یَعْتَذِرُوْنَ تا وَمَامِنْ دَابَّۃٍ ربع
وَمَا مَنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتٰبٍ مُّبِیْنٍ
ترجمہ:۔ اور کوئی(رزق کھانے والا) جانور روئے زمین پر چلنے والا ایسا نہیں کہ اسکی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ نہ ہواور وہ ہر ایک کی زیادہ رہنے کی جگہ کو اور چند روزہ رہنے کی جگہ کو جانتا ہے سب چیزیں لوح محفوظ میں منضبط ہیں(سورہ ہود آیت ۶)
بفضل خدا آج ہم نے نویں تراویح پڑھی آج پڑھی گئی آیات مبارکہ میں بارھویں پارہ کی یہ پہلی آیت شریفہ ہے جسمیںخالق کائنات نے ہر جاندار کی جو زمین پر چلنے پھرنے والا ہے اسکے رزق کی ذمہ داری لی ہے۔
دابۃ ہر اس جانور کو کہتے ہیں جو زمین پر چلے، پرندے جانور بھی اس میں داخل ہیں کیونکہ انکا آشیانہ بھی زمین پر ہوتا ہے دریائی جانور بھی زمین ہی سے تعلق رکھتے ہیں ان سب جانداروں کی ذمہ داری حق تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے لی ہے اور اس کو ایسے الفاظ سے بیان فرمایا جیسے کوئی فریضہ کسی کے ذمہ ہو، ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری حق تعالیٰ پر ڈالنے والی کوئی اور طاقت نہیں بجز اسکے کہ اسی نے اپنے فضل سے یہ وعدہ فرمالیا ہے
رزق،لغت میں اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے جانداراپنی غذا حاصل کرے اور جس کے ذریعہ اسکی روح کی بقا اور جسم میں نشونمامیں بڑھوتری پیدا ہوتی ہے۔
واقـعـہ: امام قرطبیؒ نے اس آیت کے تحت حضرت ابوموسیٰ اور ابومالکؒ وغیرہ قبیلہ اشعر یین کا ایک واقعہ ذکر کیا ہے کہ یہ لوگ ہجرت کرکے مدینہ طیبہ پہنچے تو جو کچھ توشہ اور کھانے پینے کا سامان انکے پاس تھا وہ ختم ہوگیا انہوں نے اپنا ایک آدمی آنحضرتﷺکی خدمت میں اس غرض کیلئے بھیجا کہ انکے کھانے وغیرہ کا آپ کچھ انتظام فرمادیں، یہ شخص جب نبی کریمﷺ کے دروازہ پر پہنچا تو اندر سے آواز آئی کہ رسول اللہﷺ یہ آیت تلاوت فرمارہے ہیں وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا
اس شخص کو یہ آیت سنکر خیال آیا کہ جب اللہ نے سب جانداروں کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو پھر ہم اشعری بھی اللہ کے نزدیک دوسرے جانوروں سے گئے گزرے نہیں وہ ضرور ہمیں بھی رزق دیں گے یہ خیال کرکے وہیںسے واپس ہوگیا
آنحضرتﷺ کو اپنا کچھ حال نہیں بتلایا، واپس جاکر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خوش ہوجائو تمہارے لئے اللہ کی مددآرہی ہے اسکے اشعری ساتھیوں نے سمجھا کہ انکے قاصد نے حسب قراردادنبی کریمﷺ سے اپنی حاجت کا ذکر کیا ہے اور آپؐ نے انتظام کرنے کا وعدہ فرمالیا ہے وہ یہ سمجھ کر مطمئن بیٹھ گئے، وہ ابھی بیٹھے ہی تھے کہ دیکھا کہ دو آدمی گوشت اور روٹیوں سے بھراہوا ایک بڑا برتن اٹھاکر لارہے ہیں اور لاکر یہ کھانا اشعریین کو دیدیا انہوں نے خوب شکم سیر ہوکر پیٹ بھر کرکھایا پھر بھی بچ گیا تو ان لوگوں نے یہ مناسب سمجھا کہ باقی کھانا آنحضرتﷺ کے پاس بھیج دیں تاکہ ان کو آپ کی ضرورت میں صرف فرمادیں اپنے دوآدمیوں کو یہ کھانا دے کر آنحضرتﷺ کے پاس بھیج دیا۔
اسکے بعد یہ سب حضرات آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ کا بھیجا ہوا کھانا بہت زیادہ اور بہت نفیس ولذیذ تھا آپؐ نے فرمایا کہ میں نے تو کوئی کھانا نہیں بھیجا
تب انہوں نے پوراواقعہ عرض کیا کہ ہم نے اپنے فلاں آدمی کو آپ کے پاس بھیجا تھا اس نے یہ جواب دیا جس سے ہم نے سمجھا کہ آپ نے کھانا بھیجا ہے یہ سنکر نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ یہ میں نے نہیں بلکہ اس ذاتِ اقدس نے بھیجا ہے جس نے ہرجاندار کا رزق اپنے ذمہ لیا ہے(معارف القرآن ج۴،ص۵۹۱)
بعض روایات میں ہے کہ جس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کی تلاش میں کوہ طور پر پہنچے اور وہاں آگ کے بجائے تجلیات الٰہی سامنے آئیں اور انکو نبوت ورسالت عطا ہوکر فرعون اور اسکی قوم کی ہدایت کیلئے مصر جانے کا حکم ملا تو خیال آیا کہ میں اپنی زوجہ کو جنگل میں تنہا چھوڑکر آیا ہوں اسکا کون متکفل ہوگا، اس خیال کی اصلاح کیلئے حق تعالیٰ شانہ نے موسیٰؑ کو حکم دیا کہ سامنے پڑی ہوئی پتھر کی چٹان پر لکڑی(اپنی لاٹھی) ماریں، انہوں نے تعمیل حکم کی تو یہ چٹان پھٹ کر اندر سے ایک دوسرا پتھر برآمد ہوا،نکلا، پھر حکم ہوا اس پر بھی لاٹھی ماریں، موسیٰؑ نے ماراتووہ پتھر پھٹا اور اندرسے تیسرا پتھر نکلا پھر اس پر بھی لاٹھی مارنے کا حکم ہوا تویہ شق ہوا،پھٹا تو اندر سے ایک جانور نکلا جسکے منہ میں ہرا پتہ تھا۔
حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا یقین تو موسیٰؑ کو پہلے بھی تھا مگر مشاہدہ کا اثر کچھ اورہی ہوتا ہے، یہ دیکھ کر حضرت موسیٰؑ وہیں سے سیدھے مصرروانہ ہوگئے زوجۂ محترمہ کو یہ بتلانے بھی نہ گئے کہ مجھے مصر جانے کا حکم ہوا ہے میں وہاں جارہا ہوں۔
محترم! ان مذکورہ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پروردگار عالم اپنے بندوں کو کس طرح روزی پہنچاتے ہیں اور پتھر کے اندر اس ذی روح کو کون روزی دے رہا ہے اور کون رزق پہنچارہا ہے تو جواب ایک ہی ہے وہی اللہ وہی رازق وہی خالق کائنات ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک طویل حدیث میں ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی پیدائش سے پہلے مختلف دورسے گزرتا ہے، جب اسکے اعضاء کی تکمیل ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو حکم کرتے ہیں جو اسکے متعلق چارچیزیں لکھ لیتا ہے اول اسکا عمل جو کچھ وہ کریگا، دوسرے اسکی عمر کے سال، مہینہ،دن اور منٹ اور سانس تک لکھ لئے جاتے ہیں تیسرے اسکو کہاں مرنا اور کہاں دفن ہونا ہے چوتھے اسکا رزق کتنا اور کس کس طریقے سے پہنچتا ہے (بخاری ومسلم)
محترم! اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بندہ دنیا میں آنے سے پہلے ہی ماں کے پیٹ میں ہی اسکا رزق اللہ تعالیٰ کی جانب سے طے ہوجاتا ہے کہ وہ ماں کے پیٹ سے دنیاکے پیٹ میں آنے کے بعد مرنے تک کیا کیا کھائیگا اور کتنا کھائیگا سب لکھ دیا جاتا ہے سب متعین کیا جاتا ہے بندہ اپنے مقدر سے زیادہ نہیں کھاسکتا۔
رزقِ مقدر پوراکئے بغیر کسی کو موت نہ آئیگی:
اللہ تعالیٰ نے جسکے لئے جتنا رزق مقدرفرمادیا ہے اسکو پوراکئے بغیر وہ دنیا سے نہیں جاسکتا، جتنا رزق مقدر ہے وہ ملکر ہی رہیگا، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیشک میرے دل میں جبرئیل امینؑ نے یہ بات ڈالدی ہے کہ اسوقت تک کسی شخص کو موت نہ آئیگی جب تک کہ وہ اپنا رزق پورا نہ کرلے تم لوگ اللہ سے ڈرو، اور رزق طلب کرنے میں خوبی کا خیال رکھو، اورر زق ملنے میں دیر ہوجائے تو اللہ کی نافرمانیوں کے ذریعہ طلب نہ کرو، کیونکہ اللہ کا فضل اسکی نافرمانی کے ذریعہ حاصل نہیں کیا جاسکتا(رواہ الحاکم)
اور ایک حدیث شریف میںہے حضرت ابوالدردائؓ فرماتے ہیں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ رزق بندہ کو اسی طرح طلب کرلیتا ہے(ڈھونڈ تا ہے) جس طرح اسے موت طلب کرلیتی ہے(رواہ ابن حبان)
حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشادفرمایا تم میں سے اگر کوئی شخص اپنے رزق سے بھاگے تو وہ اسے پکڑلے گا جیسا کہ اسے موت پکڑلے گی(رواہ الطبرانی)
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے ایک کھجور پڑی ہوئی دیکھی تو آپؐ نے اسے لے لیا اتفاق سے وہیں پر ایک سائل موجود تھا وہ کھجور آپؐ نے اسے عطا فرمادی اور فرمایا کہ خبردار اگرتواس کے پاس نہ آتا تویہ تیرے پاس آجاتی(رواہ الطبرانی)
محترم! ان تمام روایتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ انسان کا مقدر شدہ رزق انسان کو پہنچ کر رہتا ہے ملکر رہتا ہے اگر انسان اپنے سے بھاگنا بھی چاہیگا تو نہیں بھاگ سکے گا اسکا رزق اسکو تلاش کرکے پکڑہی لیتا ہے جسطرح اسکی موت، اور رب العالمین بڑا رحیم وکریم ہے کہ وہ انسانوں میں کافروں میں بھی رزق دیتا ہے اور فاسقوں کوبھی اور حیوانوں کو بھی چھوٹے بڑے ہر قسم کے کیڑوں اور مکوڑوں کو بھی سب کو رزق دینے کا سوائے اللہ کے اور کسی کے بس میں نہیں ہے۔
حضرت سلیمانؑ کی مخلوق کی دعوت:
اللہ تعالیٰ نے جب حضرت سلیمانؑ کو ساری دنیا پر حکومت عطا فرمادی تو انہوں نے اللہ رب العزت سے درخواست کی یا اللہ جب آپ نے مجھے ساری دنیا پر حکومت عطا فرمادی تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپکی ساری مخلوق کی ایک سال تک دعوت کروں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ کام تمہاری قدرت اور بس میں نہیں انہوں نے دوبارہ درخواست کی یا اللہ ایک ماہ کی دعوت کی اجازت دیدیں اللہ نے فرمایا کہ یہ بھی تمہاری قدرت میں نہیں آخر میں حضرت سلیمانؑ نے عرض کیا کہ یا اللہ ایک دن کی اجازت دیدیں اللہ نے فرمایا کہ تم اسکی بھی قدرت نہیں رکھتے لیکن اگر تمہارا اصرار ہے تو چلو ہم تمہیں اسکی اجازت دیدیتے ہیں۔
جب اجازت مل گئی تو حضرت سلیمانؑ نے جنات اور انسانوں کو غذائیں جمع کرنے کا حکم دیا اور کھانا پکنا شروع ہوا اور کئی مہینوں تک کھانا تیار ہوتا رہا اور پھر سمندر کے کنارے ایک بہت لمبا چوڑا دستر خوان بچھایا گیا اور اس پر کھانا چنا گیا اور ہواکو حکم دیا کہ وہ اس پر چلتی رہے تاکہ کھانا خراب نہ ہوجائے اسکے بعد حضرت سلیمانؑ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی یا اللہ کھانا تیار ہوگیا ہے آپ اپنی مخلوقات میں سے کسی کو بھیج دیں
اللہ نے فرمایا ہم پہلے سمندری مخلوقات میں سے ایک مچھلی کو تمہاری دعوت کھانے کیلئے بھیج دیتے ہیں چنانچہ مچھلی سمندر سے نکلی اور کہا کہ اے سلیمان معلوم ہوا کہ آج تمہاری طرف سے دعوت ہے انہوں نے فرمایا ہاں تشریف لائیں کھانا تناول کریں چنانچہ اس مچھلی نے دسترخوان کے ایک کنارے سے کھانا شروع کیا اور دوسرے کنارے تک ساراکھانا ختم کرگئی پھر حضرت سلیمانؑ سے کہا اور لائیں حضرت سلیمان نے فرمایا کہ تم نے تو ساراکھانا ختم کردیا مچھلی نے کہا کیا میزبان کی طرف سے مہمان کو یہی جواب دیا جاتا ہے مچھلی نے کہاجب سے میں پیدا ہوئی ہوں اس وقت سے آج تک پیٹ بھرکر ہمیشہ کھانا کھایا ہے لیکن آج تمہاری دعوت کی وجہ سے بھوگی رہ گئی، اور جتنا کھانا تم نے تیار کیا تھا اللہ تعالیٰ روزآنہ مجھے اتنا کھانا دن میں دومرتبہ کھلاتے ہیں مگر آج پیٹ بھر کر کھانا نہیں ملا، بس یہ سنتے ہی حضرت سلیمانؑ فوراً سجدہ میں گرگئے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرنے لگے(نفحۃ العرب ۱۱۰)
اللہ اکبر اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ ہی رازق ہے رازق عالم ہے وہی ساری مخلوقات کو اپنی قدرت سے روزی پہنچاتا ہے یہ کام کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔
ویعلم مستقرہا ومستودعہا زمین پر جو چلنے پھرنے والے ہیں ان سب کے جو ٹھکانے ہیں اسے سب کا علم ہے اللہ کو سب کے رہنے کی جگہوں کا پتہ ہے ایسا نہیں کہ وہ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز کو بھول گیا ہو۔
صاحب روح المعانی نے حضرت ابن مسعوؓ کا قول بحوالۂ مستدرک نقل کیا ہے کہ مستقر سے ماں کا رحم اور مستودع سے موت آنے کے مواقع مراد ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہررزق پانے والے کی ابتدائی حالت کا علم ہے کہ اسے کس وقت سے رزق کی ضرورت ہوئی ہے اور یہ بھی کہ اسکی حاجت کب ختم ہوگی یعنی موت کے وقت
مخلوقات کو رزق رسانی کا عجیب نظام قدرت:
حق تعالیٰ نے ہر جاندار کا رزق اپنے ذمہ لے لیا ہے تو اللہ کی ذمہ داری کو دنیا کے لوگوں اور حکومتوں کی ذمہ داری پر قیاس نہ کرو،کیونکہ دنیا میں کوئی شخص یا ادارہ رزق کی ذمہ داری لے لے تو انسان اگر اپنی مقررہ جگہ سے کسی دوسری جگہ جانا ہوتواس فرد یا ادارہ کو اطلاع دینا ہوگا کہ رزق کے وہاں پہنچانے کا انتظام کیا جائے مگر حق تعالیٰ کی ذمہ داری میں اطلاع کا بار بھی انسان پر نہیں کیونکہ وہ انسان کی ہر نقل وحرکت سے باخبر ہے بغیر کسی درخواست اور نشان دہی کے انسان کا رزق انسان کی جگہ پہنچ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعافرمائیں کہ خدا ہمیں اس کے وعدوں پر مکمل یقین کرنیکی توفیق عطا فرمائے۔ واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین