وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۚ كِتٰبَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ ۚ وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَاۗءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِيْنَ غَيْرَ مُسٰفِحِيْنَ ۭ فَـمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِيْضَةً ۭ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيْمَا تَرٰضَيْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِيْضَةِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِــيْمًا حَكِـيْمًا
............................
اور حرام کی گئی شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں (١) اللہ تعالیٰ نے احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں، ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے (٢) اس لئے جن سے تم فائدہ اُٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (٣) اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کر لو تم پر کوئی گناہ نہیں (٤) بیشک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔
تفسیر
٢٤۔١ قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔۱۔ شادی' ۲۔ آزادی' ۳۔ پاکدامنی۔ ٤۔ اسلام' اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں ۱۔ شادی شدہ عورتیں ۲۔ پاکدامن عورتیں ۳۔ آزاد عورتیں اور ٤۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سےزیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔
۲٤۔۲ یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چارچیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کےدائمی قید میں لانا نہیں ہوتا،بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔
٢٤۔٣ یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ ٢٤۔٤ اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ: "استمتاع" کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔
............................
اور حرام کی گئی شوہر والی عورتیں مگر وہ جو تمہاری ملکیت میں آجائیں (١) اللہ تعالیٰ نے احکام تم پر فرض کر دئیے ہیں، ان عورتوں کے سواء اور عورتیں تمہارے لئے حلال کی گئیں کہ اپنے مال کے مہر سے تم ان سے نکاح کرنا چاہو برے کام سے بچنے کے لئے نہ کہ شہوت رانی کے لئے (٢) اس لئے جن سے تم فائدہ اُٹھاؤ انہیں ان کا مقرر کیا ہوا مہر دے دو (٣) اور مہر مقرر ہونے کے بعد تم آپس کی رضامندی سے جو طے کر لو تم پر کوئی گناہ نہیں (٤) بیشک اللہ تعالیٰ علم والا حکمت والا ہے۔
تفسیر
٢٤۔١ قرآن کریم میں احصان چار معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔۱۔ شادی' ۲۔ آزادی' ۳۔ پاکدامنی۔ ٤۔ اسلام' اس اعتبار سے محصنات کے چار مطلب ہیں ۱۔ شادی شدہ عورتیں ۲۔ پاکدامن عورتیں ۳۔ آزاد عورتیں اور ٤۔ مسلمان عورتیں۔ یہاں پہلا معنی مراد ہے اس کے شان نزول میں آتا ہے جب بعض جنگوں میں کافروں کی عورتیں بھی مسلمانوں کی قید میں آگئیں تو مسلمانوں نے ان سے ہم بستری کرنے میں کراہت محسوس کی کیونکہ وہ شادی شدہ تھیں صحابہ کرام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جس میں یہ آیت نازل ہوئی (ابن کثیر) جس سے یہ معلوم ہوا کہ جنگ میں حاصل ہونے والی کافر عورتیں جب مسلمانوں کی لونڈیاں بن جائیں شادی شدہ ہونے کے باوجود ان سے مباشرت کرنا جائز ہے البتہ استبرائے رحم ضروری ہے۔ یعنی ایک حیض آنے کے بعد یا حاملہ ہیں تو وضع حمل کے بعد ان سے جنسی تعلق قائم کیا جائے۔ لونڈی کا مسئلہ: نزول قرآن کریم کے وقت غلام اور لونڈیاں کا سلسلہ عام تھا جسے قرآن نے بند نہیں کیا البتہ ان کے بارے میں ایسی حکمت عملی اختیار کی گئی کہ جس سے غلاموں اور لونڈیوں کو زیادہ سےزیادہ سہولتیں حاصل ہوں تاکہ غلامی کی حوصلہ شکنی ہو اس کے دو ذریعے تھے ایک تو بعض خاندان صدیوں سے ایسے چلے آرہے تھے کہ ان کے مرد اور عورت فروخت کردییے جاتے تھے یہی خریدے ہوئے مرد اور عورت غلام اور لونڈی کہلاتے تھے مالک کو ان سے ہر طرح کے استمتاع (فائدہ اٹھانے) کا حق حاصل ہوتا تھا دوسرا ذریعہ جنگ میں قیدیوں والا تھا کہ کافروں کے قیدی عورتوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا جاتا تھا اور وہ ان کی لونڈیاں بن کر ان کے پاس رہتی تھیں قیدیوں کے لیے یہ بہترین حل تھا کیونکہ اگر انہیں معاشرے میں یونہی آزاد چھوڑ دیا جاتا تو معاشرے میں ان کے ذریعے سے فساد پیدا ہوتا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب الرق فی الاسلام، اسلام میں غلامی کی حقیقت از مولانا سعید احمد اکبر آبادی) بہرحال مسلمان شادی شدہ عورتیں تو ویسے ہی حرام ہیں تاہم کافر عورتیں بھی حرام ہی ہیں الا یہ کہ وہ مسلمانوں کی ملکیت میں آجائیں اس صورت میں استبراء رحم کے بعد وہ ان کے لیے حلال ہیں۔
۲٤۔۲ یعنی مذکورہ محرکات قرآنی اور حدیثی کے علاوہ دیگر عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے بشرطیکہ چارچیزیں اس میں ہوں اول یہ کہ طلب کرو یعنی دونوں طرف سے ایجاب و قبول ہو دوسری یہ مہر ادا کرنا قبول کرو۔ تیسری ان کی شادی کی قید (دایمی قبضے) میں لانا مقصود ہو صرف شہوت رانی غرض نہ ہو (جیسے زنا میں یا اس متعہ میں ہوتا ہے جو شیعہ میں رائج ہے یعنی جنسی خواہش کی تسکیں کے لئے چند روز یا چند گھنٹوں کا نکاح چوتھی یہ کہ چھپی یاری نہ ہو بلکہ گواہوں کی موجودگی میں نکاح ہو یہ چاروں شرطیں اس آیت سے مستفاد ہیں اس سے جہاں شیعوں کے متعہ کا بطلان ہوتا ہے وہیں مروجہ حلالہ کا بھی ناجائز ہونا ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد بھی عورت کو نکاح کر کےدائمی قید میں لانا نہیں ہوتا،بلکہ عرفایہ صرف ایک رات کے لئے مقرر اور معمود ذہنی ہے۔
٢٤۔٣ یہ اس امر کی تاکید ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح شرعی احکام کے ذریعے سے کرو تو انہیں ان کا مقرر کردہ مہر ضرور ادا کرو۔ ٢٤۔٤ اس میں آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کرنے کا اختیار ہے۔ ملحوظہ: "استمتاع" کے لفظ سے شیعہ حضرات نکاح متعہ کا اثبات کرتے ہیں حالانکہ اس سے مراد نکاح کے بعد صحبت ومباشرت کا استمتاع ہے جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔ البتہ متعہ ابتدائے اسلام میں جائز رہا ہے اور اس کا جواز اس آیت کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ اس رواج کی بنیاد پر تھا جو اسلام سے قبل چلا آرہا تھا۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت واضح الفاظ میں اسے قیامت تک حرام کردیا۔