غزل
شاہد عباس رضوی شاہد لکھنوی
شاہد عباس رضوی شاہد لکھنوی
شاخ پر کیوں کیوں غشی سی طاری ہے
پھول کیا پتھروں سے بھاری ہے
پھول کیا پتھروں سے بھاری ہے
تیرے نقشے قدم زمین پے تھے
آسماں نے نظر اتاری ہے
آسماں نے نظر اتاری ہے
جاں بچا کر کدھر سے گزرے ہم
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے
جس کو دیکھو وہی شکاری ہے
بے ضرورت نہ گھر سے نکلے ہم
زندگی قید میں گزاری ہے
زندگی قید میں گزاری ہے
وہ تیرے انتظار کی شب تھی
جب ہوا ایک دئیے سے ہاری ہے
جب ہوا ایک دئیے سے ہاری ہے
اس نے ملنے سے کر دیا انکار
یار کچھ نہ کچھ خطا ہماری ہے
یار کچھ نہ کچھ خطا ہماری ہے
کوئی سایہ بھی اب دکھائی نہ دے
تیرگی روشنی سے پیاری ہے
تیرگی روشنی سے پیاری ہے
آؤ ہم تم بھی مول بھاو کریں
اب محبت بھی کاروباری ہے
اب محبت بھی کاروباری ہے
ایک دن پی تھی اس کی آنکھوں سے
عمر گزری وہ یہ خماری ہے
عمر گزری وہ یہ خماری ہے
بند کمرے میں اس کی بات نہ ہو
تذکرہ اس کا اشتہاری ہے
تذکرہ اس کا اشتہاری ہے
پھول کھلتے ہیں جھک گئی شاخیں
کیا یہی موسم بہاری ہے
کیا یہی موسم بہاری ہے
کٹ چکی ہے میری زبان لیکن
آج تک وہ بیان جاری ہے ہے
آج تک وہ بیان جاری ہے ہے
گرم لہجے بھی سرزد ہوا شاہد
شہر میں آج برف باری ہے
شہر میں آج برف باری ہے