گذشتہ لکھنؤ کی شادیاں(شان اودھ) 1
نئے گھروں میں جب پیام جاتا ہے تو اکثر لڑکا اپنے چند عزیزوں اور مخصوص دوستوں کے ساتھ بر دکھاوا کے نام سے دلہن والوں کے ہاں بلایا اور ایسی جگہ بٹھایا جاتا ہے جہاں سے عورتیں بھی اسے تاک جھانک کے دیکھ سکیں۔ گھر والے مرد جمع ہو کےاس سے ملتے اور حسب حیثیت خاطرمدارات کرتے ہیں۔ اسی طرح لڑکے کی ماں بہن ایک مقررہ تاریخ پر دلہن کے گھر جاتی اور مٹھائی کھلانے یا کسی اور بہانے سے دلہن کا چہرہ دیکھتی ہیں جوعام طور پر ان سے چھپائی اور پردے میں رکھی جاتی ہے مگر بلبعض شریف گھر والوں میں دل نہیں بلایا جاتا بلکہ خاندان کے مرد کسی نہ کسی عنوان سے لڑکے کی لا علمی میں اسے دیکھتے اس کا حال دریافت کر لیتے ہیں اور یوں ہی لڑکی کی حالت کا بھی پتا لگایا جاتا ہے ان طریقوں سے لڑکے والے لڑکی کو لڑکی والے لڑکے کو پسند کرلیتے ہیں۔ جس میں صورت شکل ،حالت وحیثیت کے علاوہ شرافت خاندان کو بھی بہت کچھ دخل ہوتا ہے، تو منگنی کی رسم عمل میں آتی ہے جس میں دولہا کی طرف سے مٹھائی جاتی ہے، پھولوں کا گہنا جاتا ہے اور ایک سونے کی انگوٹھی جاتی ہے جسے بعض گھرانوں میں دولہا کے عزیز عورتیں خود لے جاکے پنھاتی ہیں۔ منگنی کی رسم ادا ہو جانے کے بعد سمجھا جاتا ہے کہ نسبت ٹہر گئی اور اس وقت سے دونوں جانب معمول ہو جاتا ہے کہ جب کوئی تقریب ہو تو سمدھیانے میں خاص اہتمام سے حصےجائیں اور جو حصہ لڑکے یا لڑکی کے لیے ہوتا ہے وہ بڑا ہوتا ہے اور خصوصیت کے ساتھ مشین و باوقعت بنا دیا جاتا ہے ۔اسی اثنا میں اگر محرم آگیا تو جو دونوں جانب سے اہتمام اور تکلف کے ساتھ گوٹا الائچیاں چکنی ڈلی اور اعلی درجے کے کارچوبی اورریشمی بٹوے سمدھیا نےبھیجے جاتے ہیں۔برا ت:یعنی نکاح کے دن سے چند روز پہلے دلہن ما نجھے میں بٹھا دی جاتی ہے کہ جبکہ اسے مانجھےکا زرد جوڑا پہنایا جاتا ہے اس وقت سے روز اس کے بٹنا لگتا ہے اور یہ اوبجزخاص ضرورتوں کے پردے سے باہر نہیں نکلتی۔ جس دن وہ مانجھےبیٹھتی ہے اسی روز رسم ہے کہ اس کا جھوٹا بٹنا ا،س کی جھوٹی مہندی، مصری کا کوزہ اور بہت سی پینڈیا ایک شاندار جلوس کے ساتھ بھیجی جاتی ہیں جو پنڈیاں خاص دولہے کے لئے ہوتی ہیں اور جداگانہ خانوں میں ممتاز محسوس ہوتی ہے انہیں کے ساتھ دولھا کیلئے امانجھے کا زرد بھاری جوڑا ایک رنگی ہوئی منقش چوکی اور لوٹا کٹورا بھی ہوتا ہے لوٹا کٹورا چوکی کے پڑناڑےسے کس کے باندھ دیے جاتے ہیں اور جلوس میں یہ چیزیں اس ترتیب سے ہوتی ہیں کہ باجے والوں اور جلوس کے بعد سب کے آگے چوکی ہوتی ہے اس کے بعد خوانوں میں دولہا کی مخصوص چیزیں ہوتی ہیں جو عموما کچے طباقوں میں رکھی ہوتی ہے اور ان کے بعد بہت سے خوانوں میں عام قسم کی پنڈیاں ہوتی ہیں دلہن کی چھوٹی بہنیں اور ڈومنیاں ،فینس اور ڈولیوں پر سوار ہو کے جاتی ہیں ،دولہا کے گھر پہنچ کر ایک پینڈی اور مصری کے ساتھ ساتھ ٹکڑے کرکے کو سب ٹکڑے دولہا کو ڈھکا ڈھکا کر کھلاتی ہیں۔اس رسم کی نسبت قیاس کیا جاتا ہے کہ خالص ہندی رسمی ہےجس کو نہ عرب سے تعلق ہے نہ عجم سے اس لیے مانجھے اور اس کے ساتھ کنگنے کی ابتدا ہندوستان کے سوا اور کسی جگہ نہیں ثابت ہوتی۔
مانجھے کے دس بارہ روز سے زیادہ زمانہ گزرنے کے بعد اسی شان و شوکت اور جلوس کے ساتھ دولہا کے گھر سے دلہن کے ہاں سانچق جاتی ہے سانچے ترکی لفظ اور ترکی رسم ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مغل اس رسم کو اپنے ساتھ ہندوستان میں لائے اس میں دولہا دلہن کے لئے چڑھاوے کا جوڑا جاتا ہے جو عموما بہت بھاری اور کارچوبی ہوتا ہے ۔اس کے ساتھ دلہن کے لیے سنہری مقیش کا سہرا چاندی کا چھلہ ،سونے کی انگوٹھی،دو یک اور چیزیں ہوا کرتی ہیں۔ اور وہ زیور ہوتا ہے جس کو اپہناکر وہ رخصت کی جائے گی۔ اور پھولوں کا کہنا ہوتا ہے جوڑے کے ساتھ شکر کی نقل،شکر کے قرص، اور میواجات جاتا ہے، سانچق کے لئے خاص اہتمام سے منقش اور رنگین گھڑےتیار کرائے جاتے ہیں۔ پھر بانس اور کاغذ کے رنگارنگ تختوں میں چار چار گھڑےلگا کے چوگھڑے بنا دیئے جاتے ہیں اور دولت مندی و امارت کی شان کے مناسب گھڑوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے اور اکثر سو سو دو دو سو کے شمار کو پہنچ جاتے ہیں ۔گران کے اندر چند گنتی کے نقلوں یا پاؤ آدھ سیر شکرکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کے منہگھڑوں پر عموما سوہے کا کپڑاناڑے سے باندھا ہوتا ہے۔ اور جلوس میں ان سب گھڑوںکے آگے چاندی کی ایک دہی کی مٹکی رہتی ہے۔ جس میں دہی بھرا ہوتا ہے اور اس کے منہ پر بھی سوہا ناڑے س باندھ دیا جاتا ہے ۔اور اس کے گلے میں مبارک فالی کے لئے دو ایک مچھلیاں بھی بند ھی ہوتی ہیں۔ یہ چیزیں جب دلہن کے گھر پہنچتی ہیں تو ایک اعزہ واقارب میں تقسیم ہوتی ہیں۔
سانچق کے دوسرے ہی روز سب کو دلہن کے گھر سے بڑے جلوس اور روشنی کے ساتھ مہندی جاتی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ غالبا یا عربی الاصل رسم ہے ۔اس میں دراصل دلہن والوں کی طرف سے دولہے کے لئے وہ جوڑا جاتا ہے جسے پہن کر وہ بیاہنے کو آئے گا۔ اس جوڑے میں علی العموم قدیم عہد مغلیہ کے درباری وضع کی خلعت، شملہ ،جیغہ ،سرپیچ اور مرصع کلغی ہوتی ہے۔ نصیب ہوا تو اس کے ساتھ موتیوں کا ہار بھی بھیجا جاتا ہے۔ مذکورہ چیزوں کے علاوہ ریشمی پاجامہ اور جوتا وغیرہ معمولی چیزیں بھی ہوتی ہیں ۔اکثر ایک طلائی انگوٹھی بھی جاتی ہے۔ اس جوڑے کے ساتھ دولہا کے لگانے کے لیے پسی بھی تیار مہدی بھی بھیجی جاتی ہے ۔جس کو بہت سے طباق میں پھیلا کے رکھتے ہیں اور اس میں سبز سرخ شمعوں کو نصب کرکے روشن کر دیتے ہیں ۔اس طرح کے مہندی کے بہت سے طبسق روشن ہوتے ہیں۔ جو مہندی کے جلوس میں ایک خاص شان اور آن پان پیدا کردیتے ہیں۔ مہندی کے ان روشن طباقوں کے ساتھ سو پچاس طباقوں میں ملیدہ بھی ہوتا ہے جو خرموں کو کوٹ کے بنایا جاتا ہے۔ اور جیسی حیثیت ہوتی ہے اسی کے مناسب کثرت سے بھیجا جاتا ہے۔ اس موقع پر جوڑے کے ساتھ دولہا کے لئے سونے کا سہرا بھی بھیجا جاتا ہے۔ مہندی کے دوسرے دن دلہا کی طرف سے برات جاتی ہے برا ت جانے کا اگلا ضروری وقت رات ہے۔ یعنی تین بجے سب کا تھا لیکن اب یہ وقت اکثر چھوٹتاجاتا ہے اور بجائے پہر رات رہے کے، دن چڑھے جانے لگی ہے۔ اس تاخیر کی ابتدا واجد علی شاہ آخری بادشاہ اودھ کے زمانے سے ہوئی ۔ان کی برات جا نے میں دیر ہوگئی اور دن نکل آیا تھا۔ لوگوں نے آسانی اور روشنی کے سامان کی تخفیف کے خیال سےاسی وقت کو اختیار کرنا شروع کردیا۔ چنانچہ اب عموما ابتدا ئے روز سےبرا تجاتی ہے اور دوپہر کو عقد ہوجاتا ہے۔
برات میں حتی الامکان پورا جلوس جمع کیا جاتا ہے ۔مروجہ 3 باجے یعنی پرانا ڈھول تاشا، اور جھانجھیں،روشن چوکی اور ارگن باجا ضرور ہوتے ہیں ۔اس سے ترقی ہوئی تو گھوڑوں پر نوبت نقارہ جھنڈیاں ہاتھی اونٹ گھوڑے اور اس سے بھی زیادہ حوصلہ ہوا تو انہیں باجوں کے متعدد گروہبڑھا دیے جاتے ہیں ۔دولہا وہی جوڑا پہن کر جو مہندی کے ساتھ آیا تھا اور سہرا باندھ کےعلی العموم گھوڑے پر اور اعلی طبقے کے امرا کے یہاں ہاتھی پر سوار ہوتے سارے جلوس اور باجوں کے پیچھے آہستہ آہستہ زینت وقار سے روانہ ہوتے ہیں ۔"نوشہ "یعنی نیا بادشاہ کہتے ہیں۔ اور خیال بھی یہی ہے کہ دولھاایک دن کیلئے بادشاہ بنا دیا جاتا ہے۔مگر غور طلب امر یہ ہےکہ جب دولھا کو بادشاہ بناتے ہیں تو اس کے سر پر شملہ کیوں ہوتا ہے ؟تاج کیوں نہیں پنہاتے؟اس سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے ہندوستان میں مسلمان سریر آرا تاج نہیں پہنتے تھے بلکہ سب کے سروں پر کلغی دار شملے ہوتے تھے۔ انگریزوں نے غازی الدین حیدر کے زمانے سے شاہان اودھ کو تاج بنا دیا مگر وطنی سوسائٹی نے اس بات کو قبول نہیں کیا اور اپنے بادشاہوں کی وضع وہی رکھی جو پرانی تھی اور اسی نمونے کا بادشاہ اپنے نو شاہوں کو بناتے ہیں۔ دولہا کے پیچھے فینسوں اور ڈولیوں میں سوار دو لھا کی ماں،بہنیں اور عزیز و قریب عورتوں اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ چلتے وقت گھر میں جو صدہا رسمیں اور ٹوٹکے ہوتے ہیں، بہت ہیں۔ اور لغوہونے کی وجہ سے زیادہ تر قابل لحاظ بھی نہیں۔
اس شان سے جب برات دلہن کے گھر پہنچتی ہے تو عموما اس وقت دلہن نہہلائی جا چکی ہو تی ہےہے ۔اور اس کے غسل کا پانی باہر لا کے دولہا کی سواری کے گھوڑے یا ہاتھی کے پاؤں کے نیچے ڈال دیا جاتا ہے ۔۔دلہن کو یہ غسل 7 دن کے باسی ٹھنڈے پانی سے دیا جاتا ہے جو کلس کا پانی کہلاتا ہے۔ اور جاڑوں کے موسم میں غریب دلہن کے لیے اس پانی میں نہانا قیامت سے کم نہیں ہوتا۔ چوکی پر پان بچھا کے وہ نہلائی جاتی ہے اور یہی پان اس 21 پان والے بیڑے میں شامل ہوتے ہیں جو سب سے پہلے سسرال میں کھلایا جاتا ہے۔
اب دولہا سواری سے اتر کے زمانے میں جاتا ہے وہاں رستی ننگھائی جاتی ہے اور طرح طرح کی بیسویں اور رسمیں عمل میں آتی ہیں جو ہر گروہ اور ہر خاندان میں جدا جدا اور عجیب و غریب ہوتی ہیں۔ یہ وقت علی العموم وہ ہوتا ہے جب دلہن نہا تو چکی ہوتی ہے مگر ابھی کپڑے نہیں بنائے گئے ہوتے ہیں وہ ایک چادر میں لپٹی ہوتی ہے اور اس کے ہاتھ پر مصری رکھ کے دولہا کو کھلائی جاتی ہے ۔جس میں سالی یا زندہ دل عورتیں اور ڈومنیاں قیدیں بڑھا بڑھا کے دولھا کے لیے ہر کام مشکل کر دیتی ہیں۔
شادی کی یہ پہلی ہفت خواں طے کرکے دولہا باہر مردان میں آتا ہے جہاں بزم نشاط مرتب ہوتی ہے، آعزہ واحباب پرتکلف کپڑے پہنے قرینے سے صاف ستھری دری ،چاندنی اور قالینوں کے فرش پر بیٹھے ہوتے ہیں اور سامنے مردانہ یا زنانہ طائفہ کھڑا مجراکرتا ہوتا ہے۔ صدر مقام پر دولہا کیلئے زرنگار مسند تکیہ ہوتا ہے۔ جس پر دولھا کے ہم عمرلڑکے ہوتے ہیں۔ تاکہ ان کے ساتھ آزادی سے باتیں کر سکیں۔ دولہا کے لئے لازم ہے کہ اپنے ہر وضع، ہر حرکت سے شرمیلا پن ظاہر کرے۔ وہ نہ تو بے تکلف باتیں کر سکتا ہے نہ کوئی اس کی آواز سن سکتا ہے نہ کسی سے وہ بے تکلفی سے مل جل سکتا ہے ۔منہ پر سہرا ہوتا ہے اور پھر سونے کے سہرے پر پھولوں کا سہرا باندھ کے اس قابل نہیں رکھا جاتا کہ کوئی بغیر کوشش اور دیر تک کی محنت کے اس کی صورت کو دیکھ سکے۔ محفل نشاط میں بیٹھنے بلکہ اکثر عقد ہوجانے کے بعد سہرااٹھا کے شملہ میں لپیٹ دیا جاتا ہے ۔مگر ابھی اس کے لئے لازم ہے کہ ایک ہاتھ سے منہ پر رومال رکھے رہے جو اظہار شرم کی ایک علامت ہے اور اب چہرہ کھولنے کے بعد بھی اس رومال کی وجہ سے اس کی صورت دیکھنے کے شائقین کو بغیر دیر تک اس فکر میں لگے رہنے کے کامیابی نہیں ہو سکتی۔
دولہا کے باہر آ کر تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد عقد نکاح کا انتظام ہوتا ہے۔ جس کے لیے سب بکھڑا کیا گیا ہے۔ اگر شیعہ خاندانوں کی شادی ہے تو دو مجتہد صاحب تشریف لاتے ہیں۔ ایک لڑکے کے نائب اور دوسرے لڑکی کے نائب ووکیل بن کے۔ لڑکی والے خود پردے کے پاس جا کے عادل شاہدو ں سے تصدیق فرما کے لڑکی کی شرعی مختاری حاصل کرتے ہیں اور اس کے بعد دونوں دولہا کے سامنے بیٹھ کے دولہن کی جانب سےقرأۃ وصحت مخارج سےایجاب و قبول کے صیغے ادا کرتے ہیں۔ اور اگر خاندان سنی ہے تو کوئی محترم مولوی صاحب اگر کوئی کانوں ہوا تو وہاں کے مقرر خاندانی قاضی صاحب آکے نکاح پڑھاتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے عزیزوں میں سےکوئی صاحب اس کے وکیل اور مختار بن کے آتے ہیں اور وہ شاہدوں کو پیش کرتے ہیں۔کہ فلاں لڑکی نے مجھے اپنا وکیل ان دونوں شاہدوں کے سامنے مقرر کیا اور مجھے اپنے عقد کا اختیار دیا۔ قاضی صاحب ان شاہدوں پر اطمینان کرکے اور مقدار مہر کو وکیل صاحب سے دریافت کرکے دولہا کو کلمہ شہادت پڑھا تے ہیں۔ مسلمان کے لئے جن چیزوں پر ایمان لانا ضروری ہے اس کا عربی میں اقرار کراتے اور اس کے بعد تین بار اس سے یہ کہے کہ فلاں لڑکی کے ساتھ اتنے مہر پر ہم نے تمہارا عقد نکاح کردیا دولہا سے اقرار کرتے ہیں کہ" میں نے قبول کیا"اس کے بعد ایک دعائیہ خطبہ پڑھ کےوگوں سے کہتے ہیں" مبارک" ساتھ ہی مبارک سلامت کا غل ہوتا ہے ۔ نقل اور چھارے جو سینیوں میں بھرےسامنے رکھے ہوتے ہیں ان کو حاضرین میں لٹا دیتے ہیں۔
مجتہد یا مولوی صاحب کے آنے کے وقت گانا موقوف ہو جاتا ہے اور بعد عقد مولوی صاحب چلے جاتے ہیں تو پھر رقص و سرود کی محفل گرم ہو جاتی ہے اور اس کے بعد دولہا پھر اندر زنانے میں بلایا جاتا ہے۔ عورتوں کی دنیا میں رسوم اور شرائط عقد کے اصلی لوازم کے بجالانے کا خاص یہی وقت ہے ۔زنانے میں اس موقع پر رسوم نکاح کے ضمن میں دولہا کے ساتھ ہر قسم کا تمسخر کیا جاتا ہے اور اس کے پریشان کرنے میں کوئی کارروائی اٹھائیں نہیں رکھی جاتی۔ ان تمام رسوم کی بجا لانے والی سالی اور ڈومنیاں ہوتی ہیں۔ درحقیقت ناکتخدا جوانوں کے لئے شادی ایک پراسرار لاج (فرامشن خانہ) ہے جس میں بیسیوں ایسے مراحل پیش آتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتے۔ دولہن اوڑھ لپیٹ کے ایک غیر متحرک گٹھری کی طرح اس کے سامنے لا کے رکھ دی جاتی ہے ۔اور ابھی تک اس سے رخصتی کا جوڑا نہیں پہنایا گیا ہوتا ہے۔ لاتے وقت کوشش کی جاتی ہے کہ پہلی آمد میں دلہن کی ایک لات دولہا کے پڑ جائے۔ پھر تو نے گائے جاتے ہیں۔ دولہا سے بیوی کی غلامی، ذلیل ترین غلامی اور خدا جانے کیسے کیسے خدمت بجا لانے کا اقرار کرایا اور وعدہ لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد آرسی مصحف کی رسم دہ ہوتی ہے ۔اس کے لیے دولہا دلہن کے درمیان رحل پر قرآن شریف اور اس پر آئینہ رکھا جاتا ہے اور اس آئینے میں دولہا دلہن کا پہلا جلوہ دکھایا جاتا ہے ۔مگر لازم ہے کہ چہرہ دیکھنے سے پہلے دولہا سورہ اخلاص پڑھ لے ا۔س جلوے میں دلھن آنکھ بند کیے رہتی ہے۔عورتیں اسے آنکھ کھولنے کے لئے طرح طرح کی التجائیں کراتی ہیں اور اسی سلسلے میں ہر قسم کی اطاعت و غلامی کا اس سےاقرار کرا لیتی ہیں۔ بڑی مشکلوں اور خوشامد وں کے بعد دلہن آنکھ کھول کے ایک نظردیکھتی پھر آنکھ بند کرلیتی ہے اور اسی پر رسوم کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
اب دولھا باہررخصت کردیا جاتا ہے تو دلہن کو کپڑے پہنائے جائیں، زیور پہنایا جائیں ۔بنائیں بنائی سنواری اور سسرال جانے کے لئے تیاری کی جائے۔ اس وقت ڈومنیاں بابل یعنی رخصتی کا نغمہ جاں گداز گاتی ہیں اور خوشی کا گھر ماتم کدہ بن جاتا ہے۔ جب دلہن بنا چنا کے تیاری کر دی جاتی ہے اس وقت میکے کے تمام عزیز دوست اور سب ملنے والے روروکے دلہن کو رخصت کرتے اور جو کچھ توفیق ہو روپیہ یا زیور سے دیتے ہیں۔
Last edited: