وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔(سورۃ الحجرات،۷۔۸)
’’اورخوب جان لو تمہارے درمیان رسول اللہ تشریف فرماہیں، اگر وہ اکثر معاملات میں تمہاری بات مان لیں تو تم مشقت میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے محبوب بنا دیا ہے تمہارے نزدیک ایمان کو اور آراستہ کردیا ہے اسے تمہارے دلوں میں اور قابل نفرت بنادیا ہے تمہارے نزدیک کفر، فسق اور نافرمانی کو، یہی لوگ راہِ حق پر ثابت قدم ہیں۔ (یہ سب کچھ) محض اللہ کا فضل اور انعام ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، بڑا دانا ہے ۔‘‘
سورۃ الحجرات کی آیت ۶ میں مفسرین کرام نے ولید بن عقبہ کے واقعہ کا ذکر کیا ہے جو فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے نیز ابتدائی آیات کی تفسیر میں بنی تمیم کے ذکر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات مدنی زندگی کے آخر یعنی ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں۔
زیر بحث آیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ، ان کے ایمان دار اور راشد ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ آیت میں ’’حَبَّبَ ‘‘ اور ’’کَرَّہَ‘‘کے بعد ’’اِلیٰ‘‘ کا صلہ اس اہتمامِ خاص کی طرف اشارہ کررہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہوں میں ایمان کو محبوب اور کفر ، فسق اور عصیان کو مبغوض بنانے کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے فرمایا ۔
گویا ایمان اور کفر دونوں کو حقیقی شکل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ایمان کے دلدادہ اور کفر سے بیزار ثابت ہوئے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ’’حَبَّبَ ‘‘ کے مفعول کی حیثیت سے تو ’’ایمان ‘‘کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ’کَرَّہَ‘‘ کے ساتھ ’’کفر ،فسق ،عصیان‘‘ تین چیزوں کا ذکر ہوا۔
اس سے یہ حقیقت سمجھائی گئی کہ صرف ’’کفر‘‘ ہی ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ ’’فسق و عصیان‘‘ کی جملہ اقسام بھی اسی ’’ شجرۃملعونہ ‘‘ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی ان تمام چیزوں کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں مبغوض ٹھہرا کر یہ اعلان کردیا کہ اوُلٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعْمَۃً ط
اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں ایما ن کو محبوب بنادیا ، اس کو ان کے دلوں میں آراستہ کردیا اور ان کے دلوں کو کفر ، فسق اور عصیان سے متنفر کردیا ۔ وہی لوگ جو موصوف باوصافِ مذکورہ ہیں ۔ ’’راشد‘‘یعنی راستی پسند ، حق جو ، حق گو اور حق پر چلنے والے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاضر کی ضمیروں ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘سے مخاطب کرکے غائب کی ضمیر ’’ھُمْ‘‘سے ’’ راشد ‘‘ قرار دیا ہے جس میں ان کی مزید مدح پائی جاتی ہے ۔
علاوہ ازیں اس ’’اعزاز‘‘ سے پہلے ان کے لیے فعلیہ جملے ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘لائے گئے ہیں ۔ جبکہ ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘جملہ اسمیہ ہے اس میں دوامِ رشد اور ثبات و استقامت کی خوش خبر ی دی گئی ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات ’’ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔لاکریہ اعلان کردیا کہ بعد کے نا اہل و نادان ’’ اہل علم و اہل قلم ‘‘ کے بے ہودہ الزامات و اعتراضات سے ہم باخبر ہیں ۔ لہذا اس فتنے کے انسداد کی خاطر ہماری حکمت ان بشارتوں کی مقتضی ہوئی ۔
اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں ’’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘کی صفات سے جہاں بعد کے نادان و نااہل معترضین کے فتنہ سے آگاہ کیا وہاں ان صاحبان دستار و جبّہ کی اس ضد اور ہٹ دھرمی سے بھی با خبر کردیا جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘کی الٰہی سند سے باصرار و بتکرار تحریراً و تقریراًمحروم کردینے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اَللّٰہُمَّ لَاتَجْعَلْنَا مِنْہُمْ وَ مَعَھُم ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قرآنی سند کے بعد کوئی مومن بالقرآن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’الراشد‘‘ کے الٰہی لقب سے نہ ’’صورتاً اور نہ ہی ’’حقیقتاً‘‘ ہرگز ہرگز محروم نہیں کرسکتا ۔
آیت استخلاف میں ’’مِنْکُمْ ‘‘ کی ضمیر مخاطب کے تحت تو ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نادان مخالفین ‘‘ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نزول آیت کے وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے لیکن زیربحث آیت کی روسے یہاں ایسی کوئی تاویل بھی کام نہیں آسکتی کیونکہ یہ آیات ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں اور اس سے بہت پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرچکے تھے۔مگر سخت حیرت ہے کہ اس کے باوجود آں معظم رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ بعض اصحاب دستار و جبّہ اور تصوّف و طریقت ‘‘ کو لفظ ’’راشد‘‘ گوارا نہیں ہے ۔
یہ حضرات زیر بحث آیت کے تحت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ ’’ لغوی ‘‘ معنیٰ میں خلیفۂ راشد کہنے کی ’’اجازت ‘‘ دیتے ہیں لیکن ’’ اصطلاحی ‘‘ معنیٰ میں ایسا کہنے کو ’’ آیت تمکین اور آیت استخلاف ‘‘ کے خلاف گردانتے ہوئے ’’باطل اور ضلالت ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لغت میں ’’رَشَدَ، رُشْداً ‘‘ کے معنیٰ راہ یاب ہونا، ہدایت پانا ، ہوش میں آنا، سن بلوغ کو پہنچنا۔ (ھُوَرَاشِدٌ) ’’اَرْشَدَہ‘، رَشَّدَہٗ‘‘ رہنمائی کرنا۔ ’’اِسْتَرْ شَدَہ‘ ۔‘‘رہنمائی حاصل کرنا ۔’’الارشاد‘‘ رہنمائی وعظ و نصیحت۔ ’’اَلْمُسْتَرْشِد‘‘ رہنمائی حاصل کرنے والا۔ ’’اَلْمُرْشِد‘‘ واعظ، پیر، مصلح، مُرَبیّ، رہنمائی کرنے والا۔
علامہ قرطبی ’’الراشدون ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :’’الرشد ، الاستقامۃ علی طریق الحق مع تصلّب فیہ من الرشدوھی الصخرۃ ‘‘ یعنی ’’ رشد‘‘ جاد�ۂ حق پر ایسی ثابت قدمی کو کہتے ہیں جس میں تصلّب اور پختگی ہو ، تذبذب کا وہاں نشان تک نہ ہو۔ یہ ’’ رشدہ‘‘ سے مشتق ہے ‘جس کے معنیٰ چٹان ہے ۔ ’’الرشد‘‘ عقل ، ہوش ،شعور ، بلوغ ، ہدایت ،راست روی ۔ فقہا ء اسلام کے ہاں دین میں راست روی کے ساتھ حدّ تکلیف کو پہنچنا اور اپنے مال کا انتظام کرنے کے لائق ہونا ۔
’’ الراشد‘‘ راہ حق پر سختی سے قائم رہنے والا ، راہ یاب ، ہدایت یافتہ ، کامیاب ، بالغ ، باہوش ، باشعور ۔
(تفسیر قرطبی تحت الآیۃ ، القاموس الوحید ۔ص۶۲۷تحت ’’رشد‘‘ ۔ مؤلفہ مولانا وحید الزمان قاسمی )
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا ہے کہ لغوی طور پر بھی ’’الراشد‘‘ کے معنی راہِ حق پر چٹان کی طرح سختی کے ساتھ قائم اور ثابت قدم رہنے والے ہدایت یافتہ ، باشعور اور کامیاب شخص کے ہیں۔پھرمعلوم نہیں کہ اس دائمی صفت کے حامل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کیوں ’’ غیر راشد ‘‘ قرار دے دیا گیا ؟ اگر خلفائے اربعہ زیر بحث آیت کی روشنی میں لغوی و اصطلاحی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقیناًان ہی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں۔ آں معظم رضی اللہ عنہ کے لیے ’’ لغوی و اصطلاحی ‘‘ کی تقسیم خود زیر بحث آیت کی تکذیب ہے کہ اس آیت کے تحت چار یا پانچ کو تو اصطلاحی طور پر اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو محض لغوی طورپر ’’ راشد‘‘ قراردے دیا جائے ۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں کہ : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی ہی معیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس طبقہ ہے جس نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نو ر حاصل کیا اور اسی پر آفتاب نبوت کی کرنیں بلا کسی حائل و حجاب کے بلاواسطہ پڑیں ۔اس لیے قدرتی طور پر جو ایمانی حرارت اور نورانی کیفیت ان میں آسکتی تھی وہ بعد والوں کو میسر آنی طبعاً نا ممکن تھی ۔ اس لیے قرآن حکیم نے من حیث الطبقہ اگر کسی پورے کے پورے طبقہ کی تقدیس کی ہے توہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا طبقہ ہے اس نے انہیں مجموعی طور پر راضی و مرضی اور’’ راشد و مرشد‘‘فرمایا ، ان کے قلوب کو تقویٰ و طہارت سے جانچا پرکھا ، بتلایا اور انہیں کے رکوع و سجو د کے نورانی آثار کو جو ان کی پیشانیوں پر بطور گواہ نمایاں تھے ،ان کی عبودیت اور ہمہ وقت سرنیاز خم کیے رہنے کی شہادت کے طور پر پیش فرمایا ۔ اس لیے امت کا یہ اجماعی عقیدہ مسلسل اور متواتر چلاآرہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کُل کے کُل عدول اور متقین ہیں۔ ان کے قلوب و نِیّات کھوٹ سے بری ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘ (حیات الصحابہؓ ، جلد سوم۔ ص ۴، تحت’’تقریظ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ)
’’اورخوب جان لو تمہارے درمیان رسول اللہ تشریف فرماہیں، اگر وہ اکثر معاملات میں تمہاری بات مان لیں تو تم مشقت میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے محبوب بنا دیا ہے تمہارے نزدیک ایمان کو اور آراستہ کردیا ہے اسے تمہارے دلوں میں اور قابل نفرت بنادیا ہے تمہارے نزدیک کفر، فسق اور نافرمانی کو، یہی لوگ راہِ حق پر ثابت قدم ہیں۔ (یہ سب کچھ) محض اللہ کا فضل اور انعام ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، بڑا دانا ہے ۔‘‘
سورۃ الحجرات کی آیت ۶ میں مفسرین کرام نے ولید بن عقبہ کے واقعہ کا ذکر کیا ہے جو فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے نیز ابتدائی آیات کی تفسیر میں بنی تمیم کے ذکر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات مدنی زندگی کے آخر یعنی ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں۔
زیر بحث آیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ، ان کے ایمان دار اور راشد ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ آیت میں ’’حَبَّبَ ‘‘ اور ’’کَرَّہَ‘‘کے بعد ’’اِلیٰ‘‘ کا صلہ اس اہتمامِ خاص کی طرف اشارہ کررہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہوں میں ایمان کو محبوب اور کفر ، فسق اور عصیان کو مبغوض بنانے کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے فرمایا ۔
گویا ایمان اور کفر دونوں کو حقیقی شکل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ایمان کے دلدادہ اور کفر سے بیزار ثابت ہوئے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ’’حَبَّبَ ‘‘ کے مفعول کی حیثیت سے تو ’’ایمان ‘‘کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ’کَرَّہَ‘‘ کے ساتھ ’’کفر ،فسق ،عصیان‘‘ تین چیزوں کا ذکر ہوا۔
اس سے یہ حقیقت سمجھائی گئی کہ صرف ’’کفر‘‘ ہی ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ ’’فسق و عصیان‘‘ کی جملہ اقسام بھی اسی ’’ شجرۃملعونہ ‘‘ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی ان تمام چیزوں کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں مبغوض ٹھہرا کر یہ اعلان کردیا کہ اوُلٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعْمَۃً ط
اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں ایما ن کو محبوب بنادیا ، اس کو ان کے دلوں میں آراستہ کردیا اور ان کے دلوں کو کفر ، فسق اور عصیان سے متنفر کردیا ۔ وہی لوگ جو موصوف باوصافِ مذکورہ ہیں ۔ ’’راشد‘‘یعنی راستی پسند ، حق جو ، حق گو اور حق پر چلنے والے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاضر کی ضمیروں ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘سے مخاطب کرکے غائب کی ضمیر ’’ھُمْ‘‘سے ’’ راشد ‘‘ قرار دیا ہے جس میں ان کی مزید مدح پائی جاتی ہے ۔
علاوہ ازیں اس ’’اعزاز‘‘ سے پہلے ان کے لیے فعلیہ جملے ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘لائے گئے ہیں ۔ جبکہ ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘جملہ اسمیہ ہے اس میں دوامِ رشد اور ثبات و استقامت کی خوش خبر ی دی گئی ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات ’’ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔لاکریہ اعلان کردیا کہ بعد کے نا اہل و نادان ’’ اہل علم و اہل قلم ‘‘ کے بے ہودہ الزامات و اعتراضات سے ہم باخبر ہیں ۔ لہذا اس فتنے کے انسداد کی خاطر ہماری حکمت ان بشارتوں کی مقتضی ہوئی ۔
اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں ’’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘کی صفات سے جہاں بعد کے نادان و نااہل معترضین کے فتنہ سے آگاہ کیا وہاں ان صاحبان دستار و جبّہ کی اس ضد اور ہٹ دھرمی سے بھی با خبر کردیا جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘کی الٰہی سند سے باصرار و بتکرار تحریراً و تقریراًمحروم کردینے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اَللّٰہُمَّ لَاتَجْعَلْنَا مِنْہُمْ وَ مَعَھُم ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قرآنی سند کے بعد کوئی مومن بالقرآن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’الراشد‘‘ کے الٰہی لقب سے نہ ’’صورتاً اور نہ ہی ’’حقیقتاً‘‘ ہرگز ہرگز محروم نہیں کرسکتا ۔
آیت استخلاف میں ’’مِنْکُمْ ‘‘ کی ضمیر مخاطب کے تحت تو ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نادان مخالفین ‘‘ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نزول آیت کے وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے لیکن زیربحث آیت کی روسے یہاں ایسی کوئی تاویل بھی کام نہیں آسکتی کیونکہ یہ آیات ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں اور اس سے بہت پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرچکے تھے۔مگر سخت حیرت ہے کہ اس کے باوجود آں معظم رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ بعض اصحاب دستار و جبّہ اور تصوّف و طریقت ‘‘ کو لفظ ’’راشد‘‘ گوارا نہیں ہے ۔
یہ حضرات زیر بحث آیت کے تحت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ ’’ لغوی ‘‘ معنیٰ میں خلیفۂ راشد کہنے کی ’’اجازت ‘‘ دیتے ہیں لیکن ’’ اصطلاحی ‘‘ معنیٰ میں ایسا کہنے کو ’’ آیت تمکین اور آیت استخلاف ‘‘ کے خلاف گردانتے ہوئے ’’باطل اور ضلالت ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لغت میں ’’رَشَدَ، رُشْداً ‘‘ کے معنیٰ راہ یاب ہونا، ہدایت پانا ، ہوش میں آنا، سن بلوغ کو پہنچنا۔ (ھُوَرَاشِدٌ) ’’اَرْشَدَہ‘، رَشَّدَہٗ‘‘ رہنمائی کرنا۔ ’’اِسْتَرْ شَدَہ‘ ۔‘‘رہنمائی حاصل کرنا ۔’’الارشاد‘‘ رہنمائی وعظ و نصیحت۔ ’’اَلْمُسْتَرْشِد‘‘ رہنمائی حاصل کرنے والا۔ ’’اَلْمُرْشِد‘‘ واعظ، پیر، مصلح، مُرَبیّ، رہنمائی کرنے والا۔
علامہ قرطبی ’’الراشدون ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :’’الرشد ، الاستقامۃ علی طریق الحق مع تصلّب فیہ من الرشدوھی الصخرۃ ‘‘ یعنی ’’ رشد‘‘ جاد�ۂ حق پر ایسی ثابت قدمی کو کہتے ہیں جس میں تصلّب اور پختگی ہو ، تذبذب کا وہاں نشان تک نہ ہو۔ یہ ’’ رشدہ‘‘ سے مشتق ہے ‘جس کے معنیٰ چٹان ہے ۔ ’’الرشد‘‘ عقل ، ہوش ،شعور ، بلوغ ، ہدایت ،راست روی ۔ فقہا ء اسلام کے ہاں دین میں راست روی کے ساتھ حدّ تکلیف کو پہنچنا اور اپنے مال کا انتظام کرنے کے لائق ہونا ۔
’’ الراشد‘‘ راہ حق پر سختی سے قائم رہنے والا ، راہ یاب ، ہدایت یافتہ ، کامیاب ، بالغ ، باہوش ، باشعور ۔
(تفسیر قرطبی تحت الآیۃ ، القاموس الوحید ۔ص۶۲۷تحت ’’رشد‘‘ ۔ مؤلفہ مولانا وحید الزمان قاسمی )
اس تفصیل سے معلوم ہوگیا ہے کہ لغوی طور پر بھی ’’الراشد‘‘ کے معنی راہِ حق پر چٹان کی طرح سختی کے ساتھ قائم اور ثابت قدم رہنے والے ہدایت یافتہ ، باشعور اور کامیاب شخص کے ہیں۔پھرمعلوم نہیں کہ اس دائمی صفت کے حامل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کیوں ’’ غیر راشد ‘‘ قرار دے دیا گیا ؟ اگر خلفائے اربعہ زیر بحث آیت کی روشنی میں لغوی و اصطلاحی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقیناًان ہی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں۔ آں معظم رضی اللہ عنہ کے لیے ’’ لغوی و اصطلاحی ‘‘ کی تقسیم خود زیر بحث آیت کی تکذیب ہے کہ اس آیت کے تحت چار یا پانچ کو تو اصطلاحی طور پر اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو محض لغوی طورپر ’’ راشد‘‘ قراردے دیا جائے ۔
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں کہ : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی ہی معیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس طبقہ ہے جس نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نو ر حاصل کیا اور اسی پر آفتاب نبوت کی کرنیں بلا کسی حائل و حجاب کے بلاواسطہ پڑیں ۔اس لیے قدرتی طور پر جو ایمانی حرارت اور نورانی کیفیت ان میں آسکتی تھی وہ بعد والوں کو میسر آنی طبعاً نا ممکن تھی ۔ اس لیے قرآن حکیم نے من حیث الطبقہ اگر کسی پورے کے پورے طبقہ کی تقدیس کی ہے توہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا طبقہ ہے اس نے انہیں مجموعی طور پر راضی و مرضی اور’’ راشد و مرشد‘‘فرمایا ، ان کے قلوب کو تقویٰ و طہارت سے جانچا پرکھا ، بتلایا اور انہیں کے رکوع و سجو د کے نورانی آثار کو جو ان کی پیشانیوں پر بطور گواہ نمایاں تھے ،ان کی عبودیت اور ہمہ وقت سرنیاز خم کیے رہنے کی شہادت کے طور پر پیش فرمایا ۔ اس لیے امت کا یہ اجماعی عقیدہ مسلسل اور متواتر چلاآرہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کُل کے کُل عدول اور متقین ہیں۔ ان کے قلوب و نِیّات کھوٹ سے بری ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘ (حیات الصحابہؓ ، جلد سوم۔ ص ۴، تحت’’تقریظ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ)