مشاعرہ زنداں
پہلا مشاعرہ
پہلا مشاعرہ
ماخذ۔ روزنامہ۔زمیندار لاہور
۲،فروری ۱۹۲۲ء
آگرہ جیل میں عظیم الشان مشاعرہ:
ادبی دنیا میں ایک نئی مثال
شاید ادبی دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا موقع اور مثال ہے کہ جیل کی چھار دیواری کے اندر اسیران بلا کا کوئی باقاعدہ عظیم الشان مشاعرہ ہوا ہو۔ یہ سچ ہے کہ جیل خانوں کا اندر ایسی کتابیں لکھی گئی ہے جو ہمیشہ یادگار رہے گی مثلا لوکمانیہ، بال گنگا دھر، تلک کی گیتار ہی۔ علامہ ابن تیمیہ کی نادر کتب وغیرہ ۔ مگر یہ شخصی اور انفرادی کوششیں تھیں لیکن جمعہ کے دن 20 جنوری 1922 آگرہ کے ضلع جیل میں عام مشاعرہ ہوا وہ اپنی نوعیت میں بالکل نیاواقعہ ہے۔اردو ادب کی جب کبھی مکمل تاریخ لکھی جائے گی تو اس میں اس زندانی مشاعرہ کا ذکر جلی اور سنہری حروف میں لکھا جائے گا اور ہر ایک تذکرہ نویس اپنی کتاب میں ان کا ذکر لازمی سمجھا کرے گا ۔ادبی دنیا میں ایک نئی مثال
اگر جیل صرف پولیٹکل قیدیوں کے لیے خالی کردیا گیا ہے ،چنانچہ اس وقت تقریبا 300 سیاسی قیدی اس جیل میں موجود ہیں ۔اس زندہ مجمع میں جہاں بہت سے وکیل ،بیرسٹر، ایڈیٹر، پروفیسر، ڈاکٹر اور درجنوں ایم اے اور بی اے ہندی اردو شعراء کی بھی اچھی خاصی تعداد داد موجود ہے۔ یہ تمام اسیران زندان فرنگ مختلف مفید مشاغل میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں ۔
چنانچہ منجملہ اور مشغلوں کے ایک ہفتہ وار مشاعرہ بھی ان لوگوں کے پروگرام میں داخل ہے اور پہلا مسئلہ 20 جنوری 1922 کو بعدنمازجمعہ (جیل خانہ میں باقاعدہ نماز جمعہ ہوتی ہے اور ہندو پوجا کرتے ہیں) شروع ہوا .میر مشاعرہ مولانا عارف ہسوی کو منتخب کیا گیا ۔طرح کا مصرع یہ تھا : ع ہے یہ وہ درد ہے جو شرمندۂ احساں نہ ہوا۔ حسرت موہانی
مشاعرہ ٹھیک 2 بجے زیرصدارت مولانا عارف ہسوی شروع ہوا۔ اس حسب (مندرجہ )حضرات نے اپنے کلام سے لوگوں کو مسرور اور شاد کام کیا ۔
(۱)مولانا نذیر احمد میرٹھ سزا چھ ماہ(۲) مسٹر عبدالمجید خواجہ ،پرنسپل جامعہ ملیہ علی گڑھ،چھ ماہ (۳) پنڈت کرشن کانت مالوی آڈیٹرا بھودے الہ آباد،چھ ماہ (۴) بابو کنور بہاری ماتھر، الہ آباد(۵) مسٹر مہاویر تیاگی، بلند شہر کے مجسٹریٹ نے برسر عدالت جن کو طمانچہ لگوائے تھے ،دو سال (۶) محمد مصطفی خان المتخلص محمد آفندی، ایک سال (۷)حفیظ الرحمن، فروخ آباد ایک سال (۸) سید صغیر ھسین اسیر الہ آباد ، چھ ماہ (۹) سید محمد شاہد فرزند مولانا مولانا فاخرالہ آباف ،ایک سال (۱۰) پنڈت رام نریش تر پاٹھی بعد ایک سال بعد سہائ،الہ آباد اٹھارہ ماہ سخت اور سو روپیہ جرمانہ (۱۱) محمد محی الدین رجا کار،الہ آباد ،اٹھارہ ماہ قید سخت (۱۲) بابو رگھو پتی سہائے ۔بی اے ۔فراق گورکھپوری (۱۳)رتن لال زمرود سکندر آبادی،(۱۴) حافظ محمد عثمان علی گڑھ ،18ماہ سخت۔ مشاعرے میں تقریبا 200 آدمی شریک تھے جن میں سے چند نام یہ ہیں ۔مسٹر مہادیو دیسائی ۔پرا ئیوٹ سکریٹری۔ مہاتماگاندھی مسٹر جارج جوزف ایڈیٹر انڈی پنڈنٹ الہ آباد۔ ٹھاکر ملکھان سنگھ ایم ۔ایس ۔سی شاہ حفیظ عالم الہ آباد ۔شیخ عبدالمجید الہ آباد۔ ڈاکٹر لکشمی دت آگرہ۔ منشی نیاز احمد مارہروی۔مشٹر رنگا ایئر سب ایڈیٹر انڈی پنڈنٹ الہ آباد۔ پنڈ ت دیا شنکر گنجور۔ رائس فیض آباد۔ للن جی فیض آباد۔ پنڈت نرائن پرشاد جی اروڑا، ایڈیٹر سنسار کانپور۔ سوامی سچیتا نند۔ پنڈت رام پرساد مصر۔ با بو راج بہادر ایم۔ اے۔ ایل۔ ایل۔ بی، ایٹہ۔ بابو جیا رام ،ایم ۔اے ۔ایل ایل بی۔ سکریٹری پراونشیل کا نگریس کمیٹی، یوپی، بریلی۔ پروفیسر رامداس گوڑ۔ ایم۔ اے۔ بنارس۔ پنڈت گو بند مالوی فرزند پنڈت مدن مو ہن مالوی، آباد ۔ بابو ہر نام سنگھ ،بی اے، ایل ایل ،بی، لکھیم پور کھیری ۔ مسٹر بابورام ورما پلیڈر۔ مسٹر گپتا ،ایم اے کانپور۔ مسٹر گنپت سہائے، بی۔ اے۔ ایل ایل ،بی، سلطان پور۔ مسٹر سیتلا سہائے ،بی اے ۔ایڈیٹر سوراج الہ آباد۔ بابو گو پال نارائن صاحب ۔ بی ائ ۔اس زنادانی مشاعرےمیں زیادہ تر ایسی غزلیں پڑھی گئیں جو موجودہ تحریک کے سلسلے میں قومی جوش عمل اور حب الوطنی کے جذبات سے مالا مال تھی ۔مسٹر عبدالمجید خواجہ کا شعر نمبر 5 پسند کی کیا گیا اور بار بار پڑھوایا گیا ۔بابو رگھوپتی سہائےکی پوری غزل بہت پسند کی گئیں۔ اور اہل سخن نے خوب داد دی۔ مسٹر مہابیر تیاگی کے مطلع نےبے ساختہ داد بلب کی۔ سید محمد شاہد کے دوشرع ایک اور تین پسند کئے گئے۔ مولانا خجندی کی پوری غزل قادرا لکلامی کی مظہر تھی۔ حافظ محمد عثمان کا شعرنمبر 4 پسند کیا گیا۔ مالوی جی کی شعر ،1 ،2 3 بہت پسند کئے گئے اور خراج تحسین ادا کیا گیا۔ حفیظ الرحمن صاحب کی پوری غزل بہت توجہ اور شوق سے سنی گئی۔
ایک صاحب کے شعر پر آرڈر آرڈر کی آوازیں بلند ہوئیں اور میر مشاعرہ نےدو بار وہ شعر پڑھنے سے روک دیا۔ کیونکہ اس میں دواعتدال پسندوں کو ریاکار کہا گیا تھا۔
آخر میں محمد مصطفی خان صاحب مداح واحمق پھپھوندی نے ایک ظریفانہ غزل پڑھی جو بے حد پسند کی گئی اور قہقہوں کی گونج میں سنی گئی ۔ہر ایک شعر دوبارہ، سہ بارہ پڑھویا گیا اور خوب داد دی گئی۔
آخر میں میر مشاعرہ نے چند اہل سخن حضرات سے غیر طرحی کلام سنانے کی بھیدرخواست کی جس میں شاہ رفیق عالم اور بابو رگھو پتی سہائے کی غزلیں خاص طور پر قابل ذکر اور لائق تحسین تھی۔ آخر میں میر مشاعہ کے شکریہ کے بعد مضلس مشاعرہ ختم ہوئی۔ ذیل میں اس مشاعرہ کا انتخابی کلام اہل سخن کی لذت اندوزی کے لئےدرج کیے جاتے ہیں.
مولانا نذیر احمد صاحب خجندی میرٹھ( چھ ماہ قید )
تشنہ کامی پہ میری آپ کا احساں نہ ہوا ۔
اب خنجر سے بھی تسکین کا ساماں نہ ہوا ۔
وار پر وار کئے ،پھر بھی میں بے جاں نہ ہوا ۔
ہے ارمان ،کہ پورا مرا ارماں نہ ہوا ۔
اور ایجاد کرو ظلم و ستم کے انداز ۔
پورا مطلب نہ ہوا آپ کا ہاں،ہاں¡ نہ ہوا ۔
منزل عشق پہ پہنچا نہیں کوئی جب تک ۔
پابجولاں نہ ہوا، چاک کے گریباںنہ ہوا
ذرہ ذرہ میں نظر آتا ہے کس کا جلوہ۔
راز وحدت تیرا کثرت میں بھی پنہاں نہ ہوا ۔
آسماں سمجھے ہو جس کو میری آہیں ہیں۔
عرش رب کب میرا دود دل سوزا ں نہ ہوا۔
خلعت غیر سے بہتر ہےلنگوٹی اپنی
جذبہ عشق میں خارج تن عریاں نہ ہوا
تمام غزل مرصع واستادانہ تھی۔۔ بہت پسند کی گئی۔
خواجہ اب خواجہ عبدالحمید صاحب شیخ الجامعہ ملیہ اسلامیہ علیگڑھ (6 ماہ قید )
کس کو سودا تیرا اے زلف پریشانہ ہوا؟۔
کون پابند بلائے شب ہجراں نہ ہوا ؟
یاد رہتی ہے تیرے عارض مصحف کی صدا ۔
مجھ سے بڑھ کر تو کوئی حافظ قرآں نہ ہوا ۔
کاوش دست جنوں ہے ہمیں اس درجہ پسند ۔
کبھی تلوں سے جدا خار مغیلاں نہ ہوا ۔
شور ہے ،محفل عشاق میں وہ آئے ہیں۔
فتنہ حشرہوا ،جلوہ جاناں نہ ہوا ۔
بسکہ سینے میں چھپا لی تھی تمہاری تصویر ۔
ہم سے وحشت میں کبھی چاک گریباں نہ ہوا۔
ناتوانی کی یہ حالت ہے کہ کہنا تو کجا،
میرے چہرے سے بھی ظاہر غم پنہاں نہ ہوا ۔
تو وہ قطرہ تھا کہ پوشیدہ تھا دریا جس میں ۔
تیری نادانی ،کہ برپا کبھی طوفاں نہ ہوا ۔
میں وہ ذرہ ہوں کہ پوشیدہ ہے صحراجس میں ۔
قید ہو کر بھی اسیر غم زندہ نہ ہوا ۔
شعر۵حاصل مشاعرہ منایا گیا ۔
بابو رگھپتی سہائےصاحب بی اے فراق گورکھپوری( 8 ماہ قید پانچ سو روپیہ جرمانہ)
کبھی عزلت گہ جانا دل ویرانہ ہوا ۔
میرے اجڑے ہوئے گھر میں کوئی مہماں نہ ہوا ۔
باغ میں باد صبا بھیجنے والے ہر روز ۔
کیوں اسیران قفس پر کبھی احساں نہ ہوا ۔
کھل گیا صورت گل دل ،جو چلاناوک یار ۔
ہوئی اک موج صبا ،تیر کا پیکان نہ ہوا ۔
کرکے زخمی ہمیں کہتے ہیں وہ کس حسرت سے۔
ہائے اس وقت میرے پاس نمکداں نہ ہوا ۔
دل ویراں کی یہاں سیر کیا کرتا ہوں۔
مانع دشت نوردی مجھے زندہ نہ ہوا ۔
اہل زندہ کی یہ مجلس ہے ثبوت اس کا فراق۔
کہ بکھر کر بھی یہ شیرازہ پریشاں نہ ہوا ۔
شعر نمبر3 بہت زیادہ پسند کیا گیا اور اہل سخن نے خوب داد دی۔ مقطع میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مختلف جیل خانوں سے لوگ اکٹھے کر دیے گئے مثلا فتح گڑھ ،متھرا، الہ آباد، میرٹھ ،علیگڑھ وغیرہ ۔
سید شاہد صاحب فرزند مولانا فاخر صاحب الہ آبادی( ایک سال قید سخت)
ہم تو ہیں قیر میں اور گھر میں براجے ہیں پرنس۔
سارے عالم میں کوئی آپ سا مہماں نہ ہوا ۔
جان دیتے ہیں بہت ڈوب کے مرتے لاکھوں۔
جیل کے راستے میں چاہے زخنداں نہ ہوا۔
خواہش دید پہ جھنجھلاکے وہ بولے مجھ سے ۔
جان کا روگ ہوا، آپ کا ارماں نہ ہوا ۔
ڈارون آپ کی تھیوری کو سنا کر میں نے۔
لاکھ بندر کو نچایا مگر انساں نہ ہوا ۔
یہ شعر بہت پسند کیے گئے
پنڈت کرشن کانت مالوی ایڈیٹر ابھودے، الہ آباد( 6 ماہ قید محض رہ گئی پہلے آٹھ ماہ قید سخت تھی)
قوم کی راہ میں سردے کے جو قرباں نہ ہوا ۔
مضغہ گوشت ہوا وہ، تو پھر انساں نہ ہوا۔
زندگی موت سے بدتر ہے ہمارے حق میں۔
ملک کا اپنا گر اقبال در خشاں نہ ہوا۔
دعوے حب وطن تیرے لیئے ہے بےسود۔
تار کھدر کا اگر مثل رگ جاں نہ ہوا ۔
ملک کے کا پر لطف بیاں کیا کیجیے ۔
ہے یہ وہ درد ،جو شرمندہ درماں نہ ہوا ۔
پنڈت جی کے تمام شیر پسند کیے گئے جو درج کیے گئے
سید صغیر حسن صاحب اسیری الہ آبادی( 6 ماہ قید)
تار کچھ چرخ کے ٹوٹے سربالیں آئے ۔
کسی بے کس کے لحد پر چراغاں نہ ہوا
نغمہ سنجو کے سخن سن کے قفس میں اسیر ۔
دل ہے بے چین کہ افسوس گلستاں نہ ہوا ۔
مسٹر مہابیر تیاگی( سزا دو سال) بلند شہر کے مجسٹریٹ نے آپ ہی کےسر پر برسر عدالت تماچے لگوائے:
وحشت دل کا یہاں آ کے بھی ساماں نہ ہوا ۔
آگرہ جیل میں چھوٹا سا بیاباں نہ ہوا ۔
سچ تو یہ ہے کہ کبھی صاحب ایماں نہ ہوا ۔
جان سے، مال سے، بھارت پہ جو قرباں نہ ہوا ۔
مجھ سے بڑھ کر کے بھی ہو گی نہ اہنسا کی مثال۔
مار کھا کر کے بھی ہرگز میں پریشان نہ ہوا۔
مطلع بہت پسند کیا گیا شعر نمبر 3 میں اپنے طمانچوں کی طرف اشارہ کیا ہے۔
حافظ محمد عثمان صاحب علی گڑھ (سزا پندرہ ماہ سخت)
میری ہمت نے بھی توفیق خدا شامل تھی۔
دشمن دیں کے ستانے سے ہراساں نہ ہوا ۔
عہدظلمت میں نمایاں ہے صداقت کی جھلک ۔
ہے یہ وہ چاند جو بجلی میں بھی پنہاں نہ ہوا ۔
ا س کی قسمت میں نہیں لطف حیات ابدی۔
جو دل و جاں سے اسلام پہ قرباں نہ ہوا۔
سر پکڑ کر کوئی دن میں یہ کہیں گے ریڈنگ۔
ہند میں ایک بھی پورا مرا ارماں نہ ہوا ۔
جناب رتن لعل زمرد صاحب سکندر آباد ی:
دل دیا، مال دیا ،زربھی دیا جان بھی دی ۔
اس پہ طرہ ہے کہ ان پر کوئی احساں نہ ہوا ۔
بے حیائی کے تو جینے سے مرنا بہتر ۔
جس کی عزت نہ ہو دنیا میں وہ انساں نہ ہوا۔
جناب حفیظ الرحمن صاحب حفیظ فروخ ابادی( سزا ایک سال )
سر اڑایا نہ گیا دار کا فرماں نہ ہوا ۔
خوگرجو رپے اتنا بھی احساں نہ ہوا۔
اپنا ایمان ہے، وہ صاحب ایماں نہ ہوا ۔
جو خلافت کے لئے شوق سے قرباں نہ ہوا ۔
دل وہ دل ہی نہیں، جس دل میں نہ ہو درد وطن ۔
سر وہ سر ہی نہیں ،جو قوم پہ قرباں نہ ہوا۔
بیڑیاں بھی تو نہ ڈالیں تیرے دیوانے کے۔
جیل میں آ کے بھی پورا مرا ارماں نہ ہوا
وہ حفیظ آپ کو انساں نہیں کہلا سکتا ۔
جس کو سوراج کا تھوڑا سا بھی ارماں نہ ہوا ۔
پوری غزل بہت صاف اور سلیس تھی داد خوب دی گئی ۔
پنڈت رام نریش ترپاٹھی الہ آباد( 18 ماہ قید سخت سو روپیہ جرمانہ ) ہندی کا اچھے شاعر اور کئی کتابوں کے مصنف۔
اس نےسمجھا ہی نہیں حب وطن کیا شئےہے۔
جیل میں آ کے جو سرکار کا مہماں نہ ہوا ۔
محمد مصطفی صاحب پھپھوندوی المتخلص مداح واحمق( سزا ایک سال)
خبط گیسو کا ہوا، عشق رخ جاناں نہ ہوا۔
مجھ کو پیچس ہی ہوئی، شکر ہے یرقاں نہ ہوا ۔
صلہ قوم فروشی کی تمنا ہی رہی۔
مر مٹاشیخ خوشامد میں،مگر خاں نہ ہوا۔
مجھ کو حیرت ہے تیرے دور میں ائے عہد صلیب!۔
کیوں ابھی آرڈر ضبطی قرآں نہ ہوا ۔
گل عارض پہ ترے بلبلے شیدا کی طرح۔
ایک الو بھی تو کمبخت غزل خواں نہ ہوا۔
جیل خانے کے چنے جس نے کبھی چاب لیے۔
پھر وہ صاحب سے مٹن چاپ کا خواہاں نہ ہوا۔
اہل یورپ نے کیا ہے وہ تماشا جو کبھی۔
آپ کے باپ سے بھی حضت شیطان نہ ہو۔
نہ قفص کی تجھے پرواہ ہے نہ صیاد کا خوف ۔
شکر کر زاغ،کہ تو مرغ خوش الحاں نہ ہوا ۔
مر گیا موت سے پہلے ہی شب ہجر احمق۔
ملک الموت کا شرمندہ احساں نہ ہوا ۔
دوسری غیر طرحی غزل جو فتح گڑھ جیل سے آگرہ جیل میں آتے ہوئے لکھی گئی ۔
سامنے سے مدعی کی بزم میں جاتے ہوئے ۔
نکل جاتے ہیں میرے دل کو برماتے ہوئے۔
کونسل میں شیخ جی پہنچے جو اٹھلاتے ہوئے ۔
خوف سے شیطان بھاگے ٹھوکریں کھاتے ہوئے ۔
میں کوئی حوا نہیں جو آپ کو کھا جاؤں گا ۔
آپ گھبراتے ہیں ناحق میرے پاس آئے ہوئے۔
دیکھیے ان بندروں کی ہیئت میں میمونیت ۔
کیا بھلے معلوم ہوتے ہیں یہ غراتے ہوئے ۔
ایسے وعدے سے تو اچھا تھا کہیں انکار وصل۔
دو مہینے ہو گئے ظالم کو ٹرخاتے ہوئے۔
خبط کونسل نے دوا لا ہی دیا ان کو نکال۔
نذر آنر سیٹھ جی کے سب بہی کھاتے ہوئے۔
ہے محلے میں رقیبوں کے ہی میرا بھی مکاں۔
اس طرف بھی آ نکلیے گا ادھر جاتے ہوئے۔
ریل گاڑی میں لکھی ہم نےاحمق یہ غزل ۔
فتح گڑھ سے آگرہ کی جیل کو جاتے ہوئے ۔
حضرت احمق کی غزلیں بہت پسند کی گئیں اور نہایت دلچسپی سے سنی گئیں اور ہر ایک شعر دوبارہ اور سہ بارہ پڑھوایا گیا اور خوب داد دی گئی۔
غزل غیر طرحی بابو رگھوپتی سہائے فراق ۔بی۔اے گورکھپور۔
حشر میں کہتے ہیں کہ دو یہ میرا قاتل نہ تھا ۔
صدقہ اس تقریر کے، گویا کی میں بسمل نہ تھا ۔
غرق کرکے میری کشتی بھر گئی تو، بھی تو موج ۔
تجھ کو سر ہی تھا جوٹکرانا تو کیا ساحل نہ تھا ۔
کر کے دشمن سب کو میرا، تم نے ثابت کردیا۔
دعوی تسخیر عالم،دعوے باطل نہ تھا۔
کیوں نہ موجیں سر پٹکتی جوش غم میں اے جناب۔
گود میں دریا تھا ،تو کیا تشنہ لب ساحل نہ تھا ۔
آیند ہ مشاعرہ کے لئے( مندرجہ( ذیل مصرع طرح تجویز کیا گیا ۔
دیا ہے درد اگر تو نے، تو اس کو لا دوا کر دے۔ دوا، دعا، اآشنا، قافیہ کردے۔ ردیف۔
Last edited: