باغ جنت میں نرالی چمن آرائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہوکے بہار آئی ہے
ان کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
ان کے ابرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں ترے اعجازِ مسیحائی ہے
سرِ بالیں انہیں رحمت کی گھٹا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی روحِ رواں
دم قدم سے ترے اعجاز مسیحائی ہے
جسکے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال
اے حسیں تیری ادا اس کو پسند آئی ہے
تیرے جلووں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے
تیرے قدموں کا تبرک ید بیضائے کلیم
تیرے ہاتھوں کا دیا فضل مسیحائی ہے
دردِ دل کس کو سناوں میں تمہارے ہوتے
بیکسوں کی اسی سرکار میں سنوائی ہے
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں
آپ کی خاکِ قدم سرمہ بینائی ہے
ناتوانی کا الم ہم ضعفا کو کیا ہو
ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے
باغ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا
اک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے
کھیت سرسبز ہوئے پھول کھلے میل دھلے
اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتے
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے
ناامیدو تمہیں مژدہ کہ خدا کی رحمت
انہیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے
فرش سے عرش تک اک دھوم ہے اللہ اللہ
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے
اے حسن حُسن جہاں تاب کے صدقے جاوں
ذرے ذرے سے عیاں جلوہ زیبائی ہے
کیا مدینہ پہ فدا ہوکے بہار آئی ہے
ان کے گیسو نہیں رحمت کی گھٹا چھائی ہے
ان کے ابرو نہیں دو قبلوں کی یکجائی ہے
سنگریزوں نے حیاتِ ابدی پائی ہے
ناخنوں میں ترے اعجازِ مسیحائی ہے
سرِ بالیں انہیں رحمت کی گھٹا لائی ہے
حال بگڑا ہے تو بیمار کی بن آئی ہے
جانِ گفتار تو رفتار ہوئی روحِ رواں
دم قدم سے ترے اعجاز مسیحائی ہے
جسکے ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں حسن و جمال
اے حسیں تیری ادا اس کو پسند آئی ہے
تیرے جلووں میں یہ عالم ہے کہ چشمِ عالم
تابِ دیدار نہیں پھر بھی تماشائی ہے
جب تری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی
جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے
تیرے قدموں کا تبرک ید بیضائے کلیم
تیرے ہاتھوں کا دیا فضل مسیحائی ہے
دردِ دل کس کو سناوں میں تمہارے ہوتے
بیکسوں کی اسی سرکار میں سنوائی ہے
آپ آئے تو منور ہوئیں اندھی آنکھیں
آپ کی خاکِ قدم سرمہ بینائی ہے
ناتوانی کا الم ہم ضعفا کو کیا ہو
ہاتھ پکڑے ہوئے مولا کی توانائی ہے
باغ فردوس کھلا فرش بچھا عرش سجا
اک ترے دم کی یہ سب انجمن آرائی ہے
کھیت سرسبز ہوئے پھول کھلے میل دھلے
اور پھر فضل کی گھنگھور گھٹا چھائی ہے
ہاتھ پھیلائے ہوئے دوڑ پڑے ہیں منگتے
میرے داتا کی سواری سرِ حشر آئی ہے
ناامیدو تمہیں مژدہ کہ خدا کی رحمت
انہیں محشر میں تمہارے ہی لیے لائی ہے
فرش سے عرش تک اک دھوم ہے اللہ اللہ
اور ابھی سینکڑوں پردوں میں وہ زیبائی ہے
اے حسن حُسن جہاں تاب کے صدقے جاوں
ذرے ذرے سے عیاں جلوہ زیبائی ہے