تاریخ عالم میں بارہا ہوا ہے کہ کسی قوم یا ملک کے زوال پذیر معاشرہ، بلکہ کئی مرتبہ ایسے سخت حالات اور وقت میں، جب اس قوم کے باشندوں اور اس ملک میں ملت کے افراد کے لئے امید کی کوئی کرن مستقبل کی کوئی امنگ اور نوید باقی نہیں رہتی، اچانک کوئی ایک شخص نمودار ہوتا ہے جو اپنی بے لوث خدمت، بے پناہ صلاحیت، مستقبل بینی اور دوراندیشی کی غیرمعمولی فطری صلاحیتوں کے ذریعہ سے، آنے والے وقت کے بگاڑ وزوال کا ادراک واندازہ کرلیتا ہے اور دیکھ لیتا ہے کہ یہ جو جہالت وبے راہ روی اور دین سے بیزاری کی فضا بنی ہے اگر ابھی سے اس کے مقابلہ کا منصوبہ بنایاگیا ہے اور آنے والے متوقع طوفان کے لئے اگر ابھی سے فکر وکوشش نہ کی گئی، ابھی سے باندھ نہ بنایا گیا، تو آنے والے وقت میں، حالات کا یہ بہاؤ، بگاڑ کے یہ سامان اور زوال کے یہ روش، قوم وملت اور ملک کے باشندوں کو اپنے ساتھ بہا کر لیجائے گی اور ہوسکتا ہے کہ پھر اس درخت کی جڑیں جمانا اوراس سے نئی پود، نئی نسل تیار کرنا، دشوار ہوجائے، ایسے وقت میں یہ غیرمعمولی (عبقری) افراد، کوئی ایسی تدبیر، ایسا راستہ اور ایسا نظام تلاش کرلیتے ہیں، جس کے ذریعہ سے قوم وملت کو راہ نجات تلاش کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور پھر یہی طریقہ، یہی نظام آہستہ آہستہ مقبول ہوکر، قوم وملت کے مستقبل کی حفاظت کے پشتہ اور باندھ کا کام کرتا ہے اور اسی سے وابستہ رہ کر ملت صدیوں تک اپنی دینی علمی، اصلاحی سیاسی سفر پورے عزم وحوصلہ ثبات واستقلال کے ساتھ طے کرتی رہتی ہے۔
برصغیر ہندوپاکستان کے ایسے ہی نہایت منتخب روزگار اور برگزیدہ افراد میں سے، ایک بہت ممتاز نام، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ واسعہ کا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم، ہندوستان کے ایک ممتاز باعزت، صدیقی خاندان کے فرد، جلیل القدر عالم، حدیث وفقہ کے عالی مرتبہ ماہر، تصوف کے رمزشناس، علوم اسلامی کے شناور، اسرار شریعت کے رازداں، زوال ملت کے نبض شناس، میدان جنگ کے حوصلہ مند سپاہی اور مجاہد نیز مغلیہ دور حکومت کے بعد، ہندوپاکستان کے سب سے بڑے معروف سب سے با فیض، دینی علمی ادارہ بلکہ ملت اسلامیہ کی آبرو، دارالعلوم دیوبند کے قافلہ سالار تھے۔
خاندان ونسب
حضرت مولانا محمد قاسم کا ایک قدیم صدیقی خاندان سے رشتہ ہے، جو اہل خاندان کی روایت واطلاع کے مطابق، ہندوستان کے لودھی خاندان کے بادشاہ، سکندرلودھی کے دور حکومت میں، ۸۷۸ھ (۷۴/۱۳۷۳ء) ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان کے ہندوستان آنے والے پہلے شخص شیخ مظہرالدین صدیقی تھے، صدیقیان نانوتہ کی خاندانی روایت ہے کہ سکندرلودھی نے ان کے علم وکمالات کی شہرت سنی تو ان کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی، جس کو قبول کرتے ہوئے وہ ہندوستان آگئے تھے۔(۱) ان کے فرزند، قاضی میران بڑے سہارنپور دہلی، کی ایک نواحی بستی نانوتہ کو اپنا مسکن بنایا، (جو اب ایک ضلع سہارنپور اترپردیش میں شامل ہے) قاضی میران بڑے کی نانوتہ میں، رجب ۹۰۲ھ (مارچ ۱۴۹۷ء) کو وفات ہوئی، ان کی اولاد میں شیخ محمد ہاشم ایک عالم تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا، ان کی اولاد کی تمام شاخوں میں بڑے بڑے علماء، مصنّفین اور اہل کمال پیدا ہوئے۔ وہ علماء مصنّفین اور اہل کمال، جو بعد میں برصغیر ہند کی دینی علمی تاریخ کے ماہ وانجم ثابت ہوئے اور جن کی خدمات، برصغیر کی تاریخ کے صفحات پر اس طرح مرقوم ومرتسم ہیں، کہ اب ان کے تذکرہ کے بغیر نہ ہندوستان کی کسی علمی تحریک کا تذکرہ مکمل ہوسکتا ہے، نہ کاروان علم واخلاص کا۔ یقینا یہ حضرات ایسے لوگوں میں شامل ہیں جن کو یہ کہنے کا حق ہے کہ:
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
اس خاندان اور اس بستی کے اس علمی کارواں نے آخر میں ایک کہکشاں کی صورت اختیار کرلی تھی، جس میں کئی ایک آفتاب وماہتاب گردش کررہے تھے، ان میں سب سے پہلا اور ممتاز ترین نام، حضرت مولانا محمد مملوک العلی نانوتوی (ولادت: ۱۲۰۷ھ/وفات: ۱۲۶۷ھ) کا ہے۔ جنھوں نے ہندوستان میں خاندان حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد، ایک نئے علمی دبستان کی رہنمائی وسربراہی کی، مسلمانوں کو عصر حاضر کی ضروریات اور دین پر ثبات واستقامت، دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ایسا متوازن سبق دیا، کہ اس کے اثرات آج تک ہندوستان کے ہر اک تعلیمی ادارہ پر گویا نقش ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی حکومت ونظام کے خلاف، برپا ایک بڑی جدوجہد (تحریک ۱۸۵۷ء) کے بعد سے ہمارے اس ملک میں مسلمانوں نے جو بھی تعلیمی ادارے، دارالعلوم، مدرسے اور کالج قائم کئے، وہ تمام مولانا مملوک العلی کی تربیت کا اثر، ان کے عالی مرتبہ شاگردوں کی کوششوں کا ثمرہ اور یادگار ہیں۔
حضرت مولانا مظہر نانوتویرحمة الله عليه
حضرت مولانا مملوک العلی کے ایک اور قریبی عزیز، مولانا مظہر نانوتوی تھے جو اس عہد کے ایک اور بہت برگزیدہ عالم اور محدث، حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی، مہاجر مدنی، نواسہ حضرت شاہ عبدالعزیز بن حضرت شاہ ولی اللہ (ولادت: ۴/شوال ۱۱۱۴ھ/ چہارشنبہ، وفات: ۲۹/محرم الحرام ۱۱۷۶ھ شنبہ ۱۲/اگست ۱۷۶۲ء) کے عزیز شاگرد اور خدمت ودرس حدیث میں اپنے دور میں بہت مشہور وممتاز تھے اور ہندوستان کا ایک بڑا دینی ادارہ، مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور گویا مولانا کی محنتوں، محبوبیت اور وسیع حلقہٴ درس کا ہی ایک مظہر ہے۔ حضرت مولانا محمد مظہر کی بڑی علمی درسی خدمات ہیں، ان کے بڑے بڑے عالی مرتبہ شاگرد ہیں، جو ہندوستان کی دینی علمی تاریخ کا فخرشمار کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا کی علمی خدمات میں سے ایک دو بڑی اہم خدمات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، حضرت مولانا نے احیاء العلوم امام غزالی کا کئی قلمی نسخوں سے مقابلہ کرکے صحیح متن مرتب کیا، اس پر مختصر حاشیہ لکھا اور اس کو شائع کرایا، مولانا کی ایسی ہی ایک اور بڑی خدمت مجمع البحار، علامہ محمد طاہر پٹنی کی تصحیح واشاعت ہے۔ اور مولانا محمد مظہر سنہ ۱۲۳۷ھ (۲۲-۱۸۲۱ء) میں پیدا ہوئے تھے، محمد مظہر تاریخی نام ہے۔ ۲۴/ذی الحجہ ۱۳۰۳ھ (۳/اکتوبر ۱۸۸۵ء) کو وفات ہوئی، سہارنپور میں دفن کئے گئے۔(۲)
مولانا یعقوب نانوتویرحمة الله عليه
مولانا مملوک العلی کے فرزند، ۱۳/صفر ۱۲۴۹ھ (۲/جولائی ۱۸۳۳ء کو پیداہوئے) مولانا محمد یعقوب بھی اسی کاروان علم وعمل کا ایک دمکتا ہوا ستارہ تھے، جو اپنے فخراقران والد کے شاگرد، ممتاز عالم، دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدرمدرس تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یافتہ اصحاب، نوید صبح اور خوشبو کی طرح پورے ملک میں پھیل گئے، اور اس برصغیر میں جگہ جگہ درس کے حلقے، مدرسے اور علم وافادہ کے مرکز قائم کرلئے جن میں سے اب تک بھی زندہ اور سرگرم کار ہیں۔
ولادت اور تعلیم
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، اسی خاندان اور ماحول میں (غالباً شوال ۱۲۴۸ھ/ مارچ ۱۸۳۳ء) پیداہوئے، جب اس خاندان میں بڑے بڑے علماء موجود تھے اورہر طرف علم اور تعلیم کا چرچا رہتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نے فارسی وعربی کی ابتدائی درسی کتابیں، مولانا مہتاب علی دیوبندی (وفات: ۱۱۹۳ھ/۱۸۷۶ء) اور مولوی محمد نواز سہارنپوری سے پڑھیں۔
محرم ۱۲۶۱ھ (جنوری ۱۸۴۵ء) میں اپنے خاندان کے عالم اور دہلی کالج کے صدر مدرس، مولانا مملوک العلی نانوتوی کی سرپرستی اور نگرانی میں مزید تعلیم کیلئے دہلی پہنچے، دہلی میں کافیہ ابن حاجب سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ مولانا محمد قاسم اپنی فطری لیاقت وصلاحیت کی وجہ سے، تعلیم میں اپنے ہم سبق ساتھیوں اور ہم عمر طلبہ سے بھی آگے رہتے تھے، جب کسی ساتھی یا کسی اور مدرسے کے طالب علم سے بحث وگفتگو ہوتی، تو اکثر اس مقابل (طالب علم) کو مولانا سے بحث ومباحثہ کی سوچتا، مولانا سے شرمندہ ہونا پڑتا تھا، اسی طرح تیزرفتار مگر اعلیٰ درجہ کی تفہیم وتعلیم اور لیاقت سے تعلیم مکمل کی۔ مولانا کے استادزادے اور عزیز، مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے لکھا ہے:
پھر تو مولوی صاحب ایسا چلے کہ کسی کو ساتھ ہونے کی گنجائش نہ رہی۔ معقول کی مشکل کتابیں، زواہد، (میر زاہد کی تصانیف) قاضی (مبارک کی شرح قطبی از میرزاہد) صدرا (صدرالدین شیرازی) اور شمس بازغہ (ملا محمود جون پوری) ایسا پڑھا کرتے تھے، جیسے حافظ منزل سناتا ہے۔(۳)
عقلی علوم، خصوصاً ہندسہ (Geometry)کو استاذ کے بغیر خودہی دیکھ کر پڑھ لیا تھا، فقہ، منطق وکلام اور جملہ درستی کتابوں کو مکمل کرنے اوران علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی مہاجر مدنی (ولادت: ۱۲۲۴ھ/۱۸۱۹ء وفات: ۱۲۹۶ھ/ ۱۸۷۸ء) سے حدیث شریف خصوصاً صحاح ستہ پڑھیں۔
علمی تدریسی زندگی کا آغاز
حضرت مولانا محمد قاسم نے اس وقت کی عملی روایت کے مطابق، پڑھنے کے زمانہ میں ہی ابتدائی کتابیں پڑھانی شروع کردی تھیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس دور میں علماء کا عام معمول، مطالعہ سے اعلیٰ علمی کتابوں کے متون کی تصحیح، ان پر حاشیے لکھنے، اور ان کی عمدہ طباعت کی نگرانی کرنے کا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم بھی درس کی ذمہ داریوں کے ساتھ، اپنے استاذ حدیث، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری (صحیح بخاری کے محشی اور ہندوستان کے نامور محدث اور خادم حدیث) کے مطبع احمدی سے وابستہ ہوگئے تھے، اس مطبع میں مولانا نے قیمتی خدمات انجام دیں اور اس کی حیثیت ایک بڑے مرکز علمی اور تحقیقی تصنیفی اکیڈمی کی تھی۔ مشہور ہے کہ حضرت مولانا نے اور علمی کاموں کے علاوہ اپنے استاذ محترم، حضرت مولانا احمد علی کی فرمائش پر، حاشیہ صحیح بخاری کی تکمیل میں بھی کچھ حصہ لیا تھا۔
حضرت مولانا، مولانا احمد علی کے مطبع احمدی کے علاوہ، ہندوستان کے ایک بڑے ناشر کتب، منشی ممتاز علی صاحب کے مطبع مجتبائی اور پھر مطبع ہاشمی میرٹھ میں تصحیح کتب کی خدمت انجام دی اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اسی کام میں مشغول رہے۔
سلوک ومعرفت
ہندوستان کے علماء میں خداطلبی کا ذوق اور سلوک ومعرفت کی چاشنی حاصل کرنے کا، جو معمول اور اہتمام صدیوں سے چلا آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نے اپنے اساتذہ اور رفقاء کی طرح، اس پر بھی پورا عمل کیا اوراس کے لئے اپنے زمانہ کے ایک بڑے مرشد، معرفت وسلوک کے امام اور طریقہٴ سفر کے کامل رہنما، حضرت حاجی امداد اللہ فاروقی تھانوی کا ہاتھ پکڑا۔ حضرت حاجی صاحب جملہ سلاسل تصوف کے عالی مرتبہ شیخ تھے، حضرت مولانا نے، حضرت حاجی صاحب کی سرپرستی میں تصوف کے سبق لئے اور مرشد کامل کی تعلیمات وہدایات سے روشنی حاصل کرکے، ایسے منور وتابناک بنے کہ شیخ امداد اللہ نے مولانا کو اجازت وخلافت سے نوازا، اور اپنے متوسلین کو مولانا سے استفادہ کی ہدایت کی۔ پیر ومرشد (حضرت حاجی امداداللہ) کی نگاہ میں حضرت مولانا محمد قاسم کا کیا مقام ومرتبہ تھا، اس کا حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریروں اور مکتوبات سے اندازہ ہوتا ہے، حاجی صاحب نے مولانا محمد قاسم کے والد ماجد شیخ اسد علی نانوتوی کو ایک خط میں لکھا تھا، اور اپنی ایک اہم تصنیف ضیاء القلوب، میں یہاں تک لکھ دیا کہ:
”بخدمت بھائی صاحب مکرم معظم جناب شیخ اسد علی صاحب سلّمہ! بعد سلام ونیاز مبارکباد واللہ تعالیٰ آں جناب راتوفیق اتباع سنت نبوی عليه السلام داد، امید قوی ست کہ ہمیں عمل خیرومسئلہ نجات جناب شود، عجب نیست، وشکر کنند کہ خدا تعالیٰ شمارا یک ولی کامل عطا فرمودہ، کہ ببرکت انفاس اوایں چنیں اعمال نیک ورضامندی اللہ ورسول بظہور آمد، والا ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند“(۴)
”نیز ہرکس کہ ازیں فقیر محبت وعقیدت وارادت دارد مولوی رشید احمد صاحب سلّمہ ومولوی محمد قاسم صاحب سلّمہ را کہ جامع جمیع کمالات ظاہری وباطنی اند بجائے من فقیر راقم اوراق، بلکہ بمدارج فوق از من شمارند۔ اگرچہ بظاہر معاملہ برعکس شد کہ اوشان بجائے من، ومن بمقام اوشان شدم، وصحبت اوشان را غنیمت دانند، کہ ایں چنیں کساں دریں زمان نایاب اند، واز خدمت بابرکت ایشاں فیضیاب بودہ باشند“(۵)
مگر اپنے تمام کمالات سلوک وتصوف میں اختصاص کے باوصف، حضرت مولانا نے خود کو چھپانے کی ہمیشہ اورآخری حد تک کوشش کی۔ حضرت مولانا نہیں چاہتے تھے کہ مولانا کے فضل وکمال اور روحانی نسبت وپرواز کا کسی کو پتہ چلے اور لوگ ان سے رجوع کریں۔ حضرت مولانا پر تواضع اور خودشکنی کا اس قدر غلبہ تھا کہ کسی کو بیعت کرنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے، چند علماء اور اہل کمال بصد اصرار بیعت ہوئے اور انھوں نے حضرت مولانا سے امکان بھر استفادہ بھی کیا، بالآخر ایک وقت آیا کہ یہ متوسلین اس لائق ہوگئے، کہ ان کو حصول نسبت کی بشارت دی جائے اور اجازت وخلافت سے نوازا جائے، مگر حضرت مولانا اس مرحلہ پر بھی اپنی ذات کو پیچھے رکھنا اور ان متوسلین اور سالکان راہ طریقت کا ہاتھ، اپنے شیخ ومرشد، حضرت حاجی امداد اللہ کے ہاتھ میں ہی دیدینا چاہتے تھے اور چاہتے تھے، کہ میں خود کسی کو اجازت وخلافت نہ دوں، جس کے لئے بھی اس نعمت ودولت کا فیصلہ ہو، وہ حضرت پیرومرشد کی زبان سے ہو۔ اس لئے حضرت مولانا کے جس متوسل کی سیرسلوک مکمل ہوجاتی،اس کو ہدایت فرماتے کہ، وہ مکہ مکرمہ حاضرہوکر، حضرت حاجی امداداللہ کی خدمت میں اپنی کیفیت عرض کرے اور خود حضرت کو لکھ دیتے تھے، کہ میں ان صاحب کو اس لائق سمجھتا ہوں، مگر فیصلہ آنجناب کی صواب دید اور رائے عالی پر ہے، اگر اطمینان ہوتو ان کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمائیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم کے تقریباً تمام خلفائے کرام اسی طرح کے ہیں، کہ اگرچہ ان کی تربیت واصلاح باطن حضرت مولانا کے زیردامن ہوئی، مگر ان کو خلافت اوراجازت وبیعت کا پروانہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے ملا۔
انگریزوں کے خلاف برپا جدوجہد ۱۸۵۷ء میں شرکت
ابھی مولانا کو تعلیم سے فارغ ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، کہ ہندوستان پر مسلط انگریزی حکومت واقتدار کے خلاف وہ جذبہ، جو تقریباً پچاس برس سے عوام خواص کے دلوں میں پرورش پارہا تھا، یکلخت شعلہٴ جوالہ بن کر پھوٹ پڑا، اور پورے ملک میں ۱۸۵۷ء/۱۲۷۲ھ میں انگریزوں کی حکومت اور سیاست واقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے خلاف، ایک پرزور جدوجہد شروع ہوگئی۔ اس موقع پر علماء اور اہل باطن کے لئے دین وشریعت کی ذمہ داری، مسلمانوں کی عام دینی ملی ضرورت اور وقت کے تقاضہ سے غفلت، ناممکن تھی، اس لئے اس ضمن میں ایک بڑی اور منظم آواز، حضرت مولانا کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ کے وطن تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر) سے بھی اٹھی جس میں حضرت حاجی امداد اللہ قائدانہ شریک تھے اور حضرت حاجی صاحب کے علاوہ، حضرت کے خاص خلفائے کرام اور متوسلین بھی اس کے دست وبازو بنے ہوئے تھے۔
یہ تحریک پوری منصوبہ بندی اور مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھ کر، بلند حوصلہ کے ساتھ برپا کی گئی تھی۔ اس تحریک کا اثر دہلی سے ملحق دریائے جمنا کے کنارہ سے بڑھتا ہوا، ہمالیہ کے دامن تک پہنچا، اور دہلی کے شمال مشرق کا تقریباً ساڑھے تین سو چار سو کلومیٹر علاقہ اس جدوجہد کا میدان بنا، جس میں ان مجاہدین نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے اور بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
یہ تحریک جو پوری طاقت اور بڑے تدبر سے چلائی اورآگے بڑھائی گئی تھی، اور کیونکہ عوام علماء کی آواز پر لبیک کہتے تھے، اس لئے ہر طبقہ کے لوگوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا، اور اس کے زیراثر مجاہدین کا انگریز افسران اور فوجوں سے ایسا پرپیچ اور کامیاب مقابلہ ہوا، جس کی بعد میں خود دشمن افسران نے داد دی۔ اس فوج یا کمان کے ذمہ دار کمانڈروں میں حضرت مولانا محمد قاسم بھی شامل تھے، ان حضرات نے تھانہ بھون کے قریب ایک انگریزی فوج کے ایک نسبتاً چھوٹے کیمپ اور خزانہ کو اپنا نشانہ بنایا، وہاں کامیاب حملہ کیا، انگریز دستہ کو شکست ہوئی،اور اس پورے علاقہ پر انگریزوں کا قبضہ اور اقتدار ختم کرکے مجاہدین کا پرچم لہرادیاگیا، انگریز فوج کے سوسے زیادہ سپاہی اور افسر مارے گئے، ان کے اسلحہ خانہ اور خزانہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا،اور میدان جنگ کے ساتھ ہی یہ پورا علاقہ مجاہدین کے انتظام میں آگیا تھا۔ اس جنگ میں حضرت حاجی امداد اللہ کے ایک بڑے خلیفہ حافظ محمد ضامن تھانوی اور مسلمانوں کی ایک جماعت شہید ہوئی، مگر کچھ دنوں کے بعد انگریزوں نے تازہ دم فوج اور بڑی تیاری سے دوسرا حملہ کیا، جس میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، یہاں تک کہ وہ تھانہ بھون کو بھی جو ان کا مرکز تھا، چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس تمام معرکہ آرائی میں شروع سے آخر تک حضرت مولانا محمد قاسم بھی برابر شریک رہے، جنگ کے دوران، حضرت مولانا کی ناک پر گولی لگی تھی، آخر عمر تک اس کا نشان موجود تھا۔
۱۸۵۷ء کی یہ جدوجہد اور تحریک ایک بڑی، انقلابی اور نہایت دور رس تحریک تھی، جس نے اس وقت کے ہندوستان کے مزاج، خصوصاً ہندی ملت اسلامیہ کو، اس شدت، قوت اور گہرائی سے متاثر کیا، کہ اب تک اس کے اثرات موجود ہیں۔ ہندوپاکستان وبنگلہ دیش کی ہر ایک دینی علمی سیاسی جدوجہد میں خصوصاً مسلمان اور دینی طبقہ ۱۸۵۷ء کی تحریک اور اس کے رہنماؤں کے طریقہٴ کار تعلیمات اور اصولوں سے روشنی لے کر چلتے اورآگے بڑھتے ہیں اور ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک ،اور اس کے بعد سے آج تک مسلم سیاست اسی محور پر رقص کرتی رہی ہے۔
دارالعلوم اور مدارس اسلامیہ کا قیام اور ہندی ملت اسلامیہ کے دینی علمی مستقبل کی تعمیر وتشکیل
۱۸۵۷ء کی تحریک ہوئی پسپا ہونے کے نتیجہ میں، انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا، جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اورہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کرگئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کانشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کاشکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہٴ کار وضع نہ کیاگیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کاباقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اوراس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑادی۔
یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ (دارالعلوم) کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جدوجہد کی بھرپور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمدقاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور پروان چڑھایا،یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا، کہ اب ہندوپاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیرسایہ،اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین، کا سفر طے کررہا ہے، اور یہ بات بلا تکلف کہی جاسکتی ہے، کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔
اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں اس کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جدوجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول صلى الله عليه کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتار دیں۔
اس مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ (پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء) کو بے سروسامانی کی حالت میںآ غاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سو سال پرانی مسجد (چھتہ) کے صحن میں موجود، انار کے ایک درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی(۶)، مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر، ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دوراندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندوپاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردئیے، اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہ عمل اورایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفرکررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی، اس قدر پذیرائی، تحسین اور پرجوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا، اور ان میں ہر ایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم و تربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیاکے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی، ملی خدمات، پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔
دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں علمی عملی تحریک بھی تھی
دارالعلوم دیوبند، جس کی ابتداء مسلمانوں کو دین وشریعت سے جوڑنے اور علوم نبوی کے احیاء کے لئے ہوئی تھی، بعد میں ایک بڑی، بہت با فیض، بہت طاقتور اور کثیر الجہت تحریک بن گئی تھی۔ جس نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا، دینی فکر ومزاج، اتباع شریعت وسنت، علوم اسلامیہ کی خدمت وآبیاری، وعظ وارشاد، اصلاح وتربیت، تذکیر وتصنیف، حکومت وسیاست، اختلاف نظریات وعقائد، کلام ومعقولات، یعنی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی عمومی زندگی اور شعور کا، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متاثر نہ کیاہو،اور آج جب دارالعلوم کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں، دارالعلوم کی آواز، اس کا پیغام اور اس کے نظریات وتعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں، دنیا کا شاید کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے، وہاں کے فارغ طلباء، علماء اور دارالعلوم سے وابستہ ارباب وفضل وکمال نہ پہنچے ہوں اور اس خطہ کی دینی، علمی اصلاحی فضاؤں پر اپنے گہرے نقوش نہ ثبت کئے ہوں۔
دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت ہے، ایک تحریک ہے، ایک جدوجہد ہے، ایک نصب العین ہے،جس کے ساتھ مقاصد ومستقبل کی تعمیر کا، ایک بامعنی خوب تجربہ کیاہوا اور ایسا طریقہٴ عمل ہے کہ اس کی ایسی جامع، موٴثر ، دیرپا اور عالم گیر، اثر انداز مثال تلاش کرلینا آسان نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت، ہمہ گیریت، مقاصد کے تنوع اور بلند نگہی اور تاثیر ونفع میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اگر مدرسہ دیوبند کو اوّل دن سے حضرت مولانا کی سرپرستی اور رفاقت حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہر طرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
دیگر دینی خدمات
حضرت مولانا محمدقاسم دینی ملی معاملات میں اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر، حساس اور دردمند عالم تھے، حضرت مولانا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ کوئی اہم دینی ملی معاملہ سامنے آئے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں، درس وتعلیم کی مسند ہو، خانقاہ وارشاد کی تعلیمات ہوں، وعظ واصلاح کا میدان ہو، تصنیف وتالیف کی جلوہ فرمائی ہو، مناظرہ ومباحثہ کی ضرورت ہو، یا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے اسلام و شریعت پر سوالات واعتراضات کا جواب، حضرت مولانا ہر ایک میں نمایاں اور پیش پیش رہتے تھے، جہاں جس طرح کی ضرورت ہو اس کا بروقت احساس اوراس کا ویساہی علاج اور دفاع فرماتے تھے، جیسی ضرورت وتقاضہ ہو۔ مسلمانوں کے وہ طبقات ہوں جو عقائد وکلام کے معاملات میں راہ سے بے راہ ہوگئے تھے، یا بدعات ورسوم کے خوگر افراد ہوں، اہل تشیع یا کوئی اور! دینی معاملہ، عقیدہ سلف واہل سنت سے انحراف کی بات ہو، یا دین وشریعت کے مسائل ومباحث اور عقائد کے کلام کی گفتگو ان کو قرآن وسنت سے حل کرنے، اور ان کی عقلی توجیہ کی ضرورت، حضرت مولانا کا ہر ایک میں سرگرم اور بڑا حصہ رہتا تھا۔
اس دور میں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک نوزائیدہ جماعت آریہ سماج نے خصوصاً اسلام کے خلاف ایک پرزور محاذ کھولا ہوا تھا، ان کے پادری اور پنڈت جگہ جگہ عیسائیت اور ہندو مذہب کی منادی کرتے، مسلمان علماء کو مناظرہ کا چیلنج دیتے اور عیسائیت واسلام کے مسائل وموضوعات پر بحث وگفتگو کے لئے چھیڑتے تھے۔ حضرت مولانا ان کا مقابلہ کرنے، جواب دینے اور ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے، ہمیشہ تیار رہتے تھے، جہاں علی الاعلان بحث ومقابلہ کی بات ہوتی وہاں اس کا اہتمام کرتے، جہاں لکھنے اور گلی کوچوں میں اطلاعات کا کام ہوتا، وہاں اس کا انتظام فرماتے تھے۔
حضرت مولانا کے عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں سے، کئی نہایت کامیاب مناظرے بھی ہوئے، جس میں عیسائیوں سے مباحثہ شاہجہاں پور اور مشہور ہندوسماجی مصلح اور مذہبی پیشوا، سوامی دیانند سرسوتی سے گفتگو اور جوابات کی ملک بھر میں شہرت ہوئی، بعد میں حضرت مولانا نے ان مباحث میں پیش آئے، سوالات پر کتابی صورت میں لکھا، ان میں سے ہر ایک تصنیف اپنی جگہ جوے رواں اور علم وبصیرت کا شاہکار ہے۔
حضرت مولانا نے اپنی کتابوں میں قرآن مجید، حدیث، سنت وشریعت کی جو گرہ کشائی فرمائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت کا ایک منفرد حصہ ہے۔ خصوصاً شریعت اور عقائد واعمال کی حکمتوں اور اسرار وحکم پر حضرت مولانا کے افادات وتحریرات، ایک نئے اور مستقل علم کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب کا جامع مطالعہ کرکے، ایک لڑی میں پروکر، امت کے سامنے پیش کیاجائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے عقلی کلامی ذخیرہ میں ایک وقیع اضافہ ہوگا، بلکہ اس کی اساس پر اور بھی کئی مشکل مباحث ومسائل حل کئے جاسکیں گے۔
***
حواشی:
(۱) مفصل حالات کیلئے دیکھئے: استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمة الله عليه: تالیف نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۶۵ (کاندھلہ انڈیا۲۰۰۹/)۔
(۲) مولانا کے مفصل حالات کیلئے دیکھئے تذکرہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی رحمة الله عليه وسلم۔ تالیف نورالحسن راشد کاندھلوی (کاندھلہ انڈیا ۱۴۲۸ھ)
(۳) حالات طیب حضرت مولانا محمد قاسم: تالیف مولانا محمد یعقوب نانوتوی۔ بحواشی نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۱۸۰-۱۷۹ (مشمولہ: قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار وباقیات متعلقات) (کاندھلہ:۲۰۰۰/)
(۴) مرقومات امدادیہ، مکتوب اٹھارواں ص:۴۹-۴۸ جامع مکتوبات،مولانا وحید الدین رامپوری۔
ترتیب جدید: نثار احمد فاروقی (مکتبہ برہان، دہلی ۱۹۷۹/)
(۵) ضیاء القلوب، مشمولہ کلیات امدادیہ ص:۶۰ (فخرالمطابع لکھنوٴ ۱۳۲۴ھ)
(۶) دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اردو، عربی اور انگریزی میں بارہ تیرہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ تفصیلات ان میں درج ہیں۔
برصغیر ہندوپاکستان کے ایسے ہی نہایت منتخب روزگار اور برگزیدہ افراد میں سے، ایک بہت ممتاز نام، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ واسعہ کا ہے۔
حضرت مولانا محمد قاسم، ہندوستان کے ایک ممتاز باعزت، صدیقی خاندان کے فرد، جلیل القدر عالم، حدیث وفقہ کے عالی مرتبہ ماہر، تصوف کے رمزشناس، علوم اسلامی کے شناور، اسرار شریعت کے رازداں، زوال ملت کے نبض شناس، میدان جنگ کے حوصلہ مند سپاہی اور مجاہد نیز مغلیہ دور حکومت کے بعد، ہندوپاکستان کے سب سے بڑے معروف سب سے با فیض، دینی علمی ادارہ بلکہ ملت اسلامیہ کی آبرو، دارالعلوم دیوبند کے قافلہ سالار تھے۔
خاندان ونسب
حضرت مولانا محمد قاسم کا ایک قدیم صدیقی خاندان سے رشتہ ہے، جو اہل خاندان کی روایت واطلاع کے مطابق، ہندوستان کے لودھی خاندان کے بادشاہ، سکندرلودھی کے دور حکومت میں، ۸۷۸ھ (۷۴/۱۳۷۳ء) ہندوستان آیا تھا۔ اس خاندان کے ہندوستان آنے والے پہلے شخص شیخ مظہرالدین صدیقی تھے، صدیقیان نانوتہ کی خاندانی روایت ہے کہ سکندرلودھی نے ان کے علم وکمالات کی شہرت سنی تو ان کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی، جس کو قبول کرتے ہوئے وہ ہندوستان آگئے تھے۔(۱) ان کے فرزند، قاضی میران بڑے سہارنپور دہلی، کی ایک نواحی بستی نانوتہ کو اپنا مسکن بنایا، (جو اب ایک ضلع سہارنپور اترپردیش میں شامل ہے) قاضی میران بڑے کی نانوتہ میں، رجب ۹۰۲ھ (مارچ ۱۴۹۷ء) کو وفات ہوئی، ان کی اولاد میں شیخ محمد ہاشم ایک عالم تھے، ان کو اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا، ان کی اولاد کی تمام شاخوں میں بڑے بڑے علماء، مصنّفین اور اہل کمال پیدا ہوئے۔ وہ علماء مصنّفین اور اہل کمال، جو بعد میں برصغیر ہند کی دینی علمی تاریخ کے ماہ وانجم ثابت ہوئے اور جن کی خدمات، برصغیر کی تاریخ کے صفحات پر اس طرح مرقوم ومرتسم ہیں، کہ اب ان کے تذکرہ کے بغیر نہ ہندوستان کی کسی علمی تحریک کا تذکرہ مکمل ہوسکتا ہے، نہ کاروان علم واخلاص کا۔ یقینا یہ حضرات ایسے لوگوں میں شامل ہیں جن کو یہ کہنے کا حق ہے کہ:
ثبت است بر جریدئہ عالم دوام ما
اس خاندان اور اس بستی کے اس علمی کارواں نے آخر میں ایک کہکشاں کی صورت اختیار کرلی تھی، جس میں کئی ایک آفتاب وماہتاب گردش کررہے تھے، ان میں سب سے پہلا اور ممتاز ترین نام، حضرت مولانا محمد مملوک العلی نانوتوی (ولادت: ۱۲۰۷ھ/وفات: ۱۲۶۷ھ) کا ہے۔ جنھوں نے ہندوستان میں خاندان حضرت شاہ ولی اللہ کے بعد، ایک نئے علمی دبستان کی رہنمائی وسربراہی کی، مسلمانوں کو عصر حاضر کی ضروریات اور دین پر ثبات واستقامت، دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کا ایسا متوازن سبق دیا، کہ اس کے اثرات آج تک ہندوستان کے ہر اک تعلیمی ادارہ پر گویا نقش ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی حکومت ونظام کے خلاف، برپا ایک بڑی جدوجہد (تحریک ۱۸۵۷ء) کے بعد سے ہمارے اس ملک میں مسلمانوں نے جو بھی تعلیمی ادارے، دارالعلوم، مدرسے اور کالج قائم کئے، وہ تمام مولانا مملوک العلی کی تربیت کا اثر، ان کے عالی مرتبہ شاگردوں کی کوششوں کا ثمرہ اور یادگار ہیں۔
حضرت مولانا مظہر نانوتویرحمة الله عليه
حضرت مولانا مملوک العلی کے ایک اور قریبی عزیز، مولانا مظہر نانوتوی تھے جو اس عہد کے ایک اور بہت برگزیدہ عالم اور محدث، حضرت مولانا شاہ محمد اسحاق دہلوی، مہاجر مدنی، نواسہ حضرت شاہ عبدالعزیز بن حضرت شاہ ولی اللہ (ولادت: ۴/شوال ۱۱۱۴ھ/ چہارشنبہ، وفات: ۲۹/محرم الحرام ۱۱۷۶ھ شنبہ ۱۲/اگست ۱۷۶۲ء) کے عزیز شاگرد اور خدمت ودرس حدیث میں اپنے دور میں بہت مشہور وممتاز تھے اور ہندوستان کا ایک بڑا دینی ادارہ، مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور گویا مولانا کی محنتوں، محبوبیت اور وسیع حلقہٴ درس کا ہی ایک مظہر ہے۔ حضرت مولانا محمد مظہر کی بڑی علمی درسی خدمات ہیں، ان کے بڑے بڑے عالی مرتبہ شاگرد ہیں، جو ہندوستان کی دینی علمی تاریخ کا فخرشمار کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا کی علمی خدمات میں سے ایک دو بڑی اہم خدمات کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے، حضرت مولانا نے احیاء العلوم امام غزالی کا کئی قلمی نسخوں سے مقابلہ کرکے صحیح متن مرتب کیا، اس پر مختصر حاشیہ لکھا اور اس کو شائع کرایا، مولانا کی ایسی ہی ایک اور بڑی خدمت مجمع البحار، علامہ محمد طاہر پٹنی کی تصحیح واشاعت ہے۔ اور مولانا محمد مظہر سنہ ۱۲۳۷ھ (۲۲-۱۸۲۱ء) میں پیدا ہوئے تھے، محمد مظہر تاریخی نام ہے۔ ۲۴/ذی الحجہ ۱۳۰۳ھ (۳/اکتوبر ۱۸۸۵ء) کو وفات ہوئی، سہارنپور میں دفن کئے گئے۔(۲)
مولانا یعقوب نانوتویرحمة الله عليه
مولانا مملوک العلی کے فرزند، ۱۳/صفر ۱۲۴۹ھ (۲/جولائی ۱۸۳۳ء کو پیداہوئے) مولانا محمد یعقوب بھی اسی کاروان علم وعمل کا ایک دمکتا ہوا ستارہ تھے، جو اپنے فخراقران والد کے شاگرد، ممتاز عالم، دارالعلوم دیوبند کے سب سے پہلے صدرمدرس تھے۔ ان کی صحبت سے فیض یافتہ اصحاب، نوید صبح اور خوشبو کی طرح پورے ملک میں پھیل گئے، اور اس برصغیر میں جگہ جگہ درس کے حلقے، مدرسے اور علم وافادہ کے مرکز قائم کرلئے جن میں سے اب تک بھی زندہ اور سرگرم کار ہیں۔
ولادت اور تعلیم
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، اسی خاندان اور ماحول میں (غالباً شوال ۱۲۴۸ھ/ مارچ ۱۸۳۳ء) پیداہوئے، جب اس خاندان میں بڑے بڑے علماء موجود تھے اورہر طرف علم اور تعلیم کا چرچا رہتا تھا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نے فارسی وعربی کی ابتدائی درسی کتابیں، مولانا مہتاب علی دیوبندی (وفات: ۱۱۹۳ھ/۱۸۷۶ء) اور مولوی محمد نواز سہارنپوری سے پڑھیں۔
محرم ۱۲۶۱ھ (جنوری ۱۸۴۵ء) میں اپنے خاندان کے عالم اور دہلی کالج کے صدر مدرس، مولانا مملوک العلی نانوتوی کی سرپرستی اور نگرانی میں مزید تعلیم کیلئے دہلی پہنچے، دہلی میں کافیہ ابن حاجب سے تعلیم کا آغاز ہوا۔ مولانا محمد قاسم اپنی فطری لیاقت وصلاحیت کی وجہ سے، تعلیم میں اپنے ہم سبق ساتھیوں اور ہم عمر طلبہ سے بھی آگے رہتے تھے، جب کسی ساتھی یا کسی اور مدرسے کے طالب علم سے بحث وگفتگو ہوتی، تو اکثر اس مقابل (طالب علم) کو مولانا سے بحث ومباحثہ کی سوچتا، مولانا سے شرمندہ ہونا پڑتا تھا، اسی طرح تیزرفتار مگر اعلیٰ درجہ کی تفہیم وتعلیم اور لیاقت سے تعلیم مکمل کی۔ مولانا کے استادزادے اور عزیز، مولانا محمد یعقوب نانوتوی نے لکھا ہے:
پھر تو مولوی صاحب ایسا چلے کہ کسی کو ساتھ ہونے کی گنجائش نہ رہی۔ معقول کی مشکل کتابیں، زواہد، (میر زاہد کی تصانیف) قاضی (مبارک کی شرح قطبی از میرزاہد) صدرا (صدرالدین شیرازی) اور شمس بازغہ (ملا محمود جون پوری) ایسا پڑھا کرتے تھے، جیسے حافظ منزل سناتا ہے۔(۳)
عقلی علوم، خصوصاً ہندسہ (Geometry)کو استاذ کے بغیر خودہی دیکھ کر پڑھ لیا تھا، فقہ، منطق وکلام اور جملہ درستی کتابوں کو مکمل کرنے اوران علوم میں مہارت حاصل کرنے کے بعد، حضرت شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی مہاجر مدنی (ولادت: ۱۲۲۴ھ/۱۸۱۹ء وفات: ۱۲۹۶ھ/ ۱۸۷۸ء) سے حدیث شریف خصوصاً صحاح ستہ پڑھیں۔
علمی تدریسی زندگی کا آغاز
حضرت مولانا محمد قاسم نے اس وقت کی عملی روایت کے مطابق، پڑھنے کے زمانہ میں ہی ابتدائی کتابیں پڑھانی شروع کردی تھیں۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس دور میں علماء کا عام معمول، مطالعہ سے اعلیٰ علمی کتابوں کے متون کی تصحیح، ان پر حاشیے لکھنے، اور ان کی عمدہ طباعت کی نگرانی کرنے کا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم بھی درس کی ذمہ داریوں کے ساتھ، اپنے استاذ حدیث، حضرت مولانا احمد علی محدث سہارنپوری (صحیح بخاری کے محشی اور ہندوستان کے نامور محدث اور خادم حدیث) کے مطبع احمدی سے وابستہ ہوگئے تھے، اس مطبع میں مولانا نے قیمتی خدمات انجام دیں اور اس کی حیثیت ایک بڑے مرکز علمی اور تحقیقی تصنیفی اکیڈمی کی تھی۔ مشہور ہے کہ حضرت مولانا نے اور علمی کاموں کے علاوہ اپنے استاذ محترم، حضرت مولانا احمد علی کی فرمائش پر، حاشیہ صحیح بخاری کی تکمیل میں بھی کچھ حصہ لیا تھا۔
حضرت مولانا، مولانا احمد علی کے مطبع احمدی کے علاوہ، ہندوستان کے ایک بڑے ناشر کتب، منشی ممتاز علی صاحب کے مطبع مجتبائی اور پھر مطبع ہاشمی میرٹھ میں تصحیح کتب کی خدمت انجام دی اور اپنی زندگی کے آخری دنوں تک اسی کام میں مشغول رہے۔
سلوک ومعرفت
ہندوستان کے علماء میں خداطلبی کا ذوق اور سلوک ومعرفت کی چاشنی حاصل کرنے کا، جو معمول اور اہتمام صدیوں سے چلا آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نے اپنے اساتذہ اور رفقاء کی طرح، اس پر بھی پورا عمل کیا اوراس کے لئے اپنے زمانہ کے ایک بڑے مرشد، معرفت وسلوک کے امام اور طریقہٴ سفر کے کامل رہنما، حضرت حاجی امداد اللہ فاروقی تھانوی کا ہاتھ پکڑا۔ حضرت حاجی صاحب جملہ سلاسل تصوف کے عالی مرتبہ شیخ تھے، حضرت مولانا نے، حضرت حاجی صاحب کی سرپرستی میں تصوف کے سبق لئے اور مرشد کامل کی تعلیمات وہدایات سے روشنی حاصل کرکے، ایسے منور وتابناک بنے کہ شیخ امداد اللہ نے مولانا کو اجازت وخلافت سے نوازا، اور اپنے متوسلین کو مولانا سے استفادہ کی ہدایت کی۔ پیر ومرشد (حضرت حاجی امداداللہ) کی نگاہ میں حضرت مولانا محمد قاسم کا کیا مقام ومرتبہ تھا، اس کا حضرت حاجی امداد اللہ کی تحریروں اور مکتوبات سے اندازہ ہوتا ہے، حاجی صاحب نے مولانا محمد قاسم کے والد ماجد شیخ اسد علی نانوتوی کو ایک خط میں لکھا تھا، اور اپنی ایک اہم تصنیف ضیاء القلوب، میں یہاں تک لکھ دیا کہ:
”بخدمت بھائی صاحب مکرم معظم جناب شیخ اسد علی صاحب سلّمہ! بعد سلام ونیاز مبارکباد واللہ تعالیٰ آں جناب راتوفیق اتباع سنت نبوی عليه السلام داد، امید قوی ست کہ ہمیں عمل خیرومسئلہ نجات جناب شود، عجب نیست، وشکر کنند کہ خدا تعالیٰ شمارا یک ولی کامل عطا فرمودہ، کہ ببرکت انفاس اوایں چنیں اعمال نیک ورضامندی اللہ ورسول بظہور آمد، والا ایں دولت سرمد ہمہ کس را نہ دہند“(۴)
”نیز ہرکس کہ ازیں فقیر محبت وعقیدت وارادت دارد مولوی رشید احمد صاحب سلّمہ ومولوی محمد قاسم صاحب سلّمہ را کہ جامع جمیع کمالات ظاہری وباطنی اند بجائے من فقیر راقم اوراق، بلکہ بمدارج فوق از من شمارند۔ اگرچہ بظاہر معاملہ برعکس شد کہ اوشان بجائے من، ومن بمقام اوشان شدم، وصحبت اوشان را غنیمت دانند، کہ ایں چنیں کساں دریں زمان نایاب اند، واز خدمت بابرکت ایشاں فیضیاب بودہ باشند“(۵)
مگر اپنے تمام کمالات سلوک وتصوف میں اختصاص کے باوصف، حضرت مولانا نے خود کو چھپانے کی ہمیشہ اورآخری حد تک کوشش کی۔ حضرت مولانا نہیں چاہتے تھے کہ مولانا کے فضل وکمال اور روحانی نسبت وپرواز کا کسی کو پتہ چلے اور لوگ ان سے رجوع کریں۔ حضرت مولانا پر تواضع اور خودشکنی کا اس قدر غلبہ تھا کہ کسی کو بیعت کرنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے، چند علماء اور اہل کمال بصد اصرار بیعت ہوئے اور انھوں نے حضرت مولانا سے امکان بھر استفادہ بھی کیا، بالآخر ایک وقت آیا کہ یہ متوسلین اس لائق ہوگئے، کہ ان کو حصول نسبت کی بشارت دی جائے اور اجازت وخلافت سے نوازا جائے، مگر حضرت مولانا اس مرحلہ پر بھی اپنی ذات کو پیچھے رکھنا اور ان متوسلین اور سالکان راہ طریقت کا ہاتھ، اپنے شیخ ومرشد، حضرت حاجی امداد اللہ کے ہاتھ میں ہی دیدینا چاہتے تھے اور چاہتے تھے، کہ میں خود کسی کو اجازت وخلافت نہ دوں، جس کے لئے بھی اس نعمت ودولت کا فیصلہ ہو، وہ حضرت پیرومرشد کی زبان سے ہو۔ اس لئے حضرت مولانا کے جس متوسل کی سیرسلوک مکمل ہوجاتی،اس کو ہدایت فرماتے کہ، وہ مکہ مکرمہ حاضرہوکر، حضرت حاجی امداداللہ کی خدمت میں اپنی کیفیت عرض کرے اور خود حضرت کو لکھ دیتے تھے، کہ میں ان صاحب کو اس لائق سمجھتا ہوں، مگر فیصلہ آنجناب کی صواب دید اور رائے عالی پر ہے، اگر اطمینان ہوتو ان کو اجازت وخلافت سے سرفراز فرمائیں۔ حضرت مولانا محمد قاسم کے تقریباً تمام خلفائے کرام اسی طرح کے ہیں، کہ اگرچہ ان کی تربیت واصلاح باطن حضرت مولانا کے زیردامن ہوئی، مگر ان کو خلافت اوراجازت وبیعت کا پروانہ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب سے ملا۔
انگریزوں کے خلاف برپا جدوجہد ۱۸۵۷ء میں شرکت
ابھی مولانا کو تعلیم سے فارغ ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا، کہ ہندوستان پر مسلط انگریزی حکومت واقتدار کے خلاف وہ جذبہ، جو تقریباً پچاس برس سے عوام خواص کے دلوں میں پرورش پارہا تھا، یکلخت شعلہٴ جوالہ بن کر پھوٹ پڑا، اور پورے ملک میں ۱۸۵۷ء/۱۲۷۲ھ میں انگریزوں کی حکومت اور سیاست واقتدار کو اکھاڑ پھینکنے کے خلاف، ایک پرزور جدوجہد شروع ہوگئی۔ اس موقع پر علماء اور اہل باطن کے لئے دین وشریعت کی ذمہ داری، مسلمانوں کی عام دینی ملی ضرورت اور وقت کے تقاضہ سے غفلت، ناممکن تھی، اس لئے اس ضمن میں ایک بڑی اور منظم آواز، حضرت مولانا کے پیرومرشد حضرت حاجی امداد اللہ کے وطن تھانہ بھون (ضلع مظفرنگر) سے بھی اٹھی جس میں حضرت حاجی امداد اللہ قائدانہ شریک تھے اور حضرت حاجی صاحب کے علاوہ، حضرت کے خاص خلفائے کرام اور متوسلین بھی اس کے دست وبازو بنے ہوئے تھے۔
یہ تحریک پوری منصوبہ بندی اور مستقبل کے مقاصد کو سامنے رکھ کر، بلند حوصلہ کے ساتھ برپا کی گئی تھی۔ اس تحریک کا اثر دہلی سے ملحق دریائے جمنا کے کنارہ سے بڑھتا ہوا، ہمالیہ کے دامن تک پہنچا، اور دہلی کے شمال مشرق کا تقریباً ساڑھے تین سو چار سو کلومیٹر علاقہ اس جدوجہد کا میدان بنا، جس میں ان مجاہدین نے بڑے بڑے کارنامے انجام دئیے اور بہت اہم کامیابیاں بھی حاصل کیں۔
یہ تحریک جو پوری طاقت اور بڑے تدبر سے چلائی اورآگے بڑھائی گئی تھی، اور کیونکہ عوام علماء کی آواز پر لبیک کہتے تھے، اس لئے ہر طبقہ کے لوگوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا، اور اس کے زیراثر مجاہدین کا انگریز افسران اور فوجوں سے ایسا پرپیچ اور کامیاب مقابلہ ہوا، جس کی بعد میں خود دشمن افسران نے داد دی۔ اس فوج یا کمان کے ذمہ دار کمانڈروں میں حضرت مولانا محمد قاسم بھی شامل تھے، ان حضرات نے تھانہ بھون کے قریب ایک انگریزی فوج کے ایک نسبتاً چھوٹے کیمپ اور خزانہ کو اپنا نشانہ بنایا، وہاں کامیاب حملہ کیا، انگریز دستہ کو شکست ہوئی،اور اس پورے علاقہ پر انگریزوں کا قبضہ اور اقتدار ختم کرکے مجاہدین کا پرچم لہرادیاگیا، انگریز فوج کے سوسے زیادہ سپاہی اور افسر مارے گئے، ان کے اسلحہ خانہ اور خزانہ پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا،اور میدان جنگ کے ساتھ ہی یہ پورا علاقہ مجاہدین کے انتظام میں آگیا تھا۔ اس جنگ میں حضرت حاجی امداد اللہ کے ایک بڑے خلیفہ حافظ محمد ضامن تھانوی اور مسلمانوں کی ایک جماعت شہید ہوئی، مگر کچھ دنوں کے بعد انگریزوں نے تازہ دم فوج اور بڑی تیاری سے دوسرا حملہ کیا، جس میں مسلمانوں کو نقصان اٹھانا پڑا، یہاں تک کہ وہ تھانہ بھون کو بھی جو ان کا مرکز تھا، چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس تمام معرکہ آرائی میں شروع سے آخر تک حضرت مولانا محمد قاسم بھی برابر شریک رہے، جنگ کے دوران، حضرت مولانا کی ناک پر گولی لگی تھی، آخر عمر تک اس کا نشان موجود تھا۔
۱۸۵۷ء کی یہ جدوجہد اور تحریک ایک بڑی، انقلابی اور نہایت دور رس تحریک تھی، جس نے اس وقت کے ہندوستان کے مزاج، خصوصاً ہندی ملت اسلامیہ کو، اس شدت، قوت اور گہرائی سے متاثر کیا، کہ اب تک اس کے اثرات موجود ہیں۔ ہندوپاکستان وبنگلہ دیش کی ہر ایک دینی علمی سیاسی جدوجہد میں خصوصاً مسلمان اور دینی طبقہ ۱۸۵۷ء کی تحریک اور اس کے رہنماؤں کے طریقہٴ کار تعلیمات اور اصولوں سے روشنی لے کر چلتے اورآگے بڑھتے ہیں اور ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک ،اور اس کے بعد سے آج تک مسلم سیاست اسی محور پر رقص کرتی رہی ہے۔
دارالعلوم اور مدارس اسلامیہ کا قیام اور ہندی ملت اسلامیہ کے دینی علمی مستقبل کی تعمیر وتشکیل
۱۸۵۷ء کی تحریک ہوئی پسپا ہونے کے نتیجہ میں، انگریزوں کا دوبارہ تسلط قائم ہوگیا تھا، جو ان کی پہلی حکومت سے بہت زیادہ جابرانہ قاہرانہ تھا۔ اس کا ایک بہت برا اثر یہ ہوا تھا کہ اس تحریک میں شرکت کی سزا اور الزام میں لاکھوں علماء اور اہل کمال پھانسیوں پر لٹکائے گئے، ہزاروں جلاوطن ہوئے، بے شمار لوگوں کو مختلف سزائیں دی گئیں اورہزاروں حالات کی سختیوں سے مجبور ہوکر، ہندوستان سے حرمین شریفین ہجرت کرگئے تھے، جس کی وجہ سے اکثر خانقاہیں برباد، مسجدیں ویران اور مدرسے بے نام ونشان ہوگئے تھے، حالات ایسے سخت اور ناقابل بیان تھے کہ کہنا مشکل ہے، نہ کسی کو زبان کھولنے کی اجازت تھی، نہ آہ وفغاں کرنے کی۔ چوں کہ علمائے کرام اور دینی طبقہ نے ۱۸۵۷ء میں انگریز کے خلاف معرکہ آرائی میں بڑا اور سرگرم حصہ لیا تھا، اس لئے اس تحریک کے ناکام ہونے کے بعد، انگریزوں کے مظالم اور سزاؤں کانشانہ بھی یہی بنے، لیکن حالات کی پکڑ کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو، ملت کو بہر صورت اپنا راستہ خود متعین کرنا اور چلنے کے لئے ایک طریقہ اور شاہراہ عمل مقرر کرنی ضروری تھی۔ علمائے کرام سوچتے تھے کہ ملت ایک ایسے حادثہ کاشکار ہوئی ہے کہ اگر فوراً اس کا بڑا، دیرپا مضبوط علاج اور مستقبل کی اکثر ضرورتوں میں، رہنمائی کرنے والی تدبیر اور طریقہٴ کار وضع نہ کیاگیا، تو اس ملک بلکہ پورے برصغیر میں، مسلمانوں کا اور دینی اقدار ومعاملات کاباقی رہنا مشکل ہوجائے گا، ان مشکل حالات میں جب کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کے رفقائے کرام نے، اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے، ملت ہندیہ کے لئے ایک ایسا نسخہ صحت تجویز کیا، جس نے زخم خوردہ بلکہ نیم جاں ملت اسلامیہ کو بڑی حد تک شفا بخشی اوراس کے زخموں سے چور چور جسم میں زندگی کی لہر دوڑادی۔
یہ کام دیوبند میں ایک ایسے بڑے کثیر المقاصد اور خود کفالت پر مبنی مدرسہ (دارالعلوم) کا آغاز تھا، جس نے اس ملک میں رہنے بسنے والے تمام مسلمانوں میں امید کی ایک شمع روشن کردی تھی، عام مسلمانوں نے دیوبند سے اٹھنے والی اس آواز، اس تحریک، اس جدوجہد کی بھرپور آبیاری کی اور حضرت مولانا محمدقاسم اور ان کے عالی مرتبت رفقاء کے منصوبوں کو، پورے حوصلہ، جذبہ اور اخلاص ودردمندی کے ساتھ آگے بڑھایا، اور پروان چڑھایا،یہاں تک کہ وہ ایسا گھنا اور بافیض سایہ بن گیا، کہ اب ہندوپاکستان کے مسلمان ہی نہیں، بلکہ پوری دنیا میں امت مسلمہ کا ایک حصہ، اسی کے زیرسایہ،اتباع شریعت وسنت، تعلیم قرآن وحدیث اور پیروی دین، کا سفر طے کررہا ہے، اور یہ بات بلا تکلف کہی جاسکتی ہے، کہ عصر حاضر میں کم سے کم ہندوپاکستان اور بنگلہ دیش میں کوئی بڑا دینی علمی ادارہ اور فکر صحیح اور عمل قرآن وسنت کا مرکز ایسا نہیں ہے، جس کا رشتہ دارالعلوم سے جڑا ہوا نہ ہو۔
اس مدرسہ اور دارالعلوم کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے، دینی خدمت اور ایسے افراد وعلماء تیار کرنا تھا، جو آگے چل کر ملت کی زمام سنبھالیں اور ہندوستان کے سیاسی حالات میں اس کی ڈوبتی کشتی کو طوفان سے سلامت نکال کر، دریا کے کنارہ پر لانے کی جدوجہد کے لئے، اپنی زندگی اور دوسرے تمام مقاصد فنا کردیں، اور قال اللہ وقال الرسول صلى الله عليه کا بھولا ہوا سبق، پوری ملت اسلامیہ کے کانوں اور دل میں پوری طرح اتار دیں۔
اس مدرسہ دیوبند (دارالعلوم) کا ۱۵/محرم الحرام ۱۲۸۳ھ (پنجشنبہ ۳۰/مئی ۱۸۶۶ء) کو بے سروسامانی کی حالت میںآ غاز ہوا تھا، افتتاح کے وقت اس میں صرف ایک استاذ تھے اور ان کے سامنے بیٹھنے والے دو تین طالب علم تھے، مدرسہ کی کوئی عمارت تھی نہ کچھ اور سامان، دیوبند کی ایک کئی سو سال پرانی مسجد (چھتہ) کے صحن میں موجود، انار کے ایک درخت کے نیچے اس کی ابتداء ہوئی تھی(۶)، مگر حق تعالیٰ شانہ کو اس مکتب ومدرسہ کے بانیوں کا اخلاص، ان کی حسن نیت اور سادگی کا عمل کچھ ایسا پسند آیا کہ یہی چھوٹا سا مکتب اور مدرسہ آگے بڑھ کر، ایک بڑا دارالعلوم، ایک ممتاز عالمی درس گاہ، ایک بہت بڑی، بہت کثیر المقاصد، بہت ہمہ جہت اور بہت دوراندیش تحریک ثابت ہوئی، اس مدرسہ کے قیام نے برصغیر (ہندوپاکستان، بنگلہ دیش) کے دینی ماحول میں امیدوں کے چراغ روشن کردئیے، اور پوری ملت اسلامیہ کو ایک واضح طریقہ عمل اورایسی شاہراہ مستقیم عنایت کردی کہ برصغیر کے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی باشعور اور دیندار اکثریت، اس کے سایہ میں سفرکررہی ہے۔ دیوبند کے مدرسے کے قیام اور دینی تعلیم جاری ہونے اور اس کے باقاعدہ عمدہ انتظام کی، اس قدر پذیرائی، تحسین اور پرجوش تعاون ہوا کہ مدرسہ دیوبند کے بلند مرتبہ رہنماؤں میں سب سے ممتاز شخصیت، حضرت مولانا محمد قاسم نے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے، مختلف مقامات پر اسی قسم کے پانچ مدرسے اور قائم کئے، ان سے بھی اس طرح علم اور دین پر عمل کا چرچا شروع ہوا، اور ان میں ہر ایک مدرسہ نے دارالعلوم دیوبند کے مقاصد، طریقہ تعلیم اور دینی عقیدہ ونظریات کو اپنا رہنما قرار دیا اور پھر یہ مدرسے بھی بڑھتے بڑھتے گھنے درخت بن گئے، اور اب ان مدرسوں کے تعلیم و تربیت یافتہ لاکھوں افراد، خصوصاً ہندوستان اور عموماً دنیاکے گوشہ گوشہ میں، دینی اصلاحی، تبلیغی، ملی خدمات، پورے اطمینان اور توجہ سے انجام دے رہے ہیں۔
دارالعلوم صرف ایک مدرسہ نہیں علمی عملی تحریک بھی تھی
دارالعلوم دیوبند، جس کی ابتداء مسلمانوں کو دین وشریعت سے جوڑنے اور علوم نبوی کے احیاء کے لئے ہوئی تھی، بعد میں ایک بڑی، بہت با فیض، بہت طاقتور اور کثیر الجہت تحریک بن گئی تھی۔ جس نے اس برصغیر میں مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبہ کو متاثر کیا، دینی فکر ومزاج، اتباع شریعت وسنت، علوم اسلامیہ کی خدمت وآبیاری، وعظ وارشاد، اصلاح وتربیت، تذکیر وتصنیف، حکومت وسیاست، اختلاف نظریات وعقائد، کلام ومعقولات، یعنی برصغیر کی ملت اسلامیہ کی عمومی زندگی اور شعور کا، کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے، جس کو دارالعلوم دیوبند کی تحریک نے متاثر نہ کیاہو،اور آج جب دارالعلوم کو قائم ہوئے تقریباً ڈیڑھ سو سال ہوچکے ہیں، دارالعلوم کی آواز، اس کا پیغام اور اس کے نظریات وتعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچ چکے ہیں، دنیا کا شاید کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جہاں دارالعلوم دیوبند سے استفادہ کرنے والے، وہاں کے فارغ طلباء، علماء اور دارالعلوم سے وابستہ ارباب وفضل وکمال نہ پہنچے ہوں اور اس خطہ کی دینی، علمی اصلاحی فضاؤں پر اپنے گہرے نقوش نہ ثبت کئے ہوں۔
دارالعلوم اب ایک ادارہ نہیں ایک عالم گیر دعوت ہے، ایک تحریک ہے، ایک جدوجہد ہے، ایک نصب العین ہے،جس کے ساتھ مقاصد ومستقبل کی تعمیر کا، ایک بامعنی خوب تجربہ کیاہوا اور ایسا طریقہٴ عمل ہے کہ اس کی ایسی جامع، موٴثر ، دیرپا اور عالم گیر، اثر انداز مثال تلاش کرلینا آسان نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ دارالعلوم کی اس آفاقیت، ہمہ گیریت، مقاصد کے تنوع اور بلند نگہی اور تاثیر ونفع میں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کا بہت بڑا اور خاص حصہ ہے۔ اگر مدرسہ دیوبند کو اوّل دن سے حضرت مولانا کی سرپرستی اور رفاقت حاصل نہ ہوتی، تو ممکن تھا کہ یہ بہت اچھا مدرسہ بن جاتا، مگر اس کا ملت اسلامیہ کا حصن حصین اور ہر طرح کے مصائب ومسائل میں ملت کی پناہ گاہ اور امیدوں کا مرکز بننا مشکل تھا۔
دیگر دینی خدمات
حضرت مولانا محمدقاسم دینی ملی معاملات میں اعلیٰ درجہ کے صاحب فکر، حساس اور دردمند عالم تھے، حضرت مولانا کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا، کہ کوئی اہم دینی ملی معاملہ سامنے آئے اور وہ خاموش بیٹھے رہیں، درس وتعلیم کی مسند ہو، خانقاہ وارشاد کی تعلیمات ہوں، وعظ واصلاح کا میدان ہو، تصنیف وتالیف کی جلوہ فرمائی ہو، مناظرہ ومباحثہ کی ضرورت ہو، یا دوسرے مذاہب کے پیشواؤں کے اسلام و شریعت پر سوالات واعتراضات کا جواب، حضرت مولانا ہر ایک میں نمایاں اور پیش پیش رہتے تھے، جہاں جس طرح کی ضرورت ہو اس کا بروقت احساس اوراس کا ویساہی علاج اور دفاع فرماتے تھے، جیسی ضرورت وتقاضہ ہو۔ مسلمانوں کے وہ طبقات ہوں جو عقائد وکلام کے معاملات میں راہ سے بے راہ ہوگئے تھے، یا بدعات ورسوم کے خوگر افراد ہوں، اہل تشیع یا کوئی اور! دینی معاملہ، عقیدہ سلف واہل سنت سے انحراف کی بات ہو، یا دین وشریعت کے مسائل ومباحث اور عقائد کے کلام کی گفتگو ان کو قرآن وسنت سے حل کرنے، اور ان کی عقلی توجیہ کی ضرورت، حضرت مولانا کا ہر ایک میں سرگرم اور بڑا حصہ رہتا تھا۔
اس دور میں خصوصاً عیسائیوں اور ہندوؤں کی ایک نوزائیدہ جماعت آریہ سماج نے خصوصاً اسلام کے خلاف ایک پرزور محاذ کھولا ہوا تھا، ان کے پادری اور پنڈت جگہ جگہ عیسائیت اور ہندو مذہب کی منادی کرتے، مسلمان علماء کو مناظرہ کا چیلنج دیتے اور عیسائیت واسلام کے مسائل وموضوعات پر بحث وگفتگو کے لئے چھیڑتے تھے۔ حضرت مولانا ان کا مقابلہ کرنے، جواب دینے اور ان کے اعتراضات کی حقیقت واضح کرنے کے لئے، ہمیشہ تیار رہتے تھے، جہاں علی الاعلان بحث ومقابلہ کی بات ہوتی وہاں اس کا اہتمام کرتے، جہاں لکھنے اور گلی کوچوں میں اطلاعات کا کام ہوتا، وہاں اس کا انتظام فرماتے تھے۔
حضرت مولانا کے عیسائی پادریوں اور ہندو پنڈتوں سے، کئی نہایت کامیاب مناظرے بھی ہوئے، جس میں عیسائیوں سے مباحثہ شاہجہاں پور اور مشہور ہندوسماجی مصلح اور مذہبی پیشوا، سوامی دیانند سرسوتی سے گفتگو اور جوابات کی ملک بھر میں شہرت ہوئی، بعد میں حضرت مولانا نے ان مباحث میں پیش آئے، سوالات پر کتابی صورت میں لکھا، ان میں سے ہر ایک تصنیف اپنی جگہ جوے رواں اور علم وبصیرت کا شاہکار ہے۔
حضرت مولانا نے اپنی کتابوں میں قرآن مجید، حدیث، سنت وشریعت کی جو گرہ کشائی فرمائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت کا ایک منفرد حصہ ہے۔ خصوصاً شریعت اور عقائد واعمال کی حکمتوں اور اسرار وحکم پر حضرت مولانا کے افادات وتحریرات، ایک نئے اور مستقل علم کلام کی حیثیت رکھتے ہیں، ضرورت ہے کہ ان سب کا جامع مطالعہ کرکے، ایک لڑی میں پروکر، امت کے سامنے پیش کیاجائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے عقلی کلامی ذخیرہ میں ایک وقیع اضافہ ہوگا، بلکہ اس کی اساس پر اور بھی کئی مشکل مباحث ومسائل حل کئے جاسکیں گے۔
***
حواشی:
(۱) مفصل حالات کیلئے دیکھئے: استاذ الکل حضرت مولانا مملوک العلی نانوتوی رحمة الله عليه: تالیف نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۶۵ (کاندھلہ انڈیا۲۰۰۹/)۔
(۲) مولانا کے مفصل حالات کیلئے دیکھئے تذکرہ حضرت مولانا محمد مظہر نانوتوی رحمة الله عليه وسلم۔ تالیف نورالحسن راشد کاندھلوی (کاندھلہ انڈیا ۱۴۲۸ھ)
(۳) حالات طیب حضرت مولانا محمد قاسم: تالیف مولانا محمد یعقوب نانوتوی۔ بحواشی نورالحسن راشد کاندھلوی ص:۱۸۰-۱۷۹ (مشمولہ: قاسم العلوم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، احوال وآثار وباقیات متعلقات) (کاندھلہ:۲۰۰۰/)
(۴) مرقومات امدادیہ، مکتوب اٹھارواں ص:۴۹-۴۸ جامع مکتوبات،مولانا وحید الدین رامپوری۔
ترتیب جدید: نثار احمد فاروقی (مکتبہ برہان، دہلی ۱۹۷۹/)
(۵) ضیاء القلوب، مشمولہ کلیات امدادیہ ص:۶۰ (فخرالمطابع لکھنوٴ ۱۳۲۴ھ)
(۶) دارالعلوم دیوبند کی تاریخ اردو، عربی اور انگریزی میں بارہ تیرہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ تفصیلات ان میں درج ہیں۔
Last edited: