مولانا حذیفہ وستانوی
اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا، سنة اللہ کے مطابق اس سلسلة الذہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا، کیوں کہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدابھی لازم اور منتہا بھی لازم، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کو یہ قانون الٰہی لازم آیا اور حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا اور حبیب کبریاء، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا اور جس کا ہونا ﴿ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا﴾ کی روشنی ضروری بھی تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں۔ دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی، جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر و نشر میں بھی اور میزان و حساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوں گی۔ انشاء اللہ!
یہ امر امر بدیہی ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات پُر ہنگامہ تو ہونا ہی تھی اور کوئی معمولی ہنگامہ نہیں، بلکہ زوردار، جیسے کسی عظیم رہنما کی وفات سے فتنے کھڑے ہوتے ہیں، وہ اس کے زندہ رہنے سے دبے رہتے ہیں، جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات پر آپ کو مرقوم ملیں گی۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی عظیم فتنوں نے سر اٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی ، حمیت اسلامی اور بلند حوصلگی۔ اولاً آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص کی برکت سے نصرت الٰہی و تائید غیبی اور ثانیاً آپ نے اپنی حکمت عملی سے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!
عجیب بات
یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب بہود و نصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوت پرکاری ضرب، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو پانچ افراد دعوہٴ نبوت لے کر کھڑے ہوئے الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ یہ سب انہوں نے تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ”اثر اہل الکتاب فی الحروب و الفتن الداخلیة فی القرن الأول“ میں ثابت کیا ہے۔دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ”أ ینقص الدین و أنا حی؟“ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوت کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کا رُخ پھیر دینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکر کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدہٴ ختم نبوت، کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح صحابہ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعوہٴ نبوت کرنے والا کافر ہے ،ا س سے جہاد فرض ہے۔
بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر میدان کارساز میں کود پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یا تو بہ و انابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
قائدین جہت
(1) خالد بن سعید بن عاص مشارف بلادشام
(2) عمرو بن العاص دومة الجندل
(3) خالد بن ولید بُزاخہ، البطاح، یمامہ
(4) عکرمہ بن ابی جہل یمامہ، عمان و مہرہ، حضرموت، یمن
(5) شرحبیل بن حسنہ یمامہ، حضرموت
(6) علاء بن الحضرمی بحرین، دارین
(7) حذیفہ بن محض الغطفانی عمان
(8) عرفجہ بن ہرثمہ البارقی عمان، مہرہ، حضرموت، یمن
(9) طریفہ بن حاجز شرق حجاز، بنوسلیم کی طرف
(10) مہاجربن ابی امیہ یمن، کندہ، حضرموت
(11) سوید بن مقرن الذنی تہامة الیمن
حضرت ابوبکرصدیق کے بارے میں حضرت ابوہریرہ راویة الاسلام فرماتے ہیں ”واللہ الذی لاالہ الا ہو، لولا ان ابا بکر استخلف ما عبد اللہ“اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالة الخفاء: ج1/ص3)
حضرت عبداللہ بن مسعود فقیہ الامة و الاسلام فرماتے ہیں: ”لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامًا کدنا نہلک فیہ لولا ان اللہ مَنَّ علینا بابی بکراجمعنا علی ان لا نقاتل علی ابنة مخاض و ابنة لبون وان نأکل قریٰ عربیة، ونعبد اللہ حتی یأتینا الیقین، فعزم اللہ لابی بکر علی قتالہم“․ (التاریخ الکامل لابن اثیر: ج2/205)
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے، مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا ، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے، مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔
موٴرخ کبیر، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ”رد ة ولا ابا بکرلہا“ کہ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سر اٹھایا ہے، مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صدیق جیسا حوصلہ نہیں ،ان کے جیسی حمیت و غیرت نہیں ۔بلکہ اس موضوع پر آپ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعةً حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے، مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشرعشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین!
حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِ فہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:
جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشق رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبہٴ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جو لوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار رہوں گا، کیوں کہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن‘ تحفظ ختم نبوت کے خاطر شہید کروا دیے تھے (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگی) ۔ (تحریک ختم نبوت، آغاشورش کاشمیری، بحوالہ روزنامہ اسلام)
صداقت کے لیے گر جاں جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے #
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے
اللہ رب العزت نے اشرف الخلائق حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السلام کو مبعوث کیا، سنة اللہ کے مطابق اس سلسلة الذہب کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کیا، کیوں کہ دنیا میں اللہ کا دستور ابتدائے آفرینش سے چلا آیا ہے کہ ہر چیز کا مبدابھی لازم اور منتہا بھی لازم، چاہے وہ مادی ہو یا روحانی؛ لہٰذا نبوت کے اس وہبی دستور کو یہ قانون الٰہی لازم آیا اور حضرت آدم علیہ الصلاة والسلام سے سلسلہ نبوت کا آغاز ہوا اور حبیب کبریاء، احمد مصطفی، محمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ سلسلہ نبوت ختم ہوا؛ گویا یہ ایک قدرتی قانون کے تحت ہوا اور جس کا ہونا ﴿ولن تجد لسنة اللہ تبدیلا﴾ کی روشنی ضروری بھی تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ایک انقلاب آفریں بعثت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے دنیا میں تمام ظلمتیں چھٹ گئیں۔ دنیا جو ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی پُرنور اور روشن ہوگئی، جس کی برکتوں کے اثرات آج چودہ صدیوں کے بیت جانے کے بعد بھی محسوس کیے جارہے ہیں اور قبیل قیامت تک محسوس کیے جاتے رہیں گے اور پھر حشر و نشر میں بھی اور میزان و حساب میں بھی آپ کی برکتیں جلوہ گر ہوں گی۔ انشاء اللہ!
یہ امر امر بدیہی ہے کہ آپ کی وفات حسرت آیات پُر ہنگامہ تو ہونا ہی تھی اور کوئی معمولی ہنگامہ نہیں، بلکہ زوردار، جیسے کسی عظیم رہنما کی وفات سے فتنے کھڑے ہوتے ہیں، وہ اس کے زندہ رہنے سے دبے رہتے ہیں، جس کی بے شمار مثالیں تاریخ کے صفحات پر آپ کو مرقوم ملیں گی۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی عظیم فتنوں نے سر اٹھایا، مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی غیرت ایمانی ، حمیت اسلامی اور بلند حوصلگی۔ اولاً آپ رضی اللہ عنہ کے اخلاص کی برکت سے نصرت الٰہی و تائید غیبی اور ثانیاً آپ نے اپنی حکمت عملی سے تمام فتنوں کو ایک سال سے بھی کم عرصے میں کافور کرکے رکھ دیا۔ اللہ آپ رضی اللہ عنہ کو پوری امت کی طرف بہترین بدلہ عطا فرمائے۔ آمین!
عجیب بات
یہ بات تعجب خیز ہے کہ اہل کتاب بہود و نصاریٰ نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف جو سازش رچی وہ تھی عقیدہٴ ختم نبوت پرکاری ضرب، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو پانچ افراد دعوہٴ نبوت لے کر کھڑے ہوئے الاستاذ جمیل مصری کی تحقیق کے مطابق ان سب کے اہل کتاب یہود و نصاریٰ کے ساتھ گہرے مراسم تھے۔ یہ سب انہوں نے تاریخ کے مستند حوالوں سے اپنی تحقیقی کتاب ”اثر اہل الکتاب فی الحروب و الفتن الداخلیة فی القرن الأول“ میں ثابت کیا ہے۔دوسری جانب حضرات صحابہ نے بھی اس کو گویا بھانپ لیا، خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور آپ نے ”أ ینقص الدین و أنا حی؟“ کا تاریخی جملہ کہہ کر صحابہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ عقیدہٴ ختم نبوت کی اہمیت خوب اچھی طرح سمجھیں اور تاریخ کا رُخ پھیر دینے والے اس فتنے کی سرکوبی کے لیے کمربستہ ہو جائیں۔ الحمدللہ! حضرت ابوبکر کی کوششوں اور اللہ کے فضل سے صحابہ نے اس بات پر اجماع کرلیا کہ عقیدہٴ ختم نبوت، کو تحفظ فراہم کیا جائے، نبوت کے دعویداروں کو کافر قرار دیا جائے اور ان کے خلاف جہاد فرض گردانا جائے، اس طرح صحابہ کا سب سے پہلا اجماع منعقد ہوگیا کہ ختم نبوت کا تحفظ ایک اہم ترین فریضہ ہے اور دعوہٴ نبوت کرنے والا کافر ہے ،ا س سے جہاد فرض ہے۔
بس پھر کیا تھا، اس عقیدے کے تحفظ کی خاطر مدینہ سے گیارہ لشکر ان مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے حضرت ابوبکر صدیق کے حکم پر میدان کارساز میں کود پڑتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال سے بھی کم عرصے میں یا تو مدعیان نبوت اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں یا تو بہ و انابت کرکے دوبارہ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں۔
قائدین جہت
(1) خالد بن سعید بن عاص مشارف بلادشام
(2) عمرو بن العاص دومة الجندل
(3) خالد بن ولید بُزاخہ، البطاح، یمامہ
(4) عکرمہ بن ابی جہل یمامہ، عمان و مہرہ، حضرموت، یمن
(5) شرحبیل بن حسنہ یمامہ، حضرموت
(6) علاء بن الحضرمی بحرین، دارین
(7) حذیفہ بن محض الغطفانی عمان
(8) عرفجہ بن ہرثمہ البارقی عمان، مہرہ، حضرموت، یمن
(9) طریفہ بن حاجز شرق حجاز، بنوسلیم کی طرف
(10) مہاجربن ابی امیہ یمن، کندہ، حضرموت
(11) سوید بن مقرن الذنی تہامة الیمن
حضرت ابوبکرصدیق کے بارے میں حضرت ابوہریرہ راویة الاسلام فرماتے ہیں ”واللہ الذی لاالہ الا ہو، لولا ان ابا بکر استخلف ما عبد اللہ“اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں! اگر ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ نہ بنائے جاتے تو اللہ کی عبادت نہ کی جاتی۔ (رواہ البیہقی بحوالہ ازالة الخفاء: ج1/ص3)
حضرت عبداللہ بن مسعود فقیہ الامة و الاسلام فرماتے ہیں: ”لقد قمنا بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مقامًا کدنا نہلک فیہ لولا ان اللہ مَنَّ علینا بابی بکراجمعنا علی ان لا نقاتل علی ابنة مخاض و ابنة لبون وان نأکل قریٰ عربیة، ونعبد اللہ حتی یأتینا الیقین، فعزم اللہ لابی بکر علی قتالہم“․ (التاریخ الکامل لابن اثیر: ج2/205)
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد ہم ہلاکت خیز حالات سے دوچار ہوگئے تھے، مگر اللہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جیسی بصیرت افروز) شخصیت کے ذریعہ ہم پر احسان عظیم کیا ، ہم لوگ (یعنی جماعت صحابہ) یہ طے کرچکے تھے کہ مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال نہیں کریں گے اور جو کچھ تھوڑا بہت رزق میسر آئے گا اس پر اکتفا کریں گے اور اس طرح موت تک اللہ کی عبادت کرتے رہیں گے، مگر اللہ رب العزت نے حضرت ابوبکر کو مانعین زکوٰة کے ساتھ قتال کا پختہ حوصلہ دیا۔
موٴرخ کبیر، مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی بیسویں صدی میں مسلمانوں کی گمراہیوں کو دیکھ کر دل برداشتہ ہوکر فرماتے تھے ”رد ة ولا ابا بکرلہا“ کہ ارتداد نے ایک بار پھر زوردار سر اٹھایا ہے، مگر افسوس اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ابوبکر صدیق جیسا حوصلہ نہیں ،ان کے جیسی حمیت و غیرت نہیں ۔بلکہ اس موضوع پر آپ کی مستقل کتاب ہے۔ واقعةً حضرت نے بالکل درست کہا جیسی فکری یلغار حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تھی آج بھی ویسی ہی کیفیت ہے، تب ابوبکر تھے، مگر آج کوئی ابوبکر تو کیا ان کا عشرعشیر بھی نہیں، اللہ ہی مدد اور حفاظت فرمائے۔ آمین!
حضرت ابوبکر صدیق کے دور میں تحفظ ختم نبوت کی خاطر ہزاروں صحابہ نے اپنی جانوں کو قربان کردیا، بیسویں صدی میں تحفظ ختم نبوت کے لیے نمایاں خدمات انجام دینے والوں میں حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری کا نام سرِ فہرست ہے، آپ فرماتے ہیں:
جو لوگ تحریک ختم نبوت میں جہاں تہاں شہید ہوئے، ان کے خون کا جوابدہ میں ہوں، وہ عشق رسالت میں مارے گئے، اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر کہتا ہوں، ان میں جذبہٴ شہادت میں نے پھونکا تھا۔ (حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہ کی تحریک کی وجہ سے ختم نبوت کے تحفظ کے لیے امت میں بیداری پیدا ہوئی اور امت مسلمہ ہندیہ پورے جوش و جذبہ کے ساتھ میدان کارزار میں کود پڑی، جب کچھ جدید تعلیم یافتہ لوگوں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اس تحریک کی خاطر شہید ہو رہے ہیں تو انہوں نے اپنے آپ کو اس تحریک سے علیحدہ کرکے یہ ثابت کرنا چاہا کہ جو لوگ مارے گئے یا مارے جارہے ہیں ہم اس کے ذمہ دار نہیں، تب پھر حضرت نے اپنی تقریر میں کہا) جو لوگ ان کے خون سے دامن بچانا چاہتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں حشر کے دن بھی ان کے خون کا ذمہ دار رہوں گا، کیوں کہ ختم نبوت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں۔ حضرت ابوبکرصدیق نے بھی سات ہزار حفاظ قرآن‘ تحفظ ختم نبوت کے خاطر شہید کروا دیے تھے (اور غیرحافظوں کی تعداد اس سے تقریباً دوگنی ہوگی) ۔ (تحریک ختم نبوت، آغاشورش کاشمیری، بحوالہ روزنامہ اسلام)
صداقت کے لیے گر جاں جاتی ہے تو جانے دو
مصیبت پر مصیبت سر پہ آتی ہے تو آنے دو
مناظر اسلام مولانا لال حسین اختر نے بڑا عجیب شعر کہا ہے #
جلا دو پھونک دو سولی چڑھا دو خوب سن رکھو
صداقت چھٹ نہیں سکتی ہے جب تک جان باقی ہے