تھوڑا سا دہی ذیابطیس سے محفوظ رکھ سکتا ہے: تحقیق

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تھوڑا سا دہی ذیابطیس سے محفوظ رکھ سکتا ہے: تحقیق​
صحت مند افراد کی میڈیکل ھسٹری اور طرز زندگی کے مطالعے سے سامنے آیا کہ دہی کا استعمال اور ذی بیطیس ٹائپ ۲ کے کم خطرے کے درمیان واضح تعلق ظاہر ہوا ہے۔
لندن: وسیع پیمانے پر کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر روز دہی کا ایک چھوٹا سا حصہ کھانا ذیا بطیس سے بچاؤ میں مدد گار ثابت ہو تا ہے ۔ بار ورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ سے منسلک محقیقین نے بتا یا کہ ہرز ۲۸ گرام یعنی دن میں ایک بار دہی کے ایک چھو ٹے پیالے میں ایک چو تھائی مقدار دہی کھانا شوگر کی بیماری پیدا ہو نے کے خطرے کو تقریبا ۲۰ فیصد تک کم کر سکتا ہے ۔ جر نل بی ایم سی میڈیسن میں شائع ہو نے والے تحقیق میں ایک صحت مند غذا کے حصے کے طور پر دہی کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ یہ سائنسی شواہد ایک طویل دو رانئے کے طبی جا ئزے کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ہیں جس میں محقیقین نے مطالعے میں ۱۴۹۰۰۰ صحت مند افراد کی میڈیکل ہسٹری اور طرز زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور انہی اعداد وشمارے اور معلومات کی بنیاد پر محقیقین کو دہی کا با قاعدگی سے استعمال اور ذیا طیس ٹائپ ۲ کے کم خطرے کے درمیا واضح تعلق نظر آرہا ہے ۔ محقیقین نے مطالعے تک کے آغاز سے اختتام تک شرکاء کی غذائی عادات کا ریکارڈ محفوظ کیا ۔ مطالعے کے تمام شرکاء کا تجزیہ شروع ہو نے کے وقت ذیابطیس کے مریض نہیں تھے لیکن تحقیق کے اختتام تک ۱۵، ۱۵۶ لوگوں میں یہ بیماری موجود تھی تا ہم ان کی غذائی عادتوں کے تجزیہ سے پتہ چلا کہ ان کی خوراک میں شامل تمام ڈیری مصنوعات کا ذیابطیس کے خطرے کی کمی پر کو ئی کردار نہیں تھا۔
اس نتیجے کے بعد تجزیہ کاروں نے ڈیری مصنوعات دودھ ، اسکیمڈملک ، پنیر اور دہی کی انفرادی کھپت کے اثرات کو دائمی امراض کے خطرے مثلا ان کی عمر ، بی ایم آئی ( قد کے لحاظ سے وزن پیمائش )اور غذائی عوامل کے ساتھ ملا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ دودھ اور ذیادہ چکنائی والی چیزوں مثلا پنیر کے انفرادی استعمال کا ذیابطیس کے خطرے کی کمی سے کو ئی تعلق نہیں تھا ۔
محقیقی کے مطابق ذیابطیس سے بچاؤ کا تعلق صرف دہی کھانے کے ساتھ دیکھا گیا ہے ۔نتائج کی تصدیق کے لئے محقیقین نے ایک تجزیہ شروع کیا جس میں ۲۰۱۳ مارچ تک شائع ہو نے والے مطالعوں کے اداد وشمار اور مطالعے کے نتا ئج کو استعمال کرتے ہوئے ڈیری مصنوعات اورٹاءُپ ۲ ذیابطیس کے درمیان تعلق جاننے کے لئے تحقیقات شروع کیں ۔
محقیقین نے کہا کہ اس بار نتائج بہت واضح تھے یعنی لگ بھگ ۵لاکھ افراد کی روز مرہ کھانے پینے کی تفصیلات کا تجزیہ کر نے سے واضح ہو گیا کہ ہر روز صرف ۲۸ گرام دہی کھانے سء ذیابطیس بیماری پیدا ہو نے کے خطرے کو۱۸ فیصد تک کم کیا جا سکتا ہے۔
معلوم ہو کہ پچھلے مطالعوں میں بھی کیلشیم ، میگنیشیم اور ڈیری مصنوعات سے حاصل ہو نے والی چکنائی کے صحت مند اثرات کو ذیابطیس ٹاپ ٹو کے خطرے کی کم شرح کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔
دہی دودھ کی ایک خمیر شدہ شکل ہے دہی کی سب سے بڑی خصوصیت بخش بیکٹریا کی وہ بہتات ہے جو اس میں پائی جاتی ہے یہ ایک بہترین اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو جسم کو زہریلے اور خطتناک مواد سے پاک کرتا ہے ۔
محقیقین نے کہا کہ دہی میں پایا جا نے والا بیکٹریا پرو بائیوٹک کے استعمال کو معمول بنانے سے قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ذیابطیس کے مریضوں میں فیٹی پرو فائل اور اینٹی آکسیڈنٹ کی حیثیت کو بہتر بنا تا ہے ۔
مطالعے کے سینئر محقیقین فرینک ہونے کہا کہ ہمارے مطالعے میں زیادہ مقدادر میں دہی کھانا کا ذیابطیس کے کم خطرے کے ساتھ گہرا تعلق ظاہر ہوا ہے لیکن ڈیری مصنوعات کی کل کھپت کے ساتھ ذیابطیس ٹائپ تو سے تحفظ کے بارے میں شواہدحاصل نہیں ہو ئے ہیں ۔
محقق پرو فیسر فرینک ہو نے تجویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ، دہی کو ایک صحت مند غذائی پیٹرن میں شامل کر لینا چا ہئے ۔
دودھ سے دہی بنانے کا رواج لگ بھگ تیس ہزار قبل مسیح میں مصریوں کے زمانے میں رائج ہوا ۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ دہی فراعنہ مسر کے دستر خوان پر عمدہ غذا کے طور پر رکھا جاتا تھا ۔
کہا جاتا ہے کہ دہی کو یو گرٹ نام ترکیوں نے دیا تھا جس کے بعد سب سے زیادہ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ دہی وسط ایشیا کے لوگوں کی ایجاد ہے اس اس سلسلے میں ایک واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی شہنشاہ اکبر کے با ورچی سوسوں کے بیج اور دار چینی سے دہی کے ذائقے کو دو بالا کرتے تھے ۔ تاریخ دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دہی کا استعمال فرنسیسی طبی تاریخ میں بھی پا یا جاتا ہے حتی کہ ۱۹۰۰ صدی روسی سلطنت ، وسطی ایشیاء مغربی ایشیاء، جنوب مغربی یورپ اور ہندوستان میں دہی کا استعملا عام ہو گیا تھا ۔( بشکریہ صحافت دہلی
 
Top