گذشتہ لکھنؤکی شادیاں(شان اودھ) قسط 1

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
گذشتہ لکھنؤ کی شادیاں(شان اودھ) 1​
نئے گھروں میں جب پیام جاتا ہے تو اکثر لڑکا اپنے چند عزیزوں اور مخصوص دوستوں کے ساتھ بر دکھاوا کے نام سے دلہن والوں کے ہاں بلایا اور ایسی جگہ بٹھایا جاتا ہے جہاں سے عورتیں بھی اسے تاک جھانک کے دیکھ سکیں۔ گھر والے مرد جمع ہو کےاس سے ملتے اور حسب حیثیت خاطرمدارات کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے کی ماں بہن ایک مقررہ تاریخ پر دلہن کے گھر جاتی اور مٹھائی کھلانے یا کسی اور بہانے سے دلہن کا چہرہ دیکھتی ہیں جوعام طور پر ان سے چھپائی اور پردے میں رکھی جاتی ہے مگر بلبعض شریف گھر والوں میں دل نہیں بلایا جاتا بلکہ خاندان کے مرد کسی نہ کسی عنوان سے لڑکے کی لا علمی میں اسے دیکھتے اس کا حال دریافت کر لیتے ہیں اور یوں ہی لڑکی کی حالت کا بھی پتا لگایا جاتا ہے ان طریقوں سے لڑکے والے لڑکی کو لڑکی والے لڑکے کو پسند کرلیتے ہیں۔ جس میں صورت شکل ،حالت وحیثیت کے علاوہ شرافت خاندان کو بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے، تو منگنی کی رسم عمل میں آتی ہے جس میں دولہا کی طرف سے مٹھائی جاتی ہے، پھولوں کا گہنا جاتا ہے اور ایک سونے کی انگوٹھی جاتی ہے جسے بعض گھرانوں میں دولہا کے عزیز عورتیں خود لے جاکے پنھاتی ہیں۔ منگنی کی رسم ادا ہو جانے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ نسبت ٹہر گئی اور اس وقت سے دونوں جانب معمول ہو جاتا ہے کہ جب کوئی تقریب ہو تو سمدھیانے میں خاص اہتمام سے حصےجائیں اور جو حصہ لڑکے یا لڑکی کے لیے ہوتا ہے وہ بڑا ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مشین و باوقعت بنا دیا جاتا ہے ۔اسی اثنا میں اگر محرم آگیا تو جو دونوں جانب سے اہتمام اور تکلف کے ساتھ گوٹا الائچیاں چکنی ڈلی اور اعلی درجے کے کارچوبی اورریشمی بٹوے سمدھیا نےبھیجے جاتے ہیں۔
برا ت:یعنی نکاح کے دن سے چند روز پہلے دلہن ما نجھے میں بٹھا دی جاتی ہے کہ جبکہ اسے مانجھےکا زرد جوڑا پہنایا جاتا ہے اس وقت سے روز اس کے بٹنا لگتا ہے اور یہ اوبجزخاص ضرورتوں کے پردے سے باہر نہیں نکلتی۔ جس دن وہ مانجھےبیٹھتی ہے اسی روز رسم ہے کہ اس کا جھوٹا بٹنا ا،س کی جھوٹی مہندی، مصری کا کوزہ اور بہت سی پینڈیا ایک شاندار جلوس کے ساتھ بھیجی جاتی ہیں جو پنڈیاں خاص دولہے کے لئے ہوتی ہیں اور جداگانہ خانوں میں ممتاز محسوس ہوتی ہے انہیں کے ساتھ دولھا کیلئے امانجھے کا زرد بھاری جوڑا ایک رنگی ہوئی منقش چوکی اور لوٹا کٹورا بھی ہوتا ہے لوٹا کٹورا چوکی کے پڑناڑےسے کس کے باندھ دیے جاتے ہیں اور جلوس میں یہ چیزیں اس ترتیب سے ہوتی ہیں کہ باجے والوں اور جلوس کے بعد سب کے آگے چوکی ہوتی ہے اس کے بعد خوانوں میں دولہا کی مخصوص چیزیں ہوتی ہیں جو عموما کچے طباقوں میں رکھی ہوتی ہے اور ان کے بعد بہت سے خوانوں میں عام قسم کی پنڈیاں ہوتی ہیں دلہن کی چھوٹی بہنیں اور ڈومنیاں ،فینس اور ڈولیوں پر سوار ہو کے جاتی ہیں ،دولہا کے گھر پہنچ کر ایک پینڈی اور مصری کے ساتھ ساتھ ٹکڑے کرکے کو سب ٹکڑے دولہا کو ڈھکا ڈھکا کر کھلاتی ہیں۔اس رسم کی نسبت قیاس کیا جاتا ہے کہ خالص ہندی رسمی ہےجس کو نہ عرب سے تعلق ہے نہ عجم سے اس لیے مانجھے اور اس کے ساتھ کنگنے کی ابتدا ہندوستان کے سوا اور کسی جگہ نہیں ثابت ہوتی۔
مانجھے کے دس بارہ روز سے زیادہ زمانہ گزرنے کے بعد اسی شان و شوکت اور جلوس کے ساتھ دولہا کے گھر سے دلہن کے ہاں سانچق جاتی ہے سانچے ترکی لفظ اور ترکی رسم ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مغل اس رسم کو اپنے ساتھ ہندوستان میں لائے اس میں دولہا دلہن کے لئے چڑھاوے کا جوڑا جاتا ہے جو عموما بہت بھاری اور کارچوبی ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ دلہن کے لیے سنہری مقیش کا سہرا چاندی کا چھلہ ،سونے کی انگوٹھی،دو یک اور چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ زیور ہوتا ہے جس کو اپہناکر وہ رخصت کی جائے گی۔ اور پھولوں کا کہنا ہوتا ہے جوڑے کے ساتھ شکر کی نقل،شکر کے قرص، اور میواجات جاتا ہے، سانچق کے لئے خاص اہتمام سے منقش اور رنگین گھڑےتیار کرائے جاتے ہیں۔ پھر بانس اور کاغذ کے رنگارنگ تختوں میں چار چار گھڑےلگا کے چوگھڑے بنا دیئے جاتے ہیں اور دولت مندی و امارت کی شان کے مناسب گھڑوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور اکثر سو سو دو دو سو کے شمار کو پہنچ جاتے ہیں ۔گران کے اندر چند گنتی کے نقلوں یا پاؤ آدھ سیر شکرکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے منہگھڑوں پر عموما سوہے کا کپڑاناڑے سے باندھا ہوتا ہے۔ اور جلوس میں ان سب گھڑوںکے آگے چاندی کی ایک دہی کی مٹکی رہتی ہے۔ جس میں دہی بھرا ہوتا ہے اور اس کے منہ پر بھی سوہا ناڑے س باندھ دیا جاتا ہے ۔اور اس کے گلے میں مبارک فالی کے لئے دو ایک مچھلیاں بھی بند ھی ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں جب دلہن کے گھر پہنچتی ہیں تو ایک اعزہ واقارب میں تقسیم ہوتی ہیں۔
سانچق کے دوسرے ہی روز سب کو دلہن کے گھر سے بڑے جلوس اور روشنی کے ساتھ مہندی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ غالبا یا عربی الاصل رسم ہے ۔اس میں دراصل دلہن والوں کی طرف سے دولہے کے لئے وہ جوڑا جاتا ہے جسے پہن کر وہ بیاہنے کو آئے گا۔ اس جوڑے میں علی العموم قدیم عہد مغلیہ کے درباری وضع کی خلعت، شملہ ،جیغہ ،سرپیچ اور مرصع کلغی ہوتی ہے۔ نصیب ہوا تو اس کے ساتھ موتیوں کا ہار بھی بھیجا جاتا ہے۔ مذکورہ چیزوں کے علاوہ ریشمی پاجامہ اور جوتا وغیرہ معمولی چیزیں بھی ہوتی ہیں ۔اکثر ایک طلائی انگوٹھی بھی جاتی ہے۔ اس جوڑے کے ساتھ دولہا کے لگانے کے لیے پسی بھی تیار مہدی بھی بھیجی جاتی ہے ۔جس کو بہت سے طباق میں پھیلا کے رکھتے ہیں اور اس میں سبز سرخ شمعوں کو نصب کرکے روشن کر دیتے ہیں ۔اس طرح کے مہندی کے بہت سے طبسق روشن ہوتے ہیں۔ جو مہندی کے جلوس میں ایک خاص شان اور آن پان پیدا کردیتے ہیں۔ مہندی کے ان روشن طباقوں کے ساتھ سو پچاس طباقوں میں ملیدہ بھی ہوتا ہے جو خرموں کو کوٹ کے بنایا جاتا ہے۔ اور جیسی حیثیت ہوتی ہے اسی کے مناسب کثرت سے بھیجا جاتا ہے۔ اس موقع پر جوڑے کے ساتھ دولہا کے لئے سونے کا سہرا بھی بھیجا جاتا ہے۔ مہندی کے دوسرے دن دلہا کی طرف سے برات جاتی ہے برا ت جانے کا اگلا ضروری وقت رات ہے۔ یعنی تین بجے سب کا تھا لیکن اب یہ وقت اکثر چھوٹتاجاتا ہے اور بجائے پہر رات رہے کے، دن چڑھے جانے لگی ہے۔ اس تاخیر کی ابتدا واجد علی شاہ آخری بادشاہ اودھ کے زمانے سے ہوئی ۔ان کی برات جا نے میں دیر ہوگئی اور دن نکل آیا تھا۔ لوگوں نے آسانی اور روشنی کے سامان کی تخفیف کے خیال سےاسی وقت کو اختیار کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ اب عموما ابتدا ئے روز سےبرا تجاتی ہے اور دوپہر کو عقد ہوجاتا ہے۔
برات میں حتی الامکان پورا جلوس جمع کیا جاتا ہے ۔مروجہ 3 باجے یعنی پرانا ڈھول تاشا، اور جھانجھیں،روشن چوکی اور ارگن باجا ضرور ہوتے ہیں ۔اس سے ترقی ہوئی تو گھوڑوں پر نوبت نقارہ جھنڈیاں ہاتھی اونٹ گھوڑے اور اس سے بھی زیادہ حوصلہ ہوا تو انہیں باجوں کے متعدد گروہبڑھا دیے جاتے ہیں ۔دولہا وہی جوڑا پہن کر جو مہندی کے ساتھ آیا تھا اور سہرا باندھ کےعلی العموم گھوڑے پر اور اعلی طبقے کے امرا کے یہاں ہاتھی پر سوار ہوتے سارے جلوس اور باجوں کے پیچھے آہستہ آہستہ زینت وقار سے روانہ ہوتے ہیں ۔"نوشہ "یعنی نیا بادشاہ کہتے ہیں۔ اور خیال بھی یہی ہے کہ دولھاایک دن کیلئے بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔مگر غور طلب امر یہ ہےکہ جب دولھا کو بادشاہ بناتے ہیں تو اس کے سر پر شملہ کیوں ہوتا ہے ؟تاج کیوں نہیں پنہاتے؟اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے ہندوستان میں مسلمان سریر آرا تاج نہیں پہنتے تھے بلکہ سب کے سروں پر کلغی دار شملے ہوتے تھے۔ انگریزوں نے غازی الدین حیدر کے زمانے سے شاہان اودھ کو تاج بنا دیا مگر وطنی سوسائٹی نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور اپنے بادشاہوں کی وضع وہی رکھی جو پرانی تھی اور اسی نمونے کا بادشاہ اپنے نو شاہوں کو بناتے ہیں۔ دولہا کے پیچھے فینسوں اور ڈولیوں میں سوار دو لھا کی ماں،بہنیں اور عزیز و قریب عورتوں اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ چلتے وقت گھر میں جو صدہا رسمیں اور ٹوٹکے ہوتے ہیں، بہت ہیں۔ اور لغوہونے کی وجہ سے زیادہ تر قابل لحاظ بھی نہیں۔
اس شان سے جب برات دلہن کے گھر پہنچتی ہے تو عموما اس وقت دلہن نہہلائی جا چکی ہو تی ہےہے ۔اور اس کے غسل کا پانی باہر لا کے دولہا کی سواری کے گھوڑے یا ہاتھی کے پاؤں کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے ۔۔دلہن کو یہ غسل 7 دن کے باسی ٹھنڈے پانی سے دیا جاتا ہے جو کلس کا پانی کہلاتا ہے۔ اور جاڑوں کے موسم میں غریب دلہن کے لیے اس پانی میں نہانا قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ چوکی پر پان بچھا کے وہ نہلائی جاتی ہے اور یہی پان اس 21 پان والے بیڑے میں شامل ہوتے ہیں جو سب سے پہلے سسرال میں کھلایا جاتا ہے۔
اب دولہا سواری سے اتر کے زمانے میں جاتا ہے وہاں رستی ننگھائی جاتی ہے اور طرح طرح کی بیسویں اور رسمیں عمل میں آتی ہیں جو ہر گروہ اور ہر خاندان میں جدا جدا اور عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ یہ وقت علی العموم وہ ہوتا ہے جب دلہن نہا تو چکی ہوتی ہے مگر ابھی کپڑے نہیں بنائے گئے ہوتے ہیں وہ ایک چادر میں لپٹی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ پر مصری رکھ کے دولہا کو کھلائی جاتی ہے ۔جس میں سالی یا زندہ دل عورتیں اور ڈومنیاں قیدیں بڑھا بڑھا کے دولھا کے لیے ہر کام مشکل کر دیتی ہیں۔
شادی کی یہ پہلی ہفت خواں طے کرکے دولہا باہر مردان میں آتا ہے جہاں بزم نشاط مرتب ہوتی ہے، آعزہ واحباب پرتکلف کپڑے پہنے قرینے سے صاف ستھری دری ،چاندنی اور قالینوں کے فرش پر بیٹھے ہوتے ہیں اور سامنے مردانہ یا زنانہ طائفہ کھڑا مجراکرتا ہوتا ہے۔ صدر مقام پر دولہا کیلئے زرنگار مسند تکیہ ہوتا ہے۔ جس پر دولھا کے ہم عمرلڑکے ہوتے ہیں۔ تاکہ ان کے ساتھ آزادی سے باتیں کر سکیں۔ دولہا کے لئے لازم ہے کہ اپنے ہر وضع، ہر حرکت سے شرمیلا پن ظاہر کرے۔ وہ نہ تو بے تکلف باتیں کر سکتا ہے نہ کوئی اس کی آواز سن سکتا ہے نہ کسی سے وہ بے تکلفی سے مل جل سکتا ہے ۔منہ پر سہرا ہوتا ہے اور پھر سونے کے سہرے پر پھولوں کا سہرا باندھ کے اس قابل نہیں رکھا جاتا کہ کوئی بغیر کوشش اور دیر تک کی محنت کے اس کی صورت کو دیکھ سکے۔ محفل نشاط میں بیٹھنے بلکہ اکثر عقد ہوجانے کے بعد سہرااٹھا کے شملہ میں لپیٹ دیا جاتا ہے ۔مگر ابھی اس کے لئے لازم ہے کہ ایک ہاتھ سے منہ پر رومال رکھے رہے جو اظہار شرم کی ایک علامت ہے اور اب چہرہ کھولنے کے بعد بھی اس رومال کی وجہ سے اس کی صورت دیکھنے کے شائقین کو بغیر دیر تک اس فکر میں لگے رہنے کے کامیابی نہیں ہو سکتی۔
دولہا کے باہر آ کر تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد عقد نکاح کا انتظام ہوتا ہے۔ جس کے لیے سب بکھڑا کیا گیا ہے۔ اگر شیعہ خاندانوں کی شادی ہے تو دو مجتہد صاحب تشریف لاتے ہیں۔ ایک لڑکے کے نائب اور دوسرے لڑکی کے نائب ووکیل بن کے۔ لڑکی والے خود پردے کے پاس جا کے عادل شاہدو ں سے تصدیق فرما کے لڑکی کی شرعی مختاری حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد دونوں دولہا کے سامنے بیٹھ کے دولہن کی جانب سےقرأۃ وصحت مخارج سےایجاب و قبول کے صیغے ادا کرتے ہیں۔ اور اگر خاندان سنی ہے تو کوئی محترم مولوی صاحب اگر کوئی کانوں ہوا تو وہاں کے مقرر خاندانی قاضی صاحب آکے نکاح پڑھاتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے عزیزوں میں سےکوئی صاحب اس کے وکیل اور مختار بن کے آتے ہیں اور وہ شاہدوں کو پیش کرتے ہیں۔کہ فلاں لڑکی نے مجھے اپنا وکیل ان دونوں شاہدوں کے سامنے مقرر کیا اور مجھے اپنے عقد کا اختیار دیا۔ قاضی صاحب ان شاہدوں پر اطمینان کرکے اور مقدار مہر کو وکیل صاحب سے دریافت کرکے دولہا کو کلمہ شہادت پڑھا تے ہیں۔ مسلمان کے لئے جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اس کا عربی میں اقرار کراتے اور اس کے بعد تین بار اس سے یہ کہے کہ فلاں لڑکی کے ساتھ اتنے مہر پر ہم نے تمہارا عقد نکاح کردیا دولہا سے اقرار کرتے ہیں کہ" میں نے قبول کیا"اس کے بعد ایک دعائیہ خطبہ پڑھ کےوگوں سے کہتے ہیں" مبارک" ساتھ ہی مبارک سلامت کا غل ہوتا ہے ۔ نقل اور چھارے جو سینیوں میں بھرےسامنے رکھے ہوتے ہیں ان کو حاضرین میں لٹا دیتے ہیں۔
مجتہد یا مولوی صاحب کے آنے کے وقت گانا موقوف ہو جاتا ہے اور بعد عقد مولوی صاحب چلے جاتے ہیں تو پھر رقص و سرود کی محفل گرم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد دولہا پھر اندر زنانے میں بلایا جاتا ہے۔ عورتوں کی دنیا میں رسوم اور شرائط عقد کے اصلی لوازم کے بجالانے کا خاص یہی وقت ہے ۔زنانے میں اس موقع پر رسوم نکاح کے ضمن میں دولہا کے ساتھ ہر قسم کا تمسخر کیا جاتا ہے اور اس کے پریشان کرنے میں کوئی کارروائی اٹھائیں نہیں رکھی جاتی۔ ان تمام رسوم کی بجا لانے والی سالی اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ درحقیقت ناکتخدا جوانوں کے لئے شادی ایک پراسرار لاج (فرامشن خانہ) ہے جس میں بیسیوں ایسے مراحل پیش آتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ دولہن اوڑھ لپیٹ کے ایک غیر متحرک گٹھری کی طرح اس کے سامنے لا کے رکھ دی جاتی ہے ۔اور ابھی تک اس سے رخصتی کا جوڑا نہیں پہنایا گیا ہوتا ہے۔ لاتے وقت کوشش کی جاتی ہے کہ پہلی آمد میں دلہن کی ایک لات دولہا کے پڑ جائے۔ پھر تو نے گائے جاتے ہیں۔ دولہا سے بیوی کی غلامی، ذلیل ترین غلامی اور خدا جانے کیسے کیسے خدمت بجا لانے کا اقرار کرایا اور وعدہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آرسی مصحف کی رسم دہ ہوتی ہے ۔اس کے لیے دولہا دلہن کے درمیان رحل پر قرآن شریف اور اس پر آئینہ رکھا جاتا ہے اور اس آئینے میں دولہا دلہن کا پہلا جلوہ دکھایا جاتا ہے ۔مگر لازم ہے کہ چہرہ دیکھنے سے پہلے دولہا سورہ اخلاص پڑھ لے ا۔س جلوے میں دلھن آنکھ بند کیے رہتی ہے۔عورتیں اسے آنکھ کھولنے کے لئے طرح طرح کی التجائیں کراتی ہیں اور اسی سلسلے میں ہر قسم کی اطاعت و غلامی کا اس سےاقرار کرا لیتی ہیں۔ بڑی مشکلوں اور خوشامد وں کے بعد دلہن آنکھ کھول کے ایک نظردیکھتی پھر آنکھ بند کرلیتی ہے اور اسی پر رسوم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اب دولھا باہررخصت کردیا جاتا ہے تو دلہن کو کپڑے پہنائے جائیں، زیور پہنایا جائیں ۔بنائیں بنائی سنواری اور سسرال جانے کے لئے تیاری کی جائے۔ اس وقت ڈومنیاں بابل یعنی رخصتی کا نغمہ جاں گداز گاتی ہیں اور خوشی کا گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے۔ جب دلہن بنا چنا کے تیاری کر دی جاتی ہے اس وقت میکے کے تمام عزیز دوست اور سب ملنے والے روروکے دلہن کو رخصت کرتے اور جو کچھ توفیق ہو روپیہ یا زیور سے دیتے ہیں۔
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(2)
اسی اثنا میں جہیز کا سامان نکالا جاتا ہے. اسکی فرد لا کے دولہا والوں کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے. جس میں وہ تمام زیور ,جوڑے,ظروف، پلنگ اور چوکیاں اور جو کچھ چیزیں دی جائیں درج ہوتی ہیں۔ تمام چیزوں کی فہرست سے مقابلہ کر لیا جاتا ہے اور اب دلھن رخصت ہونے کے لیے بالکل تیار ہوتی ہے۔ اس کا لباس کوئی بھاری کام دار جوڑا نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک سو ہے یعنی ٹول پر کی تنزیب کا کرتا اور سادہ ریشمی پاجامہ پہنے ہوتی ہے۔ اور ان میں سادگی کا کس قدر لحاظ رہتا ہے کہ گوٹھ تک نہیں لگائی جاتی۔ اور ناڑے کا ازاربند پڑا ہوتا ہے ا۔س کے سنگھار اور کپڑے پنھانے کے وقت ڈومنیاں "بابل" یعنی میںکا چھوٹنے کا راگ گاتی رہتی ہیں ۔جو نہایت ہی پر حسرت اور جگر گداز ہوتا ہے۔ ایک عجیب رنج و الم کا سماں بندھ جاتا ہے۔ ہر شخص ملول وحزیں ہوتا ہے۔ تمام اعزہ، ملنے والے اور خاندان کے دوست ،احباب ،مل مل کے اور سوزوگداز کے الفاظ کے ساتھ لڑکی کو رخصت کرتے ہیں ۔وہ خود زاروقطار روتی ہوئی ہے اور فینس ڈیوڑھی میں لگا دی جاتی ہے۔ اس وقت دولہا اندر بلایا جاتا ہے کہ وہ آکے اپنی دلھن کو لے جائے۔وہ آتا اور دلھن کو اپنی گود میں اٹھا کے فینس میں بٹھا دیتا ہے۔ رخصت سے پہلے زنا نے میں دولہا کو سلام کرائی دی جاتی ہے۔ اور تمام اقارب ،دوست ،احباب بقدر حیثیت دیتے ہیں۔ اسی وقت باہر شربت پلائیں ہوتی ہے۔ جس میں شربت کا کنٹر اور گلاس فقط رسم کے طور پر لایا جاتا ہے۔ پیتا کوئی نہیں، مگر تمام حاضرین محفل شربت کی تھالی میں حسب حیثیت و توفیق روپیہ ڈالتے ہیں۔ اور اس طرح اندر باہر جو کچھ روپیہ سلام کرائی اور شربت پلائی میں جمع ہوتا ہے دولہا کو دے دیا جاتا ہے۔ اب برات اسی اندازور اسی شان و شوکت سے دولہا کے گھر کی طرف واپس روانہ ہوتی ہے۔ واپسی کے اس جلوس میں جواضافہ ہوتا ہے اس میں سب سے پہلے دلہن کی فینس جو دولہا کے گھوڑے کے آگے رہتی ہے اور نہایت ہی ممتاز ہوتی ہے۔ پر تکلف چھٹکا پڑا ہوتا ہے دونوں جانب کہاریاں جھٹکے کو پکڑے ہوئے ساتھ رہتی ہیں ۔اردگرد دولہا کے ملازموں کا مخصوص لوگوں کا ہجوم رہتا ہے۔ اور دولہا کے بعد پھر اور سب ساتھ والی عورتوں کی فینسیں رہتی ہیں ۔سب سے زیادہ نمایاں چیز اس جلوس میں جہیز کا سامان ہوتا ہے ۔یہ سب سامان سارے جلوس اور باجے والوں کے پیچھے اور دلہن کی فینس کے آگے اس ترتیب سے جاتا ہے کہ تانبے کا ایک برتن ایک ایک چنگیزی رکھا ہوتا ہے اور ایک مزدور کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔چینی اور شیشے کے ظروف کشتیوں میں لگے ہوتے ہیں۔ ان کے بعد صندوق وغیرہ ہوتے ہیں ۔جن میں دولہا کے جوڑے ہوتے ہیں ان کے بعد پلنگ ہوتا ہے جس میں ریشمی تو سک،لحاف تکیے،چادر، سب سامان تیار موجود ہوتا ہے۔ اور بچھونا ریشمی ڈوریوں سے پایوں میں بندھا ہوتا ہے اور ڈوریوں کے دونوں سروں پر خاص وضع کی نقرئی گتھے لٹکے ہوتے ہیں۔ لڑکی کو معاشرت کا تمام سامان دیا جاتا ہے آئینہ، کنگھا ،سنگھار کی ضروری چیزیں تیل،عطر اور اگر اسطاعت ہو تو چاندی کا پاندان خاصدان، لوٹا، کٹورا اور چیزیں دی جاتی ہیں ۔بہرحال یہ سب سامان باجوں اور برات کے جلوس اور دولھا کے درمیان میں رہتا ہے اور کھانے کی دیگیں ہوتی ہیں۔سب کے پیچھے ڈولیوں پر کھانے کی دیغیں ہوتی ہیں یہ پہوڑے کا کھانا کھلاتا ہے۔ جس کو عموما لڑکی والے دولہا کو دیتے ہیں۔ اسی شان سے جب برات دولھا کےگھر پہنچتی ہے تو خوشی کے شادیا نے بجتے ہیں ۔ڈومنیاں پہلے سے پہنچ کر بنڑے گانا شروع کرتی ہیں ں یا پہلے سے پہلے گانا شروع کرت ہیں جو خاص شادی کے گیت ہیں ۔ اور اس مبارک سلامت کے زور شور میں دلہن اتاری جاتی ہے۔ بعض خاندانوں میں یہاں بھی اسے دولہا ہی گود میں لے کر اتارتا ہے ۔اور بعض گھرانوں میں دولہا کی ماں ،بہنیں آ کے اتارتی ہیں۔ اندر اسے لے جا کر بٹھاتے ہیں ۔اس کے دامن پر نماز شکرانہ پڑھائی جاتی ہے۔دلھن کے پاوں دھلا کے،پانی مکان کے چاروں طرف ڈال دیا جا تاہے ۔ رونمائی ہوتی ہے، جس میں تمام عورتیں اور عزیز مرد جی کھول کھول کے روپیا یس زیور دیتے ہیں اور منھ کھول کھول کے اس کی صورت دیکھتے ہیں۔ اس نئےگھر میں یہ پہلی رات دلہن کے لیے نہایت سخت پابندیوں اور شرمیلے پن سے بسر کرنے کی رات ہوتی ہے۔ نہ وہ کسی سے بول سکتی ہے نہ باتیں کر سکتی ہے، نہ کسی کو آنکھ بھر کے دیکھ سکتی ہے سوا میکے کے ساتھ والیوں کے اور کسی سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ اور اسی مصیبت سے بچانے کے لئے صبح ہوتے ہیں اس کا بھائی یا اور کوئی رشتہ دار چوتھی لینے کو آ پہنچتا ہے اور جہاں تک بنتا ہے سویرے ہی سوار کرا لے جاتا ہے۔ اس مرتبہ بھی دلہن اگرچہ امتیاز اور شان سے جاتی ہے مگر جلوس اور باجے کی ضرورت نہیں۔ دولہا بھی دلہن کے ساتھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ سات طرح کی ترکاریاں اور سات قسم کی مٹھائیاں جاتی ہیں۔ دن گزر کے، اسی رات کو دلہن کے گھر میں چوتھی کھیلی جاتی ہے۔ دلہن کو وہ" بر"کا جوڑا اتار کے چڑھاوے کا جوڑا بنھایا جاتا ہے جو سب جوڑوں سے زیادہ بھاری کام دار اور نہایت ہی پرتکلف ہوتا ہے۔ یہ جوڑا پہنا کے اس کا خوب بناؤ چناؤ کیا جاتا ہے۔ دولھا کی طرف سے اس کی بہنیں اور رشتہ دار عورتیں بھی آجاتی ہیں۔ اور اس مجمع میں دولہا دلہن مٹھائی سے اور دولہا کیساتھ والیاں اور دلہن والیاں ترکاری اور پھولوں کی چھڑیوں سے باہم لڑتی ہیں یعنی مٹھائی اور ترکاریاں ایک دوسرے سے کے کھینچ کھینچ کے مارتی اور چھڑیوں کے ہاتھ رسید کرتی ہیں۔ کبھی دل لگی دل لگی میں لڑائی بھی تیز ہو جاتی ہے اور بعض عورتیں خفیف سی چوٹ بھی کھا جاتی ہیں۔ چوتھی کے دو چار روز بعد پھر دلہن دولہا کے گھر میں آتی ہے اور اس کے علی العموم چار چالے ہوا کرتے ہیں ۔چالے کا لفظ چال اور چلنے سے نکلا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ دلہن اپنی سسرال سے بلائے جاتی ہے مگر یہ بلانا خود اس کے میکے میں نہیں بلکہ میکےوالیوں میں ہوتا ہے۔ یعنی اس کی خالائیں ،پھوپھیاں، مما نیا ں ہمت کر کے باری باری اسے اپنے ہاں بلا تی ہیں جہاں وہ مع دولھا کے جاتی ہے اور اس نئے جوڑے کے رکھ رکھاؤ کے لیے خاص اہتمام اور انتظام کیا جاتا ہے۔ فقط ایک رات دن دولہا دلہن مہمان رہتے ہیں اور رخصت کرتے وقت انہیں جوڑا سلام کرائی اور زیور وغیرہ بقرد ہمت واستطاعت دیے جاتے ہیں۔ یہ تھی لکھنؤ والوں کی شادی جس کی بہت سی رسموں کو چھوڑ کر اس کا ایک اجمالی خاکہ ناظرین دلگداز کو دکھا دیا گیا ۔ دیہات والوں کی شادی کا طریقہ بہ جزعقد نکاح کے، اور تمام باتوں میں بدلہ ہوا ہے۔ وہاں بھی مانجھا ہوتا ہے مگر دولہا کے لئے مانجھے کا ذرد جوڑا اس کی بہنیں اور عزیز عورتیں لاتی ہیں اور۔ دلہن کے گھر سے دھوم دھام اور جلوس اور باجے کے ساتھ مانجھا نہیں آتا نہیں ۔نہ دولھا کے یہاں سے سانچق آتی ہے۔ اور نہ دلہن کے گھر سے مہندی آتی ہے۔ بلکہ سانچق اور مہندی کا مقصد برات ہی کے دن ایک اور طریقے سے پورا ہو جاتا ہے۔ اور یہ کی برات جب دلہن کے وہاں پہنچتی ہے تو اس کے مکان سے ذرا فاصلے پر ٹھہر جاتی ہے۔ وہاں سے پہلے بجائے سانچق کے "بری" کے نام سے دلہن کا جوڑا اور اس کے ساتھ اور بہت سے جوڑے اور سہاگ کی چیزیں جو ضروری سمجھی جاتی ہیں کچھ شکر، کچھ کھیلیں خوانوں میں لگا کے باجے کے ساتھ دلہن کے دروازے پر بھیجی جاتی ہیں۔ دولہا کے اعزہ واحباب ساتھ جاتے ہیں جو ان سب چیزوں کو دلہن والوں کو علانیہ دکھاتے اور ان کے سپرد کرتے، شربت پینے کے بعد واپس آتے ہیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد اسی طریقے سے دلہن کی طرف سے بری آتی ہے ،جس میں دولھے کا جوڑا ہوتا ہے ۔یہ" بری "دیہاتیوں میں مہندی کی قائم مقام ہے۔ اس کے بعد وہ جوڑا پہن کے جس میں جامہ، نیمہ،پگڑی ،مقنع،سھرا ، پھولوں کی بدھیاں اور جوتا وغیرہ ہوتا ہے روانہ ہوتا ہے۔اب برات دلہن کے دروازے پر جاتی اور اس مقام پر ٹھہرتی ہے جو محفل نکاح کے لیے منتخب کیا گیا ہو۔ یہاں رات بھر نغمہ و سرود اور ناچ گانے کی محفل گرم رہتی ہے۔ بجز اس وقت کہ جب قاضی صاحب آ کے نکاح پڑھائیں۔ نکاح کا وہی طریقہ ہے جو شہر والوں میں بیان کیا گیا ہے۔ عقد کے بعد لڑکی والے برات کا کھانا دیتے ہیں۔ شہر میں بجزبہوڑے کے کھانے کے برات کو کھانا دینا لازمی نہیں ہے ۔ بلکہ دولہا خود کھلا پلا کے لے جاتا ہے۔ مگر دیہات میں لڑکی والوں کا اہم ترین فرض برات کو کھلانا ہے،جس میں ذرا بھی کمی رہ جائے تو ان کے خیال میں برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔ یہاں کھانا پورا تورا ہوتا ہے ۔جس میں پلاؤ، زردہ ،قورمہ، خمیری روٹیاں ،شیرمال لازم ہیں۔اور ہر ادنا و اعلا کو بلا استثناء اور امتیاز پورا تورا دیا جاتا ہے ۔کھانا لیتے وقت بے شرمی سے چھوٹی چیونٹی کے لیے کھانا مانگتے ہیں۔ گھوڑوں اور بیلوں کے لیے دانہ چارہ ضرورت سے بہت زیادہ طلب کرتے ہیں اور لڑکی والوں پر فرض ہے کہ زبان سے نہیں نہ نکلے کسی چیز کے دینے سے انکار کیا اور آبرو خاک میں مل گئیں اور سب کیا دھرا برباد ہو گیا۔ اس کے بعد رخصتی اور واپسی کا قریب قریب وہی طریقہ ہے جو شہر والوں میں ہے۔ ہاں ایک رواج یہ بھی ہے کہ دیہات میں برات کے ساتھ عورتیں نہیں جاتی اور نہ دلہن کے ساتھ کوئی معزز خاتون اتی ہے دائی اور خادمہ کی حیثیت سے دو ایک ادنیٰ درجے کے عورتیں البتہ چلی جاتی یہیں ۔سوا اس کے دیہات میں دلہن پر بھی بہت زیادہ سختیاں ہوتی ہیں ۔اس کا فرض ہے کہ چوتھی میں واپس آنے کے گھڑی تک سسرال میں جس طرح رکھ دی جائے رکھی رہے۔ نہ پیشاب پاخانہ کو جائے نہ بولے نہ چہرے پر سے ہاتھ اٹھائے اور نہ آنکھیں کھولے۔ اس لئے یہ سب باتیں بے حیائی وبے شرمی میں داخل ہیں ا۔ور اس اندیشے سے کہ دلہن کو سسرال میں جا کے پاخانہ پیشاب کی ضرورت نہ پیش آئے، دو دن پہلے سے اس کا کھانا پانی بند کردیا جاتا ہے اور زیادہ مصیبت یہ ہے کہ دیہات کے دلہن اکثر دوسرے گاؤں میں بیاہ جاتی ہیں اور آمدورفت میں دو دو تین تین منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں دلہن بیچاری پر کیسی سخت مصیبتیں گزرتی ہو ں گی۔
دیہات میں سانچق اور مہندی کے ترک ہوجانے اور برات کھلانے میں سختیاں ہونے کی وجہ غالبا یہ ہے کہ زیادہ تر برات سفر کرکے ایک بستی سے دوسری بستی میں جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہوتا کہ ایک دن ایک جلوس یہاں سے جائے اور دوسرے دن دوسرا جلوس وہاں سے یہاں آئے اور پھر تیسرے روز برات روانہ ہو علیٰ ہٰذالقیاس براتیوں کو گوکہ دولہا اکثر اپنے گھر سے کھلا کے لے جاتا ہے مگر لڑکی والے کے گھر پہنچتے پہنچتے سارے براتی بھوکے بنگالی ہوتے ہیں اور کنگلوں کی سی شان دکھانے لگتے ہیں ۔(گزشتہ لکھنو عبدالحلیم شرر لکھنوی صفحہ 384 تا 398)
 
Top