لکھنؤ کا عروج و زوال
نیر مسعود
۱۸۵۷ء سے پہلے کی جس تہذیب کو ہم اودھ کی تہذیب کا نام دیتے ہیں وہ دراصل بیت السّلطنت لکھنؤ کی تہذیب تھی۔ لکھنؤ کے قریب ترین شہر بھی اپنے تہذیبی خدوخال کے اعتبار سے لکھنؤ سے مختلف تھے۔ شجاع الدولہ کے عہد تک اودھ کے حکمرانوں کا مستقر فیض آباد تھا اور لکھنؤ فراموشی کی دھند میں صاف نظر نہ آتا تھا لیکن شجاع الدولہ کے فرزند آصف الدولہ نے فیض آباد کو چھوڑ کر لکھنؤ کو دارالحکومت بنا لیا۔(۱) اُس وقت سے لکھنؤ کی ترقی اور خوش حالی کا دور شروع ہوا۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت تو دم توڑ رہی تھی اور اُس عظیم شہر کا مستقبل بہت تاریک اور پُر خطر نظر آ رہا تھا۔ لکھنؤ کو عروج کی طرف بڑھتے دیکھ کر دہلی اور دوسرے مقامات کے اہلِ کمال اور معزّزین نے لکھنؤ کا رخ کیا اور اس شہر کو مختلف حیثیتوں سے مالامال کیا۔
اسّی برس تک لکھنؤ کے چراغ کی لو تیز سے تیز تر ہوتی رہی۔ آخر واجد علی شاہ کے عہد میں انتزاعِ سلطنت (۱۸۵۶ء) کے بعد سے اس کی روشنی مدّھم پڑنے لگی۔ اربابِ کمال لکھنؤ چھوڑ کر دوسرے قدردانوں کی تلاش میں نکل گئے اور دیکھتے دیکھتے لکھنؤ پر زوال آ گیا۔ عروج و زوال کی یہ داستان کچھ اس طرح ہے :
(۱)
آصف الدولہ اور ان کے جانشین سعادت علی خاں کے زمانے تک اودھ مغل سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یہاں کے حکمراں سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے اس پر حکومت کرتے تھے اور مغل بادشاہ کے نائب کی حیثیت سے ان کا لقب "نواب وزیر" تھا۔ اصولاً انھیں مغل بادشاہ کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنا چاہیے تھا، لیکن اب یہ نیابت فقط برائے نام تھی۔ حقیقتاً اودھ کے حکمراں خود کو دہلی سے آئے ہوئے احکام اور ہدایات کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار ایک حد تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز عہدے دار تھے جو نواب وزیر اور بادشاہِ دہلی کے درمیان حائل ہو گئے تھے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا خاموش تہیہ کر چکے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہایت منظم اور مکمل منصوبے بنا کر ان پر بڑی ہوشیاری کے ساتھ عمل کر رہے تھے اور بادشاہ اور نواب کے درمیان بڑھتی ہوئی بے تعلقی انھیں منصوبوں کا ایک جُز تھی۔
دہلی اب بھی ہندوستان کا دارالسلطنت اور مغل بادشاہ اب بھی ہندوستان کا شہنشاہ تھا، لیکن اب اُس کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی اور مغلوں کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی۔ اس تنزل کا سبب انگریزوں کے دخل در معقولات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ خود مغل حکمران وہ خون کھو چکے تھے جو تیمورِ گاگان سے لے کر بابر اور بابر سے لے کر اورنگ زیب کی رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ مغلانِ اعظم کے جانشین بزم پر رزم کو قربان کر چکے تھے۔ ان کی فعالیت ختم ہو چکی تھی اور ان کی جنبشیں کٹھ پتلیوں کی طرح تھیں جن کی ڈوریاں انگریزوں، سیّدوں، مرہٹوں اور جاٹوں روہیلوں، سبھی کے ہاتھوں میں آتی رہتی تھیں اور ان کے بازیگروں میں اپنے فن کے سب سے زیادہ ماہر انگریز تھے جو دھیرے دھیرے پورے ملک کی سیاست پر چھاتے جا رہے تھے۔
آصف الدولہ کے عہد تک اودھ پر بھی انگریزوں کی نظریں پڑنے لگی تھیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ نواب وزیر کو اپنے قابو میں لائیں۔ یہ مقصد تین طریقوں سے حاصل ہو سکتا تھا: نواب کو اپنا ممنون کر کے ، محتاج بنا کر یا اپنے سے مرعوب کر کے۔ انھوں نے پہلی صورت کو مصلحتِ وقت سمجھ کر آصف الدولہ کو ان کی ماں بہو بیگم صاحبہ کی کثیر دولت دلوا دی۔ آصف الدولہ انگریزوں کے ممنونِ احسان ہوئے اور اخلاقاً ان سے دوستی نبھانے اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(۲) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔
سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد ۱۸۱۸ء میں "ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔
انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مرزا رجب علی بیگ سرُور نے امجد علی شاہ کے عہدِ سلطنت کی تصویر یوں کھینچی ہے :
حکومت ظنّی، نیا طور ہوا۔ اس دورے میں رنڈیوں(۳) کا دور ہوا قوّت ممیّزہ شہر سے اُڑ گئی۔ کسی کی ماں نے رسالہ نہ چھوڑا، بیٹا رسالدار ہوا، کسی کی بہن نے پلٹن سے منھ نہ موڑا، سالا سالار ہوا غیرت نے منھ پھیر لیا۔ ایک کو دوسرے سے کینہ ہوا یہ رسمِ قدیم تھی جس کا جو عہدہ ہوتا وہی پاتا تھا، لیئق کار آزمودہ ڈھونڈھا جاتا تھا اب تو یہ خلطِ مبحث ہوا۔ خیّاط کو نیزہ بازوں کا سالار کیا، جمع دیکھ کر بہ صد پریشانی جمعدار کیا۔ جو چھچھوندر(۴) چھوڑنے میں جی چھوڑتے تھے ، چنگاری سمجھ کے جگنو سے منھ موڑتے تھے ، اب جو ایک آدھ پھلجھڑی سی، پٹاخا تیار کر کے محل میں چھوڑی ]یعنی کوئی حسین لڑکی بادشاہ کے حرم میں داخل کی[ آتش خانے کے داروغہ ہوئے اگر پیشِ خدمت ہمشیر ہے تو برادرِ عزیز حضرت ]بادشاہ[ کا مشیر ہے۔ خالہ خلوت میں پائین نشین، بھانجا جلوت میں صدرِ امین۔ اُخت سرکار میں، اَخی اخبار میں، اور جس کی اندر جوان لڑکی ہے اس کی باہر سواری بڑے ہُلّڑ کی ہے۔ وگر حضور رس نانی ہے تو کاٹھیاواڑ کی گھوڑی زیرِ ران ہے ، فرنگی محل کی گلیوں میں گرم عنانی ہے اور جس کی رشتے دار استانی ہے وہ سب پر سبق لے گیا جہان کے فیصلے گھر بیٹھے ہوتے ہیں ہر دم بر زبان یہ سخن ہے ، "مالک الملک روسیاہ کی بہن ہے !(۵)
آگے بڑھ کے لکھتے ہیں:
مملکتِ سلطانی کا جو حال ہے ، بد عملی سے مسافروں کو راہ چلنا محال ہے۔ دن دیے بستیوں میں ڈاکے پڑتے ہیں۔ ملک اجاڑ ہوتا ہے چکلہ دار اپنا گھر بھرتے ہیں۔ گاؤں خالی ہو گئے ، جنگل میں زمین دار مرتے ہیں۔ قبولیت میں کچھ لکھا، پٹّے میں کچھ اور ہے مزروع زمین بے کار پڑی ہے۔ اوسر بنجر کا ایک بھاؤ ہے رعیّت کا گلا ہے اور چھُری کند ہے ، بد معالی تیز اور قلم رو میں اندھا دھند ہے۔(۶)
عدالتوں کا حال بھی دیکھ لیجیے :
عدالتوں میں سب سے زیادہ اندھیر ہے داروغہ خود متلاشی ہے کہ کون سا مقدمے والا راشی ہے۔ سِرّاً جہراً رشوت کا پیام ہوتا ہے۔ اس امید پر فرشی سلام ہوتا ہے کچہری کا یہ دستورالعمل ہے ، دیتے بنے تو بگڑا مقدمہ سَجل ہے۔(۷)
نیر مسعود
۱۸۵۷ء سے پہلے کی جس تہذیب کو ہم اودھ کی تہذیب کا نام دیتے ہیں وہ دراصل بیت السّلطنت لکھنؤ کی تہذیب تھی۔ لکھنؤ کے قریب ترین شہر بھی اپنے تہذیبی خدوخال کے اعتبار سے لکھنؤ سے مختلف تھے۔ شجاع الدولہ کے عہد تک اودھ کے حکمرانوں کا مستقر فیض آباد تھا اور لکھنؤ فراموشی کی دھند میں صاف نظر نہ آتا تھا لیکن شجاع الدولہ کے فرزند آصف الدولہ نے فیض آباد کو چھوڑ کر لکھنؤ کو دارالحکومت بنا لیا۔(۱) اُس وقت سے لکھنؤ کی ترقی اور خوش حالی کا دور شروع ہوا۔ دہلی میں مغلیہ سلطنت تو دم توڑ رہی تھی اور اُس عظیم شہر کا مستقبل بہت تاریک اور پُر خطر نظر آ رہا تھا۔ لکھنؤ کو عروج کی طرف بڑھتے دیکھ کر دہلی اور دوسرے مقامات کے اہلِ کمال اور معزّزین نے لکھنؤ کا رخ کیا اور اس شہر کو مختلف حیثیتوں سے مالامال کیا۔
اسّی برس تک لکھنؤ کے چراغ کی لو تیز سے تیز تر ہوتی رہی۔ آخر واجد علی شاہ کے عہد میں انتزاعِ سلطنت (۱۸۵۶ء) کے بعد سے اس کی روشنی مدّھم پڑنے لگی۔ اربابِ کمال لکھنؤ چھوڑ کر دوسرے قدردانوں کی تلاش میں نکل گئے اور دیکھتے دیکھتے لکھنؤ پر زوال آ گیا۔ عروج و زوال کی یہ داستان کچھ اس طرح ہے :
(۱)
آصف الدولہ اور ان کے جانشین سعادت علی خاں کے زمانے تک اودھ مغل سلطنت کا ایک صوبہ تھا۔ یہاں کے حکمراں سلطنتِ مغلیہ کی طرف سے اس پر حکومت کرتے تھے اور مغل بادشاہ کے نائب کی حیثیت سے ان کا لقب "نواب وزیر" تھا۔ اصولاً انھیں مغل بادشاہ کی چشم و ابرو کے اشارے پر چلنا چاہیے تھا، لیکن اب یہ نیابت فقط برائے نام تھی۔ حقیقتاً اودھ کے حکمراں خود کو دہلی سے آئے ہوئے احکام اور ہدایات کا پابند نہیں سمجھتے تھے۔ اس صورتِ حال کے ذمے دار ایک حد تک ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز عہدے دار تھے جو نواب وزیر اور بادشاہِ دہلی کے درمیان حائل ہو گئے تھے اور پورے ہندوستان پر حکومت کرنے کا خاموش تہیہ کر چکے تھے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ نہایت منظم اور مکمل منصوبے بنا کر ان پر بڑی ہوشیاری کے ساتھ عمل کر رہے تھے اور بادشاہ اور نواب کے درمیان بڑھتی ہوئی بے تعلقی انھیں منصوبوں کا ایک جُز تھی۔
دہلی اب بھی ہندوستان کا دارالسلطنت اور مغل بادشاہ اب بھی ہندوستان کا شہنشاہ تھا، لیکن اب اُس کی حیثیت شاہِ شطرنج سے زیادہ نہ تھی۔ دہلی کی مرکزیت ختم ہو چکی تھی اور مغلوں کی بادشاہت ختم ہو رہی تھی۔ اس تنزل کا سبب انگریزوں کے دخل در معقولات کے علاوہ یہ بھی تھا کہ خود مغل حکمران وہ خون کھو چکے تھے جو تیمورِ گاگان سے لے کر بابر اور بابر سے لے کر اورنگ زیب کی رگوں میں دوڑتا رہا تھا۔ مغلانِ اعظم کے جانشین بزم پر رزم کو قربان کر چکے تھے۔ ان کی فعالیت ختم ہو چکی تھی اور ان کی جنبشیں کٹھ پتلیوں کی طرح تھیں جن کی ڈوریاں انگریزوں، سیّدوں، مرہٹوں اور جاٹوں روہیلوں، سبھی کے ہاتھوں میں آتی رہتی تھیں اور ان کے بازیگروں میں اپنے فن کے سب سے زیادہ ماہر انگریز تھے جو دھیرے دھیرے پورے ملک کی سیاست پر چھاتے جا رہے تھے۔
آصف الدولہ کے عہد تک اودھ پر بھی انگریزوں کی نظریں پڑنے لگی تھیں۔ اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری تھا کہ وہ نواب وزیر کو اپنے قابو میں لائیں۔ یہ مقصد تین طریقوں سے حاصل ہو سکتا تھا: نواب کو اپنا ممنون کر کے ، محتاج بنا کر یا اپنے سے مرعوب کر کے۔ انھوں نے پہلی صورت کو مصلحتِ وقت سمجھ کر آصف الدولہ کو ان کی ماں بہو بیگم صاحبہ کی کثیر دولت دلوا دی۔ آصف الدولہ انگریزوں کے ممنونِ احسان ہوئے اور اخلاقاً ان سے دوستی نبھانے اور مختلف طریقوں سے ان کی مدد کرنے پر مجبور ہو گئے۔
آصف الدولہ کے بعد سعادت علی خاں پر بھی یہی حربہ کامیابی کے ساتھ آزمایا گیا۔ آصف الدولہ کی وفات کے بعد اُن کے بیٹے وزیر علی نے مسندِ نیابت پر بیٹھنے کا قصد کیا۔ لیکن انگریزوں نے اُن کو ہٹا کر(۲) شجاع الدولہ کے بیٹے سعادت علی خاں کو مسند نشیں کیا۔ یوں سعادت علی خاں کا اقتدار بھی انگریزوں کی بدولت قرار پایا اور خود ایک جوہرِ قابل ہونے کے باوجود انھیں انگریزوں کی مرضی کا پابند ہونا پڑا۔
سعادت علی خاں کے بیٹے غازی الدین حیدر نے نیابت ملنے کے بعد ۱۸۱۸ء میں "ابوالمظفر، معزالدین، شاہِ زمن، غازی الدین حیدر، بادشاہ غازی" کا خطاب اختیار کر کے اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ اب اودھ صوبے سے ملک بن گیا اور مغلیہ سلطنت سے اس کا برائے نام تعلّق بھی ختم ہو گیا۔ اِس انقلاب کے پسِ پردہ بھی انگریزوں کی حکمت عملی تھی اور یہ اقدام انھیں کے تعاون سے کامیاب ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اودھ کا ہر بادشاہ شاہِ شطرنج تھا۔ ملک اودھ میں انگریزوں کی حیثیت شریکِ غالب کی ہو گئی اور اب سیاسی اور ملکی معاملات کا کیا ذکر، بڑی حد تک اپنے نجی معاملات میں بھی اودھ کا بادشاہ ان کی دخل اندازیاں روکنے پر قادر نہ رہا۔
انگریزوں کی ریشہ دوانیوں سے قطع نظر، اودھ کے نظامِ سلطنت میں خود بھی کمزوریاں تھیں۔ وقتاً فوقتاً ایسے عمّال بر سرِ اقتدار آ جاتے تھے جو اپنے عہدے کے اہل نہیں ہوتے تھے اور محض سفارشوں اور تعلقات کے بل پر منصب حاصل کر کے نظم و نسق کو زیر و زبر کرتے رہتے تھے۔ مثلاً مرزا رجب علی بیگ سرُور نے امجد علی شاہ کے عہدِ سلطنت کی تصویر یوں کھینچی ہے :
حکومت ظنّی، نیا طور ہوا۔ اس دورے میں رنڈیوں(۳) کا دور ہوا قوّت ممیّزہ شہر سے اُڑ گئی۔ کسی کی ماں نے رسالہ نہ چھوڑا، بیٹا رسالدار ہوا، کسی کی بہن نے پلٹن سے منھ نہ موڑا، سالا سالار ہوا غیرت نے منھ پھیر لیا۔ ایک کو دوسرے سے کینہ ہوا یہ رسمِ قدیم تھی جس کا جو عہدہ ہوتا وہی پاتا تھا، لیئق کار آزمودہ ڈھونڈھا جاتا تھا اب تو یہ خلطِ مبحث ہوا۔ خیّاط کو نیزہ بازوں کا سالار کیا، جمع دیکھ کر بہ صد پریشانی جمعدار کیا۔ جو چھچھوندر(۴) چھوڑنے میں جی چھوڑتے تھے ، چنگاری سمجھ کے جگنو سے منھ موڑتے تھے ، اب جو ایک آدھ پھلجھڑی سی، پٹاخا تیار کر کے محل میں چھوڑی ]یعنی کوئی حسین لڑکی بادشاہ کے حرم میں داخل کی[ آتش خانے کے داروغہ ہوئے اگر پیشِ خدمت ہمشیر ہے تو برادرِ عزیز حضرت ]بادشاہ[ کا مشیر ہے۔ خالہ خلوت میں پائین نشین، بھانجا جلوت میں صدرِ امین۔ اُخت سرکار میں، اَخی اخبار میں، اور جس کی اندر جوان لڑکی ہے اس کی باہر سواری بڑے ہُلّڑ کی ہے۔ وگر حضور رس نانی ہے تو کاٹھیاواڑ کی گھوڑی زیرِ ران ہے ، فرنگی محل کی گلیوں میں گرم عنانی ہے اور جس کی رشتے دار استانی ہے وہ سب پر سبق لے گیا جہان کے فیصلے گھر بیٹھے ہوتے ہیں ہر دم بر زبان یہ سخن ہے ، "مالک الملک روسیاہ کی بہن ہے !(۵)
آگے بڑھ کے لکھتے ہیں:
مملکتِ سلطانی کا جو حال ہے ، بد عملی سے مسافروں کو راہ چلنا محال ہے۔ دن دیے بستیوں میں ڈاکے پڑتے ہیں۔ ملک اجاڑ ہوتا ہے چکلہ دار اپنا گھر بھرتے ہیں۔ گاؤں خالی ہو گئے ، جنگل میں زمین دار مرتے ہیں۔ قبولیت میں کچھ لکھا، پٹّے میں کچھ اور ہے مزروع زمین بے کار پڑی ہے۔ اوسر بنجر کا ایک بھاؤ ہے رعیّت کا گلا ہے اور چھُری کند ہے ، بد معالی تیز اور قلم رو میں اندھا دھند ہے۔(۶)
عدالتوں کا حال بھی دیکھ لیجیے :
عدالتوں میں سب سے زیادہ اندھیر ہے داروغہ خود متلاشی ہے کہ کون سا مقدمے والا راشی ہے۔ سِرّاً جہراً رشوت کا پیام ہوتا ہے۔ اس امید پر فرشی سلام ہوتا ہے کچہری کا یہ دستورالعمل ہے ، دیتے بنے تو بگڑا مقدمہ سَجل ہے۔(۷)