{۶} چھٹی ترا ویح
وَاِذَا سَمِعُوْا تا وَلَوْ اَنَّنَانصف
وَاِذَا سَمِعُوْا تا وَلَوْ اَنَّنَانصف
یٰـاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ(سورۃ المائدۃ آیت ۹۰)
ترجمہ:۔ اے ایمان والو یہ شراب اور جوّااور بت اوربانسے سب گندے کام ہیں شیطان کے سو ان سے بچتے رہو تاکہ تم نجات پائو۔
اللہ کے فضل وکرم سے آج ہم نے چھٹی تراویح ادافرمائی آج تراویح میں پڑھی گئی آیات مقدسہ میں سے جس آیت کا انتخاب میں نے کیا ہے اسمیں خالق کائنات نے چارچیزوں کی حرمت بیان فرمائی ہے جس کو بالتفصیل ملاحظہ فرماتے چلیں۔
مالک ارض وسماء نے ساری کائنات کو انسان کی خدمت کیلئے پیدا فرمایا ہے اور انسان کومخدوم کائنات بنایا ہے انسان پر صرف ایک پابندی لگادی کہ ہماری مخلوقات سے نفع اٹھانے کی جو حدود ہم نے مقررکردی ہیں ان سے تجاوز نہ کرو جن چیزوں کو تمہارے لئے حلال وطیب بنادیا ہے ان سے احتراز کرنا بے ادبی اورناشکری ہے اور جن چیزوں کے استعمال کو حرام قراردیا ہے اس میں خلاف ورزی کرنا نافرمانی اور بغاوت ہے مذکورہ آیت شریفہ میں شراب ،جوا بت اور جوے کے تیر ان چارچیزوں کو رجس فرمایا ہے رِجْس عربی زبان میں ایسی گندی چیز کو کہا جاتا ہے جس سے انسان کی طبیعت کو گھن اور نفرت پیداہو یہ چاروں چیزیں ایسی ہیں کہ اگر انسان ذرا بھی عقل سلیم اور طبع سلیم رکھتا ہو تو وہ خود بخود ہی ان چیزوں سے اس کو گھن اور نفرت ہوگی۔
ازلام، ان تیروں کو کہا جاتا ہے جن میں قرعہ اندازی کرکے عرب میں جواکھیلنے کی رسم جاری تھی جسکی صورت یہ تھی کہ دس آدمی شرکت میں ایک اونٹ ذبح کرتے تھے پھر اسکا گوشت تقسیم کرنے کیلئے بجائے اس کے کہ دس حصے برابر برابر تقسیم کرتے اسمیں اس طرح جوا کھیلتے کہ دس عدد تیروں میں سات تیروں پر کچھ مقررہ حصوں کے نشانات بنارکھے تھے کسی پر ایک کسی پر دو کسی پر تین، اور تین تیروں کوسادہ رکھے ہوئے تھے ان سب تیروں کو ترکش میں ڈال کر ہلاتے تھے پھر ایک ایک شریک کیلئے ایک ایک تیرترکش میں سے نکالتے اور جتنے حصوں کا تیر کسی کے نام پر نکل آئے وہ ان حصوں کا مستحق سمجھاجاتا تھا اور جس کے نام پر سادی تیر نکل آئے وہ حصہ سے محروم رہتا تھا جیسے آجکل بہت سی قسموں کے لاٹری کے طریقے بازاروں میں رائج ہیںجو قمار یعنی جوا ہیں ازروئے قرآن کریم یہ حرام ہے۔میسر اور ازلام نتیجہ کے اعتبار سے ایک ہی ہے۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہؓ نے کہا اِ نْتَہَیْنَا رَبُّنَااے ہمارے رب ہم باز آگئے(در منثور ج ۲، ص۲۱۴)
سات وجوہ سے شراب اور جوے کی حرمت:
(۱)شراب اور جوا گندی چیزیں ہیں(۲)یہ شیطانی کاموں میں سے ہیں(۳)تم اس سے بچو (۴)تاکہ تم کامیاب ہوجائو(۵)شیطان چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے اندر دشمنی اور بغض ڈالدے(۶)شراب اور جوے کے ذریعہ تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے شیطان روکنا چاہتا ہے(۷)کیا تم بازآنے والے ہو
احادیث شریفہ میں شراب کی حرمت: حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نشہ لانے والی یعنی شراب ہے اور ہر نشہ لانے والی چیز حرام ہے اور جو شخص دنیا میں شراب پئے گا اور اس حال میں مرگیا کہ شراب پیتا رہا اور توبہ نہ کی تو آخرت میں شراب نہیں پئے گا، یعنی جنت کی شراب سے محروم ہوگا(مسلم ج ۲،ص۱۶۸)
حضرت جابرؓ نے بیان فرمایا کہ ایک شخص یمن سے آیا اس نے سوال کیا رسول اللہﷺ سے کہ ہمارے علاقے میں ایک شراب ہے جوجوارسے بنائی جاتی ہے لوگ اسے پیتے ہیں آپؐ نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ نشہ لاتی ہے؟ سوال کرنے والے نے عرض کیا کہ ہاں وہ نشہ لاتی ہے آپؐ نے فرمایا کُلُّ مُسْکرٍ حرامٌ کہ نشہ لانے والی ہرچیز حرام ہے پھر فرمایا کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ عہد فرمالیا کہ جو شخص نشہ لانے والی چیز پئے گا اللہ اسے طینۃ الخبَال سے پلائے گاصحابہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ طینۃ الخبَالکیا چیز ہے آپؐ نے فرمایا کہ دوزخیوں کے جسموں کا نچوڑہے(مسلم ج۲،ص۱۶۷)
اور ایک حدیث پاک میں نبیٔ کریمؐ نے ہر اس شخص پر لعنت بھیجی ہے جو شراب سے متعلق کسی بھی معاملہ میں تعاون ومدد کرے، اور شراب کے کاموں میں آگے بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔
حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے لعنت کی شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور اسکے پلانے والے پر اور اسکے بیچنے والے اور اسکے خریدنے والے پر اورشراب بنانے والے پر اور بنوانے والے پر اور جو شراب کو کسی کے پاس لے جائے اس پر اور جسکے پاس لیجائے اس پر بھی(ابوداوٗدج ۲،۱۶۱)
اس حدیث پاک میں شراب اور اسکے متعلقات پر جو سخت وعید صاحب شریعت محمد رسول اللہﷺ کی طرف سے بیان فرمائی گئی ہے وہ انتہائی قابل توجہ ہے، جو لوگ اپنی دکانوںمیں شراب بیچتے ہیں اپنے ہوٹلوں میں شراب پلاتے ہیں اور ایسی دکانوں پر ملازمت کرتے ہیں وہ اپنے بارے میں غورکرلیں کہ روزانہ کتنی لعنتوں کے مستحق ہوتے ہیں، شراب کا بنانے والا تو مستحق لعنت ہے ہی، اسکا بیچنے والا پینے والا پلانے والا اور اسکا اٹھاکر لے جانے والا اور جسکی طرف شراب لے جائی جائے ان سب پر اللہ کی طرف سے لعنت ہے۔
ایک روایت ملاحظہ فرماتے چلیں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ ایسے دسترخوان پر نہ بیٹھے جس پر شراب کا دور چل رہا ہو۔(بیہقی)
شراب ہر برائی کی کنجی ہے:۔
حضرت ابوالدردائؓ نے بیان فرمایا کہ مجھے میرے دوست سید الانبیائﷺ نے وصیت فرمائی کہ کسی بھی چیز کو اللہ کے ساتھ شریک نہ کرنا اگرچہ تیرے ٹکڑے کردئے جائیں اور تجھے جلادیا جائے اور قصداً نماز نہ چھوڑنا کیونکہ جس نے قصداً نماز چھوڑدی اس سے اللہ کا ذمہ بری ہوگیا اور شراب مت پینا کیونکہ وہ ہر برائی کی کنجی ہے(مشکوٰہ ج۱،ص۵۱)
پوری کائنات میں انسان کا سب سے بڑا دشمن ابلیس لعین ہے وہ کبھی گوارا نہیں کرتا کہ انسان میں عقل وشعور کا توازن باقی رہے ہر طرف سے انسانی دماغ پر حملہ کرتا ہے، دماغی توازن ختم ہونے کا سب سے بڑا زہریلا سبب شراب ہے اس لئے ابلیس لعین ہر وقت یہ کوشش کرتا ہے کہ انسان میں اس خبیث ترین ناپاک چیز کی رغبت پیداکرکے گمراہی کاشکار بنادے، چنانچہ ہزار حیلہ سازی اورخیالی منافع کے دھوکے میں ڈالتا ہے جس سے انسان شیطان کے فریب میں مبتلاہوکر پیشاب سے بھی ناپاک اورگندی چیز شراب منہ میں لیتا ہے پھر اسکے بعدعقل وفراست ہوش وحواس سب چیزوں سے محروم ہوکر لڑائی جھگڑے کا شکار ہوجاتا ہے۔
شرک کے بعدسب سے بڑا گناہ شراب پینا ہے:
حضرت عبداللہ بن عمروبن العاصؓ فرماتے ہیں کہ میںنے نبیٔ کریم ﷺ سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے ایک شخص کو پکڑکر چاربرائیوں میں سے ایک کو اختیار کرنے کا حکم دیا، اگرتم چاروں میں سے ایک کو اختیار نہیں کروگے تو تم کو قتل کردیا جائیگا۔
(۱)اَن یشربَ الخَمَرَ شراب پی لے(۲)اَوْیَقْتُلَ نَفْسًا یا کسی انسان کو قتل کردے (۳)اَوْیَزْنِیْ یا کسی عورت سے زنا کرے(۴)اَو یَاْکُلَ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ یا خنزیر کا گوشت کھالے قوم بنی اسرائیل میں سے یہودی خنزیر نہیں کھاتے ہیں نصرانی کھاتے ہیں، یہ یہودی کا واقعہ ہے چنانچہ اس شخص نے ان چاروں برائیوں میں سے شراب کو کمزور سمجھا اور اپنی جان بچانے کیلئے شراب پینے کو اختیار کرلیا، جب اس نے شراب میں منہ لگالیا تو اس کے بعد کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، باقی تین برائیوں میں سے کوئی بھی برائی نہیں چھوڑی، قتل کا ارتکاب بھی کرلیا،خنزیر کا گوشت بھی کھالیا، اورعورت کے ساتھ زنا کرکے منہ بھی کالا کرلیا۔(مستدرک حاکم حدیث نمبر۷۲۳۶)
معلوم ہواکہ شراب پینے کے بعد کسی بھی برے کام کیلئے رکاوٹ باقی نہیں رہتی اسی لئے سرورکونین علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے سب سے بڑا گناہ قراردیا ہے۔
اور حضرت عبد اللہ بن عمروبن العاصؓ نے تمام اکابر صحابہؓ کے سامنے بیان فرمایا کہ اکبرالکبائر اور اعظم الکبائر شراب پینا ہے یہ سنکر بڑے بڑے اکابر صحابہؓ اچھل پڑے
قرآن وحدیث میں جس قدرکثرت سے شراب کی مذمت آئی ہے کسی اور چیز کے بارے میں اس طرح کثیر تعداد میں کوئی مذمت وارد نہیں ہوئی، چنانچہ حضرت خاتم الانبیاء محمد عربیﷺ نے شراب کو ام الخبائث اور ناپاک چیزقراردیا ہے دنیا کی گندگی اورغلیظ چیزوں میں شراب سے بڑھ کر کوئی چیزنہیں ہے۔
اگرچہ پیشاب بھی ایک ناپاک اورگندی چیز ہے لیکن پیشاب پی کر آدمی عقل وسمجھ کھوکر پاگل نہیں ہوتا ہے لیکن شراب ایک ایسی ناپاک چیز ہے کہ اسکے پی لینے کے بعد انسان عقل وفراست سب چیزوں سے محروم ہوکر پاگل ہوجاتا ہے اس کے بعد اس شرابی سے جو چاہے گناہ کا کام کرایا جاسکتا ہے۔
حُرمت شراب کی خبر سن کر صحابہؓ نے راستوں میں شراب بہادی
تفسیر در منثور میں ہے کہ حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں میں ابوطلحہ(یہ حضرت انسؓ کے سوتیلے باپ تھے) کے گھر میں ابوطلحہ اور ابوعبیدۃ بن الجراح اور معاذ بن جبل اور سہیل بن بیضاء اور ابودجانہ کو شراب پلارہا تھا میرے ہاتھ میں پیالہ تھا جسے میں بھربھر کر ایک دوسرے کو دے رہا تھا، اسی حال میں ہم نے آواز سنی کہ کوئی شخص پکارکر آواز دے رہا ہے اَلَا اِنَّ الْخَمَرَ قَدْ حُرِمَتْ(خبردار شراب حرام کردی گئی ہے) آواز کا سننا تھا کہ نہ کوئی اندر آنے پا یاتھانہ باہرنکلنے پایاتھاکہ ھم نے شراب کو گرادیااورمٹکے توڑدئے،جس کی وجہ سے مدینہ کی گلی کوچوںمیںشراب پانی کی طرح بہنے لگی(درمنثور۲۲۱)
واقعی حضرات صحا بہ کی کیاشان تھی شراب گویاانکی گٹھی میں پڑی ہوئی تھی اس کے بڑے دلدادہ تھے پھراس کے حرام ہو نے کی خبر سنی توبغیرکسی پس وپیش کے اسی وقت گرادی ،نہ آگے پیچھے سوچا،نہ غوروفکر کیانہ مشورہ کیا،اورنہ انہیںمال کے ضیاع کی فکرہوئی،اطاعت شعاری کابہترین نمونہ رہتی دنیا تک کیلئے پیش کردیا۔اوریہ بتادیاکہ حکم خداکے سامنے چوںوچراکی کوئی گنجا ئش نہیں ہے۔
اللہ کے خوف سے شراب چھو ڑنے پرانعام:
حــضرت ابوامامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے ارشادفرمایاکہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جہانوںکیلئے رحمت بناکر بھیجاہے اورجہا نوںکیلئے ہدایت بناکربھیجاہے اور میرے رب نے مجھے حکم دیاہے کہ گانے بجانے کے سامان اور بتوں کو اور صلیب کو (جسکی نصاریٰ عبادت کرتے ہیں) اور جاہلیت کے کاموں کو مٹادوں اور میرے رب عزوجل نے قسم کھائی ہے کہ میرے بندوں میں سے جو بھی بندہ کوئی گھونٹ شراب کا پئے گا تو میں اسے اسی قدر پیپ پلائوں گا اور جو بھی کوئی شخص میرے ڈر سے شراب کو چھوڑدے گا میں اسے ضرور مقدس حوضوں میں سے پلائوں گا(مشکوٰۃ شریف ص ۳۱۸)
اس آیت مذکورہ کی تفسیر وتفصیل سے شراب اور جوے کی مذمت اور اسکا نقصان روز روشن کی طرح نمایاں ہوتا ہے کہ شراب ان نجس وبری چیزوں میں سے ہے کہ جس کی وعیدوں کے سننے کے بعد انسان جو عقل سلیم رکھتا ہے اسکے قریب بھی نہ جائیگا اور اسکی بوسے بھی کوسوں میل دوربھاگے گا اور خداوند کریم کی خوشنودی کی خاطر نفسانی خواہشات کو ترک کردیگا۔ خداوند کریم ہم تمام امتِ مسلمہ کو ام الخبائث جیسی بُری وفحش چیز سے مکمل محفوظ رکھے اور اسکے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔آمین
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین