا کنیز کو با ندی کو خطر ہ ہو ا تو اس نے فو راً یہ آ یت شر یفہ پڑ ھی وَالْکَاظِمِیْنَ الْغَیْظَ یہ سنتے ہی نبوت کے اس بزرگ کا سا را غصہ ٹھنڈ ا ہو گیا وہ بالکل خا موش ہو گئے اس کے بعد با ندی نے آیت کا دوسر ا جملہ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ (وہ لوگوں کا قصور معا ف کر دیتے ہیں )پڑھ د یا تو فر ما یا کہ میں نے تجھے دل سے بھی معاف کر دیا با ند ی بھی بڑی ہو شیا ر تھی اسکے بعدتیسر ا جملہ بھی سنا دیا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ جس میں احسان اور حسن سلو ک کی ہد ا یت ہے، حضرت علی بن حسین نے یہ سنکر فرمایاکہ جا میں نے تجھے آزاد کردیا (رو ح المعا نی )
محتر م! لو گو ں کی خطا ئو ں اور غلطیو ں کومعاف کر نا انسانی اخلا ق میں ایک بڑا در جہ رکھتا ہے اور آخر ت میں اسکا ثو ا ب نہا یت اعلیٰ اور عمد ہ ہے ،اور احا دیث منو رہ میں پیغمبر علیہ السلا م نے معا ف کر نے وا لے کے حق میںبہت سا ری خو شخبر یا ںدی ہیں۔ ایک حد یث میںنبیٔ کر یم ؐ نے ار شا د فر ما یا قیا مت کے روزحق تعالیٰ شانہٗ کی طرف سے ندادی جائیگی کہ جس شخص کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق ہے وہ کھڑا ہوجائے، تو اس وقت لوگ کھڑے ہوں گے جنہوں نے لوگوں کے ظلم وجور کو دنیا میں معاف کیا ہوگا۔
ایک حدیث پاک میں ارشاد نبوی ہے:۔ مَنْ سَرَّہُ اَنْ یُشْرَفَ لَـہُ البُنْیَانُ وَتُرْفَعُ لَہُ الدَّرَجٰت فَلْیَعْفُ عَنْ مَنْ ظَلَمَہُ وَیُعْطِ مَنْ حَرَمَہَ وَیَصِلَ مَنْ قَطَعَہُ ترجمہ:۔ جو شخص یہ چاہے کہ اس کے محلات جنت میں اونچے ہوں اور اسکے درجات بلند ہوں اسکو چاہئے کہ جس شخص نے اس پرظلم کیا ہو اسکو معاف کردے اور جس نے اس کو کبھی کچھ نہ دیا ہو اسکو بخشش وہدیہ دیا کرے، اور جس نے اس سے ترک تعلقات کیا ہو یہ اس سے ملنے میں پرہیز نہ کرے۔
اس کے علاوہ ایک اور جگہ حدیث میں آپؐ نے فرمایا صِلْ مَنَ قَطَعَکَ وَاعْفُ عَمَّنْ ظلَمَکَ وَاَحْسِنْ اِلیٰ مَنْ اَسَائَ اِلَیْکَ
ترجمہ:۔ یعنی جو شخص آپ سے قطع تعلق کرے آپ ان سے ملیں اور جو آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں، اور جو آپ کے ساتھ برائی کرے آپ اس پر احسان کریں۔
امام ابوحنیفہؒ کا واقعہ: امام اعظم ابوحنیفہؒ کا ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے بھرے بازار میں امام اعظمؒ کی شان میں گستاخی کی اور گالیاں دی حضرت نے غصہ کو ضبط فرمایا، اور اس سے کچھ نہیں کہا اور گھر واپس آنے کے بعد ایک خوان میں بہت سارے درہم ودینار رکھ کر اس شخص کے گھر تشریف لے گئے، دروازے پر دستک دی، یہ شخص باہر آیا تو درہم ودینار کا یہ خوان اس کے سامنے یہ کہتے ہوئے پیش فرمایا کہ آج تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا، اپنی نیکیاں مجھے دیدیں، میں اس احسان کا بدلہ دینے کیلئے یہ تحفہ پیش کررہا ہوں، امام اعظمؒ کے اس معاملہ کا اسکے دل پر اثر ہوناہی تھا کہ آئندہ کو اس بری خصلت سے ہمیشہ کیلئے تائب ہوگیا اورحضرت امام اعظمؒ سے معافی مانگی، اور آپ کی خدمت اورصحبت میں رہ کر علم حاصل کرنے لگا یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں میں ایک بڑے عالم کی حیثیت اختیار کرلی(معارف القرآن ج۲ص۱۹۰)
محترم! تنگی اور فراخی میں خرچ کرنے کو متقی لوگوں کی صفت اورپرہیزگاروں کی علامت بتائی گئی، یہی وجہ تھی کہ سرکاردوعالمﷺ کے دربارعالی سے کوئی بھی سائل محروم نہیں ہوتا تھا جو کچھ ہوتا آپ عنایت فرمادیتے تھے ہروقت آپ کا دربار عالی کا یہ فیضان تھا لیکن رمضان المبارک میں یہ صفت جودوسخااوربڑھ جاتی تھی اسمیں اوراضافہ اوربڑھوتری ہوجاتی تھی حدیث میں فرمایاگیا اَجْوَدُ مِنَ الریح المرسلۃِ آپؐ کی سخاوت رمضان المبارک میں چلتی ہوئی ہوائوں سے زیادہوجاتی تھی یہ انفاق فی سبیل اللہ اور غصہ کو پی جانا اورلوگوں کو معاف کرنا اور بدسلوکی کرنے والوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا اور احسان کا معاملہ کرنا یہ سب خدا کے نزدیک بہت پسندیدہ اعمال ہیں اور آپؐ کی تعلیمات کی برکت سے یہی اخلاق واوصاف آپؐ کے خدام میں بھی حق تعالیٰ شانہٗ نے پیدا فرمادئے تھے جو اسلامی معاشرے کا طرئہ امتیاز ہے حضرات صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم اور اسلاف امت کی تاریخ اس قسم کے عمدہ واقعات سے پُر اور لبریز ہے۔
خداکرے کہ یہ عمدہ اوصاف اور بہترین صفات ہم امت مسلمہ میں پیدا ہوں اور ہماراشمار خداکے نزدیک متقی اورپرہیزگار بندوں میں ہوجائے۔
واٰخر دعواناَ انِ الحمد للہ رب العالمین

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
مزا تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

تفسیری خطبات
 
Top