{۸} آٹھویں ترا ویح
قَـالَ الْمَلَاُ تا وَاعْلَمُوْاختم
قَـالَ الْمَلَاُ تا وَاعْلَمُوْاختم
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَاِذَاتُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَO اَلَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمْ یُنْفِقُوْنَ(سورئہ انفال ۳)
ترجمہ:۔ بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب انکے سامنے اللہ کا ذکر آتا ہے تو انکے قلوب ڈرجاتے ہیں اور جب اللہ کی آیتیں انکو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں انکے ایمان کو اورزیادہ مضبوط کردیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں اور جو کہ نماز کی پابندی کرتے ہیں اور ہم نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
آیات مذکورہ میں ان پانچ مخصوص صفات کا ذکر ہے جو ہر بندہ مومن میں ہونا چاہئے ہر مومن اپنی ظاہری اور باطنی کیفیات اور صفات کا جائزہ لیتا رہے اگر یہ صفات اس میں موجود ہیں توخدا کاشکر کرے کہ پروردگار عالم نے اس کو مومنین کی صفات سے متصف فرمایا ہے اور اگر ان میں سے کوئی صفت موجود نہیں ہے یا ہے مگر ضعیف وکمزور ہے تو اسکے حاصل کرنے اور اسکو مضبوط کرنے کی فکر میں لگ جائے۔
پہلی صفت خوفِ خدا: مومن کی پہلی صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ یعنی جب انکے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو انکے دل سہم جاتے ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ کی عظمت ومحبت انکے دلوں میں رچی ہوئی ہے جس کا تقاضا ہیبت وخوف ہے دوسری جگہ قرآن کریم میں اہل محبت کو بشارت دی گئی ہے وَبَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ اَلَّذِیْنَ اِذَاذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ خوشخبری دیجئے ان متواضع نرم خولوگوں کو جنکے دل ڈرجاتے ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے ایک اور جگہ ذکر اللہ کی یہ خاصیت بیان فرمائی گئی ہے اَلاَ بِذِکْرِاللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبِ یعنی اللہ ہی کی یاد سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔
دوسری صفت ایمان میں ترقی: مومن کی دوسری صفت یہ بتلائی کہ جب انکے سامنے اللہ کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو انکا ایمان بڑھ جاتا ہے علمائے مفسرین ومحدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان کے بڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی قوت وکیفیت اور نور ایمان میں ترقی ہوجاتی ہے اور مشاہدہ بھی ہے کہ اعمال صالحہ سے ایمان میں قوت پیدا ہوتی ہے کہ اعمال صالحہ متقی کی عادت طبعی بن جاتے ہیں جس کا چھوڑنا اس پر گراں ہوتا ہے اور گناہ سے مومن کی طبعی نفرت پیدا ہوجاتی ہے ایمان کے اسی مقام کو حدیث پاک میں حلاوت ایمان کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے جسکو کسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
وَاِذَا حَلَّتِ الحَلاَوَۃُ قَلْبًا لَنشَطَتْ فِیْ العِبَادَۃِ الاَعْضَائُ
ترجمہ:۔ یعنی جب کسی دل میں حلاوتِ ایمان جگہ پکڑلیتی ہے تو اسکے ہاتھ پیر اور سب اعضاء عبادت میں راحت ولذت محسوس کرنے لگتے ہیں۔
محترم! خلاصہ آیت مذکوہ وَاِذَاُتلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا کا یہ ہوا کہ مومن کامل کی یہ صفت ہونی چاہئے کہ جب اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جائیں تو اسکے ایمان میں جلاو ترقی ہواور اعمال صالحہ کی طرف رغبت بڑھے صرف رسمی طور پر قرآن کو نہ پڑھے تویہ بھی ثواب سے تو خالی نہیں بلکہ پورے تفکر وتدبر سے پڑھے اور اس پر غور کرے کہ اس سے اپنے ایمان میں ترقی اور بڑھوتری ہو۔
تیسری صفت توکل علی اللہ: مومن کی تیسری صفت یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرے توکل کے معنیٰ اعتماد اور بھروسہ کے ہیں مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام اعمال واحوال میں اس کا مکمل بھروسہ صرف اور صرف ذاتِ حق تعالیٰ پر ہو۔
ایک صحیح حدیث میں آنحضرتﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ توکل کا یہ معنیٰ نہیں کہ اپنی ضروریات کیلئے مادی اسباب اورتدابیر کو ترک کرکے بیٹھ جائے،چھوڑدے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ مادی اسباب وآلات کو اصل کامیابی کیلئے کافی نہ سمجھے بلکہ بقدر قدرت وہمت مادی اسباب اور تدابیر کو فراہم کرنے اور استعمال کرنے کے بعد اپنی بساط بھر کوشش کے بعد معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپردکرے اور اپنے دل میں سمجھے اور خیال کرے کہ اسباب بھی اسی کے پیدا کئے ہوے ہیں اور ان اسباب کے ثمرات بھی وہی پیدا کرتا ہے ،ہوگا وہی جو میرا پروردگار چاہے گا، یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں آپؐ نے ارشاد فرمایا اِجْمَلُوْا فِی الطَّلَبِ وَتَوَکَّلُوْاعَلَیْہِ،یعنی رزق اور اپنی حاجات کے حصول کیلئے متوسط درجہ کی طلب اور مادی اسباب کے ذریعہ کوشش کرلو، پھر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرو، اپنے دل ودماغ کو صرف مادی تدبیروں اور اسباب ہی میں نہ الجھارکھو۔
محترم! رسول اللہﷺ کے زمانہ میں باہر سے ایک صاحب تشریف لائے اور دربار رسالت میں حاضر ہوئے سرکاردوعالمؐ نے ان سے پوچھا بھائی تمہاری سواری کہاں ہے انہوں نے عرض کیا سرکار، وہ تو مسجد کے باہر اللہ پر توکل کرتے ہوئے میں نے چھوڑدی ہے آپؐ نے فرمایا اعقلہا وتوکل علیہ،پہلے اس جانور کو رسی سے باندھو پھر خدا کی ذات پر بھروسہ کرو، توکل کا ہرگز یہ مطلب نہیںکہ اسباب اور تدابیر اختیار ہی نہ کرو، بلکہ اسباب اختیار کرکے اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ رکھو۔
چوتھی صفت اقامت صلوۃ: مومن کی چوتھی صفت اقامت صلوۃ بتلائی گئی ہے، یہاں نماز پڑھنے کا ذکر نہیں بلکہ نماز کی اقامت کا ذکر ہے، اقامت کے لفظی معنی ہیں کسی چیز کو سیدھا کھڑا کرنا، اقامت صلوۃ سے مراد یہ ہے کہ نماز کے پورے آداب وشرائط اس طرح بجالائے جس طرح نبیٔ کریمﷺ نے اپنے قول وعمل سے بتلایاہے
محترم! نماز کے آداب وشرائط میں اگر کوتاہی ہوئی تو اسکو نماز پڑھنا تو کہہ سکتے ہیں لیکن اقامت صلوۃ نہیں کہہ سکتے۔
پانچویں صفت راہ خدا میں خرچ کرنا: بندئہ مومن کی پانچویں صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اس کو دیا ہے وہ اسمیں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرے، یہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا عام ہے جسمیں تمام صدقات وخیرات، وقف وغیرہ سب داخل ہیں جسمیںزکوۃ، صدقۃ الفطر وغیرہ بھی شامل ہیں اور نفلی صدقات وتبرعات بھی، اور مہمانوں، دوستوں، بزرگوں کی مالی خدمت وغیرہ بھی۔
جسکے بے شمار واقعات نبیٔ کریمﷺ کے جانثار حضرات صحابہ کرام مہاجرین وانصارؓ کی مبارک زندگیوں میں پائے جاتے ہیں، اسی طرح حضرات تابعین واولیاء اللہ وائمہ کرام اور اللہ کے مخلص بندوں کے کارنامے ہیں جنکی تاریخ شاہد ہے۔ جو کچھ دیا ہوا ہے وہ سب خداہی کا دیا ہو ہے، اسکی راہ میںو سعت قلبی کے ساتھ خرچ کرے اور اسی کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت اور دائمی توشہ تصور کرے۔
محترم! بندئہ مومن کی یہ پانچ صفات بیان کرنے کے بعد ارشاد باری ہے اُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا یعنی ایسے ہی لوگ سچے مومن ہیں جن کا ظاہر وباطن یکساں اورزبان اور دل متفق ہیں ایک شخص نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ اے ابو سعید کیا آپ مومن ہیں تو آپ نے فرمایا کہ بھائی ایمان دوقسم کے ہیں تمہارے سوال کا مطلب اگر یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اسکے فرشتوں،کتابوں اور رسولوںپر اور جنت دوزخ اور قیامت اور حساب کتاب پر ایمان رکھتا ہوں تو جواب یہ ہے کہ بیشک میں مومن ہوں، اور اگر تمہارے سوال کا مطلب یہ ہے کہ میں وہ مومن کا مل ہوں جس کا ذکر سورئہ انفال کی آیات میں ہے تو مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں ان میں داخل ہوں یا نہیں، سورئہ انفال کی آیات سے مراد وہی آیات ہیں جو ابھی پڑھی گئیں۔
سچے مومن کی صفات وعلامات بیان فرمانے کے بعد آگے ارشاد خداوندی ہے لَہُمْ دَرَجٰتٍ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَمَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ،اس میں سچے مومنین کیلئے تین چیزوں کا وعدہ فرمایا گیا ہے، ایک درجات عالیہ، دوسرے مغفرت، تیسرے عمدہ رزق
تفسیر بحر محیط میں ہے کہ ان آیات مذکورہ میں سچے مومنین کی جو صفات بیان ہوئی ہیں وہ تین قسم کی ہیں ایک وہ جن کا تعلق قلب اور باطن کے ساتھ ہے جیسے ایمان، خوف خدا، توکل علی اللہ، دوسرے وہ جنکا تعلق جسمانی اعمال سے ہے جیسے نماز وغیرہ تیسرے وہ جن کا تعلق انسان کے مال سے ہے جیسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اگر غور کیا جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان تینوں قسموں کے بالمقابل تین انعاموں کا ذکر کیا ہے درجات عالیہ کو قلبی اور باطنی صفات کے مقابلہ میں اور مغفرت کو ان اعمال کے مقابلہ میں جو انسان کے ظاہر بدن سے متعلق ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ، جیسا کہ حدیث شریف وارد ہے کہ نماز گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے اور رزق کریم عمدہ رزق کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مقابلہ میں ذکر کیا ہے، یعنی جو کچھ بندہ مومن خرچ کیا ہے اس سے بہت بہتر اور بہت زیادہ اسکو آخرت میں ملیگا۔
محترم! اس آیت پاک کی تفسیر وتشریح سے یہ بات معلوم ہوئی کہ آیات قرآنیہ سنکر اپنے قلوب میں اثر پیدا کرنا یہ سچے مومن کی علامت اور نشانی ہے اور جس اثر سے مومن کے ایمان میں ترقی اورزیادتی اور بڑھوتری پیدا ہو اور اپنے پیدا کرنے والے خالق ومالک کی ذات پر مکمل اعتماد وبھروسہ بھی ہو اور بندہ مومن اقامت صلوۃ کا پابند بھی ہو، اور جو کچھ خدانے دیا ہے اسکو اخلاص سے راہ خدا میں خرچ کرنے والا بھی ہو، یہی اس آیت پاک کا تقاضا بھی ہے یہ صفات رکھنے والا ہی حقیقی معنیٰ میں سچا مومن کہلانے کے مستحق ہے اور ایسے ہی سچے مومنین کیلئے اللہ رب العزت نے آخرت میں درجات عالیہ اونچے اونچے درجات اور اپنی خاص مغفرت کا پروانہ عطا کرنے اور عمدہ رزق دنیا میں عطا کرنے کی خوشخبری دی ہے۔
دعا ہے کہ پروردگار عالم ہم تمام امت مسلمہ کے اندر یہ عمدہ صفات پیدا فرمائے اور ان وعدہ کردہ خوشخبریوں کا مستحق بنائے آمین
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین