علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزارویؒ

محمد اسحاق ظفر

وفقہ اللہ
رکن
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج تم یاد بے حساب آئے
( علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزارویؒ بانی تنظیم المدارس و جامعہ نظامیہ رضویہ کے یوم ِوصال پر ان کی یادوں کے اجالے )
محمد طاہر عزیز فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور
٭ خطیب لورنسکوگ مسلم سنٹر ناروے
یہ 17 سال پہلے کی آج کے دن (26 اگست) کی وہ شام کبھی نہیں بھول سکتا کہ کافی طلباء کے ساتھ مغرب کی نماز کے وقت جامعہ نظامیہ کے مرکزی دروازے پر اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کس وقت دروازہ کھلتا ہے کیوں کہ جامعہ کا یہ طریقہ ہے کہ نماز کے وقت صدر دروازہ بند کردیا جاتا ہے ۔اسی دوران میں دروازے پر کوئی بھی آجائے تو نماز ختم ہونے تک انتظار کرنا ہوتاہے۔
اسی انتظار میں اچانک قبلہ استاذ گرامی ، علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی مدظلہ بھی وہاں آگئے زمانہ طالب علمی تھا ، اساتذہ کا احترام بھی حرز جاں تھا اور ان کا رعب و دبدبہ بھی اور ساتھ خدشہ یہ بھی کہ ابھی جواب طلبی ہوگی کہ نماز کے وقت تم لوگ یہاں کیوں ؟ مگر آج خلاف معمول خاموشی تھی اور استاذ گرامی تشرف لاکر وہیں رک گئے اور بالکل ساکت و جامد! حالاں کہ ان کے پاس دروازے کی چابی بھی ہوتی تھی۔ اسی ذہنی کشمکش میں ان کی جانب نظر اٹھی تو آنکھوں سے ٹپکتا پانی صاف کرتے دکھائی دیے ۔۔
یا خدا خیر ہو۔۔ تھوڑی دیر بعد کسی دوست نے ذکر کیا کہ قبلہ مفتی صاحب (مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی )انتقال کرگئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
یہ خبر غم سن کر بے ساختہ میری زبان پر سیفؔ کا یہ شعر جاری تھا
زندگی کس طرح کٹے گی سیفؔ
رات کٹتی نظر نہیں آتی
جامعہ میں داخل ہوئے تو ایک کہرام سا مچا تھا میں نے بچشمِ خود طلباء کو ایک دوسرے سے گلے لگ کر روتے دیکھا حالاں کہ میرا لاشعوری دور اور جامعہ نظامیہ میں اس وقت ابتدائی درجات یعنی فارسی اور صَرف میں پڑھتا تھا مگر اچانک اس خبر نے اس قدر غمگین کر دیا کہ اس کا احساس آج بھی تازہ ہے۔ اور یہ ان کی پرکشش شخصیت کا کمال تھا کہ جس نے ایک لمحہ ان کے ساتھ گذارا وہ اسی کیفیت کے ساتھ ان کا ذکر کرتا ہے
آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے
آپ کے ساتھ ہی گذاری ہے
مفتی صاحب قبلہ اپنی ذات میں علم و فن اور فکر و اخلاص کی ایک عظیم درس گاہ تھے انہوں نے اپنی پاکیزہ زندگی میں عزم،للہیت،اخلاص، مستقل مزاجی، مستعدی اور فکرو شعور کے وہ حسین اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو کسی بھی دین کے مخلص کیلئے مشعل راہ ثابت ہوسکتے ہیں۔
استاذ گرامی علامہ شیخ حافظ محمد عبدالستار سعیدی مدظلہ کی تحقیق کے مطابق بچپن کے ابتدائی نو (9) سال نکال کے باقی زندگی کے 61 سال برس علوم دینیہ کی تعلیم و تعلم میں بسر فرمائے۔
ما زندہ بہ آنیم کہ آرام نگیریم
موجیم کہ آسودگی ِ ما عدم است
اور ایسا نہیں کہ بس اس شعبہ سے وابستہ رہے اور اپنا وقت گذارا
نہیں نہیں!!!
بلکہ انہوں نے اپنی حیات طیبہ کا ایک ایک لمحہ اس میں بھر پور استعمال کیا جس کا منہ بولتا ثبوت ان کی ہمہ جہت خدمات ہیں۔
خدمت دین کا کوئی ایک بھی ایسا شعبہ نہیں جس میں انہوں نے قابل رشک اور لائق ذکر کام نہ کیا ہو۔ ملکی و ملی خدمات اس کے علاوہ ہیں وطن عزیز پاکستان سے تو محبت آپ کے انگ انگ میں رچی بسی تھی۔
اپنی خود نوشت میں رقم طراز ہیں کہ جب ہم جیندھڑ شریف (گجرات،پاکستان) میں زیر تعلیم تھے تو ان دنوں پاکستان کی تحریک عروج پر تھی، ہم طلباء اسباق سے فراغت کےبعد محلے کی گلیوں میں دوڑتے اور نعرے لگاتے ’’ لے کے رہیں گے پاکستان۔۔۔۔بن کے رہے گا پاکستان۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا ؟ ۔۔۔۔ لا الہ الا اللہ۔۔۔ دستور ریاست کیا ہوگا ؟ محمد رسول اللہ(ﷺ)۔ اگر چہ اب ایک سوچی سمجھی سازش کہیے یا عدم توجہ بہر حال پاکستان کا مطلب کیا ۔۔لا الہ الا اللہ۔۔ ہم نے یہاں تک اسے محدود کر دیا اگر یہ پورا نعرہ لکھا پڑھا جاتا تو یہ تاریخی دیانت بھی ہوتی اور دستور ریاست کا تعین بھی۔ اور ویسے بھی آج کل پاکستان کا مطلب کیا ؟ کا جواب ہم نے بہت عجیب طے کرلیا ہے کہ یہ کوئی 1996 ء یا 1997ء کی بات ہے کہ اپنے آبائی علاقے کے ایک مقامی اسکول گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر ۱ کوٹ ادو میں سالانہ امتحانی نتائج کے اعلان کے موقع پر کسی نے نعرہ تکبیر ورسالت کے بعد پاکستان کا مطلب کیا کا نعرہ بلند کیا تو کسی سر پھرے نے جواب دیا۔۔ ’’جو کجھ لبھی جیب اچ پا‘‘ ( جو کچھ ملے جیب میں ڈال )
مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صرف لکھنے کی حد تک نہیں بلکہ فی الحقیقت وہ خدمات دینیہ کے تمام شعبہ جات پر ایک اتھارٹی سمجھے جاتے اور اپنی ماہرانہ آراء سے دوسروں کی راہنمائی بھی فرماتے۔ ان کے تجربات ان کی شخصیت کی طرح اجلے اور شفاف ہوتے اور دین کے کام میں پیش آمدہ جملہ مصائب ا ور پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی تلقین فرماتے ۔ وہ خود بغیر لگی لپٹی کے اپنے تجربات سے دوسروں کو خاص کر اپنے تلامذہ سے روشناس کراتے خصوصا جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان کا بھی ذکر فرماتے ، جامعہ کے سالانہ جلسے کے موقع پر اپنی گفتگو میں ان کا ذکر کرتے اور فرماتے کے کئی بار ایسا ہوا کہ رات کو خالی ہاتھ ہوتا اور آنے والے دن طلبہ کی خوراک کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہ ہوتا ، لیکن صبح ہونے سے پہلے پہلے اللہ کی طرف سے ایسا حیران کن انتظام ہوجاتا کہ بے اختیار بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجاتا اور اپنے مشن کی سچائی پر ایمان اور بھی پختہ ہوجاتا۔
ایک بار دو میاں بیوی بہت دور سے سفر کرکے جامعہ کی خدمت کرنے آئے تو انہوں نے بتایا کہ رات کو خواب میں مجھے حضرت سلطان باہو کی زیارت ہوئی ہے تو انہوں نے اس جامعہ کی خدمت کا حکم فرمایا اس تعمیل ارشاد میں یہاں حاضر ہوا ہوں ۔
اسی پر نامور محقق علامہ حافظ محمد سعد اللہ جامعہ نظامیہ کے ستمبر 2002ء کے ختم بخاری میں شرکت کے حوالہ سے لکھتے ہیں
اپنی گفتگو کے آخر میں مفتی صاحب نے طلبہ ، علمائے دین اور ائمہ و خطبائے مساجد کو دین کے رستے میں پہنچنے والی مشکلات ،خلاف مزاج باتوں اور ہر طرح کی پریشانیوں پر صبر اور ہمت و حوصلے کی تلقین فرمائی اور بتایا کہ جب تم بفھوائے حدیث نبوی نبی اکرم ﷺ کے علمی وارث ہو تو رسول اکرم ﷺ کی تیرہ سالہ مکی زندگی کو بھی سامنے رکھو۔ دین کے راستےمیں مشکلات آئیں گی اور یہ مشکلات طنزو تشنیع کی باتیں صرف تمہیں پیش نہیں آتیں آج سے چودہ سو سال قبل حضرت سعد بن ابی وقاص جیسے جلیل القدر صحابی کوفہ کے گورنر اور جامع کوفہ کے امام کو بھی پیش آچکی ہیں ‘‘ (النظامیہ مفتی اعظم نمبر، 2003ء)
آپ کو ذاتی طور پر کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کئی بار جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں ، فرماتے کہ جامعہ نظامیہ کے ابتدائی دن تھے دعا کروانے کے بہانے مخالفین مجھے ایک گھر میں لے گئے اور کہنے لگے کہ یہاں مدرسہ بنانے سے باز آجاؤ ورنہ جان سے جاؤ گے تو میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ اس سے بڑی خوش قسمتی میرے لیے اور کیا ہوسکتی ہے کہ میری جان دین کے کام آجائے،
ان کی اسی محنت شاقہ کو دیکھ کر امام اہل سنت غزالی زماں علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی ؒ ان کی جانب اشارہ کر کے فرماتے کہ ’’یہ ہمارے مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب ہیں ان سے اہل سنت قائم ہے‘‘
ہر انسان کی زندگی تمام خواہشوں کا پورا ہوجانا ضروری نہیں جب خو اہشیں پوری نہ ہوں تو ظاہر بات ہے کہ پھر زندگی مطمئن بھی نہیں ہوتی۔ مگر خدا شاہد قسمت کے کئی ایسے بھی سکندر موجود کہ زندگی میں ہی اپنی خواہشات کا ثمر بھی بعینہ پایا اور اطمینان بھی اس کے علاوہ۔۔۔ کچھ ایسا ہی معاملہ ہمارے ممدوح گرامی کے ہاں بھی ہے کہ وہ اپنی زندگی سے مکمل مطمئن تھے اور اپنی خدمات کا ثمر بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ کے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
یوں میری یاد میں محفوظ ہیں تیرے خدوخال
جس طرح دل میں کسی شے کی تمنا ہونا
انہوں نے اپنے ہاتھوں دین و ملت کی آبیاری کی ایسی خوبصورت مثالیں قائم کیں اور ایسے تناور درخت اپنے ہاتھوں سے لگائے کہ ان کا ظل عاطفت آج بھی خدمت دین کرنے والوں کیلئے سائبان رحمت ہے ۔ (کشجرۃ طیبۃ اصلھا ثابت وفرعھا فی السماء )
اور انہیں اپنے طلباء و تلامذہ پر اور تلامذہ کو ان کا مکمل اعتماد حاصل تھا باہم تعلق کا یہ خوبصورت سنگم لوگوں کیلئے مرج البحرین کا درجہ رکھتا ۔۔
1988ء میں برطانیہ کے دورے پر تشریف لے گئے تو وہاں پیر طریقت جناب پیر معروف حسین شاہ نے انٹر نیشنل یونیورسٹی کے عربی اردو جاننے والے کثیر تعداد پروفیسرز کو بھی مدعو کر رکھا تھا تقریب میں انہوں نے فتاویٰ رضویہ دیکھا تو تو وہ کہنے لگے کہ کہ اس کی ایک ایک جلد پر پی ایچ ڈی ہوسکتی ہے ، انہوں نے پوچھا کہ یہ کام آپ کے اساتذہ کر رہے ہیں تو مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب نے فرمایا نہیں یہ ہمارے اساتذہ نہیں طلباء کرتے ہیں ۔ ( سوئے حجاز ،انٹرویو از ادیب شہیر ملک محبوب الرسول قادری )
انکے طلباء ہی انکی پہلی اورآخری محبت اور مان تھے ظاہری زندگی کا معاملہ تو کجا وہ بعد از وصال بھی اپنے طلباء سے غافل نہیں ہیں ۔
استاذ گرامی شیخ الحدیث علامہ ڈاکٹر فضل حنان سعیدی شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، قبلہ مفتی صاحب کے وصال سے اس وقت تک جامع ترمذی کی تدریس بھی فرماتے ہیں آپ گذشتہ برس ناروے تشریف لائے تو برادر گرامی علامہ قاری عامر خان صاحب کے ہاں ’’ اہل سنت امام کونسل ناروے‘‘ کے معزز علماء و اراکین کے ساتھ کھانے کی نشست پر یہ بات سنائی کہ میں نے ایک بار کسی بات سے دل برداشتہ ہو کر جامعہ سے استعفیٰ دے دیا کئی دوستوں نے اس فیصلے پر نظر ثانی کا کہا بھی مگر میرا یہ پکا فیصلہ تھا کہ اب تدریس نہیں کرنی ، اس فیصلے سے ناظم اعلیٰ جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور، علامہ صاحبزادہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی کو مطلع بھی کر دیا اور انہی دنوں میں انگلینڈ تراویح سنانے کے لیے چلا گیا میں انگلینڈ میں تھا کہ ایک دن خواب میں دیکھا کہ میں جامعہ نظامیہ کی مسجد میں ہوں اور وہ تشریف لائے آتے ہی سلام دعا کے بعد میری خیریت دریافت فرمائی اور فرمایا کہ فضل حنان! تم نے اس سال ترمذی شریف پڑھانی ہے ، میں نے انکار کیا کہ آپ کے ہوتے ہوئے میں کیسے ؟ آپ پڑھائیں تو اپنی بات پر پورا زور دے کر فرمانے لگے کہ تم نے ۔۔ ترمذی شریف پڑھانی ہے ۔ کچھ دنوں کے بعد انگلینڈ میں صاحبزادہ محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی تشریف لائے تو انہوں نے بھی فیصلے پر نظر ثانی کا کہا تو میں ذہنی طور پر تو پہلے مفتی صاحب کے کہنے پر تیار بیٹھا تھا اور ان کے کہنے پر بغیر کسی بھی قسم کی تاخیر کے اپنی رضا مندی ظاہر کی اور اس کے بعد تاہنوز تدریسی عمل سے وابستہ ہوں جب تک زندگی ہے اس کو نہیں چھوڑ سکتا ۔۔
انہیں دینی کام سے غرض تھی جو بندہ یہ کام کرتا وہ ان کا محبوب ہوتا اور اس کیلئے ان کی تمام شفقتیں اور عنایتیں قربان تھیں ، کئی بار دیکھا ہے کہ مدارس کے لائق فارغ التحصیل اپنے پاس رکھ لیے جاتے ہیں مگر قبلہ مفتی صاحب کا مزاج اس معاملے میں بہت مختلف تھا وہ سمجھتے جو بندہ جہاں فٹ ہوتا ہے اس کو وہیں رہنا چاہیے، اور اگر کوئی بندہ کہیں کام کر رہا ہے تو اس کو اس جگہ ہی کرنا چاہیے تاکہ اس کو آگے پیچھے کرنےسے وہ سلسلہ تعلیم و تعلم تعطل کا شکار نہ ہو
برادر گرامی علامہ محمد حبیب احمد سعیدی (ناظم تعلیمات مدرسہ نور جامعہ نظامیہ رضویہ شاہدرہ لاہور) قبلہ مفتی صاحب کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں اور انکے ساتھ انہیں کئی اسفار کا موقع بھی ملا اور دوپہر کو جامعہ کے لنگر سے قبلہ مفتی صاحب کو کھانا بھی یہی کھلاتے وہی عام لنگر طلباء والا اور ساتھ ایک ہری مرچ یہ ان کا پسندیدہ کھانا تھا سعیدی صاحب فرماتے ہیں کہ ہم اگر کہیں سفر میں ہوتے یا کہیں جاتے تو جگہ دینے کے معاملے میں یا کسی نشست کے معاملے میں وہ طلباء کو ترجیح دینے میں پہل کرتے اور فرماتے کہ مولانا ! آپ تشریف رکھیں ، فیصل آباد کے ایک سفر میں واپسی پر ایک بس میں سفر کیا تو مجھے سیٹ پر بٹھایا اور خود سارا راستہ کھڑے ہو کر سفر فرمایا ۔ان کے طلباء بھی ان پر جان چھڑکتے اور ایک شیخ کا درجہ انہیں دیتے ، ۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم میں
جن کو تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پانہ سکو گے
مجھے قبلہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی ؒ کی پہلی با ر زیارت کا شرف 1999ءمیں میرے جامعہ نظامیہ رضویہ کے داخل ہونے کے پہلے دن ملا کہ میں اپنے ایک عزیز مولانا قاری محمد امین فیضی زید مجدہ امام و خطیب جامع مسجد بابا شاہ جمال والٹن روڈلاہور( یہ میری لاہور آمد کا واحد ذریعہ اور وسیلہ بنے، اللہ کریم ان کو اس کار خیر کی بہترین جزا عطا فرمائے۔آمین )
کے ساتھ جامعہ میں شعبہ تجوید میں داخلہ لینے گیا تو جامعہ کے صحن میں موجود قدیم درخت اور پانی والی ٹینکی کے درمیان زمین پر پلاسٹک کی چٹائی پر دھوپ میں قبلہ مفتی صاحب چند رفقائے کرام موجود تھے، سلام دعا ہوئی خیریت دریافت فرمائی اور آنے کی وجہ بھی ، جب داخلہ کی عرض کی تو کچھ بنیادی معلومات لیں کہ حفظ کہاں کیا ؟ منزل کیسی وغیرہ۔۔ اسی اثنا میں ایک صاحب ایک مسئلہ پوچھنے آ وارد ہوئے تو ان کو مسئلہ بتایا اب وہ مسئلہ تو یاد نہیں مگر دلیل کے طور پر نویں پارے کی کوئی آیت پڑھی تو مجھے فرمانے لگے یہاں سے آگے پڑھو۔
وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ۔ (الاعراف،127)
یہ آیات کریمہ بلکہ یہاں سے آگے پورا رکوع سنا تب تازہ حفظ، تراویح بھی اسی سال پہلی بار مکمل سنائی تھی اور مزید حسنِ اتفاق یہ بھی کہ رکوع پورا سنایاتو کوئی غلطی بھی نہ آئی۔ اس پر بہت خوش ہوئے اور وہ لفظ آج بھی یاد ہیں فرمایا کہ تلفظ تو درست ہے مگر ابھی داخلے شروع ہونے میں ہفتہ باقی ہے ، تم جاؤ اور قاری امین صاحب کوہفتے میں پورا قرآن سنا لو تاکہ قاری ظہور سیالوی صاحب(صدر المدرسین شعبہ حفظ و تجوید جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ) تمہارا امتحان لیں تو غلطی کوئی نہ آئے اگر اس وقت غلطی آگئی تو وہ میری گواہی بھی نہیں مانیں گے تمہارے پاس ہفتہ ہے چار چار پارے کر کے پورا قرآن سنا لو پھر 11 شوال المکرم کو آجانا۔
صرف اک بار نظر بھر کے دیکھا تھا انہیں
زندگی بھر میری آنکھوں کا اجالا نہ گیا
یہ سن کر ہم واپس چلے گئے اور ان کے دیے گئے وقت پرآئے تو داخلہ بھی ہوگیا اور تجوید بھی وہیں پڑھی اور پھر درس نظامی بھی وہیں سے کیا ان سے وابستہ کئی یادیں ہیں مگر وقت تھوڑا تھا تاہم اس تھوڑے عرصے میں ان سے وابستہ کئی یادیں بہت حسین بھی ہیں اور میرے لیے سرمایہ حیات بھی ایک بات ضرور دل میں کھٹکتی ہے کہ جب کوئی شعور ملا تو وہ راہی ملک عدم ہوگئے ۔
قبلہ شیخ الحدیث علامہ حافظ محمد عبدالستار سعیدی فرماتے ہیں کہ نظامیہ ایک نظام کا نام ہے ، تو مہتمم اعلیٰ کے الفاظ سننے اور لکھنے کے قابل ہیں کہ تمہیں داخلہ شعبہ تجوید و قرات کے ذمہ داران نے دینا ہے اور یہ انکا کام ہے میں اس میں مداخلت نہیں کرتا اور یہی مشاہدہ اپنا ہے کہ جو ذمہ داری جس کو دی گئی اس کے بعد کوئی دوسرا وہاں مداخلت نہیں کرتا یہ جملہ مہتممین کیلئے ایک مسلمہ راہنما اصول ہے ۔
اپنے اساتذہ کرام اور انکے خانوادے سے بے اتنہا محبت فرماتے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جامعہ میں مجھے داخل ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہ گذراتھا شاید تجوید کی کلاس کا دوسرا سال تھا کہ ، قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ اور دیگر اکابر اہل سنت کی طرف سے ایک ریلی کا اعلان ہوا ، جامعہ نظامیہ کی طرف سے طلباء کو شرکت کا کہا گیا سچ یہ کہ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ معاملہ کیا ہے بس سیدھا سادہ ذہن اور اتنی بات کہ جلوس ہے اور اس میں جانا ہے، یوں اس جلوس میں شرکت کی، مجھے اچھی طرح یاد ہے قبلہ مفتی صاحب گیٹ پر کھڑے تھے اور طلباء کو کہہ رہے تھے بھاگو بھاگو جلدی جاؤ کہیں تاخیر نہ ہوجائے وہ پہلا موقع تھا جب میں نے حضرت قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ کی قریب سے زیارت کی۔
غالبا جلوس چیئرنگ کراس سے گزر رہا تھا کہ قائد ین جس مزدے پر سوار تھے اس پرقبلہ مفتی صاحب بھی سوار ہوئے، بس اتنا احساس تھا کہ یہ ہمارے جامعہ کے بانی ہیں اور یوں اسی ٹرک کو دیکھتا رہا کہ کیسے کیسے عظیم لوگ اس پر سوار ہیں ۔
قبلہ مفتی صاحب کے ٹرک پہ سوار ہوئے تو حضرت قائد ملت اسلامیہ نے بڑا شاندار محبت و عقیدت سے بھر پور استقبال فرمایا ، اسی استقبال کے دوران ایک اور بزرگ اسی مزدے پر سوار ہوئے تو قبلہ مفتی صاحب نے ان کا بہت عقیدت سے استقبال کیا ساتھ ہی ان کے ہاتھ بھی چومے، بس اچانک نظر پڑی ، اور ان کی دست بوسی کا منظر دیکھا تو بہت حیران ہوا اور دل ہی دل میں یہ خیال بھی کہ یہ کون ہو سکتا ہے جس کے ہاتھ مفتی اعظم پاکستان چوم رہا ہے، اور جتنی دیر وہ مزدے پر سوار رہے قبلہ مفتی صاحب ان کے پیچھے مودب کھڑے رہے، اب میں سوچتا ہی رہا کہ یہ بندہ کون ہو سکتا ہے، ان کا استاذ بھی نہیں کہ ان کی داڑھی کالی اور مفتی صاحب کی سفید، مستزاد اس پر عمر کا بھی فرق واضح، خیر پہلی بار ان کا نام سنا جب غالبا قاری زوار بہادر صاحب کمپیئر تھے انہوں نے انکے خطاب کا اعلان کیا، کہ جگر گوشہ و جانشین محدث اعظم پاکستان حضرت صاحبزادہ حاجی فضل کریم صاحب ، یہ پہلا موقع تھا جب میں نے ان کا نام سنا ، اور ساتھ خطاب بھی، بعد میں معلوم ہوا کہ یہ مفتی صاحب کے استاذ گرامی، کے بیٹے ہیں ، اور یوں اس قدر ادب و احترام کی وجہ بھی سمجھ آگئی ، مفتی صاحب سے عقیدت میں اور اضافہ ہوگیا۔
حضرت مفتی صاحب کلمہ حق کہنے میں انتہائی نڈر اور بے باک تھے ان کے کردار اور ان کے لباس پر کبھی کسی نے کوئی دھبہ نہ دیکھا ہمیشہ سفید اور صاف ستھرا رہا۔ جنرل پرویز مشرف کی رعونت اور ان کی اسلام مخالف سرگرمیاں کس سے ڈھکی چھپی ہیں ؟
ایک میٹنگ میں جنرل نے کہا تم مولوی لوگ باز نہ آئے تو میں مدارس کو تالے لگا دوں گا۔ اس پر مفتی صاحب نے بھرے مجمع میں بآواز بلند کہا کہ مدرسہ عمارت کا نام نہیں کہ تم تالے لگا کے بند کر لو۔ مدرسہ مفتی عبدالقیوم ہزاروی کا نام ہے یہ جہاں بیٹھے گاچاہے وہ پہاڑ کی چوٹی ہو یا ریت کا ٹیلہ وہی جامعہ نظامیہ ہوگا تم کر سکتے ہوبند تو کر لو۔
جہاں تو بال نچوڑے وہیں میخانہ بنے
جب مشرف نے ایجنسیوں سے اس مرد مجاہد کے متعلق رپورٹ طلب کی تو یہ کہا گیا کہ اس کی بے باکی وجہ اس کا بے داغ کردار ہے ، آپ اندازہ کریں مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ چودہ سال مرکزی و صوبائی زکاۃ کونسل کے ممبر رہے ، مرکزی رویت ہلال کمیٹی اور وزارت داخلہ کی ایڈوائزری کونسل کے ممبر بھی رہے مگر کبھی ان کے کردار پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکا۔
بلکہ ایک موقع پر ایک حکومتی طاقت ور ترین شخصیت نے زکوۃ کے ایک ارب روپے کسی دوسری مد میں لگانے کی کوشش کی تو مفتی صاحب ان ناپاک عزائم کے سامنے سینہ سپر ہوگئے اور اور اس بل پر کسی بھی قسم کی ترغیب وترہیب سے بے نیاز ہوکر دستخط کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ان کے اس منصوبے کو ناکام بنایا۔ اور ان لوگوں کو اپنے موقف سے رجوع کرنا پڑا۔
ان کے دل میں ہر کام کرنے والی قدر و عظمت وافر مقدار میں تھی اور اپنے اکابر کے ساتھ ان کا رویہ مخلصانہ اور برادرانہ ہوتا ، اپنے وصال تک وہ اتحاد اہل سنت کیلئے کوشاں رہے اور خود فرماتے کہ نورانی نیازی علیھم الرحمۃ اتحاد کیلئے ہم جتنی کوششیں کر سکتے تھے کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے ، نیازی صاحب کے انتقال کے بعد وہ قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے ساتھ مل کر اس بات کیلئے کوشش کر تے رہے ، ایک وقت میں قبلہ مفتی صاحب اور قبلہ نورانی صاحب کے درمیان کسی بات پر شکر رنجی بھی ہوئی اور تعلقات تعطل کا شکار ہوگئے ، استاذ گرامی ، ادیب شہیر علامہ محمد منشا تابش قصوری مدظلہ ، جامع مسجد ظفریہ (مرید کے )میں خطیب تھے تو وہاں قبلہ استاذ تابش صاحب نے بڑی حکمت عملی سے نورانی صاحب کو مدعو کیا اور ادھر سے قبلہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی صاحب کو بھی اور مجھے فون فرمایا کہ تم جامعہ سے مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن کی کتب لے کر مرید کے آجاؤ ، میں اور حضرت مولانا قاری محمد داؤد سیالوی، (سرگودھا) ہم کتب لے کر گئے وہیں اسی وقت مرید کے میں مقیم ہمارے ہم جماعت علامہ شہزاد شاہد کو بلایا اور ان کتب پر قبلہ مفتی صاحب کی جانب سے بہت خوبصورت القابات کے ساتھ قبلہ نورانی صاحب کا نام لکھوایا اور اگلے دن جمعہ کی نماز پر قائد ملت اسلامیہ نے خطاب فرمایا اور حضرت مفتی صاحب نے خطبہ پڑھا اور جماعت کیلئے پھر نورانی صاحب کو مفتی صاحب نے ہی درخواست کی انہوں نے نماز پڑھائی اور سلام بھی پڑھا ۔
دونوں بزرگ تشریف فرما ہوئے اور چند لمحات میں وہ گلے شکوے ختم ، ابھی ان کی نشست نہیں ہوئی تھی پھر بھی ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ باہم احترام میں جانبین سے کوئی کمی نہ ہوئی۔
بس اتنے لفظ سنے کہ غلط فہمی ہوئی تھی قبلہ نورانی صاحب نے اس بندے کی جانب دیکھا جس نے ان تک وہ بات پہنچائی تھی مگر کمال قبلہ مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے ان کو بھی غلط فہمی ہوگئی اور یوں پھر وہ محفل کشت زعفران بن گئی۔۔
اور ان کے وصال پر قبلہ نورانی صاحب کراچی سے تشریف لائے اور عتیق اسٹیڈیم میں نماز جنازہ کی امامت بھی فرمائی۔
وماکان قیس ھلکہ ھلک واحد ۔۔۔ ولکنہ بنیان قوم تھدما
جمعہ کےبعد انگلینڈ سے جامعہ میں داخلہ لینے کیلئے آئے ہوئے طلباء کو جامعہ نظامیہ رضویہ شیخوپورہ دکھانے تشریف لے گئے اور ان طلباء کو مکمل جامعہ وزٹ کروایا اور پوری معلومات دیں۔ ایک بات بار بار دہراتے کہ آپ لوگ پڑھو اور پھر وہاں جاکے دین کا کام کرو۔
مدارس کا تحفظ ان کی زندگی کا مقصد تھا وہ اٹھائیس برس تنظیم المدارس کے ناظم اعلیٰ رہے اور نو بار بلامقابلہ منتخب ہوئے ، بلا مقابلہ بھی ایسے نہیں کہ بس کوئی اندرون خانہ کمپرومائز ہوجائے بلکہ آپ نے کئی بار نظامت سے معذرت کی ایک بار تو سختی سے سے تنظیم المدارس کی ذمہ داریاں سنھبالنے سے انکار کر دیا ، علماء کےپیہم اصرار کے باوجود آپ نہیں مان رہے تھے تو شیخ الحدیث علامہ محمد شریف رضوی ؒ(بھکر ) نے اپنے مان کی وجہ سے کہا عبدا لقیوم اگر تو ناظم اعلیٰ نہیں بننا چاہتا تو اہل سنت سے نکل جاؤ پھر ، اس مان پر آپ نے نظامت کی ذمہ داری ایک بار پھر قبول کی ، انکی محنتوں کی بدولت آج ہزاروں علماء ’’الشھادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ ‘‘کی ڈگری سے گورنمنٹ کے اچھے اچھے مناصب پر براجمان ہیں یہ سب ثمر ہے ان کے اخلاص کا کہ جنہوں نے اس سند کو ڈبل ایم اے کے برابر قرار دلوایا اور یہ اتنی آسانی سے نہ ہوا بلکہ دین دشمن عناصر پوری طرح متحرک رہے قبلہ مفتی صاحب نے خود یہ بات ابوالبیان علامہ سعید مجددی کے جامعہ میں یہ بات خود ارشاد فرمائی وہ ویڈیو نیٹ پر موجود ہے اور یہی بات ایک ماہنامے کو انٹر ویو دیتے ہوئے بھی ارشاد فرمائی ۔ بھٹو دور میں قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی ؒ پوری کوشش کر چکے مگر تب کامیابی نہ ہوئی جنرل ضیاء الحق کے دور میں دوسری بار کوشش کی گئی آخر کار بات یہاں آ کر طے ہوئی کہ یونیورسٹیز کے پروفیسرز اور مدارس کے اساتذہ یہ آمنے سامنے بیٹھیں گے اور علمی مذاکرہ ہوگا اگر پروفیسرز مطمئن ہوگئے تب اس سند کو منظور کیا جائے گا قبلہ مفتی صاحب کی بات کوئٹہ یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد جالندھری اور پشاور یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے پروفیسر ڈاکٹر قاضی غلام مصطفیٰ پر مشتمل بورڈ کے ساتھ مدارس عربیہ کی اہمیت پرگفتگو کی تو انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا اور اپنی رپورٹ میں لکھا کہ درس نظامی کے طلباء جامع العلوم ہوتے ہیں ۔(النظامیہ 2003ء ،مفتی اعظم نمبر246)
ممدوح گرامی قبلہ مفتی صاحب خوش مزاج بھی تھے مگر ان کی خوش مزاج ہمیشہ ان کے وقار اور ان کی شخصیت کے مطابق ہوتی۔ ایک دن میں لوہاری دروازے کے باہر سے اندر جامعہ کی طرف جا رہا تھا غالبا عشاء یا مغرب کا وقت تھا قبلہ مفتی صاحب اپنی سواری میں بیٹھے علامہ ڈاکٹر سرفراز احمدنعیمی ؒ کا انتظار کر رہے تھے مجھے دیکھا تو بلا لیا فرمانے لگے کہ ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی صاحب آرہے ہیں ان کی موٹر سائیکل لیتے جاؤ جامعہ کھڑی کر دینا ہم جب واپس آئیں گے تو وہ لے لیں گے۔
ڈاکٹر صاحب تشریف لائے تو ان کی سادگی ویسے بہت مشہور تھی انہوں نے موٹر سائیکل وہیں کھڑی کی اور گاڑی میں بیٹھ گئے ، مفتی صاحب نے فرمایا کہ موٹر سائیکل اس کو دیں یہ لے جائے گا جامعہ واپسی پہ لے لیں گے ، ہنس کے فرمانے لگے اس کو کوئی نہین اٹھائے گا ، خیر فرمایا کہ اس کو ہم نے اسی کام کیلئے روکا تھا تو جب لے جانے لگا تو موٹر سائیکل مجھ سے اسٹارٹ ہی نہ ہوئی ، پھر ڈاکٹر صاحب گاڑی سے اترے اور مجھے پیچھے بٹھایا اور جامعہ آکے موٹر سائیکل کھڑی کی اور پھر میں مفتی صاحب کے حکم پر ان کے ساتھ لوہاری باہر تک انہیں چھوڑنے آیا ۔۔۔
کیسے حسین لوگ تھے کہ ان کا کوئی ایک لمحہ بھی آج تک آنکھ سے اوجھل نہ ہوسکا۔۔
آخر میں حال ہی میں انتقال کرجانے والے برصغیر کے نامور شاعر محترم راحت اندوری کا ایک شعر پڑھیے جو ان شخصیات کی عکاسی کرتا ہے
اس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
 
Top