امام ابوحنیفہؒ کی کتاب الآثار حدیث کی سب سے قدیم اور صحیح کتب میں سے ہے ۔
موجود طبع شدہ کتب میں اس سے پہلے کی غالباََ صرف صحیفہ ہمام بن منبہؒ ہے ۔
کتاب الآثار اور موطا امام مالک ؒ کا طرز آپس میں کافی ملتا جلتا ہے ۔
یہ دو بڑے ائمہ کی کتب کئی حوالوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے منفرد ہیں کہ ان کو روایت کرنے والے بھی عظیم فقہاء اور ائمہ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں ۔
کتاب الآثار کو امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ ، امام المقرئ حمزہ بن زیاتؒ ، اور کئی دوسرے ائمہ نے روایت کیا جن کی تفصیل مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مقدمہ کتاب الآثار میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
اسی طرح موطا امام مالک ؒ کو بھی امام یحییؒ ، امام محمد ؒ ، امام ابن القاسمؒ ، امام شافعیؒ کے علاوہ کثیر ائمہ نے روایت کیا ۔
کتاب الآثار کے دو نسخے امام محمد ؒ اور امام ابو یوسفؒ کے دستیاب اور متداول ہیں ۔ امام حسن بن زیادؒ کے نسخہ کے مخطوطہ کا ذکر فہار س میں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے نسخے میری معلومات کے مطابق بذات خود فی الحال دستیاب نہیں ہیں ۔لیکن مسانید ابی حنیفہ کے جامعین محدثین اپنی اسانید سے ان نسخوں کی کئی روایات کو محفوظ کرلیا ہے ۔
اصل نسخہ اور مسند میں روایت شدہ احادیث کے درمیان فنی لحاظ سے بس یہی فرق ہے کہ اگر صرف سند کی تحقیق کرنی پڑے تو اصل نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ سے اوپر کے راویوں کی ہی تحقیق کرنی پڑے گی ۔ جبکہ مسند میں روایت کردہ حدیث کی سند کی جامع مسند سے امام ابوحنیفہؒ تک کے راویوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔
مثال کے طور پہ کتاب الآثار بروایت حسن بن زیادؒ ابھی چھپی نہیں ۔ لیکن اس کی سینکڑوں روایات ایک ہی سند سے جامع المسانید خوارزمی اور مسند ابن خسرومیں مروی ہیں ۔
مولانا محقق ابو الوفا افغانیؒ فرماتے ہیں کہ مسند حسن بن زیادؒ (یعنی نسخہ کتاب الآثار بروایت حسن) کو جامع المسانید اور ابن خسرو نے پورا محفوظ کر لیا ہے ۔
اب اس پر میرے نزدیک اعتماد کیا جاسکتا ہے اور صاحب جامع المسانید اور ابن خسروؒ سے لے کر امام حسن بن زیادؒ تک کی سند کی تحقیق کی زیادہ حاجت نہیں ۔
اور اگر اصل نسخہ دستیاب ہو تو اس کی روایت پھر اور زیادہ معتمد ہو گی ۔
جیسے نویں صدی ہجری کے بڑے محدث حنبلی عالم ابن الدوالیبی الحنبلی ۸۵۸ھ نے کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد سے ۶۰ احادیث ۔ الاحادیث الستون ابی حنیفہ ۔ کے عنوان سے
روایت کی ہیں ۔ اس کا مخطوطہ بھی موجود ہے اور علامہ زاہد الکوثریؒ نے امام حسن بن زیاد ؒ کی سوانح ۔ الامتاع ۔ میں ان کو نقل بھی کردیا ہے جو طبع ہے ۔ اس کی حیثیت کتب احادیث سے جو زوائد جمع کئے جاتے ہیں اس جیسی ہے ۔ اب چاہے اصل کتاب مفقود ہوجائے لیکن زوائد جمع کرنے والا اگر ثقہ عالم ہے تو اس پر اعتماد اصل کتاب کی طرح ہی لازمی ہے ۔
اسی لئے ہم امام ابن الدوالیبی الحنبلیؒ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی حیثیت اصل نسخہ جیسی ہی ہے ۔
امام ابوحنیفہ ؒ کے صاحبزادے امام ابن الامام حماد بن ابی حنیفہؒ نے بھی کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔
جس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے کئی محدثین کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی المعجم المفہرس میں اس کا ذکر
نسخة حماد بن أبي حنيفة عن أبيه
۔۔ کہہ کر کیا ہے ۔ اور امام حماد ؒ تک اپنی سند بھی نقل کی ہے
اور حافظ ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں اس نسخہ کی روایت حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ کہہ کر نقل کی ہے ۔
اس نسخہ کی بھی بہت سی روایات مسانید ابی حنیفہ میں موجود ہیں ۔ اور جامعین مسانید جو بڑے بڑے محدثین ہیں ، ان کی اور حافظ ابن حجرؒ کی سند بھی تقریباََ ایک جیسی ہی ہے ۔
امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔۔امام حافظ عبد الله الحارثی البخاریؒ 340ھ کی مسند امام اعظم ہے جس کا اختصار ساتویں صدی ہجری کے عالم حافظ دمیاطی ؒ کے شیخ حافظ موسي بن زكريا الحصكفيؒ650ھ نے کیا بہت مشہور ہے ۔آج کل خصوصاََ اردو میں مطلق مسند امام اعظم بولا جائے تو اس سے یہی مراد لی جاتی ہے ۔
اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔۔۔مولانا ابو الوفا افغانی ؒ نے مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کو خط میں لکھا کہ ایسی روایات الحصکفی ؒ نے مسند ابن خسرو سے لی ہیں ۔
لیکن یہ خیال تب کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ امام حمادبن ابی حنیفہؒ کا اصل نسخہ مفقود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجرؒ ، حافظ خوارزمیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ وغیرہ اس نسخہ سے واقف ہیں تو حافظ الحصکفیؒ تو ان سے بھی پہلے کے ہیں ۔
اس لئے زیادہ گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایات ۔نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے براہ راست نقل کی ہیں ۔
مسند الحصکفیؒ کی اصل مسند ابھی چھپی نہیں ۔ جو چھپی ہوئی ہے وہ مسند حصکفیؒ کو فقہی ابواب پر شیخ حافظ عابد سندیؒ نے مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے ۔
میرا گمان تھا کہ اصل مسند حصکفی دیکھنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ابن خسروؒسے لی ہیں یا اصل نسخہ حمادؒ
سے ۔ پھر یہ گمان قوی سے بڑھ کرکافی حد تک یقین کے درجہ میں ہوگیا ۔
اسلامی کتب کے مخطوطات کے بڑے ذخائر میں سے ایک ملک ترکی بھی ہے جہاں بڑے قدیم مخطوطات موجود ہیں ۔
ترکی کا مشہور مکتبہ ہے ۔۔ینی جامع ۔
بالتركية : Yeni Cami
اس مكتبه میں ایک حدیث کے مجموعہ کا مخطوطہ ہے جو ۷۵۹ھ کا لکھا ہوا ہے ۔ اور آٹھویں صدی ہجری کے حنفی عالم محدث کا ہے ۔
كتاب التيسير في حديث البشير النذير - صلي الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما
اس کے ناسخ عثمان بن محمد بن عثمان الكراكي الانصاري ہیں ۔ اور مصنف کا نام ہے ۔
الشيخ الامام المتقن المفنن قاضي القضاه الورع الزاهد العالم العامل
علم الدين ابي داؤد سليمان ابن الشيخ شرف الدين اوشر بن بلدق الترکمانی (او الترجمانی) الحنفي المعروف بقاضي حماه
المتوفي 736هـ
حافظ ابن حجرؒ نے درر الکامنہ میں اور حافظ تقی الدین نے طبقات السنیہ میں ان کا مختصر ذکر کیا ہے ۔
سُلَيْمَان التركماني الْحَنَفِيّ نَشأ بحمص ودرس بهَا ثمَّ ولي قَضَاء حماة وَكَانَ مشاركاً فِي الْفُنُون ويدري القراآت مَاتَ فِي ربيع الآخر سنة 736
طبقات السنیۃ میں ہے
سليمان بن عبد اللّه القاضى، علم الدّين التّركمانىّ *
قال فى «الدّرر»: نشأ بحمص، و درّس بها، ثم ولى قضاء حماة.
و كان مشاركا فى الفنون، 2 و برّز فى القراءات 2.
و مات فى ربيع الآخر، سنة ست و ثلاثين و سبعمائة. رحمه اللّه تعالى.
ان کی یہ کتاب
جامع الاصول مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ کے اوپر ایک طرح کا کام ہے ۔ اس میں انہوں نے کچھ ترتیب بدلی ہے اور جامع الاصول میں جو کتب تھیں ۔ موطا ۔ بخاری ۔ مسلم ۔ ابو داود ۔ نسائی ۔ ترمذی ۔ رزین ۔ اس میں مسند امام اعظم کا اضافہ کیا ہے ۔ جو کتاب کے آخر میں ہے ۔اور صفحہ ۲۷۷ سے شروع ہوتی ہے ۔
۔مسند الامام ابي حنيفة من رواية الحصكفي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور روایات امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی ترتیب پر ہیں ۔پھر صفحہ ۲۹۷ تک روایات ہیں
اور پھر جلی عنوان ہے ۔
مسند حماد بن ابي حنيفة رحمهما الله عن ابيه۔
پھر ۔ حماد عن ابیہ ۔ کی سند سے تقریباََ ۳۱ روایات بیان کی ہیں ۔جو مخطوطہ کے آخری ڈھائی صفحات پر ہیں ۔جن کا عکس نیچے موجود ہے ۔
اس میں مسند حماد بن ابی حنیفہؒ کی پہلی روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن ابن خثيم المكي، عن يوسف بن ماهك، عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: أن امرأة أتتها فقالت: إن زوجي يأتيني مجبية ومستقبلة فكرهته، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ((لا بأس إذا كان في صمام واحد)).
اور آخری روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن إسماعيل بن أبي خالد، وبيان بن بشر، عن قيس بن أبي حازم قال: سمعت جرير بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((سترون ربكم عز وجل كما ترون هذا القمر ليلة البدر، لا تضامون في رؤيته، فانظروا ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها)).
قال حماد يعني به الغداة والعشي.
اس میں امام حمادبن ابی حنیفہ ؒ نے تشریحی الفاظ بھی بڑھائے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا طرز بھی
امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کی طرح تھا۔ یعنی صرف روایت نہیں کیا ۔ بلکہ کتاب میں اضافہ بھی کیا ہے ۔
یہ روایات مسند حصکفی جو چھپی ہوئ ہے جو دراصل ترتیب سندی ہے ۔ اس میں تو موجود ہیں ہی ۔ اور مسند ابن خسرو ؒ میں بھی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ براہ راست الآثار ابی حنیفہ بروایت حماد ۔ یعنی نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے نقل کی گئی ہیں ۔
ممکن ہے اس کا مخطوطہ بھی کہیں ہو اور کبھی سامنے آجائے ۔
واللہ سبحانہ اعلم ۔
موجود طبع شدہ کتب میں اس سے پہلے کی غالباََ صرف صحیفہ ہمام بن منبہؒ ہے ۔
کتاب الآثار اور موطا امام مالک ؒ کا طرز آپس میں کافی ملتا جلتا ہے ۔
یہ دو بڑے ائمہ کی کتب کئی حوالوں کے علاوہ اس لحاظ سے بھی دوسری کتب سے منفرد ہیں کہ ان کو روایت کرنے والے بھی عظیم فقہاء اور ائمہ ہیں اور کثیر تعداد میں ہیں ۔
کتاب الآثار کو امام ابو یوسفؒ ، امام محمدؒ ، امام زفرؒ ، امام المقرئ حمزہ بن زیاتؒ ، اور کئی دوسرے ائمہ نے روایت کیا جن کی تفصیل مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کے مقدمہ کتاب الآثار میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
اسی طرح موطا امام مالک ؒ کو بھی امام یحییؒ ، امام محمد ؒ ، امام ابن القاسمؒ ، امام شافعیؒ کے علاوہ کثیر ائمہ نے روایت کیا ۔
کتاب الآثار کے دو نسخے امام محمد ؒ اور امام ابو یوسفؒ کے دستیاب اور متداول ہیں ۔ امام حسن بن زیادؒ کے نسخہ کے مخطوطہ کا ذکر فہار س میں موجود ہے ۔ اس کے علاوہ دوسرے نسخے میری معلومات کے مطابق بذات خود فی الحال دستیاب نہیں ہیں ۔لیکن مسانید ابی حنیفہ کے جامعین محدثین اپنی اسانید سے ان نسخوں کی کئی روایات کو محفوظ کرلیا ہے ۔
اصل نسخہ اور مسند میں روایت شدہ احادیث کے درمیان فنی لحاظ سے بس یہی فرق ہے کہ اگر صرف سند کی تحقیق کرنی پڑے تو اصل نسخہ میں امام ابوحنیفہؒ سے اوپر کے راویوں کی ہی تحقیق کرنی پڑے گی ۔ جبکہ مسند میں روایت کردہ حدیث کی سند کی جامع مسند سے امام ابوحنیفہؒ تک کے راویوں کو بھی دیکھنا پڑے گا ۔
مثال کے طور پہ کتاب الآثار بروایت حسن بن زیادؒ ابھی چھپی نہیں ۔ لیکن اس کی سینکڑوں روایات ایک ہی سند سے جامع المسانید خوارزمی اور مسند ابن خسرومیں مروی ہیں ۔
مولانا محقق ابو الوفا افغانیؒ فرماتے ہیں کہ مسند حسن بن زیادؒ (یعنی نسخہ کتاب الآثار بروایت حسن) کو جامع المسانید اور ابن خسرو نے پورا محفوظ کر لیا ہے ۔
اب اس پر میرے نزدیک اعتماد کیا جاسکتا ہے اور صاحب جامع المسانید اور ابن خسروؒ سے لے کر امام حسن بن زیادؒ تک کی سند کی تحقیق کی زیادہ حاجت نہیں ۔
اور اگر اصل نسخہ دستیاب ہو تو اس کی روایت پھر اور زیادہ معتمد ہو گی ۔
جیسے نویں صدی ہجری کے بڑے محدث حنبلی عالم ابن الدوالیبی الحنبلی ۸۵۸ھ نے کتاب الآثار بروایت حسن بن زیاد سے ۶۰ احادیث ۔ الاحادیث الستون ابی حنیفہ ۔ کے عنوان سے
روایت کی ہیں ۔ اس کا مخطوطہ بھی موجود ہے اور علامہ زاہد الکوثریؒ نے امام حسن بن زیاد ؒ کی سوانح ۔ الامتاع ۔ میں ان کو نقل بھی کردیا ہے جو طبع ہے ۔ اس کی حیثیت کتب احادیث سے جو زوائد جمع کئے جاتے ہیں اس جیسی ہے ۔ اب چاہے اصل کتاب مفقود ہوجائے لیکن زوائد جمع کرنے والا اگر ثقہ عالم ہے تو اس پر اعتماد اصل کتاب کی طرح ہی لازمی ہے ۔
اسی لئے ہم امام ابن الدوالیبی الحنبلیؒ پر اعتماد کرتے ہیں ۔ اس کی حیثیت اصل نسخہ جیسی ہی ہے ۔
امام ابوحنیفہ ؒ کے صاحبزادے امام ابن الامام حماد بن ابی حنیفہؒ نے بھی کتاب الآثار کو امام صاحب سے روایت کیا ہے ۔
جس کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ دوسرے کئی محدثین کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے بھی المعجم المفہرس میں اس کا ذکر
نسخة حماد بن أبي حنيفة عن أبيه
۔۔ کہہ کر کیا ہے ۔ اور امام حماد ؒ تک اپنی سند بھی نقل کی ہے
اور حافظ ابن کثیر ؒ نے تفسیر میں اس نسخہ کی روایت حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ کہہ کر نقل کی ہے ۔
اس نسخہ کی بھی بہت سی روایات مسانید ابی حنیفہ میں موجود ہیں ۔ اور جامعین مسانید جو بڑے بڑے محدثین ہیں ، ان کی اور حافظ ابن حجرؒ کی سند بھی تقریباََ ایک جیسی ہی ہے ۔
امام ابو حنیفہؒ کی مسانید میں سب سے زیادہ مشہور ، مستند ۔۔۔امام حافظ عبد الله الحارثی البخاریؒ 340ھ کی مسند امام اعظم ہے جس کا اختصار ساتویں صدی ہجری کے عالم حافظ دمیاطی ؒ کے شیخ حافظ موسي بن زكريا الحصكفيؒ650ھ نے کیا بہت مشہور ہے ۔آج کل خصوصاََ اردو میں مطلق مسند امام اعظم بولا جائے تو اس سے یہی مراد لی جاتی ہے ۔
اگرچہ مسند الحصکفیؒ ۔۔۔۔۔۔۔مسند الحارثیؒ کا ہی اختصار ہے لیکن انہوں نے کچھ وہ روایات جو امام حماد بن ابی حنیفہؒ نے اپنے والد سے روایت کی ہیں ۔۔۔وہ بھی اس میں لی ہیں ۔۔۔مولانا ابو الوفا افغانی ؒ نے مولانا عبد الرشید نعمانیؒ کو خط میں لکھا کہ ایسی روایات الحصکفی ؒ نے مسند ابن خسرو سے لی ہیں ۔
لیکن یہ خیال تب کیا جا سکتا ہے کہ جب یہ سمجھ لیا جائے کہ امام حمادبن ابی حنیفہؒ کا اصل نسخہ مفقود ہے ۔ حالانکہ حافظ ابن حجرؒ ، حافظ خوارزمیؒ ، حافظ ابن کثیرؒ وغیرہ اس نسخہ سے واقف ہیں تو حافظ الحصکفیؒ تو ان سے بھی پہلے کے ہیں ۔
اس لئے زیادہ گمان ہے کہ انہوں نے یہ روایات ۔نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے براہ راست نقل کی ہیں ۔
مسند الحصکفیؒ کی اصل مسند ابھی چھپی نہیں ۔ جو چھپی ہوئی ہے وہ مسند حصکفیؒ کو فقہی ابواب پر شیخ حافظ عابد سندیؒ نے مرتب کیا ہے ۔ یہ کتاب چھپی ہوئی ہے ۔
میرا گمان تھا کہ اصل مسند حصکفی دیکھنے سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ انہوں نے ابن خسروؒسے لی ہیں یا اصل نسخہ حمادؒ
سے ۔ پھر یہ گمان قوی سے بڑھ کرکافی حد تک یقین کے درجہ میں ہوگیا ۔
اسلامی کتب کے مخطوطات کے بڑے ذخائر میں سے ایک ملک ترکی بھی ہے جہاں بڑے قدیم مخطوطات موجود ہیں ۔
ترکی کا مشہور مکتبہ ہے ۔۔ینی جامع ۔
بالتركية : Yeni Cami
اس مكتبه میں ایک حدیث کے مجموعہ کا مخطوطہ ہے جو ۷۵۹ھ کا لکھا ہوا ہے ۔ اور آٹھویں صدی ہجری کے حنفی عالم محدث کا ہے ۔
كتاب التيسير في حديث البشير النذير - صلي الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم تسليما
اس کے ناسخ عثمان بن محمد بن عثمان الكراكي الانصاري ہیں ۔ اور مصنف کا نام ہے ۔
الشيخ الامام المتقن المفنن قاضي القضاه الورع الزاهد العالم العامل
علم الدين ابي داؤد سليمان ابن الشيخ شرف الدين اوشر بن بلدق الترکمانی (او الترجمانی) الحنفي المعروف بقاضي حماه
المتوفي 736هـ
حافظ ابن حجرؒ نے درر الکامنہ میں اور حافظ تقی الدین نے طبقات السنیہ میں ان کا مختصر ذکر کیا ہے ۔
سُلَيْمَان التركماني الْحَنَفِيّ نَشأ بحمص ودرس بهَا ثمَّ ولي قَضَاء حماة وَكَانَ مشاركاً فِي الْفُنُون ويدري القراآت مَاتَ فِي ربيع الآخر سنة 736
طبقات السنیۃ میں ہے
سليمان بن عبد اللّه القاضى، علم الدّين التّركمانىّ *
قال فى «الدّرر»: نشأ بحمص، و درّس بها، ثم ولى قضاء حماة.
و كان مشاركا فى الفنون، 2 و برّز فى القراءات 2.
و مات فى ربيع الآخر، سنة ست و ثلاثين و سبعمائة. رحمه اللّه تعالى.
ان کی یہ کتاب
جامع الاصول مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ ۶۰۶ھ کے اوپر ایک طرح کا کام ہے ۔ اس میں انہوں نے کچھ ترتیب بدلی ہے اور جامع الاصول میں جو کتب تھیں ۔ موطا ۔ بخاری ۔ مسلم ۔ ابو داود ۔ نسائی ۔ ترمذی ۔ رزین ۔ اس میں مسند امام اعظم کا اضافہ کیا ہے ۔ جو کتاب کے آخر میں ہے ۔اور صفحہ ۲۷۷ سے شروع ہوتی ہے ۔
۔مسند الامام ابي حنيفة من رواية الحصكفي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور روایات امام ابوحنیفہ ؒ کے شیوخ کی ترتیب پر ہیں ۔پھر صفحہ ۲۹۷ تک روایات ہیں
اور پھر جلی عنوان ہے ۔
مسند حماد بن ابي حنيفة رحمهما الله عن ابيه۔
پھر ۔ حماد عن ابیہ ۔ کی سند سے تقریباََ ۳۱ روایات بیان کی ہیں ۔جو مخطوطہ کے آخری ڈھائی صفحات پر ہیں ۔جن کا عکس نیچے موجود ہے ۔
اس میں مسند حماد بن ابی حنیفہؒ کی پہلی روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن ابن خثيم المكي، عن يوسف بن ماهك، عن حفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: أن امرأة أتتها فقالت: إن زوجي يأتيني مجبية ومستقبلة فكرهته، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ((لا بأس إذا كان في صمام واحد)).
اور آخری روایت یہ ہے ۔
حماد بن أبي حنيفة، عن أبيه، عن إسماعيل بن أبي خالد، وبيان بن بشر، عن قيس بن أبي حازم قال: سمعت جرير بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((سترون ربكم عز وجل كما ترون هذا القمر ليلة البدر، لا تضامون في رؤيته، فانظروا ألا تغلبوا على صلاة قبل طلوع الشمس، وقبل غروبها)).
قال حماد يعني به الغداة والعشي.
اس میں امام حمادبن ابی حنیفہ ؒ نے تشریحی الفاظ بھی بڑھائے ہیں ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا طرز بھی
امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کی طرح تھا۔ یعنی صرف روایت نہیں کیا ۔ بلکہ کتاب میں اضافہ بھی کیا ہے ۔
یہ روایات مسند حصکفی جو چھپی ہوئ ہے جو دراصل ترتیب سندی ہے ۔ اس میں تو موجود ہیں ہی ۔ اور مسند ابن خسرو ؒ میں بھی ہیں ۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ براہ راست الآثار ابی حنیفہ بروایت حماد ۔ یعنی نسخہ حماد بن ابی حنیفہ عن ابیہ ۔ سے نقل کی گئی ہیں ۔
ممکن ہے اس کا مخطوطہ بھی کہیں ہو اور کبھی سامنے آجائے ۔
واللہ سبحانہ اعلم ۔