آیت ’’الرَّاشِدُون‘‘ اور خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ لَوْ یُطِیْعُکُمْ فِیْ کَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِِلَیْکُمُ الْاِِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ اُوْلٰٓءِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَنِعْمَۃً وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ ۔(سورۃ الحجرات،۷۔۸)

’’اورخوب جان لو تمہارے درمیان رسول اللہ تشریف فرماہیں، اگر وہ اکثر معاملات میں تمہاری بات مان لیں تو تم مشقت میں پڑجاؤ، لیکن اللہ تعالیٰ نے محبوب بنا دیا ہے تمہارے نزدیک ایمان کو اور آراستہ کردیا ہے اسے تمہارے دلوں میں اور قابل نفرت بنادیا ہے تمہارے نزدیک کفر، فسق اور نافرمانی کو، یہی لوگ راہِ حق پر ثابت قدم ہیں۔ (یہ سب کچھ) محض اللہ کا فضل اور انعام ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا ، بڑا دانا ہے ۔‘‘

سورۃ الحجرات کی آیت ۶ میں مفسرین کرام نے ولید بن عقبہ کے واقعہ کا ذکر کیا ہے جو فتح مکہ کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے نیز ابتدائی آیات کی تفسیر میں بنی تمیم کے ذکر سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات مدنی زندگی کے آخر یعنی ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں۔

زیر بحث آیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت ، ان کے ایمان دار اور راشد ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ آیت میں ’’حَبَّبَ ‘‘ اور ’’کَرَّہَ‘‘کے بعد ’’اِلیٰ‘‘ کا صلہ اس اہتمامِ خاص کی طرف اشارہ کررہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نگاہوں میں ایمان کو محبوب اور کفر ، فسق اور عصیان کو مبغوض بنانے کے لیے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے فرمایا ۔

گویا ایمان اور کفر دونوں کو حقیقی شکل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے پیش کیا گیا تو وہ ایمان کے دلدادہ اور کفر سے بیزار ثابت ہوئے ۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ ’’حَبَّبَ ‘‘ کے مفعول کی حیثیت سے تو ’’ایمان ‘‘کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ ’کَرَّہَ‘‘ کے ساتھ ’’کفر ،فسق ،عصیان‘‘ تین چیزوں کا ذکر ہوا۔

اس سے یہ حقیقت سمجھائی گئی کہ صرف ’’کفر‘‘ ہی ایمان کے منافی نہیں ہے بلکہ ’’فسق و عصیان‘‘ کی جملہ اقسام بھی اسی ’’ شجرۃملعونہ ‘‘ کے برگ و بار کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایمان کے منافی ان تمام چیزوں کو صحابہ رضی اللہ عنہم کی نگاہ میں مبغوض ٹھہرا کر یہ اعلان کردیا کہ اوُلٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَ نِعْمَۃً ط

اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دلوں میں ایما ن کو محبوب بنادیا ، اس کو ان کے دلوں میں آراستہ کردیا اور ان کے دلوں کو کفر ، فسق اور عصیان سے متنفر کردیا ۔ وہی لوگ جو موصوف باوصافِ مذکورہ ہیں ۔ ’’راشد‘‘یعنی راستی پسند ، حق جو ، حق گو اور حق پر چلنے والے ہیں ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حاضر کی ضمیروں ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘سے مخاطب کرکے غائب کی ضمیر ’’ھُمْ‘‘سے ’’ راشد ‘‘ قرار دیا ہے جس میں ان کی مزید مدح پائی جاتی ہے ۔

علاوہ ازیں اس ’’اعزاز‘‘ سے پہلے ان کے لیے فعلیہ جملے ’’ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزیَّنَہ‘ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ط‘‘لائے گئے ہیں ۔ جبکہ ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘جملہ اسمیہ ہے اس میں دوامِ رشد اور ثبات و استقامت کی خوش خبر ی دی گئی ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی دو صفات ’’ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔لاکریہ اعلان کردیا کہ بعد کے نا اہل و نادان ’’ اہل علم و اہل قلم ‘‘ کے بے ہودہ الزامات و اعتراضات سے ہم باخبر ہیں ۔ لہذا اس فتنے کے انسداد کی خاطر ہماری حکمت ان بشارتوں کی مقتضی ہوئی ۔

اللہ تعالیٰ نے آیت کے آخر میں ’’عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ‘‘کی صفات سے جہاں بعد کے نادان و نااہل معترضین کے فتنہ سے آگاہ کیا وہاں ان صاحبان دستار و جبّہ کی اس ضد اور ہٹ دھرمی سے بھی با خبر کردیا جس نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْن‘‘کی الٰہی سند سے باصرار و بتکرار تحریراً و تقریراًمحروم کردینے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ۔ اَللّٰہُمَّ لَاتَجْعَلْنَا مِنْہُمْ وَ مَعَھُم ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قرآنی سند کے بعد کوئی مومن بالقرآن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو ’’الراشد‘‘ کے الٰہی لقب سے نہ ’’صورتاً اور نہ ہی ’’حقیقتاً‘‘ ہرگز ہرگز محروم نہیں کرسکتا ۔

آیت استخلاف میں ’’مِنْکُمْ ‘‘ کی ضمیر مخاطب کے تحت تو ’’حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے نادان مخالفین ‘‘ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نزول آیت کے وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے لیکن زیربحث آیت کی روسے یہاں ایسی کوئی تاویل بھی کام نہیں آسکتی کیونکہ یہ آیات ۹ھ میں نازل ہوئی تھیں اور اس سے بہت پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اسلام قبول کرچکے تھے۔مگر سخت حیرت ہے کہ اس کے باوجود آں معظم رضی اللہ عنہ کے اسم گرامی کے ساتھ بعض اصحاب دستار و جبّہ اور تصوّف و طریقت ‘‘ کو لفظ ’’راشد‘‘ گوارا نہیں ہے ۔

یہ حضرات زیر بحث آیت کے تحت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ ’’ لغوی ‘‘ معنیٰ میں خلیفۂ راشد کہنے کی ’’اجازت ‘‘ دیتے ہیں لیکن ’’ اصطلاحی ‘‘ معنیٰ میں ایسا کہنے کو ’’ آیت تمکین اور آیت استخلاف ‘‘ کے خلاف گردانتے ہوئے ’’باطل اور ضلالت ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ لغت میں ’’رَشَدَ، رُشْداً ‘‘ کے معنیٰ راہ یاب ہونا، ہدایت پانا ، ہوش میں آنا، سن بلوغ کو پہنچنا۔ (ھُوَرَاشِدٌ) ’’اَرْشَدَہ‘، رَشَّدَہٗ‘‘ رہنمائی کرنا۔ ’’اِسْتَرْ شَدَہ‘ ۔‘‘رہنمائی حاصل کرنا ۔’’الارشاد‘‘ رہنمائی وعظ و نصیحت۔ ’’اَلْمُسْتَرْشِد‘‘ رہنمائی حاصل کرنے والا۔ ’’اَلْمُرْشِد‘‘ واعظ، پیر، مصلح، مُرَبیّ، رہنمائی کرنے والا۔

علامہ قرطبی ’’الراشدون ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :’’الرشد ، الاستقامۃ علی طریق الحق مع تصلّب فیہ من الرشدوھی الصخرۃ ‘‘ یعنی ’’ رشد‘‘ جاد�ۂ حق پر ایسی ثابت قدمی کو کہتے ہیں جس میں تصلّب اور پختگی ہو ، تذبذب کا وہاں نشان تک نہ ہو۔ یہ ’’ رشدہ‘‘ سے مشتق ہے ‘جس کے معنیٰ چٹان ہے ۔ ’’الرشد‘‘ عقل ، ہوش ،شعور ، بلوغ ، ہدایت ،راست روی ۔ فقہا ء اسلام کے ہاں دین میں راست روی کے ساتھ حدّ تکلیف کو پہنچنا اور اپنے مال کا انتظام کرنے کے لائق ہونا ۔

’’ الراشد‘‘ راہ حق پر سختی سے قائم رہنے والا ، راہ یاب ، ہدایت یافتہ ، کامیاب ، بالغ ، باہوش ، باشعور ۔

(تفسیر قرطبی تحت الآیۃ ، القاموس الوحید ۔ص۶۲۷تحت ’’رشد‘‘ ۔ مؤلفہ مولانا وحید الزمان قاسمی )

اس تفصیل سے معلوم ہوگیا ہے کہ لغوی طور پر بھی ’’الراشد‘‘ کے معنی راہِ حق پر چٹان کی طرح سختی کے ساتھ قائم اور ثابت قدم رہنے والے ہدایت یافتہ ، باشعور اور کامیاب شخص کے ہیں۔پھرمعلوم نہیں کہ اس دائمی صفت کے حامل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کیوں ’’ غیر راشد ‘‘ قرار دے دیا گیا ؟ اگر خلفائے اربعہ زیر بحث آیت کی روشنی میں لغوی و اصطلاحی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں تو پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی یقیناًان ہی معنوں میں ’’راشد‘‘ ہیں۔ آں معظم رضی اللہ عنہ کے لیے ’’ لغوی و اصطلاحی ‘‘ کی تقسیم خود زیر بحث آیت کی تکذیب ہے کہ اس آیت کے تحت چار یا پانچ کو تو اصطلاحی طور پر اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو محض لغوی طورپر ’’ راشد‘‘ قراردے دیا جائے ۔

حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیو بند فرماتے ہیں کہ : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک زندگی کو پہچاننے کے لیے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی زندگی ہی معیار ہو سکتی ہے کیونکہ یہی وہ مقدس طبقہ ہے جس نے براہِ راست فیضانِ نبوت سے نو ر حاصل کیا اور اسی پر آفتاب نبوت کی کرنیں بلا کسی حائل و حجاب کے بلاواسطہ پڑیں ۔اس لیے قدرتی طور پر جو ایمانی حرارت اور نورانی کیفیت ان میں آسکتی تھی وہ بعد والوں کو میسر آنی طبعاً نا ممکن تھی ۔ اس لیے قرآن حکیم نے من حیث الطبقہ اگر کسی پورے کے پورے طبقہ کی تقدیس کی ہے توہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا طبقہ ہے اس نے انہیں مجموعی طور پر راضی و مرضی اور’’ راشد و مرشد‘‘فرمایا ، ان کے قلوب کو تقویٰ و طہارت سے جانچا پرکھا ، بتلایا اور انہیں کے رکوع و سجو د کے نورانی آثار کو جو ان کی پیشانیوں پر بطور گواہ نمایاں تھے ،ان کی عبودیت اور ہمہ وقت سرنیاز خم کیے رہنے کی شہادت کے طور پر پیش فرمایا ۔ اس لیے امت کا یہ اجماعی عقیدہ مسلسل اور متواتر چلاآرہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کُل کے کُل عدول اور متقین ہیں۔ ان کے قلوب و نِیّات کھوٹ سے بری ہیں اور ان کا اجماع شرعی حجت ہے جس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ‘‘ (حیات الصحابہؓ ، جلد سوم۔ ص ۴، تحت’’تقریظ‘‘ مؤلفہ مولانا محمد یوسف رحمۃ اللہ علیہ)
 

اعجازالحسینی

وفقہ اللہ
رکن
اگرچہ انبیاء کرام بھی ’’راشد‘‘ ہیں لیکن اوصاف نبوت کی طرح ، یہ ان کی صفت خاصہ نہیں ہے ۔ اس لیے جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوراشد قرار دیا گیا ۔ ’’راشد ‘‘ ہر صحابی کی صفت خاصہ ہے لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے لوگ بھی تا قیامِِ قیامت ’’راشد‘‘ ہوسکتے ہیں ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ : اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلّہُمْ یَرْشُدُوْنَo (سورۃ البقرۃ ۔ ۱۸۶)

’’میں قبول کرتاہوں دعا کرنے والے کی دعا جب وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے ،پس انہیں چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ ’’راشد‘‘ ہوجائیں یعنی ہدایت پا جائیں۔ ‘‘

اس آیت سے معلوم ہواکہ نبوت کی طرح’’رشد و ہدایت ‘‘ کا منصب و سلسلہ ختم نہیں ۔ غیر صحابی بھی ’’ راشد‘‘ ہونیکا اعزاز حاصل کر سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ائمہ کے رشدو ہدایت کے لیے بایں الفاظ دعا فرمائی ہے کہ :

اَللّٰہُمَّ ارْشُدِ الْاَءِمَّۃِ وَاغْفِرْ لِلْمُؤَذِّنِیْنَ‘‘ (جامع ترمذی، جلد اوّل ص ۲۹) اے اللہ، ائمہ کو رشد و ہدایت عطا فرما اورمؤ ذنین کی مغفرت فرما۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمران بن حصینؓ کویہ دعا تعلیم فرمائی تھی کہ : اَللّٰہُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاَعِذْنِیْ مِنْ شَرِّ نَفْسِیْ۔ (جامع ترمذی) اے اللہ مجھے رشد و ہدایت الہام کردے اور میرے نفس کی برائی سے مجھے بچادے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زیر بحث آیت کی مناسبت سے یہ دعا بھی تعلیم فرمائی کہ : اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ اِلَیْنَا الْاِیْمَانَ وَزَیِّنْہ‘ فِیْ قُلُوْبِنَا وَکَرِّ ہْ اِ لَیْنَا الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ وَاجْعَلْنَا مِنَ الرَّاشِدِیْنَ (مسند احمد، ص ۴۳۸ جلد ۴)

اے اللہ ہمارے دلوں میں ایمان کی محبت ڈال دے اور اس کو ہمارے دلوں کی زینت بنا دے ، اور ہمارے دلوں میں کفر ، گناہ اور نافرمانی کی نفرت ڈال دے اور ہمیں ’’راشدین ‘‘ میں سے کردے ۔

اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اگرچہ ’’بابِ نبوت‘‘ بند ہوگیا ہے لیکن سلسلہ ’’رشدو ہدایت ‘‘ تا قیامت جاری رہے گا ان میں صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو من حیث الطبقہ خود اللہ تعالیٰ نے راشد قراردیا ہے ۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ایک عام صحابی ہی نہیں بلکہ ایک فقیہہ اور مجتہد صحابی ہیں جو امارت و خلافت سے پہلے بھی ’’راشد‘‘ تھے اور امارت و خلافت کے منصب پر فائز ہوجانے کے بعد بھی یقیناً’’ امیر راشد و خلیفہ راشد ‘‘ہی تھے۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نہ صرف یہ کہ خود راشد ہیں بلکہ انہیں اس منصب کے لیے منتخب کرنے والے اور بیعت کرنے والے بھی راشد ہیں ۔ سخت تعجب کی بات ہے کہ ایسے خلیفۂ راشد کو بھی زمر�ۂ خلفائے راشدین سے خارج کردیا گیا۔انفرادی طور پر ہر صحابی کا فتویٰ یا مذہب قابلِ استدلال ہے اور مجموعی طور پر جب وہ کسی امر میں متفق ہوجائیں یعنی بھاری اکثریت سے توان کا مؤقف ایسا ہی حجت ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی کتاب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کا منکر نفسِ دین کا منکر ہے اور چاہتا ہے کہ اپنے اس انکار کے ذریعے اس گروہ کی حجیت ختم کردے جن سے ہمیں دین ملاہے ، جنہوں نے دین قائم کیا ہے اور جنہیں اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنا گواہ بنایا ہے ۔

جمہور علماءِ کرام نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اتفاق کو ’’اجماع‘‘ کانام دیا ہے ۔ چنانچہ مفتی عبدالغفار صاحب ارکانی لکھتے ہیں کہ : ’’اجماع کی اقسام اربعہ میں پہلی قسم اجماع اصلی قولی ہے یعنی کسی مسئلہ پر کسی زمانے کے تمام مجتہدین سے ایسا کلام صادر ہو جس سے اس مسئلہ پر ان کا اتفاق ثابت ہوتا ہو خواہ اجماع یا اتفاق کا لفظ استعمال کریں مثلاً یوں کہیں کہ ’’اجمعنا علیٰ ھٰذا‘‘یا ’’اتفقنا علیہ‘‘ اور خواہ کوئی دوسرا لفظ استعمال کریں جس سے ان کا اتفا ق ثابت ہوتا ہو جیسا کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوا تھا کہ تمام صحابہ ان کے ہاتھ پر بیعت بھی ہوئے اور زبان سے ان کی خلافت کا اقرار بھی کیا۔ اس قسم (اجماع) کو عام اصولیین نے حجت قطعی قرار دیا ہے۔ ‘‘ ( اجماع اور اس کی شرعی حیثیت ص ۲۲۷ مطبوعہ الصدف پبلشرز کراچی )

موصوف آگے زیر عنوان ’’ صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع‘‘ لکھتے ہیں کہ :

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کی خلافت پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع منعقد ہوا ، بعض حضرات نے اسے صحابہ رضی اللہ عنہم کا قولی اجماع قراردیا ہے ۔۔۔چنانچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اس طرح ان کی خلافت پر اجماع منعقد ہوا‘‘۔ (حوالہ مذکورہ ۔ص ۲۹۳)

ارباب سیر وتاریخ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت کے انعقادپر بھی صحابہؓ و تابعینؒ کا قولی اور عملی و فعلی اجماع نقل کیا ہے ۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عدول ہونے پر بھی تمام اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے لہٰذا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت بھی’’ اجماعی و شورائی‘‘ ہے۔ (حوالہ جات کے لیے راقم الحروف کے مضمون ’’کیا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ متغلّب تھے؟‘‘ مشمولہ نقیب ختم نبوت ملتان ،جون ۲۰۱۱ء کی طرف مراجعت فرمائیں )

سورۃ النساء کی آیت ۱۱۵ ’’ وَ یَتَّبِعُ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔۔۔‘‘سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اجماع امت حجت ہے یعنی جس طرح قرآن و سنت کے بیان کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہوتا ہے اسی طرح امت کا اتفاق جس چیز پر ہوجائے اس پر بھی عمل کرنا واجب ہے اور اس کی مخالفت گناہِ عظیم ہے ۔بعض علماء نے ’’ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن سے مراد اجماع امت لیا یعنی اجماع امت سے انحراف بھی کفر ہے اجماع امت کا مطلب ہے کہ کسی مسئلہ میں امت کے تمام علماء و فقہا کا اتفاق یا کسی مسئلے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اتفاق یہ دونوں صورتیں اجماع امت کی ہیں اور دونوں کا انکار یا ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے ۔

آیت’’ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْن‘‘ میں بظاہر اتنا کہنا ہی کافی تھا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے وہ جہنم رسید ہوگا لیکن اس میں مؤمنین کی اتباع کی قید نہایت معنی خیز ہے ۔ نزول آیت کے موقع پر مومنین صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے پس اجماع صحابہ کا مخالف دراصل اللہ کے رسول کا بھی مخالف ہے گووہ زبان سے اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرتا ہو ۔ جمہور اہل اسلام کے نزدیک خلیفہ کا تقرر امت پر واجب ہے ،اسی اہمیت کے پیش نظر ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین پر مقدم کرتے ہوئے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اجماع کر لیا تھا۔ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کی خلافت پر بھی اسی طرح اجماع رہا جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر خلفائے ثلاثہؓ کی طرح کا اجماع ثابت نہیں ہے ۔ لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر تو وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی متفق ہوگئے تھے جنہوں نے آخر وقت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی تھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی دست برداری کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ عالم اسلام کے متفقہ خلیفہ مقرر ہو گئے ،تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ نے برضا و رغبت ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔ اس نہایت ہی پُر مسرت واقعہ کی یاد میں اس سال کا نام ہی ’’ عام الجماعۃ‘‘ رکھ دیا گیا۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا صحابی ہونے کے علاوہ فقیہہ و مجتہد ہونا بھی ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ اب بڑی دلچسپ بات ہوگی کہ آپ صحابی اور مجتہد ہونے کی حیثیت سے جو کچھ حکم دیں وہ تو قابلِ پذیرائی ہو لیکن امت کے حاکمِ اعلیٰ ہونے کی حیثیت سے جو حکم نافذ کریں وہ موجب رضائے الٰہی نہ ہو اور اس کی تعمیل بھی واجب نہ رہے کیوں کہ وہ ایک ’’غیر راشد خلیفہ‘‘ کا حکم ہوگا۔ قرآن و سنت اور مقامِ صحابہ رضی اللہ عنہ کی عظمت سے بے خبر لوگوں کو مسلسل پروپیگنڈے کیذریعے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے کہ خلفائے راشدین صرف چار ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ’’الراشدون‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ بھی جماعتِ صحابہ کے ہی ایک ممتاز فرد ہیں، اس لیے لامحالہ ارشادِ ربانی کے مطابق وہ راشد ہیں تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپ کے ذریعے قائم شدہ نظامِ حکومت کو خلافتِ راشدہ کے علاوہ کسی دوسرے نام سے موسوم کیا جائے۔ اس طرح کے نظام کی باگ ڈور جس صحابی خلیفہ کے ہاتھ میں ہو کیا اسے ’’غیر راشد‘‘ خلیفہ قرار دیا جاسکتا ہے؟

’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ‘‘ کی روسے حضرت معاو یہ رضی اللہ عنہ یقیناً’’راشد‘‘ ہیں اور کوئی مومن بالقرآن ان کے راشد ہونے کا انکار ہر گز نہیں کرسکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتصریح نام ان کے لیے ہادی اور مہدی ہونے کی دعا فرمائی ہے :’’ اللّٰہم اجعلہ ھادیا مھدیا واھد بہٖ‘‘ (جامع ترمذی ،باب مناقب معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما )اے اللہ! انہیں (یعنی معاویہ رضی اللہ عنہ کو) ھادی و مھدی بنا اور ان کے ذریعے دوسروں کوبھی ہدایت دے ۔

جو صحابی ازنص قرآن ’’راشد‘‘ ہو اور ازروئے حدیث ہادی اور مہدی ہواور اس کے ساتھ ساتھ وہ منصبِ خلافت سے بھی سرفراز رہا ہو تو اسے حدیث ’’ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ‘‘کا مصداق ہونے سے کیوں کر خارج کیاجا سکتا ہے ؟جس طرح پانی موجود نہ ہونے یا مریض ہونے کی صورت میں سورۃ النساء کی آیت ۴۳ کے الفاظ ’’فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْداً طَیِّباً ‘‘ میں لفظ فَتَیَمَّمُوْاسے ’ ’ تیمم ‘‘ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے اسی طرح مذکورہ حدیث سے ’’ خلفائے راشدین ‘‘ کی اصطلاح بنائی گئی ۔ یہ بات قابلِ غور ہے کہ حدیث میں تو صرف ’’ الخلفاء الراشدین المھدیین ‘‘کے الفاظ آئے ہیں جن سے کوئی ادنیٰ ترین اشارہ بھی اس بات کا نہیں ملتا کہ ’’ راشد‘‘ صرف چار خلفاء ہیں اور باقی پانچواں یا چھٹا خلیفہ ’’ غیر راشد‘‘ ہی ہوگا ۔ پھر اس ’’ تحدید‘‘ کے باوجود پانچویں خلیفہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو تو کسی نہ کسی درجے میں خلیفہ راشد تسلیم کرلیا گیا لیکن چھٹے خلیفہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شمولیت کو ناممکن تصور کرتے ہوئے انہیں زمرۂ خلفائے راشدین سے خارج کردیا گیا ۔ پھر نظر یہ ضرورت کے تحت عمر بن عبدالعزیز ، اورنگزیب عالم گیر رحمہما اللہ (بقول ابو الحسن علی ندوی ؒ ) اور حضرت امام مہدی کی خاطر اپنے خود ساختہ آئین میں ترمیم کرلی گئی۔ معلوم نہیں کہ کس ’’مجاز اتھارٹی ‘‘ نے عربی زبان کے کن قواعد کے تحت او ردین کے کس اصول کی روشنی میں آیت’’اُولٰءِکَ ھُمُ الرَّاشِدُوْنَ ‘‘اور حدیث ’’ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین ‘‘سے ماخوذ اصطلاح ’’ خلفائے راشدین ‘‘ کو ’’چار‘‘تک محدود کرتے ہوئے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس سے خارج قرار دیا ؟

(آیت تمکین ، آیت استخلاف اور حدیث سفینہؓ پر بحث نقیب ختم نبوت کے آئندہ شماروں میں ملاحظہ فرمائیں۔ )

پروفیسر قاضی محمد طاہر الہاشمی
 

أضواء

وفقہ اللہ
رکن
السلام عليكم و رحمة الله و بركاته
نفع الله بك الآسلام و المسلمين
و وفقك الله بما فيه خير و الصلاح
 

رجاء

وفقہ اللہ
رکن
لےشوق سےنام صحابہ کا
کرچرچاعام صحابہ کا
گرطلب ہےتجھ کوجنت کی
تو پلہ تھام صحابہ کا
رضی اللہ عنہم اجمعین
 
Top