محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
{۵} پانچویںترا ویح
لَایُحِبُّ اللّٰہُ تا وَاِذَا سَمِعُوْا ربع
اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاo(سورۃ المائدۃ آیت ۳)کیا ہے اپنے بخت خفتہ کو بیدار قوموں نے
{۵} پانچویںترا ویح
لَایُحِبُّ اللّٰہُ تا وَاِذَا سَمِعُوْا ربع
ترجمہ:۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین پوراکردیا، اور اپنی نعمت میں نے تم پر پوری کردی اور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا۔
بفضل خدا آج ہم نے پانچویں تراویح اداکی، آج پڑھی گئی آیات مبارکہ میں سے ایک آیت کریمہ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم الخ ہے جسمیں خالق کائنات نے دین اسلام کے مکمل ہونے کو اتمام نعمت قراردیا ہے۔
اس آیت شریفہ کا مطلب یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر سیدنا محمد رسول اللہﷺ تک جو بھی انبیاء ورسل علیہم السلام تشریف لائے اور جو کتابیں اور صحیفے خداوند تعالیٰ نے نازل فرمائے ان میں جو احکام ومسائل نازل ہوتے رہے آج ان سب کی تکمیل کردی گئی احکام کی بھی اور اخلاق کی بھی تکمیل ہوگئی یہی وجہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنی بعثت کا مقصدبتاتے ہوئے ارشاد فرمایا اِنَّ اللّٰہَ بَعَثَنِیْ لِتَمَامِ مَکَارِمِ الْاَخْلاَقِ وَکَمَالِ مَحَاسِنَ الْاَفْعَالِ یعنی اللہ نے مجھے برگزیدہ اخلاق اور اچھے افعال کی تکمیل کیلئے بھیجا ہے(مشکوٰۃ شریف ص ۵۱۴)
اس سے پہلے جو احکام نازل ہوئے ان میں سے بعض منسوخ بھی ہوئے جن کے عوض ان سے بہتر یا انہی جیسے احکام نازل فرمادئے گئے اور اب دین کامل کا کوئی حکم اب منسوخ نہ ہوگا، رئیس المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ نزول احکام کے اعتبار سے قرآن مجید کی آخری آیت ہے، اس کے بعد کوئی آیت احکام کے متعلق نازل نہیں ہوئی جو چند آیات اس کے بعد نازل ہوئیں وہ ترغیب ترہیب کے متعلق تھیں۔
اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے:۔
اسلام میں اجتماعی اور انفرادی اعمال واحوال سب کے بارے میں احکام موجود ہیں آپس میں ایک دوسرے کے حقوق کیا کیا ہیں، عزیزو قریب کس طرح رہیں، میاں بیوی دونوں ملکر کس طرح زندگی گزاریں، اولاد کی پرورش کس طرح کی جائے کھانے پینے اور پہننے میں کن امور کی رعایت رکھی جائے بیع وشراء کے احکام اورانکی تفصیلات اور اسطرح سینکڑوں عنوانات کے جوابات شریعت اسلامیہ میں موجود ہیں۔
اسلام صرف عبادات ہی کا مجموعہ نہیں اعتقادیات، عبادات معاملات، اخلاق وآداب یہ سب اسلام میں موجود ہیں، اسلام کے علاوہ کوئی بھی دین ایسا نہیں ہے جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہو، دین اسلام کا جامع اور کامل ہونا ہی ایک منصف مزاج سمجھ دار انسان کیلئے اسلام کے دین حق ہونے کی دلیل کے طور پر کافی ہے
اس اعتبار سے انبیاء سابقین علیہم السلام کا دین بھی کامل تھا کہ اس کو اختیار کرنے پر انکے اپنے اپنے زمانے میں آخرت کی نجات کا مدارتھا اور اسکو اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی رضاکیلئے کافی تھا محمد رسول اللہ ﷺ جو دین لیکر آئے وہ تمام انسانوں تمام جہانوں اور آئندہ آنے والے تمام زمانوں کیلئے ہے، اور اللہ تعالیٰ کا آخری دین ہے اور کوئی دین اس کے بعد آنے والا نہیں جو اسکو منسوخ کردے اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کے احکام پر حاوی ہے ان سب وجوہ سے اسکو کامل فرمایا
اتمام نعمت:۔ پھر فرمایا وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ اور پوری کردی میں نے تم پر اپنی نعمت صاحب روح المعانی علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ مخاطبین پر نعمت کا پورا فرمانا اس طرح ہوا کہ انکے لئے مکہ معظمہ فتح ہوا اور وہ مکہ معظمہ میں امن وامان کے ساتھ غلبۂ اسلام کے ساتھ داخل ہوئے اور جاہلیت کی تمام چیزیں ختم کردی گئیں اور مشرکین کو حج کرنے سے روک دیا گیا(روح المعانی جلد ۶، صفحہ ۶۰)
اتمام نعمت کی تفسیر میں مختلف اقوال ہیں مثلاً یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت پوری فرمادی اور اسکے اسباب مکمل فرمادئیے، اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اتمام نعمت سے اکمال دین ہی مراد ہے اور بعض نے فرمایا کہ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰۃ کو جو علم وحکمت سے نوازا جو اور کسی کو عطا نہیں فرمایا، اتمام نعمت سے وہ مراد ہے۔
صاحب معالم التنزیل اسکی تفسیر کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا فرمادیا جووَلِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ میں فرمایا تھا (ج ۲ ص۱۱)
دین اسلام ہی اللہ کے یہاں معتبر ہے:۔
پھر آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا گیا وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاoاور میں نے تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کرلیا، دین اسلام ہی امن وامان اور آخرت کی نجات کا ضامن ہے، جس کا دین اسلام نہ ہوگا وہ ہمیشہ ہمیشہ دوزح میں رہے گا۔
اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر نہیں، کوئی کیسی ہی عبادتیں اور ریاضتیں کرے، تارک دنیا ہو،رہبانیت اختیار کرے اگر دین اسلام کے بغیر مرگیا تو دوزخی ہی ہوگا، حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا (قیامت کے دن اعمال آئیں گے) نماز آئیگی اور کہے گی کہ اے رب، میں نماز ہوں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ تو خیر پر ہے پھر روزے آئیں گے وہ کہیں گے کہ اے رب ہم صیام ہیں اللہ فرمائیں گے توخیر پر ہے، پھر اسی طرح دوسرے اعمال آتے رہیں گے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ تم خیر پر ہو پھر اسلام آئیگا وہ عرض کریگا اے رب آپ سلام ہیں اور میں اسلام ہوں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوگا کہ توخیر پر ہے تیری وجہ سے میں آج مواخذہ کروں، جس نے تجھے قبول نہ کیا تھا وہ خیر سے محروم ہوگا اورعذاب میں مبتلا ہوگا، ایک جگہ کلام مقدس میں ارشاد باری عزاسمہ ہے۔
وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَہُوَ فیِ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ
اور جو کوئی شخص اسلام کے علاوہ کسی دین کا طلب گار ہوگا تو اس سے ہرگز قبول نہ کیا جائیگا اور وہ آخرت میں تباہ کاروں میں سے ہوگا(مشکٰوۃ ص ۴۴۵)
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ ﷺ کو تین خصوصی انعام عطا فرمائے ہیں، اکمال دین، اتمام نعمت، نعمت اسلام، جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں، اور جس کے بغیر کسی کیلئے آخرت میں کسی نعمت کا کوئی حصہ نہیں، امت محمدیہ افضل الامم ہے اسکا نبی افضل الانبیاء ہے، اسکے پاس افضل الکتاب ہے، اسکا دین اکمل الادیان ہے جو رہتی دنیا تک کیلئے جسمیں جامعیت ہے،نسخ وتبدیلی نہیںہے، اکمال دین ، کے معنیٰ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ بن عباسؓ وغیرہ نے یہ بیان فرمائے ہیں کہ آج دین حق کے تمام حدود وفرائض اور احکام وآداب مکمل کردئیے گئے ہیں اب اسمیں نہ کسی اضافہ اور زیادتی کی ضرورت باقی ہے اور نہ کمی کا احتمال(روح المعانی) یہی وجہ ہے کہ اسکے بعد احکام اسلام میں سے کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوا جو چند آیتیں اس کے بعد نازل ہوئیں، ان میں یا تو ترغیب وترہیب کے مضامین ہیں یا انہی احکام کی تاکید جو پہلے بیان ہوچکے ہیں، امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں بیان فرمایا ہے کہ کسی چیز کا اکمال اور تکمیل اسکو کہتے ہیں کہ اس چیز سے جو غرض اور مقصود تھا وہ پورا ہوگیا، اور لفظ اتمام کے معنیٰ یہ ہیں کہ اب دوسری چیز کی ضرورت اور حاجت نہیں رہی اسلئے اکمال دین کا حاصل یہ ہوا کہ قانون الٰہی اور احکام دین کے اس دنیا میں بھیجنے کا جو مقصد تھا وہ آج پورا کردیا گیا اور اتمام نعمت کا مطلب یہ ہوا کہ اب مسلمان کسی کے محتاج نہیں، انکو خود حق جل شانہٗ نے غلبہ، قوت، اور اقتدار عطا فرمادیا جس کے ذریعہ وہ اس دین حق کے احکام کو جاری اور نافذ کرسکیں۔
تیسرا انعام اس امت کو دیا گیا دین اسلام، اللہ جل شانہ نے اپنے تکوینی انتخاب کے ذریعہ دین اسلام کو منتخب فرمایا جو ہر حیثیت سے کامل ومکمل ہے اور جس پر نجات کا انحصار ہے، نہ اسکے بعد کوئی نیا دین آئیگا، اور نہ اس میں کوئی کمی بیشی کی جائیگی۔
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ سے ایک یہودی نے کہا کہ اے امیر المومنین تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو اگر وہ ہم پر یعنی یہودیوں پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منالیتے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا وہ کونسی آیت ہے اس شخص نے کہا وہ آیت یہ ہے اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاo
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں فرمایا ہمیں معلوم ہے وہ دن اور وہ جگہ جس میں یہ آیت نبیٔ اکرمﷺ پر نازل ہوئی آپؐ عرفات میں وقوف کئے ہوئے تھے اور جمعہ کا دن تھا(بخاری جلد۱؎ ص ۱۱؎)
طبرانی سے نقل کیا ہے علامہ ابن حجرؓ نے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا نزلت یوم جمعۃ ویوم عرفۃ وکلاہما باللّٰہ لنا عید کہ یہ آیت جمعہ کے دن عرفہ کے روز نازل ہوئی اور الحمد للہ یہ دونوں ہمارے لئے عید ہیں، یہی واقعہ جامع ترمذی میں بھی موجود ہے۔
اسکے بعد دوسرا واقعہ لکھا ہے کہ رئیس المفسرین حضرت ابن عباسؓ نے یہ آیت پڑھی تو ایک یہودی نے کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید منالیتے جس دن اسکا نزول ہوتا، حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ یہ آیت ایسے دن نازل ہوئی ہے جس دن میں ہمارے لئے دوعیدیں ہیں یہ یوم جمعہ تھا اور یوم عرفہ تھا۔
حضرت فاروق اعظمؓ اور حضرت ابن عباسؓ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں کوئی نئی عید منانے کی ضرورت نہیں، جس دن یہ آیت نازل ہوئی وہ ہمارے لئے پہلے ہی سے عید کا دن تھا ایک نہیں اس دن ہماری دوعیدیں تھیں ان میں سے ایک عید تو ہرہفتہ ہوتی ہے یعنی جمعہ کے دن اوردوسری عید ہرسال حج کے موقع پر حجاج کرام کو نصیب ہوتی ہے، ہماری عیدیں لہوولعب نہیں ہے ہماری عید اللہ کی فرمانبرداری اور اطاعت اور اسکے ذکر کی مشغولیت ہے چنانچہ ہم ہمیشہ وہ عید مانتے ہیں جو ہمارے لئے رب ذوالجلال کی طرف سے مقرر کی گئی ہے۔
اس آیت کے نزول کی خاص شان ہے ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع کے یوم عرفہ میں رسول کریمؐ پر نازل ہوئی، جبکہ مکہ اور تقریباً ساراعرب فتح ہوچکا تھا پورے جزیرۃ العرب پر اسلامی قانون جاری تھا، عرفہ کا دن ہے جو تمام سال کے دنوں میں سید الایام ہے اور اتفاق سے یہ عرفہ جمعہ کے دن واقع ہوا جسکے فضائل معروف ہیں مقام میدان عرفات کا جبل رحمت کے قریب ہے جو عرفہ کے دن اللہ کی طرف سے نزول رحمت کا خاص مقام ہے وقت عصر کے بعد کا ہے جو عام دنوں میں بھی مبارک وقت ہے اور خصوصاً یوم جمعہ میں تو قبولیت دعاکی گھڑی بہت سی روایات کے مطابق اسی وقت آتی ہے اور عرفہ کے روز اور زیادہ خصوصیت کے ساتھ دعائیں قبول ہونے کا خاص وقت ہے، حج کیلئے مسلمانوں کا سب سے بڑا پہلا عظیم اجتماع ہے جسمیں تقریباً ڈیڑھ لاکھ صحابہ کے ساتھ رحمۃ اللعالمینﷺ جبل رحمت کے نیچے اپنی ناقہ عضباء پر سوار ہیںاور حج کے بڑے رکن وقوف عرفات میں مشغول ہیں۔
حضرات صحابہ کرام کا بیان ہے کہ جب آپؐ پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے تو حسب دستور وحی کا ثقل اور بوجھ اتنا محسوس ہواکہ اونٹنی اس سے دبی جارہی تھی یہاں تک کہ مجبور ہوکر بیٹھ گئی اس آیت کا مفہوم بھی ملت اسلام اور مسلمانوں کیلئے ایک بہت بڑی خوشخبری اور بھاری انعام اور اسلام کا طغرائے امتیاز ہے، دین حق اور نعمت الٰہی کا انتہائی معیار جو اس عالم میںبنی نوع انسان کو عطاہونے والا تھا آج وہ مکمل کردیا گیا، گویا حضرت آدمؑ کے زمانہ سے جو دین حق اور نعمت الٰہیہ کا نزول شروع کیا گیا تھا آج وہ دین اور نعمت مکمل صورت میں خاتم الانبیاء محمد رسول اللہؐ اور آپؐ کی امت کو عطا کردی گئی ،یہی وجہ تھی کہ جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی تو عام مسلمان اس کو سن کر خوش ہورہے تھے مگر حضرت فاروق اعظمؓ پر گریہ طاری تھا رسول اللہﷺ نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ اس آیت سے اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اب آپﷺ کاقیام اس دنیا میں بہت کم ہے کیونکہ تکمیل کے ساتھ ارسال رسول کی ضرورت بھی پوری ہوچکی رسول اللہﷺ نے اسکی تصدیق فرمائی(تفسیر ابن کثیر) چنانچہ آنے والے وقت نے بتلادیا کہ اس کے صرف اکیاسی روز بعد آنحضرتﷺ اس دنیاسے پردہ فرماگئے۔کیونکہ ۱۰ ھ کی نویں ذی الحجہ میں یہ آیت نازل ہوئی اور ۱۱ ھ کی بارھویں ربیع الاول کو آنحضرت ﷺکی وفات ہوگئی۔
پروردگار عالم سے دعا ہے کہ خالق کائنات ہم سب امت مسلمہ کو دین واسلام کا صحیح مفہوم سمجھ کر اس کی مرضیات پر زندگی گذار نے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین