حقوق والدین
لا تعبدون الااللہ وبا الوالدین احساناترجمہ:تم عبادت نہیں کرو گے مگر خالص اللہ تعالی کی۔والدین کے ساتھ احسان عظیم کرو۔
تشریح: احسان عظیم کرنا جو کہ چند قسموں کا جامع ہو۔اور وہ تین قسمیں ہیں : پہلی قسم قول اور فعل سے تکلیف نہ دینا ، دوسری قسم جسم اور مال سے ان کی خدمت کرنا اور تیسری قسم جب حاضر ہونے کی طلب کریں تو حاضر ہو نا۔
پہلی قسم تو مطلق واجب ہے ۔ اس لئے اسے چھو ڑنے میں بہت بری نا فرما نی لا زم آتی ہے اور دوسری قسم مشروط ہے ان کے محتاج ہو نے اور اس کے خدمت کر نے پر قادر ہو نے پر ۔ پس اگر وہ محتاج نہ ہوں یا اسے قدرت نہیں ہے ۔ تو واجب نہیں ہے ۔اور تیسری قسم بھی مشروط ہے اس پر کہ حاضر ہو نے سے شرعی خرابی ثابت نہ ہو ۔ورنہ واجب نہیں اور اگر والدین یا ان میں سے ایک اسے فرما ئیں کہ نفلی عبا دتوں کو چھوڑ دے اور ہمارے پاس حاضر رہ تو ان کے حکم تعمیل پہلے ہے ۔اور اگر فرمائیں کہ واجبات ترک کردے یا حج فرض کے لئے نہ جاتو قبول نہ کر ے۔ اور اگر سنن مؤکدہ کو جیسے جماعت اور عرفہ کا روزہ چھڑائیں تو زیادہ صحیح یہ ہے کہ اگر ایک دو بار ترک کرائیں تو ان کا کہا مان لے اور اگر اس ترک کی عادت بنا لیں تو ان کے حکم کو قبول نہ کرے۔
حقو ق اللہ کے بعد حقوق والدین رکھنے کے وجوہ :
حاصل کلام یہ کہ ہم نے والدین کے ساتھ احسان کر نے کو اپنی عبادت کے بعد اور ان کے حق کو اپنے حق کے برابر کیا چند وجوہ کی بنا پر۔پہلی وجہ یہ ہے کہ والدین جس طر ح اپنی اولاد کی پرورش اور تر بیت کا سبب ہیں ۔اور ایجاد الٰہی کے فیض کا واسطہ ہو تے ہیں ۔ والدین کے سوا کوئی یہ مرتبہ نہیں رکھتا ۔ اگر کوئی تر بیت اور پرورش کا ذریعہ بنتا ہے ۔تو وجود کا سبب ہر گز نہیں ہو تا ۔ پس اللہ تعالیٰ کے انعام کے بعد والدین کے انعام سے کسی کا انعام بڑا نہیں ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ والدین کا انعام حضرت حق جل وعلا کے ساتھ پو ری مشابہت رکھتا ہے ۔ کیونکہ وہ اس انعام کے عوض کوئی تعریف شکر یا کوئی ثواب اور جزا نہیں چا ہتے ۔ بخلاف دوسرے لو گوں کے انعام کے لا زمی طور پر کسی غرض سے مخلوط ہو تا ہے ۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر انعام کر نے سے رنجیدہ نہیں ہو تا اگر چہ بندہ گنہگار اور نا فرمان ہو ۔ اس طرح وہ بھی اولاد سے شفقت اور خیر خواہی سے رنجیدہ نہیں ہو تے اگر چہ اولاد نا لائق ہو۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ والدین کو واحد حقیقی کی بارگاہ سے کمال مناسب ہے۔ جس طرح درجہ خدائی میں ایک ذات پا ک کے سوا کسی کی گنجائش نہیں اسی طرح ماں باپ کے درجہ میں ایک ایک فرد کے سوا کوئی نہیں آسکتا ۔
پانچویں وجہ یہ ہے کہ کمال جو ممکن ہے ،اولاد کے بارے میں والدین اس کی آرزو کرتے ہیں ۔ بلکہ ہر کمال میں اپنی اولاد کی اپنے آپ سے زیادہ ترقی چاہتے ہیں ،اور کسی اچھی چیز پر اس پرحسد نہیں کرتےاور یہ والدین کے سوا کسی کی خصوصیت نہیں ۔اور یہی وجہ ہے کہ تمام شرائع اور د ینوں میں والدین کی تعظیم واجب رہی ۔بلکہ اولاد کے ساتھ والدین کی مناسبت ، محبت اور جھکاؤ ذاتی ہے بے شعور حیوانات میں بھی مو جود ہے ۔جس طرح اللہ تعالی کی اپنے بندے کے ساتھ محبت ذاتی ہے ۔اور اس لئے کا فروں کے حق میں رسل علیہ السلام کی بھیجنے ، کتابیں اتارنے ، دلائل قائم کر نے اور عذر زائل کر نے کے ساتھ مصروف ہے ۔
اور اس آیت میں جو والدین کو ایمان کی قید کے بغیر مطلق ذکر فرمایا ہے ،ایک اشارہ ہے کہ ماں با پ اگر چہ منافق یا فاسق وفاجر ہو ں ،اولاد کو ان کے متعلق بھی نر می اور اچھے سلوک کی راہ پر چلنا چاہئے ۔اور یہی وجہ ہے کہ حضرت ابرا ہیم خلیل الرحمن علیہ السلام نے اپنے چچا کو جو کہ بمنزلہ باپ تھا ، پیغام ہدیت دیتے ہو ئے نرمی کا راستہ اختیار فر مایا جیسا کہ سورہ مریم میں اسے وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ۔اور جب حنظلہ بن ابو عامر راہب نے جو کہ جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ تھے اپنے باپ ابو عامر راہب کو جو کہ سخت عناد رکھتا تھا قتل کر نے حضور ﷺ سے اجازت چا ہی تو حضور ﷺ نے اجازت نہ دی اور با پ کو قتل کرنے سے اگر چہ واجب القتل تھا منع فرما یا۔
والدین کے ساتھ احسان کرنے کا طریقہ:
اور احادیث صحیح میں جو کچھ مروی ہے اس کے مطابق والدین کے ساتھ احسان کر نے کا طریقہ یہ ہے کہ تہ دلی سے ان کے ساتھ محبت کرے۔ اور گفتگو ، چلنے ، بیٹھنے اور اٹھنے میں ادب کی با ریکیوں کی رعایت کرے۔ مثلاً چلنے میں آگے نہ ہو ۔ اور گفتگو میں انھیں ان کے نام کے ساتھ نہ پکارے مثلاً یا سیدی اور یا سیدتی ، یا ائے والد محترم اور والدہ محترمہ اور اسی طرح خدمت میں مقدور بھر خرچ کرے۔ اور قول اور فعل میں انھیں خوش رکھنے کا قصد کرے اور اپنے قیمتی اوقات اور نفیس مال کا انھ سے دریغ نہ کرے اور وفات کے بعد ان کی وصیت جاری کر نے میں لگ جائے۔ اور انھیں دعائے خیر اور استغفار کے ساتھ یا د رکھے اور ان کے لئے صدقات وخیرات بھیجے ۔ اور ایک جمعہ کی مقدار میں ان کی قبر کی زیارت کر ۔اور سورہ یٓسن پڑھ کر اور اس کا ثواب ان کی روح کو گذارے اور جنھیں ان سے محبت اور قرابت ہے ، ان کی خبر گیری کر ے ۔ اور جو سلوک وہ ان سے کرتے تھے بجا لائے کیونکہ ان اعمال کے ساتھ والدین کے ساتھ نیکی کرنا پورا ہوتا ہے۔اور ان تمام مراتب کو سورہ اسرا میں چند کلمات کے ضمن میں ارشاد فرمایا ۔:انھیں اف تک مت کہو اور انھیں مت جھڑکو اور ان سے بڑی تعظیم سے بات کرو اور ان کے لئے تواضع وانکسار کے بازو جھکادو رحمت سے اور اور عرض کرو ً۔اے میرے پروردگار! ان دونوں پر رحم فرما جس طرح انھوں نے مجھے( بڑی محبت اور پیار سے ) پالا تھا جب میں بچہ تھا ۔(تفسیر عزیزی ج۲)