محی السنہ عارف باللہ
حضرت اقدس مولانا شاہ ابرارالحق حقی ہردوئی ؒ
تسہیل و تلخیص
محب الامت
عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ محمداہل اللہ صاحب دامت فیوضہم
خلیفۂ مجاز بیعت عارف باللہ مسیح الامت
حضرت اقدس مولانا شاہ محمد مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی قدسرہٗ
RE: تسہیل وتلخیص ملفوظات ملفوظات شاہ مولانا ابرا رالحق رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
الحمد للّٰہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ الکریم
اما بعد: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر احادیث کی جو ترتیب دی گئی وہ سب حضور ﷺ کی مجالس مبارکہ سے ہوئی حضور ﷺ کے جو کچھ فرمودات ہیں وہ زیادہ تر ایسی ہی مبارک مجلسوں کے مبارک ملفوظات ہیں، یہ مجلس صبح وشام آراستہ ہوتی تھیں مسجد نبوی ﷺ ان مجالس کا مرکز تھی صحابہ کرامؓ فیض یاب ہوتے تھے جو کوئی ضرورت اشد کی بنیاد پر حاضر نہ ہو ان کی واپسی پر موجود صحابہ سنادیتے تھے یہ مبارک سلسلہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین سے ہوتا ہوا ہمارے علمابالخصوص مشائخین تک پہونچتا رہا انشاء اللہ یہ مبارک سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، ہندوستان جو صدیوں سے مشائخین وعارفین کا مرکز رہا ہے اورجہاں ایک زمانہ میں شہر شہر ، قریہ قریہ خانقاہیں آباد تھیں اور مسلم سماج میں ان کو ایسی مقبولیت اور محبوبیت حاصل رہی گویا یہ مسلم سماج کیلئے ایک طرح کا مرکزرشد وہدایت تھا۔
جہاں عوام وخواص، فقرا وسلاطین کی بلا امتیاز اصلاح ہوتی رہی، ان خانقاہوں سے بڑی اصلاح ہوتی تھی خاص طور پر نہی عن المنکر کا، اس سے زیادہ مؤثر ذریعہ نہیں تھا، ماضی قریب میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے وہ فیض یابی کی جس میں علما، عوام،امرا ، نوابین ، رعایا، شعرا، سخن وروں، فقہا، مفتیان ہرطبقہ کے لوگ آپ کے اسیر محبت تھے، ان بافیض مجلسوں کو مرتب کیا گیا، اور آج وہ اہل دل اور اہل طلب کیلئے مفید سے مفید تر ہوئے، اس میکدہ تھانویؒ کے بادہ خواروں میں مسیح الامت حضرت مسیح اللہ خان صاحب ؒ کے خلیفہ ومجاز محب الامت عارف بااللہ شاہ محمد اہل اللہ صاحب دامت فیوضہم ہیں حضرت والا پر ذوق وشوق کیف ومستی اور وجدانی کیفیات کا غلبہ طاری رہتا ہے شب وروز محبت وعقیدت کے دریا میں غوطہ زن رہتے ہیں، شیخ طریقت حضرت مسیح الامت کی محبت، روح وقلب پر اس انداز سے چھائی رہتی ہے کہ جب بھی آپ اپنے معتقد اور ارادت مندوں کے درمیان گفتگو فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسیح الامت کی نرم و شیریں آواز کانوں میں رس گھول رہی ہے ۔
مدرسہ باقیات الصالحات کے طالب علمی دور میں ہم نے حضرت والا کو سنا ہے اب تک آپ کی پرسوز ، نورانی وعرفانی تقریر دل ودماغ پرنقش ہے کیوں نہ ہوگی حضرت والا کے ہزار ہا مرید آپ کے سوز باطنی سے ایمان کی غیر فانی شمعیں جلاکر تاریک دلوں میں نور عرفان کے فانوس روشن کر رہے تھے۔ حضرت محب الامت ظاہری وباطنی طور پر اپنے شیخ پیرو مرشد کے کامل نمونہ ہیں۔
وہی آبلے ہیں وہی جلن کوئی سوز دل کی کمی نہیں
جو آگ تم تھے لگاگئے وہ لگی ہوئی ہے بجھی نہیں
شوکت وہی صولت وہی دستوروہی ہے
نقشہ وہی انداز وہی نور وہی ہے
الغرض حضرت والا اسی میکدہ کے مایہ ناز بادہ خوار محی السنہ مولانا شاہ ابرار الحق حقی ؒ کے ملفوظات کی تلخیص اور حضرت شاہ صاحب ؒ کی دیگر کتب سے استفادہ فرماتے ہوئے ملت کیلئے ایک علمی سرمایہ پیش فرمانے کی سعادت حاصل فرمائی ہے ۔
ان ملفوظات میں قرآن ہے ،حدیث ہے، تصوف ہے ، سوزوگداز ہے، تربیت واصلاح ہے، تذکیر وموعظت ہے، علم تصوف کے عارفانہ نکات پنہا ہیںاور دماغ پر نقش چھوڑ جانے والی باتیں ہیں۔
دعا ہے کہ رب العزت حضرت ابر ار الحق صاحبؒ کوجنت کے اعلیٰ مراتب سے نوازے اور حضرت شاہ محمد اہل اللہ صاحب دامت فیوضہم کے سایہ عاطفت کو امت پر تادیر قائم رکھے اور ان ملفوظات کو مقبولیت اور باعث نفع فرمائے (آمین)
حضرت مولانا نور احمد بیگ صاحب باقوی مد ظلہ العالی
چیرمین الماس ایجو کشنل ٹرسٹ بنگلور
RE: تسہیل وتلخیص ملفوظات شاہ مولانا ابرا رالحق رحمۃ اللہ علیہ
حضرتِ والا ایک عظیم مصلح
ولی کامل ، صوفی باصفا، واصل بحق کی تعریف حدیث مبارکہ میں اس طرح کی گئی ے ’’خیار امتی اذارئو اذکر اللّٰہ‘‘ یقین کیجئے ۔ حضرت محب الامت شاہ محمد اہل اللہ دامت فیوضہم کی ذات گرامی ایسی ہی ہے
گفتگو بالکل سادہ دکنی لہجہ لئے ہوئے ،پر بلا کی جاذبیت ،سینہ گرمئی عشق اور اسرار الٰہی سے لبریز ، مقام تمکین پر متمکن، نشست وبرخاست میں سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پر توالخلق عیال اللّٰہ کے تحت جملہ خلائق کے ساتھ محبت شفقت کا معاملہ ۔
ایک عارف کے قلم سے
اللہ والوں کے چہرے کی نورانیت، رفتار میں فروتنی ومتانت ، گفتار میں صداقت و راستی، معاملات میں امانت ودیانت معاشرت میں باہم اخوت، دنیا میں زہد وقناعت، طاعت میں دوام ومواظبت غرض جملہ امور میں تقویٰ وطہارت ہر قلب سلیم عین الیقین کے ساتھ یہ شہادت دینے لگتا ہے کہ ہے کوئی ذات جس نے اپنی شان ربوبیت سے ان حضرات کی تعلیم وتربیت فرماکر ان کو کمالات عالیہ اور صفات حسنہ سے آراستہ فرمایا ہے جس کی وجہ سے انکی ذات میں ایسی جاذبیت ومحبوبیت پیدا ہوجاتی ہے کہ مسلم تو مسلم غیر مسلم کے قلوب ان کی طرف غیر شعوری طور پر کھچنے لگتے ہیں اور ان سے عقیدت و محبت کا سلوک کرتے ہیں۔
ہمارے حضرت جامع شریعت وطریقت دامت فیوضہم ان تمام صفات کے حامل ، خدا کے بندو ں کیلئے چراغ رشد وہدایت ہیں۔
حق تعالیٰ نے حضرت محب الامت کو تصنیف تالیف کی بہترین صلاحیت سے مالا مال فرمایا ہے ۔
چنانچہ تسہیل وتلخیص ملفوظات محی السنہ والدِّین حضرت ا قدس مولانا شا ہ ابرار الحق حقی ہردوئی،حسن ترتیب اور حسن انتخاب کی شاہکار کتاب ہے جسے حضرت محب الامت نے تسہیل وتلخیص فرمائی ہے ۔
حضرت والا محب الامت دامت برکا تہم کی خواہش پر حضرت والا کے ایک خادم جناب صوفی عبدالصمد R.T.O آفیسربنگلور نے بتوفیق خداوندی اس کتاب کو اس مرحلہ تک پہنچایا ہے ۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ موصوف اور ان تمام حضرات جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیا ہے جان ومال میں برکت عطا فرمائے (آمین)
RE: تسہیل وتلخیص ملفوظات شاہ مولانا ابرا رالحق رحمۃ اللہ علیہ
منتخب
ارشادات عارف باللہ حضرت اقدس
مولانا شاہ ابرارالحق حقیؒ ہردوئی
یعنی ملفوظات محی السنۃ
مختصر سوانح کا خاکہ
نام: عارف باللہ وشیخ طریقت محبوب حضرات اکابر محی السنۃ حضرت اقدس شاہ ابرارالحق حقیؒ۔
لقب : محی السنۃ ہے
وطن : آپ کا وطن اصلی، نواح دہلی میں مقام’’ پلول ‘‘ ہے آپ کے اجداد وہیں رہتے تھے آپ کے والد محترم نے ہردوئی میں قیام فرمایا ، اور ہردوئی ہی کو اپنا وطن و مسکن بنالیا اور ہردوئی میں ہی حضرت والاکی پیدائش ۸؍ ربیع الثانی ۱۳۳۹ ھ مطابق ۲۰ دسمبر ۱۹۲۰ ء بروز دوشنبہ کو ہوئی ۔
اور ہردوئی کو ہی آپ نے مرکز رشدوہدایت بنایا اور اسی سرزمین کو آپ کے وطن اصلی ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔
والد: آپ کے والد ماجد جناب وکیل مولوی محمود الحق صاحب گو پیشہ کے اعتبار سے وکیل تھے لیکن انتہائی نیک وصالح فرائض کے علاوہ سنن مستحبات کے پابند، صدق وامانت، تقویٰ طہارت میں ممتاز اور مشہور تھے ،خلاف حق کسی معاملہ میں کوئی ان سے تعاون کی امید نہیں کر سکتاتھا ۔
حبّ خداوند ی وحبّ نبوی میں سرشار رہتے تھے اسی وجہ سے اصلاحِ نفس اور تکمیلِ سلوک کا ان پر غلبہ ہوا عظیم مقصد کیلئے حکیم الامت حضرت اقدس تھانویؒ سے بیعت ہوئے اور اصلاحی تعلق قائم فرمایا اور حضرت تھانویؒ سے پورا پورا اکتساب فیض فرمایا اور حضرت تھانویؒ ان پر اعتماد فرماتے ہوئے ان کو اپنے مجازین صحبت میں شامل فرمایا
والدہ: حضرت قدس سرہٗ کی والدہ محترمہ بھی نہایت ہی رقیق القلب، ملنسار اور خوش مزاج خاتون تھیں ایک رئیس خاندان سے تعلق تھا غربا پروری اور مہمان نوازی میں اپنی مثال آپ تھیں۔
آغاز تعلیم : آپ کی تعلیم کا آغاز اور بسم اللہ خوانی محدث جلیل حضرت مولانا شاہ اصغر حسین عرف حضرت میاں صاحب قدس سرہ العزیز کے ہاتھوں انجام پائی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی صرف آٹھ سال کی عمر میں قرآن شریف حفظ مکمل فرما لیا آپ حفظ کے بعد اعلیٰ تعلیم کیلئے قدیم درسگاہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کا رخ کیا تعلیم ہی کے زمانہ میں تھانہ بھون کی حاضری ہوتی رہی پھر حضرت تھانویؒ نے اپنے حلقہ ارادت میں شامل کر لیا اور بیعت سے مشرف فرمایا ۔بعدہٗ ۱۳۶۱ھ بعمر ۲۲ سال میں خلافت بیعت سے بھی نوازے گئے ۔
نکاح : ۱۳۴۰ ء میں آپ کے شیخ حضرت تھانویؒ کے مشورے سے لکھنؤ میں جناب ڈاکٹر سید احمد علی شاہ صاحب مرحوم کی صاحبزادی محمودہ بیگم کے ساتھ منعقد ہوا حضرت تھانویؒ نے نکاح پڑھا یا ۔
تاریخ وفات: ۸ ربیع الثانی ۱۴۲۶ ھ مطابق ۱۷مئی ۲۰۰۵ء بروز سہ شنبہ
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب (پ۱۳ ع،۱)
ترجمہ: مراد اس سے و ہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور اللہ کے ذکر سے ان کے دلوں کو اطمینان ہوتا ہے اور خوب سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر(میں ایسی خاصیت ہے کہ اس ) سے د لوں کو اطمینان ہوجاتا ہے ۔ (بیان القرآن ص ۱۱۳ ج ۵)
دنیامیں اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا فرمائی ہیں ان کی بہت سی قسمیں ہیں لیکن نفع کے اعتبار سے ان کی دو قسمیں ہیں، ایک خاص، دوسرے عام، بہت سی چیزیں خاص ہیں نفع کے اعتبار سے جیسے ریل ،موٹر،ہوائی جہازوغیرہ کہ ان سے وہی لوگ نفع اٹھا سکیں گے جو روپیہ پیسہ خرچ کر کے سفر کریں، یا ہنر سیکھ کر، ڈرائیوری سیکھ کر اس کی ملازمت کریں بہت سے لوگوں کو نہ تو چلانا آتا ہے اور نہ ہی ان کو سفر کرنیکی ضرورت اور فرصت ہے، اس لئے ان خاص خاص چیزوں کے فائدے کو وہ لوگ حاصل نہیں کرسکتے اور بہت سی چیزیں عام ضرورت کی ہیں جیسے ہوا پانی وغیرہ کہ ان سے عام انسان فائدہ حاصل کرتے ہیں۔
ہر انسان سکون چاہتا ہے
بعض چیزیں انسان کی ضروت کی ایسی ہیں کہ جن کے حاصل کر نے کی خواہش عام طور پر سب کو ہوتی ہے جیسے چین وراحت ہے سکون اطمینان ہے کہ ہر شخص کو خواہش ہوتی ہے کہ یہ حاصل ہوجائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان مسلم ہو یا غیر مسلم سب کو تمنا ہے راحت وسکون اور اطمینان حاصل ہو۔
سکون کی تلاش اور اس کا انجام
اسکے لئے ہر شخص کوشش کیا کرتا ہے ،مگر اس کے باوجود چین وسکون نصیب نہیں ہوتا، کیونکہ اس کے حاصل کرنیکا صحیح راستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس کے لئے غلط راستہ اختیار کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا نتیجہ سوائے محرومی وناکامی کے اور کیا ہوسکتا ہے؟ بہت سے لوگوں نے سکو ن واطمینان اور راحت وچین کو اولاد کی کثرت، حصول حکومت یا باغات وتجارت وغیرہ سے حاصل کرنے کو سوچا ہے مگر حالات وواقعات اس کے خلاف دیکھے جاتے ہیں کہ حکومت اور مال و دولت کے حاصل ہونے کے باوجود سکون واطمینان اور چین نصیب نہیں ہوتا
ایک وزیر صاحب کا حال سننے میں آیا کہ باوجود صاحب اولاد وصاحب مال واسباب ہونے کے ایک مقدمہ ان پر قائم ہے،جس سے ساری زندگی تلخ کڑوی ہوچکی ہے نہ مال میں سکون نہ اولاد میں چین، نہ حکومت وثروت میں راحت، ساری دولت کے باوجود زندگی پریشان، ایر کنڈیشن مکان میں آرام فرما ہیں، زیب وزینت وآرائش کے سارے سامان مہیا ہیں، پر تکلف کھانے پینے کی چیزیں موجود ہیں مگر اصل چیز جس کیلئے یہ سب ہے یعنی قلب کا اطمینان اور دل کا سکون وہ حاصل نہیں، اس سے معلوم ہوا کہ عام طور پر لوگوں نے سکون حاصل کرنیکا جو طریقہ سمجھا ہے صحیح نہیں ہے۔
سکون کا صحیح راستہ کیا ہے؟
بلکہ اس کے حاصل کرنے کی دوسری تدبیر ہے، اب سوال یہ ہے کہ وہ تدبیر کیا ہے ، تو اسکے متعلق پہلے ایک مثال عرض کرنا چاہتا ہوں تاکہ بات خوب ذہن نشین ہوجائے ، وہ یہ کہ انسان کے اعضاء دو قسم کے ہیں ایک ظاہر، دوسرے باطن، اعضائے ظاہرہ مثلاً آنکھ ہے اس میں ریزہ یا گردوغبار سفر کی حالت میں اڑکر پڑگیا تو اس سے بیقراری کی حالت پیدا ہوجاتی ہے اور آنکھ کا جو صحیح کام ہے لکھنا پڑھنا، پرفضامقامات اچھے عمدہ باغات وغیرہ کا دیکھنا اور فرحت حاصل کرنا یہ سارے فوائد ختم اور مفقود ہوگئے ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ گردو غباراور چھوٹے چھوٹے ذرات جو کہ آنکھ کے لئے اجنبی ہیں ان کے پڑنے کی وجہ سے ایک تو سکون ختم ہوگیا اور بے چینی پیدا ہوگئی دوسرے یہ کہ آنکھ کے جو منافع تھے وہ بھی ختم ہوگئے تو معلوم ہوا کہ اجنبی چیز کے دخل انداز ہونے سے خلل پڑجاتا ہے اور اس سے حاصل ہونے والے جو فوائد ہیں وہ بھی مفقود ہوجاتے ہیں۔
اجنبی کے ہونے سے بے چینی ہوجاتی ہے
دوسری مثال ایک شخص سو کر اٹھا اس کے ہاتھ میں ورم معلوم ہوا جس سے پریشان ہوکر ڈاکٹر کے یہاں جانے لگا تو راستہ میں کسی نے کہا کہ بھائی کہاں جارہے ہو، ڈاکٹر کے یہاں جانے کی کیا ضرورت ہے اب تو تمہارے ہاتھ کو ترقی ہورہی ہے اور تمہارا ہاتھ موٹا ہو رہا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ یہی جواب دیگا کہ بھائی ہم کو ایسی ترقی نہیں چاہئے کہ جس میں درد اور تکلیف ہو، بلکہ ہم کو ایسی ترقی پسند اور مطلوب ہے جس میں سکون اور اطمینان ہو ، غرض کہ وہ شخص ڈاکٹر صاحب کے یہاں گیا اور اپنا حال بتلاکر ہاتھ دکھایا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ بھائی اس کے اندر پیپ اور مواد بھر گیا ہے جو اجنبی ہے خون کو خراب کرنیوالا اور تکلیف کو بڑھانیوالا ہے جب تک کہ یہ نکل نہ جائیگا سکون حاصل نہ ہوگا، اس کے نکلنے کے بعد ہی سکون حاصل ہوسکتا ہے اسی طرح مستورات پردہ میں بیٹھ کر سکون کے ساتھ دین کی باتیں سن رہی ہیں، اب اگر کوئی اجنبی شخص اچانک ان کے مجمع میں گھس جائے تو ان مستورات کا کیا حال ہوگا، سارا سکون واطمینان ختم ہوکر ان پر ایک پریشانی چھا جائے گی، کیونکہ ایک اجنبی اور غیر مانوس آگیا تو جب تک وہ غیر جنس باہر نہ چلا جائیگا ان کو سکون حاصل نہ ہوگا۔
باطن کا معاملہ اعضاء ظاہرہ کی طرح ہے
تو جب اعضائے ظاہرہ کے اندر ایک اجنبی چیز کے آجانے سے سکونِ ظاہر ختم ہوجاتا ہے ، اسی طرح قلبی سکون کے معاملہ کوخیال کرنا چاہئے کہ اس میں کوئی اجنبی چیز پہونچ گئی ہے جس سے دل میں سکون نہیں مل رہا ہے اور ظاہر ہے کہ کسی بھی مقام میں کسی اجنبی کے موجود ہونے سے اس وقت تک سکون واطمینا ن حاصل نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ وہ اجنبی نہ نکل جائے خواہ وہ ظاہراً ہو یا باطناً اس کا تعلق جسم سے ہو یاقلب سے ہو اجنبی اور غیر مانوس کو نکال کر اس مقام اور حال کے مناسب مانوس چیز کو داخل کرنے ہی سے راحت وسکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے ۔
RE: تسہیل وتلخیص ملفوظات شاہ مولانا ابرا رالحق رحمۃ اللہ علیہ
قلب کا تزکیہ اور تحلیہ
تو اس سے معلوم ہوا کہ دوطرح کی چیزیںہیں، بعض چیزیں تو وہ ہیں جو دل کیلئے مانوس ہیں اور کچھ چیزیں وہ ہیں جو دل کیلئے اجنبی ہیں، جب ان اجنبی چیزوں کو نکال کر مانوس چیزوں سے دل کو آراستہ کیا جائیگا تو سکون قلب حاصل ہوگا جس طریقہ سے کوئی مکان ہو اس سے راحت وآرام حاصل کرنے کیلئے دو کام کرنے پڑتے ہیں ، ایک تو اجنبی چیزیں جیسے سانپ، بچھو، مکڑی کا جالا کو ڑا کرکٹ وغیرہ کا نکالنا دوسرے مناسب چیزوں کا اس میں داخل کرنا مثلاً اس کی مرمت، پوتائی ، فرش فروش، روشنی وپنکھے اور دیگر ضروریات کا اہتمام کرنا، ان دونوں کاموں سے مکان خوبصورت بھی ہوجائیگااور صاحب مکان کیلئے باعث راحت مسرت بنے گا، ایسے مکان میں رہنے سے سکون بھی حاصل ہوگا اسی طرح قلب کو گندے اخلاق سے صاف کر کے اچھے اخلاق واعمال سے آراستہ کرنے کی ضروت ہے اگر گندے اور برے اخلاق میں سے ایک خلق وعادت بھی ہوگی تو سکون میسر نہ ہوگا مثلاً کسی کے قلب میں دنیا کی محبت ہو، تو دل ہر وقت پریشان رہے گا، چین وسکون نہ ملے گا، کیونکہ جب وہ کسی کے پاس مال دیکھے گا تو یہ چاہے گا کہ یہ مال مجھے ملے اور طرح طرح کی فکر میں گھرا رہے گا اس لئے اس کو سکون واطمینان حاصل نہیں ہوگا۔
حرص تمام برائیوں کی جڑ ہے
تو اصل بات یہی ہے کہ اگر انسان میں قناعت ہو تو سکون ہوجائے اور اگر بجائے قناعت کے مال کی محبت اور اس کی لالچ ہوتو سکون کیسے حاصل ہوسکتا ہے؟ ہر وقت اسی کی فکر وکوشش میں رہے گاکہ کسی طرح مال حاصل ہو اس میں اضافہ ہوا ور مال کی محبت یہ دل کی بڑی بیماری ہے اسی کا دوسرا نام حرص ہے،اس کو ام الامراض کہنا چاہئے کہ تمام بیماریو ںاور خرابیوں کی جڑہے، حضرت والا حکیم الامت تھانویؒ فرماتے ہیں کہ حب دنیا ہی کا نام تو حرص ہے اور حرص تمام بیماریوں کی جڑہے کیونکہ اسی کی وجہ سے جھگڑے فساد ہوتے ہیںاسی کی وجہ سے مقدمہ بازیاں ہوتی ہیں اگر لوگوں میں حرص مال نہ ہوتو کوئی کسی کا حق نہ دبائے، پھر ان فسادات کی نوبت بھی نہ آئے ، بدکاری اور چوری وغیرہ کا منشا بھی ایک گونہ حرص ہے کیونکہ عارفین کا قول ہے کہ تمام اخلاق رذیلہ کی اصل کِبْرہے اور کبر کا منشا بھی ایک گونہ حرص ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ وہ بھی حرص کی ایک فرد ہے کیونکہ تکبر طلب جاہ کا نام ہے تو اس میں جاہ کی ہوس ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو مال کی بھی حرص ہے ،کیونکہ طلب جاہ اس واسطے کی جاتی ہے کہ طالب جاہ کو ضروریات معاش سہولت سے ملجاتی ہیں، اس کی حاجتیں بآسانی پوری ہوجاتی ہے، جو کام دوسرے شخص کو سینکڑوں روپیہ خرچ کرنے سے نکلتا وہ صاحب جاہ کی زبان ہلنے سے ہوجاتا ہے تو معلوم ہوا کہ تکبر کا منشا بھی حرص ہوا اور کبر تمام رذائل کی جڑہے تو حرص منشا ہوا تمام معاصی کا، چنانچہ مشاہدہ ہے کہ نااتفاقی کا منشا بھی حرص ہے اور تفاخر کا منشا بھی یہی ہے کیونکہ مال ودولت کا رکھنا جمع مال ہی کے بعد ہوسکتا ہے اور وہ جمع ہوتا ہے حرص سے تو حرص کا ام الامراض ہونا اور اصل معاصی ہوناثابت ہوگیا۔(علاج الحرص مختصراً ص ۵۲،۵۳)
دنیا کی محبت برائی کی جڑکیوں ہے؟
چنانچہ حدیث میں فرمایا گیا ہے ’’حُبُّ الدُّنْیاَ رَأسُ کُلّ خَطِیْئَہ( جامع الصغیر۱۰؍۱۴۶)کتاب الذہد والرقا ق ص۲۱۰)
دنیا کی محبت تمام خرابیوں کی جڑہے
اب یہاں ایک سوال ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت تمام خرابیوں اور برائیوں کی جڑکیسے ہے؟تو بات یہ ہے کہ دو چیزیں ہیں، ایک ہے دنیا، اور ایک ہے آخرت، ظاہر ہے کہ ان دونوں میں سے جس کی محبت ہوگی اسی کی فکر غالب ہوگی اور اسی کیلئے کام کریگا اور اسی کا اہتمام کریگا، دوسری طرف نہ توجہ ہوگی نہ ہی اس کے لئے فکرو کوشش ہوگی، حضرت وہب بن منبہؒ جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ:۔
’’مثل الدُّنیا والاخـرۃ کمثل رجل لہ ضرقان ان ارضیٰ احدہما اسخط ‘‘ (کتاب الذہد اارقاق ص ۲۱۰) دنیا وآخرت کی مثال اس شخص کی طرح ہے کہ اس کی دوسوکن ہوں کہ اگر ایک کو راضی کرتا ہے تو دوسری کو ناراض کردیگا۔
اسی طرح دنیا وآخرت کا معاملہ ہے کہ دونو ںمیں ایک سے محبت یہ دوسرے سے بے تعلق کردیتی ہے تو جب دنیا کی محبت ہوگی تو آخرت کا اہتمام نہ ہوگا جس کی بنا پر نہ برائیوں سے بچے گا اور نہ اچھے اعمال کریگا، کیونکہ آخرت کی فکر اور اس کا خوف یہ بنیاد ہے معصیت اور جرائم سے روکنے کی، اس لئے فرمایا گیا کہ دنیا کی محبت تمام برائیوں کی بنیاد ہے ،۔
مال کی ضرورت اور اس کی حد
یہاں پر ایک بات او رسمجھنے کی ہے کہ ایک طرف تو حکم ہے کہ دنیا سے دل نہ لگائے اور اس سے محبت اور تعلق نہ رکھے، دوسری طرف یہ بھی ہے کہ انسان جب تک زندہ ہے اس وقت تک اس کے ساتھ یہاں کی ضروریات لگی ہوئی ہیں اپنے اور اپنے متعلقین ، اعزہ واقرباء کے حقوق ہیں، جن کی ادائیگی اس کے ذمہ ضروری ہے اس کیلئے ضروری ہے کہ روپیہ پیسہ ہو مال کمائے تاکہ ضروریات زندگی پوری ہوسکیں اور ہر ایک کے حقوق اداہوسکیں تو بات یہ ہے کہ اس کے دو درجے ہیں ایک درجہ ہے ضرورت کا اور ایک درجہ ہے محبت کا ، بقدر ضرورت دنیا کا کمانا اس کی تو اجازت ہے بلکہ حلال طریقہ پر حاصل کرنا یہ طاعت ہے اور اس کا حکم بھی ہے البتہ اس سے دلچسپی لینا ا س میں دل لگانا اور اسی سلسلہ میں حد سے بڑھ جانا کہ ہمہ وقت اسی کی فکر اور اسی کی دھن رہے اس سے منع کیا گیا ہے اس درجہ تعلق نقصان دہ ہے اور ہلاکت کا ذریعہ ہے ۔
دنیا سے کون سا تعلق ہلاکت کا ذریعہ ہے؟
جس طرح کشتی کے چلنے کے لئے پانی کا ہونا ضروری ہے بغیر اس کے کشتی نہیں چل سکتی لیکن پانی کشتی کیلئے اس وقت تک مفید ہے جب تک کہ پانی کشتی سے باہر رہے اور کشتی اس کے اوپر رہے اگر کہیں پانی کشتی میں آجائے توظاہر ہے کہ یہ معاملہ کشتی کیلئے نقصان دہ ہے کہ وہ ڈوب جائے گی یہی معاملہ انسان کے دل اور دنیا کا ہے جب تک اس کی محبت دل میں نہیں ہے تو کوئی بات نہیں، جہاں اس کی محبت دل میں آئی تو بس سارا معاملہ بگڑگیا، مشہور
محدث حضرت ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں کہ
الحاصِلُ ان حب الدنیا فی القلب ہو الملک للہالک لا وجود ھا فی القالب السالک وشبہ القلب باسفینۃ حیث ان الماء المشبہ باالدنیا فی قولہ تعالیٰ انما مثل الحیو ۃ الدنیا کمائٍ انزلناہ من السمآئِ، ان دخل السفینۃ اغرقہا مع اہلہا وان کان خارجہا وحولہا ایسرہا واوصلہا الی محلہا واذا قال صلی اللّٰہ علیہ وسلم نعم المال الصالح للرجل الصَّالح (مرقات۱۰؍ ۳۴)
ترجمہ:خلاصہ یہ کہ دنیا کی محبت قلب میں ہونا انسان کیلئے مہلک ہے نہ کہ سالک کے قالب میں ہونا، تشبیہہ دی گئی ہے قلب کو کشتی کے ساتھ اس طرح کہ پانی دنیا کے مشابہ قرار دیا گیا ، آیت کریمہ انما مثل الحیوۃ الآیہ میں اگر پانی کشتی میں داخل ہوجائے تو کشتی کو مع سواروں کے غرق کردے گا، اور اگر کشتی کے باہر اس کے ارد گرد ہے تو کشتی کو چلائے گا اور اس کو پہونچادے گا منزل مقصود تک اسی بناء پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صالح آدمی کیلئے حلال مال اچھا ہے تو مقصود بالکل دنیا کا ترک نہیں ہے، بلکہ اس میں انہماک منع ہے ۔
RE: تسہیل وتلخیص ملفوظات شاہ مولانا ابرا رالحق رحمۃ اللہ علیہ
فکر معاش میں لگے مگر مغموم دل کے ساتھ
چنانچہ دنیا سے تعلق بھی کم ہو ساتھ میں معاش کیلئے کوشش بھی ہو، یہ دونوں ہی باتیں جمع ہوسکتی ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں ہے ، اس کی مثال حضرت والا حکیم الامتؒ نے بڑی عمدہ بیان فرمائی کہ کسی کا بیٹا مرگیا ہو تو اس کا کوئی کام بند نہیں ہوتا، مگر ایسا مضمحل ہوجاتا ہے کہ کسی کام کو دل نہیں چاہتا گویا بالکل ڈھیلا ہوجاتا ہے، کھاتا، پیتا بھی ہے ، بولتا بھی ہے، ہنستا بھی ہے مگر سب تلخ ، پہلے کی حالت میں اور اس حالت میں بڑا فرق ہوتا ہے، کھل کر بات نہیں کرتا، کوئی زیادہ بات کرنا چاہتا ہے تو کہتا ہے کہ ارے بھائی کیوں دق کرتے ہیں؟چھوٹوں اور بڑوں سب کو بابا بناتا ہے تو دیکھئے دنیا کے سب کام ہوتے ہیں کونسا ضروری کام نہ رہا کیا سردی گرمی کی حس باقی نہ رہی یا کھانے پینے کی حاجت کا احساس نہ رہا؟ مگر یہ ضرور ہوجاتا ہے کہ یہ پرواہ نہیں رہی کہ کونسا لحاف ہو، اس کی گوٹ بدصورت ہے ، یا کسی قدر میلا ہے، یالحاف اورڑھنا خلاف شان ہے ، کھانا کھاتے وقت یہ اہتمام نہیں رہتا کہ چینی کے برتوں میں ہوا ور اقسام اقسام کے کھانے ہوں، جیسے الٹا سیدھا مل جائے پیٹ بھر لیا خلاصہ یہ کہ نخرے نہیں رہے، باقی سب کام بدستور ہے۔ (دواء العیوب مختصراً ص ۷۶)
دنیا میں زندگی ایسی ہی ہونی چاہئے کہ دنیا کے سارے کام کرے زندگی کی ضروریات پورا کرے، مگر مغموم اور مرجھائے ہوے دل کے ساتھ۔
سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے
لیکن اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ یہ طریقہ تو ایسا ہے کہ اگر اس کو اختیار کیا جائے تو اس سے دنیا کے کام بند ہوجائیں گے، اور ہماری حاجتیں وضرورتیں بھی پوری نہیں ہوپائیں گی۔حالانکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس سے کوئی کمی نہیں ہوگی اور نہ کوئی نقصان ہوگا بلکہ اس میں نفع ہی نفع ہے اسلئے کہ تمام خرابیوں اور برائیوں کی بنیاد مال کی محبت اور دنیاکی محبت ہے جب اس میں انہماک کم ہوجائیگا اور تعلق کم ہوگا تو اس کی وجہ سے جتنی آفتیں ومصیبتیں آئی تھیں وہ سب کم ہوجائیں گی، آرام واطمینان سے زندگی بسر ہوگی نہ چوری کا خوف ہوگا، نہ ڈاکہ کا خطرہ ہوگا، نہ حق تلفی کا اندیشہ ہوگا ، یہ سارے جھگڑے ختم ہوجائیں گے غرضیکہ دنیا کی محبت دل کی بڑی بیماری ہے اور اس سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔
دنیا میں انہماک یہ سمِ قاتل ہے
بعضے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس بیماری کا علاج یہ ہے کہ جی بھر کر دنیا میں لگ کر خوب مال ودولت جمع کر لیا جائے ، روپیہ پیسہ کا ڈھیر لگا لیا جائے تو پھر اس کے بعد اس کی خواہش ختم ہوجائیگی سکون حاصل ہوجائیگا، ایسا سمجھنا غلطی کی بات ہے اسلئے کہ ایسا کرنے سے بظاہر عارضی طور پر سکون ہو جائیگا مگر حقیقت میں دنیا کی محبت اور زیادہ پختہ ہوجائیگی اس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ جیسے درخت کی جڑ میں پانی دیا جاتا ہے تو وہ تھوڑی دیر میں زمین میں جذب ہو کر نظروں سے غائب ہوجاتا ہے مگر واقع میں وہ غائب نہیں ہوا بلکہ جڑکو پہلے سے زیادہ مضبوط کرکے اس کی شاخوں اور پتیوں میں تازگی پہونچائیگا اس لئے جو لوگ دنیا کی محبت کے تقاضے پر عمل کرتے ہیں تو درحقیقت وہ اس میں کمی نہیں کر رہے ہیں، بلکہ الٹا اسی مرضی کو اور زیادہ بڑھارہے ہیںاور تقویت دے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ حدیث میں فرمایا گیا
لوکان لابن آدم وادیان من مال لاتبغیٰ ثالثاہ (مشکوۃ ۲؍۴۵۰)
اگرانسان کو مال سے بھرے ہوئے دو جنگل بھی مل جائیں تب بھی تیسرے کی آرزو کریگا۔
توجہ الی اللہ حرص کا علاج ہے
تو مال کی محبت اور اس کی حرص کا علاج یہ نہیں ہے کہ خوب جی بھر کر مال ودولت کو کمایا جائے، کیونکہ اس سے بجائے فائدے کے نقصان ہوگا اور مرض میں اضافہ ہوگا، بلکہ اس کا علاج بھی اسی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
ویتوب اللّٰہ علیٰ من تاب (مشکوۃ ۲؍۴۵۰)اور اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرماتے ہیں جو شخص کہ توبہ کرے ۔
اسی حدیث کی تشریح میں حضرت والا حکیم الامتؒ فرماتے ہیںکہ اس میں توبہ کو علاجِ حرص بتلایا گیا ہے ، جس کے معنیٰ ہیں توجہ الی اللہ اور اسکا علاج ہونا ایک قاعدے فلسفہ سے سمجھ میں آجائے گا وہ قاعدہ یہ ہے کہ
النفس الاتتوجہ الیٰ شیئین فی آن واحد نفس ایک وقت میں دوچیزوں کیطرف متوجہ نہیں ہوسکتا۔
ظاہر ہے کہ حرص کی حقیقت توجہ اور میلان الی الدنیا ہے اب توجہ کو کسی دوسری شی کی طرف پھیر دیا جائے تو توجہ الی الدنیا باقی نہ رہے گی، پھر جس چیز کی طرف توجہ کو پھیراجائیگا اگر وہ طبعاً بھی محبوب ہوتو اس صورت میں یہ توجہ اشد ہوگی اور ا س سے توجہ الی الدنیا کا ازالہ بھی قوی ہوگا، اور اگر ایسی شئی کی طرف توجہ پھیر دی جائے تو طبعاً محبوب نہ ہوتو اس صورت میں یہ توجہ کمزور ہوگی، اب سمجھو کہ حق تعالی ٰسے ہر شخص کو فطری تعلق ہے اور ذات حق کی طرف ہر ایک کو میلان طبعی ہے، فقط مسلمان ہی کو نہیں بلکہ کافر کو بھی کیونکہ انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے تو کسی سبب سے ہوتی ہے اور وہ اسباب یہ ہیں،حسن وجمال، جودونوال، یافضل واحسان جس میں یہ کمال قوی ہونگے، اس سے یہ محبت بھی قوی ہوگی اوریہ معلو م ہے کہ اوصاف ذاتی اعتبار سے حق تعالی ٰ ہی میں ہیں، اور دوسری اشیاء میں بالواسطہ ہیں، جب معلوم ہوا کہ یہ اوصاف حقیقت میں حق تعالیٰ کے اندر ہیںتو اس وقت ہر شخص حق تعالیٰ ہی کی طرف مائل و متوجہ ہوگاپس علاج کا حاصل یہ ہوا کہ اپنی توجہ کو حق تعالیٰ کی طرف متوجہ کردو چونکہ حق تعالیٰ سے طبعی تعلق ہے، اس لئے یہ توجہ اشد واکمل ہوگی، توجتنی توجہ الی اللہ ہوگی اتنی ہی دنیا سے توجہ ہٹے گی، کیونکہ دوچیزوں کی طرف نفس متوجہ نہیں ہوتا( علاج الحرص مختصراً ص ۸۲)
احکام الٰہی کی کامل اتباع کی جائے
توجہ الی اللہ اصل اور بنیاد ہے زندگی کے سکون وراحت کیلئے جس کی صورت یہ ہے کہ پورے طور پر حق تعالیٰ کی طرف توجہ کی جائے ظاہری اعتبار سے بھی باطنی اعتبار سے بھی احکامات الٰہی کی پوری پوری اتباع کی جائے ،جس سے خود بخود ظاہراً وباطناً توجہ الی اللہ ہوجائیگی، کیونکہ شریعت کے جو احکام ہیں ان کی دو نوع ہیں، بعضے احکامات تو وہ ہیں جن کا تعلق انسان کے ظاہر سے ہے اور بعضے احکامات وہ ہیں جو انسان کے باطن سے متعلق ہیں تو ایک نوع ہوئی احکام ظاہری کی اس سے مراد ظاہری اعمال ہیں، مثلاً نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ، ایک نوع ہوئی احکام باطنی کی اس سے مراد وہ اعمال ہیں جن کا تعلق باطن سے ہے مثلاً صبر وشکر ، قناعت وزہد، دیانت وامانت وغیرہ، ان دونوں احکامات کی تعمیل کے بغیر چین وسکون میسر نہیں ہوسکتا۔
شریعت میں دونوں ہی مقصود ہیں
ظاہر وباطن دونوں ہی کی اصلاح ضروری ہے، شریعت میں دونوںہی کی اہمیت ہے ایسا نہیں ہے کہ ایک تومقصود ہواور دوسری غیر مقصود ہو جس طرح ظاہر کو شریعت کے موافق بنانا اور اس کی پابندی کرنا ضروری ہے اسی طرح باطن کو بھی موافق شریعت بناناضروری ہے قرآن پاک میں فرمایا گیا۔
وَذَرُوْ ظَاہِرَ الْاِسْمِ وَبَاطِنَہٗ (پ ۸ ع ۱)(ظاہری گناہ کو بھی چھوڑدو اور باطنی گناہ کو بھی چھوڑدو)
اس سے دونوں کی اہمیت معلوم ہوتی ہے کہ حکم ہے کہ ظاہر بھی درست ہواور باطن بھی درست ہو، ظاہری احکام پر بھی عمل کرو اور باطنی احکام پر بھی عمل کرو۔
ظاہر وباطن کا باہمی ربط
کیونکہ ظاہرو باطن کا آپس میں اس طرح تعلق وربط ہے کہ دونوں میں سے کسی ایک کو دوسرے سے علٰحدہ نہیں کیا جاسکتا ہے ہر ایک کا دوسرے پر اثر ہوتاہے ،ظاہر باطن پر پڑتا ہے اور باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے مثال کے طور پر ایک شخص نہادھوکر ، صاف ستھرا عمدہ لباس پہنے ہوئے کسی عزیز کے یہاں جارہاہے، راستہ میں ایک بچہ کے قلم سے کچھ چھینٹیں پڑگئیں تو دیکھئے کہ اس روشنائی کے کپڑے پر پڑجانے کی وجہ سے دل پر اثر ہوجاتا ہے حالانکہ روشنائی ظاہری کپڑے پر پڑی ہے مگر دل میلا اور مکدر ہوجاتا ہے اور قلب پر اثر پڑتا ہے کپڑے کی گندگی سے دل پر اثر ہوا اگر کہیں چہرے پر چھنٹیں پڑجائیں تو قلب کا کیا حال ہوگا؟
ظاہر کا اثر باطن پر پڑتا ہے
اسی طرح اعمال ظاہری مثلاً نماز ، روزہ میں کمی ہونے کی وجہ سے اور معاملات کے درست نہ ہونے سے قلب پر بر اثر پڑتا ہے ،چنانچہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں حکم ہے کہ صفوں کو درست رکھا جائے سیدھا رکھنے کا اہتمام کیا جائے، اسی سلسلہ میں ایک موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
استووا ولاتختلفوا فتختلف قلوبکم (رواہ مسلم مشکوۃ ۱؍۹۸)
(نماز کی صفوں میںسیدھے رہو آگے پیچھے مت ہو ورنہ قلوب بھی اسی طرح مختلف اور متفرق ہوجائینگے)
تو صفوں کو سیدھا رکھنا یا نہ رکھنا یہ ایک ظاہری عمل ہے، مگر باطن پر اس کا اثر پڑتا ہے کہ اس سے یاتو قلب میں راستی واستقامت پیدا ہوتی ہے یاکجی اور اختلاف پیدا ہوتا ہے اسی حدیث میں ہے کہ جب مسلمان کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ
کانت نکتۃ سوداء فی قلبہ اس کے قلب میں ایک سیاہ نقطہ ہوجاتا ہے
اگر وہ توبہ استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہوجاتا ہے لیکن اگر وہ برائی کرتا رہتا ہے تو فرمایا کہ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ
زادت حتّٰی تعلوا قلبہ یہ سیاہ نقطہ بھی بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اسکا قلب سیاہ پڑجاتا ہے (مشکوۃ ۱؍ ۲۰۴)
ظاہری اعضاء سے برے اعمال کا صدور ہوا، جس کا اثر باطن پر پڑا کہ اس کا قلب گندہ اور خراب ہوگیا۔
باطن کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے
اسی طرح باطن کابھی اثر ظاہر پر پڑتا ہے، مثال کے طور پر ایک شخص ہے اسکے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی ہے، پورا جسم نحیف ولاغر اور پھوڑے پھنسی نکلے ہوئے ہیں تو کیا اس مریضانہ صورت سے یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ اس شخص کے خون میں فساد ہے اور اندرون اسکا بیمار ہے جس کی بناء پر ظاہر بدن پر اسکے اثرات ظاہر ہورہے ہیں تو اندرکے فسادو بگاڑ کا اثر انسان کے ظاہر پر پڑتا ہے اسی طرح باطنی اعمال، امانت ودیانت وغیرہ کی خرابی سے معاشرت اور معاملات پرغلط اثر پڑتا ہے ،حدیث شریف میں فرمایا گیا۔
الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدت الجسد کلہ الاوہی القلب (مشکوۃ ۲؍ ۲۴۱)
ترجمہ : جسم کے اندر ایک مضغہ گوشت ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو سارابدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے خوب جانو کہ وہ قلب ہے ۔
باہر کا انتشار اور ظاہر کا یہ فساد نتیجہ ہے اندر کے انتشار اور باطن کے فساد کا اصل چیز ہے دل کا سنورجانا اور صحیح ہوجانا کہ گندے اخلاق سے پاک وصاف ہوجائے بس تو پھر سارے کام آسان ہیں۔
باطن کی درستگی اور اس کے ثمرات
دلوں کے درست ہوجانے سے بڑے سے بڑا کام بڑی سہولت اور آسانی کے ساتھ ہوجاتا ہے، اس پر ایک واقعہ یاد آیا عبرت کیلئے عرض کرتا ہوں تاکہ ہم اندازہ کریں کہ ہمارا کیا حال ہے اور ہمارے پیشواؤں اور بڑوں کا کیا حال تھا، جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابولولونے زخمی کیا اور آثار سے وقت آخر معلوم ہوا تو لوگوں کی درخواست پر آپ نے اپنی جانشینی کے لئے چھ اشخاص حضرت عثمانؓ ،حضرت علیؓ، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت طلحہ ؓ بن عبد اللہ ، اور حضرت زبیر ؓ بن عوام کے نام پیش کئے اور فرمایا کہ یہ وہ حضرات ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے تو ان سے راضی اور خوش ہوکر گئے،پھر فرمایا کہ ان چھ حضرات میں سے جس کسی کے نام پر اتفاق ہوجائے یا اسے اکثریت کی حمایت اور تائید حاصل ہوجائے اسے خلیفہ بنادیا جائے ،ساتھ ہی اس کام کیلئے حکم ہوا کہ تین دن کے اندر اسکا فیصلہ ہونا چاہئے اس وقت تک حضرت صہیبؓ بن سنان الرومی امامت کرینگے چنانچہ آپکی وفات اور آپ کی تدفین سے فارغ ہونے کے بعد حضرت مقدادبن الاسودؓ نے اپنے مکان پرسب کو جمع کیا، اور دو دن تک اس سلسلہ میں مشورے ہوتے رہے اور کوئی فیصلہ نہ ہوسکا ، چونکہ اس کام کیلئے ہدایت تھی کہ تین دن میں ہونا چاہئے اس لئے آخر میں حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے یہ تجویز پیش فرمائی کہ چھ اشخاص میں سے تین کو سب اختیار دیدیا جائے چنانچہ حضرت زبیرؓ نے، حضرت علیؓ کو، حضرت طلحہؓ نے حضرت عثمان کو، حضرت سعد بن وقاصؓ نے حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کو اپنا اپنا حق خلافت سپر د کردیا ، حضرت عبد الرحمن بہت مالدار رئیسوں میںتھے، مالداری کا یہ عالم تھا کہ بوقت انتقال ۳۰؍۳۲ کروڑ روپیہ چھوڑا، یہ اس وقت کے ۳۰؍۳۲ کروڑ اس وقت کے نہ معلوم کتنے ارب ہوگا، اسی کے ساتھ ساتھ بڑے جلیل القدر صحابی، خلافت کی اہلیت رکھنے والوں میں سے تھے ، اسی کو اللہ تبار ک وتعالیٰ نے فرمایا۔
رِجَالٌ لاَّ تُلْہِیْہِمْ تِجَا رَۃٌ وَّلاَ بیعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَا مِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَا ئَ الزَّکوٰۃِ یَخَافُوْنَ یَوْماً تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالاَبْصَار (پ ۲۸، ع ۱۱)
ترجمہ: یہ ہیں مردان خدا کہ جن کو اللہ کی یاد سے اور نماز پڑھنے سے اور زکوۃ دینے سے نہ خرید غفلت میں ڈالنے پاتی ہے اور نہ فروخت وہ ایسے دن سے ڈرتے رہتے ہیںجس میں بہت سے دل اور بہت سی آنکھیں الٹ جائینگی۔
بہر کیف اب خلیفہ کے انتخاب کا معاملہ تین حضرات میں رہ گیا، تو حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے معذرت کردی کہ میں اس کام کی ہمت نہیں رکھتا اور حضرت عثمان وحضرت علیؓ سے کہا کہ میں اپنا نام واپس لیتا ہوں اور آپ دونوں حضرات اپنا معاملہ میری صوابدید پرچھوڑدیں کہ جس کو اس کام کیلئے تجویز کردو، دوسرا اس کو بخوشی قبول کرے اور یہ سب کو تسلیم کرنا ہوگا، چنانچہ سب نے اس بات کو منظور کرلیا کہ جس کے حق میں یہ فیصلہ کردیں وہی بار خلافت کا متحمل ہوگا چنانچہ آپ نے حضرت عثمانؓ کیلئے خلیفہ ہونا تجویز کیا اس کو سب نے منظور کر لیا اور حضرت عثمانؓ کو خلیفہ بنایا گیا۔
دل کا سنورنا اصل ہے
اتنا بڑا معاملہ اتنی جلد ی طے ہوگیا، بات کیا تھی بس یہی کہ دنیا کی محبت نہیںتھی، دین کی محبت تھی، دل درست ہوتا ہے تو سب اعضاء درست ہوجاتے ہیں، جیسا کہ حدیث شریف میں فرمایاگیا۔
الاوان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ واذا فسدت فسدت الجسد کلہ الاوہی القلب (مشکوۃ ۲؍ ۲۴۱)
ترجمہ : جسم کے اندر ایک مضغہ گوشت ہے جب وہ درست ہوتا ہے تو سارابدن درست رہتا ہے اور جب وہ خراب ہوتا ہے تو سارا بدن خراب ہوجاتا ہے خوب جانو کہ وہ قلب ہے ۔
تو باطن کی اصلاح ودرستگی کا اثر ظاہر پر پڑتا ہے کہ سارے اعضاء اپنا اپنا کام بالکل صحیح کرتے ہیں اور اپنی اپنی ڈیوٹی ٹھیک ٹھیک انجام دیتے ہیں۔
انسان کا ظاہر باطن کا آئینہ دار ہوتا ہے
یہاں سے ایک اور مسئلہ بھی حل ہوگیا وہ یہ کہ انسان کا ظاہر یہ عنوان ہوتا ہے کہ اس کا باطن کس طرح کا ہے اسکی ایک بڑی عمدہ مثال یاد آئی کہ مسجد کے امام صاحب جوپنچوقتہ نماز پڑھاتے ہیں، اگر وہ کسی ایک دن نماز کے وقت اپنے حجرہ سے محراب مسجد کی طرف اپنے کپڑے اتارے ہوئے آئیں اور یہ کہیں کہ میں اس حالت میں اس لئے آیا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو مسئلہ بتادوں کہ نماز اس طرح بھی ہوجاتی ہے تو کیا آپ آنے دیںگے، یا یہ سمجھیں گے کہ عقل میں فتور آگیا ہے، حالانکہ امام صاحب کہہ رہے ہیں کہ بھائی ہم کو نماز پڑھانے دو مجھے نماز کے مسائل اور سورتیں یاد ہیں ، میرا باطن بالکل ٹھیک ہے، صرف ظاہر کی خرابی سے آپ لوگ گھبراگئے آپ انکی بات نہ سنیں گے اور نہ مانیں گے، سیدھے مسجد سے نکال کر دماغ کے ڈاکٹر یا پاگل خانے لیجائیں گے ظاہر کی خرابی سے آپ کو باطن کی خرابی پر کیوں یقین آگیا، اسی لئے کہ ظاہر یہ ترجمانی کر رہا ہے باطن کے گڑبڑہونے کی۔
ظاہر کی اہمیت اور اس کا تقاضا
جو لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اصل تو باطن ہے ظاہر کیسا بھی ہو بڑی غلطی کی بات ہے، ایک مرتبہ ایک صاحب کہنے لگے کہ نیت اچھی ہو اور قلب صاف ہو، گناہوں سے بچتا ہو یہ کافی ہے، لباس سے کیا ہوتا ہے؟ جو بھی صورت وشکل اور وضع اختیار کرے تو میں نے جواب میں عرض کیا کہ بھائی ماشاء اللہ آپکی والدہ صاحبہ نماز کی پابند ہیں ہمشیرہ صاحبہ نماز کی پابند ہیںاور دوسرے دین کے کام کرتی رہتی ہیں، آپ ایسا کیجئے کہ ان کا دوپٹہ اورڑھ کر بازار دوست واحباب میں تشریف لے جائیں، اگر آپ ایسا کرکے دکھائیں تو آپکی خدمت میں ۵ روپئے انعام پیش کرونگا اس پر وہ کہنے لگے کہ صاحب لوگ ہسیں گے اور مذاق اڑائیں گے، میں نے کہا اس میں ہنسنے اور مذاق اڑانے کی کیا بات ہے ؟ جب آپکی بہن اور ماں دین کی پابند ہیں تو ظاہر میں دوپٹہ اوڑھنے سے کیا ہوتا ہے؟ اس پر وہ خاموش ہوگئے تو جس طرح بہن کا دوپٹہ اوڑھ لینا خلاف مذاق ہے اسی طرح غیر وضع اور خلاف شریعت صورت کا اختیار کرنا، اسلامی شریعت کے خلاف ہے، اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کیلئے مناسب حکم دیا ہے، مردوں کا خاص درجہ عطا فرمایا ہے اگر عورت مرد کی وضع اختیار کرے تو غلطی کی بات ہے ایسے ہی مرد کو عورت کی وضع اختیار کرنا منع ہے حدیث شریف میں ہے کہ
لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرجل یلبس بسۃ المرأۃ والمرأۃ تلبس بسۃ الرجل (ابوداوٗد۲؍ ۵۶۶)
ترجمہ: لعنت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد پر جو عورت کی وضع اختیار کرے اور لعنت کی ہے اس عورت پر جو مردوں کی وضع اختیارکرے۔
جیسے کہ پولس والوں کو ڈاکخانہ والوں کی وردی اختیار کرنا جرم قراردیا جاتا ہے اسی طرح ڈاکخانہ والوں کو پولیس والوں کی وردی اختیار کرنا خلاف قانون اور قابلِ مواخذہ ہے اس لئے کہ حکومت نے سب کی وردی کو الگ الگ کر رکھا ہے ایسے ہی شریعت نے مردو عورت کی وضع کو الگ الگ متعین کیا ہے ،لہذا ایک دوسرے کی مشابہت جرم ہے ، اسی طرح مرد کا پردہ میں رہنا مردانگی کے خلاف ہے اور عورت کا بے پردگی کے ساتھ رہنا عورت ہونے کے خلاف ہے ۔
شریعت وطریقت میں تعلق اور ان کی حقیقت
بات میں بات نکلتی چلی گئی کہہ رہاتھا کہ ایک تو ہے ظاہر اور ایک ہے باطن اور شریعت میں دونوں ہی کے متعلق احکام ہیں جس کی پابندی کرنا ضروری ہے، سارے تصوف وطریق کا حاصل یہی ہے کہ تعمیر الظاہر والباطن کہ اپنے ظاہر وباطن کو شریعت کے موافق بنانا، بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور چیز ہے، دونوں الگ الگ ہیں، یہ غلطی کی بات ہے ایسا نہیں ہے کہ بلکہ دین کے جتنے احکامات ہیں چاہے انکا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے ہو ان سارے احکامات اور تعلیمات وہدایات کے مجموعہ کا نام شریعت ہے، اب آسانی کیلئے نام الگ الگ کردئے گئے ہیں، ظاہری اعمال کو فقہ کہاجاتا ہے اور باطنی اعمال کو تصوف کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ان دونوں کے مجموعے کو شریعت کہا جاتا ہے، اب جب کہ شریعت میں احکام ظاہر اور احکام باطن دونوں آگئے تو ایک کو لینے دوسرے کو چھوڑنے سے پورے دین پرکیسے عمل ہوگا؟ اور انسان کو ایسے حالت میں کیسے سکون میسر ہوگا؟ بلکہ اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ ظاہرکی تکمیل بغیر باطن کی اصلاح کے نہیں ہو سکتی اسی طرح باطن کی تکمیل بغیر ظاہر کی اصلاح کے نہیں ہوسکتی، چنانچہ مشہور محدث
حضرت ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں۔
لا یتحقق شیء من علم الباطن الا بعد التحقق باصلاح الظاہر کما ان علم الظاہر لایتم الاباصلاح الباطن (مرقات ص ۳۱۳ ج ۱)
ترجمہ : علم باطن کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتابغیر ظاہر کی اصلاح کے جیسا کہ علم ظاہر مکمل نہیں ہوتا بغیر باطن کی اصلاح کے ۔
شیخ ابو طالب مکی فرماتے ہیں۔
ہما علمان اصلیان لا یستغنی احدہما عن الاخر بمنزلۃ الاسلام والایمان مرتبط کل منہما باالاخر کالجسم والقلب لاینفک احدعن صاحبہ (مرقات ص۳۱۳ ج ۱)
ترجمہ: یہ دونوں اصل علم ہیں، کوئی ایک دوسرے سے مستغنی نہیں ہے یہ دونوں بمنزلہ اسلام وایمان کے ہیں کہ ایک کا ربط دوسرے سے ایسا ہے جیسے جسم ودل کا کہ کوئی کسی سے جدا نہیں ہوسکتا۔
اس موقع پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ شیخ العرب والعجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ کے ایک گرامی نامہ کی چند سطور کو ذکر کر دیاجائے فرماتے ہیں بعض جہلاجو کہہ دیا کرتے ہیںکہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے، محض ان کی کم فہمی ہے طریقت بے شریعت خدا کے گھر مقبول نہیں ، صفائی قلب کفار کو بھی حاصل ہوتی ہے ، قلب کا حال مثل آئینہ کے ہے،آئینہ زنگ آلود ہے تو پیشاب سے بھی صاف ہوجاتا ہے اور عرق گلاب سے بھی صاف ہوجاتا ہے ، لیکن فرق نجاست اور طہارت کا ہے ، ولی اللہ کو پہچاننے کیلئے اتباع سنت کسوٹی ہے جو متبع سنت ہے وہ اللہ کا دوست ہے اور اگر مبتدع ہے تو محض بیہودہ ہے خرق عادات تو دجال سے بھی ہوں گے۔
تو معلوم ہوا کہ تصوف اور طریقت یہ شریعت سے علیحدہ کوئی چیز نہیں ہے بلکہ شریعت ہی کا ایک جز ایسا ہے کہ بغیر اس کے ظاہر کی تکمیل نہیں ہوسکتی،
حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں۔
من تقفہ ولم یتصوف فقد تفسق ومن تصوف ولم یتفقہ فقد تزندق ومن جمع بینہما فقد تحقق (مرقات ص ۳۱۳، ج ۱)
ترجمہ: جس نے علم فقہ حاصل کیا اور تصوف نہیں سیکھا تو وہ فاسق ہوگیا اور جس نے تصوف کو حاصل کیا اورمسائل دینیہ کو نہیں سیکھا تو وہ بے دین ہو گیا، اور جس نے دونوںحاصل کیا وہ محقق ہوگیا۔
ظاہر وباطن دونوں ہی درست ہونا چاہئے
غرضیکہ ظاہر بھی درست ہواور باطن بھی درست ہو، دونوں کے متعلق شریعت کے جو احکام ہیں ان کے موافق معاملہ کیا جائے اور پوری پوری شریعت کی اتباع کیجائے یہی توجہ الی اللہ کا حاصل ہے کہ جس سے دنیا کی محبت کا بھی علاج ہے اور اس سے انسان کو سکون واطمینان بھی حاصل ہوگا، سکون نہ ہونے کے اسباب اندر اور باہر کی خرابی ہے، اگر سب ٹھیک ہو تو سکون حاصل ہوگا، جن لوگوں کے ظاہروباطن سب درست ہوجاتے ہیں، ایسے حضرات کو ولی اللہ اور بزرگ کہا جاتا ہے ان ہی لوگوں کو حقیقی سکون نصیب ہوتا ہے۔
دل باغ وبہار کب ہوگا
کیونکہ سکون احکام ظاہروباطن کی اطاعت ہی سے حاصل ہوتا ہے دیکھئے کوئی گندی جگہ ہوتو اس کو اگر چاہتے ہیں، کہ وہ جگہ اچھی اور بھلی ہوجائے تو اس کے لئے دوکام کرنا پڑیں گے، ایک تو غیر مناسب چیزوں کو وہاں سے نکال دیاجائے اس کی گندگی کو صاف کردیا جائے ،کوڑا کرکٹ نکال کر پھینک دیا جائے دوسرے یہ کہ مناسب چیزوں کو داخل کرلیا جائے کہ پانی وغیرہ دے کر اس کے نشیب وفراز کو درست کردیا جائے اور اس کے اندر پھول پتیاں لگاکر مزین کر دیا جائے اب ان دونوں کاموں کی وجہ سے وہی جگہ سیر وتفریح اور دل خوش کرنے والی بن جائے گی اسی طرح دل سے نامناسب چیزوں کو نکال دیا جائے مثلاً کسی کے اندر بغض ،حسد، یا بخل وغیرہ کی بیماری کی وجہ سے گندگی پیدا ہوگئی ہے اب اس گندگی کو ہمت کر کے نکال دیا جائے اور اچھی ومحمود چیزیں مثلاً صبر، تقویٰ ، خشیت، عاجزی، انکساری ،خلوص ومحبت سے آراستہ کیا جائے تو دل باغ وبہار کا خزانہ ہوجائیگا۔
ذکر میں حیات قلب کی تاثیر ہے
اور اسی کے سکون سے سارے بدن کو سکون حاصل ہوجائیگادل کے سکون کیلئے اللہ کا ذکر ہے اس بات کی طرف حق تعالیٰ نے متوجہ فرمایا ہے ۔
اَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ وَتَطْمَئِنُّ الْقُلُوْب ( پ ۱۳ ع ۱۰) سمجھ لو کہ اللہ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان ہوجاتا ہے۔
اللہ کے ذکر سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے ذکر کثرت سے کرنا چاہئے ذکر کی خاصیت پانی کی سی ہے، درخت میں پانی ڈالتے رہنے سے درخت شاداب اور ہرابھرا رہتا ہے اسی طرح ذکر کے اہتمام سے قلب میں سکون واطمینان حاصل رہتاہے اس کے اندر ہمت اور طاقت پیدا ہوتی ہے، نور ذکر کی برکت سے ذاکر اپنے قلب میں ایک خاص قسم کی تعلق مع اللہ کی کیفیت محسوس کرتا ہے جس کی وجہ سے احکام ظاہری وباطنی کی پابندی اور دوام علی الطاعت نصیب ہوتا ہے اس لئے روزانہ بلا ناغہ پابندی کے ساتھ کچھ نہ کچھ ذکر کا معمول رکھنا چاہئے، اہتمام اور توجہ سے ذکرکرنا چاہئے کسی دن بھی ناغہ نہ ہونا چاہئے اگر کسی دن وقت کم ہوتو جتنا بھی ہوسکے کچھ نہ کچھ ضرورذکر کرلیا جائے۔
دوا کے ساتھ پرہیز بھی ضروری ہے
لیکن دوا کے ساتھ پر ہیز بھی ضرور ہے کسی کو بخار ہے معالج اس کے لئے دوا تجویز کر دے، مریض اس دوا کو استعمال تو کرے مگر ساتھ میں شامی کباب اورپر اٹھے بھی کھاتا رہے تو بتائیے اس بد پرہیزی میں دوا کیا کام کریگی، بلکہ اس سے تو مرض اور بھی بڑھ جائیگا، اسی طرح سکون قلب کی دوا جوکہ ذکر ہے اسکے ساتھ گناہ کی بدپرہیزی بھی جاری رہے تو اس سے قلبی سکون کیسے حاصل ہوگا؟ اس لئے گناہوں سے بچنا ازبس ضروری ہے بالخصوص اگر کسی سے بات چیت کرنا ہوتو اس میں فضول گفتگو سے بچنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ اس سے ذکر کے برکات نکل جاتے ہیں زیادہ بات چیت کی عادت ڈالنے سے اکثر خلاف واقعہ بات نکل جاتی ہے کسی کی برائی کسی کی چغل خوری ہوجاتی ہے اور یہ سب سکون کو برباد کرنیوالی ہیں،۔
حضرت محی السنۃ کی حیات پرخصوصی شمارہ ’’محی السنۃ نمبر(آئینۂ مظاہرعلوم)کااداریہ افادۂ عام کے لئے پیش خدمت ہے۔
اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نََعِیْمٍ
ناصرالدین مظاہری
جائے کہ بود آں دلستاں با دوستاں در بوستاں
شد زاغ وکرگس را مکاں، شد مرغ و ماہی را وطن
۱۷؍جون ۲۰۰۵ء کو جس وقت عالم اسلام کا سب سے ممتاز عالم دین اور قوم وملت کا عظیم انسان دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کررہا تھا، اس وقت آئینۂ مظاہر علوم کا تازہ شمارہ طباعت کے لئے پریس جاچکا تھا، اس لئے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں وقت کے سب سے بڑے محسن کے بارے میں کوئی مضمون پیشنہ کرسکے۔
دنیارفتہ رفتہ ارباب علم وتقویٰ سے خالی ہوتی جارہی ہے، ماضی قریب میںہمارے ہاتھوں سے رہا سہا ذخیرہ بھی جاتا رہااور ہم تہی دست ہوگئیجس پرجتنا بھی غم کیاجائے کم ہے ،وقت مقررہ پرسبھی کو جانا ہے باقی رہنے والی ذات تو صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جس پر کبھی فنائیت طاری نہیں ہوسکتی کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ ۔
انبیائے کرام ہوں یا اولیاء عظام ہر شخص کوایک مقررہ وقت کیلئے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے ،وقت موعود آجانے پر ہر آنے والے کیلئے جانا یقینی ہے کل نفس ذائقۃ الموتایک ناقابل انکار حقیقت ہے ،جس سے فرار ناممکن ہے اینما تکونواید رککم الموت ولو کنتم فی بروج مشیدۃ۔
حضرت محی السنۃبھی پچاسی /ستاسی سال کی عمر میں امت کو فیوض و برکات سے مالامال فر ماکراپنے پرور دگار سے جاملے ۔
ذھب الذین یعاش فی اکنافھم
بقی الذین حیوتھم لا تنفع
آئینہ مظاہر علو م کے پچھلے شمارہ میںچند گرانقدرشخصیات پرمختصر شذرات سپرد قلم کئے گئے تھے ،لیکن کسے معلوم تھا کہ اگلا اداریہ ایک ایسی شخصیت کے بارے میں ہو گا جس کا وجود باجوداُمت اپنے لئے باعث افتخار اور بسا غنیمت تصور کرتی تھی ،جس کیلئے بزم کون ومکاں کی ہر چیز قربان تھی ،جس کی صحبت کو پانے اورنصیحت کو سننے کیلئے دوردور سے عشاق پروانہ واردوڑے چلے آتے تھے ،یوں تویہ حادثہ پوری ملت اسلامیہ کیلئے بڑا خسارہ ہے مگر ان کی مادر علمی مظاہر علوم وقف سہارنپورکیلئے بھی ایک ناقابل تلافی نقصان ہے ؎
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تجھے
حضرتؒ کے علوم ومعارف …سلوک واحسان،تزکیۂ نفوس …احیاء سنت ،امربالمعروف اورنہی عن المنکرجیسی داعیانہ صفات کا سارا زمانہ معترف تھا … ان کی فیض رساں طبیعت سے شاید ہی کسی کو نقصان ہوا ہوالبتہ ان کے عظیم ترین مشن سے ہر کسی کو فائدہ ضرورہوا…ایک بڑی تعداد جو جادۂ اعتدال بلکہ زاویہ مستقیم سے ہٹ چکی تھی راہ راست پر آگئی… منکرات کا خاتمہ تو نہیںالبتہ اس میںحیرت انگیز کمی واقع ہوئی…نیکیوں کا چلن عام ہوا…برائیوں پر روک لگی…دین کا بول بالا ہوا… بد دین صراط مستقیم پرگامزن ہوئے…گم کردہ راہوںکو توبہ واستغفارکے مواقع میسر آئے …طبقۂ علماء کو مفوضہ امور یادآئے…اپنی ذمہ داریوں کا انہیں احساس ہوا…مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد میںخاطر خواہ اضافہ…دینی تعلیمات کے لئے قرآنی مکاتب کا اجراء اوردعوت الحق کے پلیٹ فارم سے معروفات کا حکم …منکرات وفواحش ،الحاد ولادینیت اورشیطانی دسیسہ کاریوںکی روک تھام کے لئے حضرت تھانوی علیہ الرحمہ کے وضع کردہ اصولوںکو اپناکرناقابل فراموش خدمات انجام دیں۔
ہردوئی کیا ہے؟
٭صفہ کے طرزپرسنت نبوی کی ترویج واشاعت کا ایک چلتا پھرتا مدرسہ ہے!جہاں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی عملی مشق ہوتی ہے۔
٭مردہ قلوب کو زندگی وتابندگی اور روح کو جلا وتقویت پہنچانے کا ایک عظیم مستشفیٰ ہے! جہاں روح کے مریضوں کا تشفی بخش علاج ہوتا ہے۔
٭سلسلہ تھانوی کا آخری دار السلطنت ہے!جہاں سے دنیابھر میں پھیلے ہوئے مریدین ومنتسبین کو اسلامی احکامات اور ہدایات پر چلنے کا حکم دیا جاتا ہے۔
٭دینی وشرعی باریکیوں،نکات آفرینیوں اور حساس وپیچیدہ مسائل کو سلجھانے کے لئے دار الشرع اوردارالشوریٰ ہے!جہاں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لئے لائحۂ عمل تیار ہوکر پوری دنیا میں اس کا نفاذ ہوتا ہے۔
٭واردین و صادرین کیلئے دارالضیف ہے!جہاں سنت نبوی کے مطابق ان کی ضیافت اور مہمان نوازی کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے۔
٭دور ودراز اور قرب وجوار کے طلبہ اور مہمانان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے ایک شاندار علمی مرکز ہے ! جہاں لوگ دن رات علمی تشنگی بجھانے میںمصروف رہتے ہیں۔
٭مطالعہ کا ذوق وشوق رکھنے والے طلبہ ،اساتذہ،اور عوام وخواص کیلئے باضابطہ دار الکتب اور دار المطالعہ بھی ہے!تاکہ مطالعہ کے ذریعہ ذہن ودماغ کو روشنی بخشی جاسکے۔
٭غیر مستطیع غریب ونادار طلبہ کیلئے باقاعدہ مطبخ بھی ہے جہاں سے ان کو ناشتہ وکھانا فراہم کیا جاتا ہے۔
٭پوری دنیا میں درس وتدریس کا فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ایک عظیم تدریبی مرکز بھی ہے! جہاں ان کو درس وتدریس کی عملی مشق اور تربیت دی جاتی ہے۔
٭دعوتی اور تنظیمی سرگرمیوں میں دلچسپی لینے والوں کے لئے مرکزدعوۃ الحق ہے جس کے راہنما اصول وقوانین اور ضابطہ وآئین باقاعدگی کے ساتھ مرتب ہیں ؎
باغ باقی ہے باغباں نہ رہا
اپنے پھولوں کا پاسباں نہ رہا
کارواں تو رہے گا رواں مگر
ہائے وہ میر کارواں نہ رہا
فضلائے مظاہر علوم نے دین کے تقریباً سبھی شعبہ جات میں نمایاں اور ممتاز خدمات انجام دیکرالحمد للہ مادرعلمی کے وقار اور اس کی عظمتوں میں چار چاند لگائے ہیں لیکن دعوتی میدان میں بھی اس کے فضلا کی جو خدما ت اور قربانیاں ہیں اس میں مظاہر علوم کو ہمیشہ اپنے فرزندوں پر فخر رہے گا ،حضرت مولانا محمد الیاس کا ندھلویؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنیؒ،حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ،حضرت مولانامحمد عبید اللہ بلیاوی ؒ ، حضر ت مولانا محمدہارون کاندھلوی ؒ،حضرت مولانا محمد انعام الحسن کاندھلویؒ،حضرت مولانا محمد عمر پالن پوریؒ وغیرہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے مظاہر علوم سے فراغت، فضیلت اورخوشہ چینی کے بعددعوتی تحریک میں اسپرٹ پیدا کی اور اس میدان میں انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دے کر مادر علمی کے تقدس میںاضافہ فرمایا۔
ماضی قریب میںعارف باللہ حضرت مولاناقاری سید صدیق احمد صاحب باندوی ؒ اورمحی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابر ارالحق صاحب ہردوئی ؒ نے اس عظیم درسگاہ سے فراغت پاکر اپنی پوری زندگی احیاء سنت اور دعوت وتبلیغ میںصرف فرمادی ،اس کیلئے دن کے چین اوررات کے سکون کوخیر باد کہہ دیا۔
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
کیا طرفہ تماشہ ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
دین مبین کی حفاظت واشاعت کی خاطر ان دونوں حضرات نے جو غیر معمولی مشقتیں اور صعوبتیں برداشت کیں ان میں شاید ہی قیامت تک ان کاکوئی ثانی پیدا ہو۔
حکیم الامت حضرت مولانا تھانوی ؒ کے مشن امر بالمعروف اورنہی عن المنکرکوان دونوں حضرات نے جس خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے اس سے حضرت حکیم الامتؒ کی روح یقیناخوش ہوگی ،چنانچہ حضرت مولاناقاری سید صدیق احمدباندویؒ نے ایک بار حضرت تھانویؒ کو خواب میںدیکھاتو حضرت تھانویؒنے ان سے فرمایاکہ
’’میرے سلسلہ کے کام کرنے والوں میںسب سے زیادہ میں تم سے اورمولانا (ابرارالحق )سے خوش ہوں‘‘ (تذکرۃ الصدیق ۵۲۰،جلد ۔۲)
حضرت محی السنۃ ؒ سے ان کی مادر علمی کا تعلق کہئے یا حضرت ؒکی روحانی وباطنی کشش کہ ٹھیک اسی روز جس دن مظا ہرعلوم وقف کا یہ عظیم فرزندہمیشہ کیلئے اس دنیاسے رخصت ہورہاتھا۔حضرت مولانا محمد سعیدی ناظم مظا ہر علوم کی قیادت میں ایک قافلہ کشاں کشاں حضرت والاؒ کی خدمت میں ہردوئی پہنچ کر حضرتؒ کے علوم ومعارف سے دیر تک فیضیاب ہوا ،حضرتؒ نے مادرعلمی سے قلبی تعلق، اپنے استاذ خاص حضرت مفتی سعید احمد اجراڑویؒکی نسبت اورحضرت فقیہ الاسلام مولانا مفتی مظفر حسین ؒ سے دیرینہ خصوصی روابط کے باعث اپنے لطف وکرم اورانتہائی اعزاز واکرام کا معاملہ فرمایا،مظا ہرعلوم وقف کے حالات معلوم کرتے رہے، خوش بخت کاروان مظاہرکوابتدائے علالت سے تجہیز وتکفین،آخری زیارت اور آئندہ روز تدفین وغیرہ میں بھی شرکت کی سعادت میسر آئی ۔
عالم اسلام کایہ عظیم محسن جو اپنی گوناگوں علمی دینی ،عرفانی اور روحانی ضیافتوں سے لوگوںکوزندگی بھرمالامال کرتا رہا، چلتے چلتے بھی دنیاکو مادر علمی سے اپنی دیرینہ محبت وتعلق کا پیغام دیکررخصت ہوا ، حضرت محی السنۃؒ کی خدمت میں پہنچنے والے مہمانوں میں کاروان مظاہر آخری ’’مہمان‘‘کی حیثیت سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
ہماری دانست میں یہ شرف وامتیاز اہل مدارس میں سے صرف مظاہر علوم وقف کے حصہ میں آیا
وذلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء
وان کرہ الاعداء من کل حاسد
حضرت ناظم صاحب کے قلم حقیقت رقم سے اس تاریخی سفرکی تفصیلات آپ آئندہ صفحات میں ’’معراج اپنی اپنی ‘‘کے زیر عنوان ملاحظہ فرمائیں گے ۔
حضرت محی السنۃ رحمۃ اللہ علیہ کے حالات اوران کی شخصیت پر مشتمل یہ شمارہ اگر چہ حضرت کی شایان شان نہیں ہے پھر بھی یہ عجالہ ان شاء اللہ قارئین کے لئے مفید اورنفع بخش ثابت ہوگا ۔
٭٭٭
چراغ لاکھ ہیں لیکن کسی کے اٹھتے ہی
برائے نام بھی محفل میں روشنی نہ رہی