خلیفہ دوم حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اسلام کی وہ عظیم شخصیت ہیں کہ جن کی اسلام کے لئے روشن خدمات، جرات و بہادری، عدل و انصاف پر مبنی فیصلوں، فتوحات اور شاندار کردار اور کارناموں سے اسلام کا چہرہ روشن ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔
تعارف
آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔
اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب...
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3681)
’’اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے۔ ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا اور چند دنوں بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن یعنی عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔
(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 103)
آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔
چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔
(المعجم الکبير للطبرانی، رقم: 8820)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3686)
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کانت فی الامم محدثون ليسوابانبياء فان کان فی امتی فعمر.
(ديلمی، مسند الفردوس، رقم: 4839)
تم سے پہلی امتوں میں محدثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ (Ten blessed companions) میں شامل ہیں۔ یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں۔ جن کے بارے میں حضور سرور کائنات فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت عطافرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک اور جنتی آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3694)
حضور تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف آپ کے لئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا۔ اس کے بھی احوال بیان فرمائے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اول من يصافحه الحق عمرو اول من تسليم عليه و اول من ياخذ بيده فيدخله الجنة.
(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 104)
حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کاہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے۔
مزید برآں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن خطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔
(الهيثمی، مجمع الزوائد، 9/74)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذاتی اوصاف
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔ قرآن پاک کے متعدد احکامات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپ رضی اللہ عنہ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے۔ ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پالیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا۔ آپ شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے۔ فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے۔ اپنے والد کی شہرہ آفاق نساب تھے۔ زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت سے سیرابی میں بسر کیا۔ مگر محتاط مزاج کی بنا پر احادیث کی روایت بہت کم فرماتے۔ فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رضوان اللہ عنہم) جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔
(تاريخ اسلام، بشير احمد تمنا، ص140)
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تاریخ انسانی کا ایسا نام ہے جس کی عظمت کو اپنے ہی نہیں بیگانے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ وہ نبی نہیں تھے مگر اللہ نے ان کی زبان حق پر وہ مضامین جاری کردیئے جو وحی کا حصہ بن گئے۔ قبول اسلام کے بعد وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے شیدائی بن کر فاروق کہلائے۔
تعارف
آپ رضی اللہ عنہ کا نام عمر بن خطاب، لقب فاروق اور کنیت ابو حفص ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب نویں پشت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ سے قبل چالیس مرد اور گیارہ عورتیں نور ایمان سے منور ہوچکی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہ ’’عام الفیل‘‘ کے تقریباً 13 سال بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور نبوت کے چھٹے سال پینتیس سال کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوکر حرم ایمان میں داخل ہوئے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ وہ عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے خصوصی طور پر دعا مانگی تھی۔
اللهم اعز الاسلام باحب هذين الرجلين اليک بابی جهل او بعمر ابن الخطاب...
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم: 3681)
’’اے اللہ! تو ابوجہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما‘‘۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ مراد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ٹھہرے۔ ایمان کی لازوال دولت تو اللہ رب العزت نے حضرت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی قسمت میں لکھ دی تھی تو پھر یہ دولت ابوجہل کے حصے میں کیونکر آتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں شرف قبولیت سے نوازا گیا اور چند دنوں بعد اسلام کا سب سے بڑا دشمن یعنی عمر بن خطاب اسلام قبول کرکے اسلام کا سب سے بڑا خیر خواہ اور جانثار بن گیا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! اہل اسلام نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے۔
(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 103)
آپ رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے سے نہ صرف اسلامی تاریخ میں انقلابی تبدیلی آئی بلکہ مسلمانوں کی قوت و عظمت میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔ وہ مسلمان جو پہلے اپنے اسلام کو ظاہر کرتے ہوئے شدید خطرات محسوس کرتے تھے، اب اعلانیہ خانہ کعبہ میں عبادت انجام دینے لگے۔
چنانچہ اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام ہمارے لئے ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی۔ خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکین مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔
(المعجم الکبير للطبرانی، رقم: 8820)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لوکان نبی بعدی لکان عمر بن الخطاب.
(جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3686)
اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن خطاب ہوتا۔
اسی طرح ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
کانت فی الامم محدثون ليسوابانبياء فان کان فی امتی فعمر.
(ديلمی، مسند الفردوس، رقم: 4839)
تم سے پہلی امتوں میں محدثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدث ہے تو وہ عمر ہے۔
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ (Ten blessed companions) میں شامل ہیں۔ یعنی آپ ان دس خوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل ہیں۔ جن کے بارے میں حضور سرور کائنات فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کی بشارت عطافرمائی۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم پر ایک شخص داخل ہوگا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ داخل ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہارے پاس ایک اور جنتی آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ (جامع ترمذی، کتاب المناقب، رقم:3694)
حضور تاجدار مدینہ سرور قلب و سینہ احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف آپ کے لئے جنت کی بشارت دی بلکہ حشر کے دن بارگاہ ایزدی میں آپ کا کیا مقام و مرتبہ ہوگا۔ اس کے بھی احوال بیان فرمائے۔ چنانچہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اول من يصافحه الحق عمرو اول من تسليم عليه و اول من ياخذ بيده فيدخله الجنة.
(سنن ابن ماجه، باب فضل عمر، رقم: 104)
حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کاہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے۔
مزید برآں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن خطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔
(الهيثمی، مجمع الزوائد، 9/74)
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے ذاتی اوصاف
حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حد درجہ ذہین، سلیم الطبع، بالغ نظر اور صائب الرائے تھے۔ قرآن پاک کے متعدد احکامات آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق نازل ہوئے مثلاً اذان کا طریقہ، عورتوں کے لئے پردہ کا حکم اور شراب کی حرمت۔ آپ رضی اللہ عنہ شجاعت، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں یکتائے زمانہ افراد میں سے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ ادبیات میں ذوق لطیف کے حامل اور شعر کے اعلیٰ نقاد تھے۔ ابتداء میں بلیغ شعر کہتے مگر دینی خدمت نے اتنا غلبہ پالیا کہ اس ذوق کے اظہار کا موقع نہیں ملتا تھا۔ آپ شعر جاہلیت میں اصلاح کے علمبردار تھے۔ فنون حرب اور سپہ گری میں شجاعان عرب میں نہایت ممتاز و منفرد تھے۔ اپنے والد کی شہرہ آفاق نساب تھے۔ زندگی کا اکثر و بیشتر حصہ فیضان نبوت سے سیرابی میں بسر کیا۔ مگر محتاط مزاج کی بنا پر احادیث کی روایت بہت کم فرماتے۔ فقہ اور اجتہاد میں بلند مقام رکھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت عبداللہ بن مسعود (رضوان اللہ عنہم) جن تک آئمہ فقہ کے سلاسل جاکر ملتے ہیں، آپ رضی اللہ عنہ کے تربیت یافتہ تھے۔ آپ کے تفقہ کی صداقت کی گواہی اس مشہور واقعہ سے ملتی ہے کہ ایک یہودی اور منافق مسلمان میں کسی بارے میں تنازعہ ہوا۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فیصلہ کروایا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیانات کے بعد فیصلہ یہودی کے حق میں دیا۔ وہ منافق مسلمان حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا کہ آپ حمیت دینی میں اس کا ساتھ دیں گے مگر جب آپ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقدمہ کا فیصلہ فرماچکے ہیں اور اب منافق مجھ سے فیصلہ چاہتا ہے تو تلوار اٹھا کر منافق کا سرقلم کردیا۔ قرآن کریم نے سورہ نسآء میں اس فیصلہ کی توثیق کی اور مستقل طور پر یہ اصول طے پایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو آخری حیثیت حاصل ہے اور جو اس فیصلہ کو درست تسلیم نہ کرے وہ مومن نہیں ہے۔
(تاريخ اسلام، بشير احمد تمنا، ص140)