مغل بیگمات کا شعری ذوق
امیر تیمور کو سلطنت مغلیہ کابانی کہا جاتا ہے۔شہنشاہ بابر، ہمایون، اکبر، جہاں گیر، شاہ جہاں، اورنگ زیب بلکہ سارے ہی مغل حکمراں اسی تیمور کی اولاد میں ہیں۔ مغل بادشاہوں، بیگموں، شہزادوں اور شہزادیوں کواسی لئے تیموری کہاجاتا ہے۔تیموری بادشاہ اور شہزادے فنی حرب و ضرب میں مہارت کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ خصوصاً رقص و موسیقی اور شعر و ادب کے دلدادہ ہوتے تھے۔ تیموری بیگمات اور شہزادیاں بھی فنون جنگ اور فنون لطیفہ سے کم دلچسپی نہ رکھتی تھیں۔ بعض بیگمات قلعہ میں ہر وقت ہتھیار بند رہتی تھیں،میدان جنگ میں داد شجاعت دیتیں رقص و موسیقی میں مہارت کے علاوہ شعر وشاعری میں وہ اپنے عہد کی خواتین میں ممتاز تھیں۔
آئیے تیموری خواتین (شاعرات) سے ملاقات کرتے ہیں۔ یہ ہیں:
امتہ الحبیب: یہ محترمہ ترکی خلیفہ کی اسلامی فوج میں ’’لیفٹیننٹ‘‘ کے عہدہ پرفائز تھیں۔مردانہ لباس میں رہتیں۔تیمور نے جب خلافت اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجادی ، ستر ہزار مسلمانوں کو اپنے ہوس ملک گیری کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ تو قیدی سپاہیوں کی جان بچانے کے لئے انھوں نے تیمور سے شادی کرلی۔ تیمور نے اسے حمیدہ بانو بیگم کا نام دیا۔
ترکی عربی فارسی کے علاوہ چینی اور زرتشی زبانوں سے واقف تھیں’’ترکی خواتین‘‘ اور ’’امیر تیمور کی فتوحات ہندیہ‘‘ دوکتابیں ان کی یاد گار ہیں۔ ترکی اور عربی زبان میں اشعار موز وں کرتی تھیں ۔
اور یہ ہیں:
’’آرام جاں بیگم‘‘ نور الدین جہاں گیر کی پانچویں بیگم۔ حاضر جوابی، بے ساختگی اور فی البدیہہ شعر کہنے میں جو ملکہ انھیں میسر ہے وہ دوسری بیگموں کو تو کیا خود جہاں گیر بادشاہ کو بھی میسر نہیں۔ عربی زبان میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں مگر عربی اشعار کم پایہ ہیں۔ اس کی فارسی شاعری قابل داد ہے۔
حضرات! لیجئے محترمہ جہاںآراء بیگم صاحبہ جلوہ افروز ہورہی ہیں یہ حسین و جمیل شہزادی شاہجہاں بادشاہ کی چہیتی بیٹی ہیں جو ارجمند بانو بیگم کے بطن سے 1023ھ میں پیدا ہوئیں۔ ہوشیار ، طباع، اور عربی و فارسی کی بہترین انشاء پرداز اکثر اوقات فارسی میں اشعار موزوں کرتی ہیں۔ ان کی آخری آرامگاہ مزارِ حضرت نظام الدینؒ اولیاء سے متصل ہے جہاں 1092ھ سے آرام فرما ہیں۔
جاناں بیگم سے تو آپ واقف ہی ہوں گے۔قرآن کی تفسیر لکھنے کا شرف حاصل ہے ۔وزیر الملک مرزا عبدالرحیم خاں المخاطب بہ خان خاناں کی دختر ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی تفسیر قرآن کی واحد کاپی کو شہنشاہ اکبر نے پچاس ہزار دینار میں خریدا تھا۔
ان کی سخنوری اور طباعی کا کیا پوچھنا۔ استاد شعراء میں ان کا شمار ہے۔ نازک خیالی اور مضمون آفرینی میں اپنا جواب نہیں رکھتیں۔ ان کے شوہر نامدار کانام شہزادہ دانیال ہے۔ شہزادہ کے انتقال کے بعد شہنشاہ جہاں گیر ان کا خواستگار ہوا اپنی عصمت و عفت بچانے کے لئے انھوں نے اپنے تمام دانت اکھڑوالئے۔ سر کے بال بے دردی سے کٹوادئیے۔بادشاہ جہانگیر ان کی پاکبازی اور شوہر سے وفاد اری دیکھ کر بہت متاثر ہوا اور کثیر انعام دے کر رخصت کیا ۔سن وفات 1070ھ ہے۔
حمیدہ بانو بیگم وہ خوش نصیب ہستی ہیں جنھیں شوہر نصیرالدین محمد ہمایوں جیسا بادشاہ ملا اور بیٹا مغل اعظم شہنشاہ جلال الدین اکبر جیسا۔ فارسی زبان میں بہت ہی برجستہ شعر کہتی تھیں۔ شوہر ہمایون کا 963ھ میں انتقال ہو گیا یہ اس کے بعد انسٹھ(59) برس زندہ رہیں 1010ھ میں انتقال ہوا۔
زیب النساء بیگم مخفی صاحبہ بادشا اورنگ زیب عالمگیر کی سب سے پہلی اولاد ہیں۔ بدیع الزماں خاں عرف شاہ نواز خاں صفوی کی بیٹی دل رس بانو بیگم کے بطن سے شوال 1048ھ میں پیدا ہوئیں ۔عربی و فارسی کی تعلیم نہایت اعلیٰ درجہ کی حاصل کی، بڑے بڑے علماء فضلاء ان کی خدمت میں رہتے تھے۔ نظم و نثر میں ملا سعید اشرف ماژندانی سے اصلاح لیتی تھیں۔ شادی نہیں کیں۔ صحیح قول کے مطابق 1113ھ میں انتقال ہوا۔
علو م عربیہ وفارسیہ میں کمال رکھتی تھیں۔ خط نستعلیق ، نسخ اور شکستہ بہت عمدہ لکھتی تھیں۔ صاحب’’مخزن الغرائب ‘‘ احمد علی سندیلوی کے بقول ان کا بھی کلام محفوظ نہیں۔ امام رازی علیہ رحمتہ کی تفسیر کبیرکے ترجمہ کے علاوہ بے شمار کتابیں علماء سے انھوں نے تصنیف کروائیں۔
اورنگزیب نے جب شاعری کودربار سے نکال دیاتھا تو وہ زیب النساء ہی تھیں جنھوں نے قلعہ میں شاعری اور شعرا ء کو باریابی کا شرف دلایا۔ 65؍ سال کی عمر میں وفات پائی مقبرہ لاہور میں ہے۔
زبدۃ النساء بیگم : مذکورہ زیب النساء کی حقیقی بہن اور عالمگیر بادشاہ کی دختر ہیں۔ 26؍ رمضان 1061ھ میں پیدا ہوئیں۔ترکی اور عربی زبان میں بلا تکلف گفتگو کرتی ہیں۔ دیگر علوم و فنون سے واقف اور قادر الکلامی اور سخن سنجی میں مشہور ہیں۔ دادا شاہ جہاں نے دارا شکوہ کے چھوٹے فرزند سپہر شکوہ سے ان کا نکاح کرایا تھا۔ سن وفات عالمگیر بادشاہ کی ہی سن وفات ہے۔
سلیمہ سلطان بیگم(مرز ا نور الدین کی بیٹی اور بادشاہ ہمایون کی بھانجی) کی طبیعت نہایت موزوں واقع ہوئی تھی۔ شعر گوئی اور شیریں بیانی اور بندش الفاظ اور بے ساختگی جو سلیمہ سلطان بیگم کوحاصل تھی کم شعراء میں دیکھی جاتی تھی۔ اس کے اشعار نہایت مضمون خیز اور پر لطف ہوتے ۔ عالمہ فاضلہ اور شاعرہ تھی۔ اکبر بادشاہ نے اس کی شادی بیرم خان عرف خان بابا سے کرائی تھی۔ بیرم خان کے قتل کے بعد خود اکبر بادشاہ نے ان سے نکاح کرلیا۔
جمیلہ خاتون کے شوہر محمد مرزا ہیں ان کا پورانام رشید النساء عرف آرام جان تھا۔ یہ بھی استاد شاعرہ تھیں۔ فارسی شعر فی البدیہہ کہتی تھیں۔ اس دور کے ادباء و شعراء اس بات پر متفق تھے کہ رشید النساء شاعرہ پیدا ہوئی ہے۔ اولاد میں صرف
ایک لڑکی زندہ رہی جو عباسہ بیگم کے نام سے مشہور ہوئی۔
عباسہ بیگم مذکورہ بالاجمیلہ خاتون عرف رشیدالنساء عرف آرام جان کے بطن سے پیدا ہوئیں۔ ان کے والد محمدمرزا ہیں۔ اپنی ماں کی طرح یہ بھی شاعرہ تھیں اور بہت اچھا شعر کہتی تھیں۔
اشرف زمانی بیگم، شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی’’بہو‘‘ اور شہزادہ محمد معظم شاہ عالم بہادر شاہ اول کی ’’حرم‘‘ (ملکہ) ہیں۔ قابلیت کامادہ بچپن ہی سے طبیعت میں تھا باپ کے فیض صحبت اور تعلیم کے اثر نے سونے پر سہاگہ کاکام کیا، مشکل سے مشکل اشعار فوراً سمجھ لیتی تھی۔ خود بھی فارسی اشعار کہتی تھی۔
بادشا بیگم اورنگ زیب بادشاہ کی بیٹی ہیں اپنی بہنوں (زیب النساء اور بدۃالنساء ) کی طرح یہ بھی فارسی زبان کی شاعرہ ہیں۔ ذہن بہت تیز، نظر بہت وسیع سخت سے سخت زمین میں بر جستہ شعرکہتیں اور خوب کہتیں۔اپنے والدعالم گیر بادشاہ کی شان میں انھوں نے ایک قصیدہ لکھا بادشاہ نے اس قصیدہ کو بہت پسند کیا اور ایک ایک شعر کو کئی کئی مرتبہ پڑھوا کر سنا لیکن بیٹی سے کہا کہ امراء اور خواص کاکام شاعری کرنانہیں۔چنانچہ بادشاہ بیگم نے پھر بھول کر شعرو سخن کانام نہیں لیا۔
اب تک جن شاعرات کا تذکرہ کیا گیا وہ فارسی (یا عربی یا ترکی) کی شاعرات ہیں اس وقت ملک ہندوستان کی سرکاری زبان فارسی تھی۔بادشاہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد تیموری خاندان کازوال شروع ہو گیا۔ لیکن اردو زبان کے اقبال کا ستارہ نصف النہار پر ضو فشانی کرنے لگا۔روشن اخترمحمد شاہ (رنگیلا) پہلا تیموری بادشاہ ہے جس نے اپنا مافی الضمیر ادا کرنے کے لئے اردو کا سہارا لیا اور فارسی اور ھندی کے ساتھ ساتھ اردوبھی قلعہ معلی میں عزت کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی۔ شاہ عالم ثانی آفتاب تیموری بادشاہوں میں اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر تھا۔ ذیل میں تیموری خاندان کی اردو شاعرات کا تذکرہ ملاحظہ ہو:
نواب اخترمحل اختر: خاندان تیموریہ کی شاہزادی ، ذی علم، طبیعت عالی، مضمون آفرینی میں یکتا اور بے انتہا نیک دل خاتون تھیں، 1292ھ مطابق 1876ء تک بقیدحیات تھیں نمونہ کلام ملاحظہ ہو:
لکھ کرجو میرانام زمیں پر مٹا دیا
ا ن کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا
تیغ نگاہ یار کا دونوں پہ وار ہے
ٹکڑے ادھر جگر ہے اِدھر دل فگار ہے
قدسی کی مشہور فارسی نعت پر ان کی خمسہ موجود ہے:
تجھ پہ قربان ہوں اے ہاشمی و مطلبی
کہ ہے مشہور دو عالم تری عالی نسبی
دیکھ رتبے کو ترے شوکت افلاک دبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
اشک: دہلی کے شاہی خاندان کی ایک عورت تھیں ان کا تخلص اشک تھا۔ 1290ھ تک زندہ رہیں:
نہ بوسہ دینا آتا ہے نہ دل بہلانا آتا ہے
تجھے تو اے بتِ کافر فقط ترسانا آتا ہے
کسی عاشق کا بے شک استخواں ہے میں نہ مانوں گا
کہ شانہ ترے رخ تک اتنا بے باکانہ آتا ہے
(’’میں نہ مانوں گا‘‘ کا لفظ دیکھ کر شک کرنے کی ضرورت نہیں۔ پروین شاکر اور فہمیدہ ریاض سے پہلے خواتین شاعرات عموماً اپنے مذکر کے صیغے ہی استعمال کرتی تھیں) نواب جینا بیگم بنت مرزا بابر گورگانی: یہ شہزادہ جواں بخت جہاندار شاہ جہاندار ابن شاہ عالم ثانی آفتاب کی محل خاص تھیں۔کبھی کبھی موزونئ طبع کی بدولت شعر کہتی تھیں اور خوب کہتی تھیں ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو:
نہ دل کو چین نہ دل کو قرار رہتا ہے
تمھارے ملنے کا نت انتظار رہتا ہے
نواب حیات ا لنساء بیگم عرف بھورا بیگم شاہ عالم ثانی آفتاب، شاہ نصیر دہلوی کی شاگردہ تھیں۔ حیانے پوری زندگی یاد الٰہی میں بسر کی اور شادی بھی نہیں کی۔ عمر بھی کافی پائی۔ بہادر شاہ ظفر کے عہد میں انتقال فرمایا:
ہے موتیوں کے ہار میں پرتو نگار کا
آب گہر میں عکس نہاتا ہے یار کا
نہ کیوں حیرت ہو یارب وہ زمانہ آگیا ناقص
حیا ڈھونڈے نہیں ملتی برائے نام سوسو کوس
نواب قدسیہ بیگم: ان کا نام ادھم بائی۔۔۔ بائی جیو صاحبہ اور صاحبتہ الزمانی تھا اور تخلص رعنائی تھا ۔ یہ محمد شاہ (رنگیلا) کی حرم تھیں۔ رنگیلے شوہر نے انھیں بھی اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا۔ بڑی بیدار مغز اور ہوشیار تھیں۔ اپنی عاقلانہ رائے سے اچھے اچھوں کو حیران کر دیا کرتیں ۔ مگر محمد شاہ کی طرح یہ بھی رات دن شراب کے نشہ میں مخمور رہنے لگیں۔بیٹے احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں سارا نظام مملکت انھیں کے ہاتھ میں تھا۔حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی سے بے حد عقیدت تھی۔ دہلی کے مشہور کشمیری دروازے کے قریب ایک خوشنما باغ بنوایا اور اسی میں ایک مسجد بھی تعمیر کروائی تھی۔ اردو کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی طبع آزمائی کرتی تھیں۔ ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے:
ہم جانتے تھے آنکھ لگی دل کو سکھ ہوا
کمبخت کیسی آنکھ لگی اور دکھ ہوا
نواب شرف النساء بیگم ضرورت: شہزادہ وجیہہ الدین مرزا کو چک بہادر کی محل خاص تھیں۔ بہت کم عمری میں بیوہ ہو گئیں۔شعر و شاعری سے بے انتہا دل چسپی تھی مگر شعر بہت کم کہتی تھیں۔ نعت پاک ان کا خاص موضوع تھا:
سر سبز رہے باغ سدا دین بنیؐ کا
مکی مدنی ہاشمی و مطلبی کا
کیفی: خود کو تیموری شہزادی کہتی تھیں۔ تاریخ کی کتابوں میں ان کا نام درج نہیں1857ء سے قبل ان کا انتقال ہوا۔ قدسی کی مشہور فارسی نعت پر ان کا بھی خمسہ ’’حدیثِ قدسی‘‘ میں موجو د ہے ایک بندملاحظہ ہو:
کس کا منہ ہے جو کرے مدح میرے نبیؐ!
نعت اطہر میں ہے جب شخصِ ذکی ، محض غبی
حّبذا ذات تری، مایہء حاجت طلبی
مرحبا سید مکی مدنی العربی
دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی
گیتی آراء: دلی کی ایک غیر معروف خاتون کا نام اور تخلص تھا جو خود کو شہزادی کہتی تھیں۔ شعر گوئی سے ذوق تھا۔’’ تذکرۂ نسوان ھند‘‘ میں ان کا ایک شعر محفوظ ہے:
ہم نشیں وہ ہیں کہاں کوئی ٹھکانہ نہ رہا
یا ہمیں وہ نہ رہے یا وہ زمانہ نہ رہا
نواب سلطان جہاں بیگم مخفی: صاحب’’گلستان سخن‘‘مرزا قادر بخش گورگانی کی محل خاص تھیں۔ اور با کمال شاعرہ تھیں۔
خدا جانے کیا بات ہے اس میں مخفی
کہ اس ظلم پر جی کو بھاتا بہت ہے
نواب عالم آراء بیگم ناز: خاندان تیموری کی ایک با کمال شہزادی تھیں۔ انقلاب1957ء سے قبل قلعہ معلی کی شاعرات شہزادیوں میں انھیں بلند مقام حاصل تھا۔ لیکن حادثات زمانہ کی نیرنگیوں نے ترک شاعری پر مجبور کر دیا۔ رنگ سخن یہ ہے:
شور ہے اس کی بے وفائی کا
بس نہیں چلتا واں رسائی کا
دام زلف سیاہ سے اس کی
نہ بنا کوئی ڈھب رہائی کا
کر غلامی علیؓ کی تو اے ناز
ہے اگر شوق بادشاہی کا
مجھ سے روٹھا وہ یا ر جانی ہے
جان جانے کی یہ نشانی ہے
یاد: صاحب ’’تذکرۂ بہارستان ناز‘‘ لکھتے ہیں:’’ یہ عورت دہلی کی شہزادیوں میں سے تھی۔ 1292ھ میں اس نے انتقال کیا ۔ ہنگام نزع جو اس نے ایک قطعہ لکھا تھاوہی گوش زد ہوا اور کچھ کلام ا س کے ہاتھ نہ آیا۔‘‘:
عجب فکر درماں ہے اے اقربا
کہ اب یاد تو یاں سے چلنے کو ہے
سر انجام غسل و کفن کر رکھو
تنِ زار سے جاں نکلنے کو ہے]