دس سال پہلے 2001 میں 11 ستمبر کے بھیانک حملوں کے بعد امریکہ میں بہت کچھ بدل گیا۔ اسی کے ساتھ کتنی ہی زندگیاں بھی ہمیشہ کے لیے بدل گئیں۔
حملوں کے شکار ہزاروں بےگناہ لوگوں کے لواحقین اپنے پياروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ اسلام کی وجہ سے ہی امریکہ پر حملے ہوئے۔ لیکن زیادہ تر لوگ مسلمانوں اور اسلام کو ان حملو کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کو غلط سمجھتے ہیں۔
ویسے تو نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا قانوناً جرم ہے۔ لیکن امریکہ بھر میں نائن الیون کے فوراً بعد سے نفرت کے تحت ہونے والے جرائم میں 17 گنا اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے جرائم 2001 کے مقابلے کم تو ہوئے ہیں لیکن اب بھی ہر سال سو سے زیادہ ایسے واقعات کے معاملے درج کیے جا رہے ہیں۔
فہد احمد نیویارک میں انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تنظیم نے 11 ستمبر کے حملوں کے فوراً بعد سے ہی جنوبی ایشیائی لوگوں کی مدد کرنی شروع کر دی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے فوراً بعد کئی معاملے ہمارے پاس آئے جس میں پاکستانی نژاد لوگوں کے گھر والوں کو چھاپا مار کر اٹھا لیا گیا۔ اول کئی ہفتوں تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اب بھی لوگ آتے ہیں جن کو پولیس روکتی ہے اور پوچھتی ہے کہ تم مسلمان ہو، کون سی مسجد میں جاتے ہو۔ اسی طرح امریکہ میں داخل ہونے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سی مسجد جاتے ہو، وہاں خطبہ میں کیا کہا جاتا ہے۔‘
گیارہ ستمبر کے بعد سے اس طرح نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی نوکریاں چھوڑيں، کاروبار بند کیے اور بہت سے لوگ تو امریکہ چھوڑ کر واپس اپنے ملکوں کو چلے گئے۔
بہت سے مسلمانوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر گرفتار کرکے ملک سے نکالا بھی گیا اور بہت سے اب بھی مختلف قوانین کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیس درج کیے گئے ہیں جن میں مسلمانوں اور ان کی مساجد یا اسلامی مراکز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی کسی مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو چھرا مار دیا گیا، تو کبھی کسی دکاندار کو گولی مار دی گئی۔ کئی مساجد پر بھی گولیوں اور بموں سے حملے کیے گئے۔
ان حملوں میں کئی لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آئے دن سڑک چلتے حجاب پہنے خواتین بھی تشدد اور بدسلوكي کا شکار ہو رہی ہیں۔
جہان السعید ایک عرب نسل کی امریکی طالبہ ہیں۔ سال دو ہزار نو میں ان کے سکول میں ان کے حجاب کو تین لڑکیوں نے کھینچ کر اتار دیا۔
جہان السعید کہتی ہیں ’میں سکول میں داخل ہوئی تو پیچھے سے تین لڑکیوں نے تین بار میرا حجاب کھینچا اور مجھے گالیاں بھی دیں۔ جب میں نے سکول کے سیکورٹی، جس نے یہ حملہ دیکھا تھا، سے شکایت کی تو انہوں نے ٹال دیا کہ کوئی بڑی بات نہیں ہوئی ہے۔‘
گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت پاکستانی نژاد کی رابعہ ساجد کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی دعائیہ تقریب کے لیے ایک چرچ جا رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے ان کو گالیاں دے کر مارنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اپنے ملک واپس چلی جاؤ۔
جب انہوں نے شکایت پولیس سے کرنی چاہی تو پولیس والوں نے کہا کہ بہتر ہوگا اگر آپ اس طرح حجاب نہ پہنیں۔ اس حادثے سے گھبرائي رابيا نے حجاب کو لپیٹ کے رکھ دیا اور پھر کبھی نہیں پہنا۔
رابعہ کہتی ہیں ’میں ابھی اگر حجاب پہنوں گي تو مجھے ڈر ہے کہ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ کیونکہ اگر میں پولیس سے کوئی شکایت بھی کرنے جاؤں گی تو مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ میری بات پر توجہ نہیں دیں گے۔‘
اسی طرح بہت سے مسلمان نفرت کے حوالے سے ہونے والے حملوں کا شکار ہونے کے باوجود پولیس میں شکایت درج نہیں کراتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں ہے اور کسی کو سزا نہیں ملے گی۔
اس کے باوجود گزشتہ سال امریکہ میں تقریباً 43 فیصد مسلمانوں نے اپنے خلاف تشدد حملوں اور تعصب کی شکایات درج کرائیں۔
نیویارک یونیورسٹی میں لاء اسکول کے انسانی حقوق کے مرکز کی پروفیسر سمیتا نرولا کا کہنا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی سے لڑنے کی پالیسیاں ہی غلط پیغام دیتی ہیں۔
’حکومت کی اپنی پالیسیاں ہی پیغام دے رہی ہیں کہ اگر آپ مسلمان ہیں، عرب ہیں یا پھر سکھ ہیں، تو آپ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ جب کسی کی پگڑی یا حجاب کو کھینچا جاتا ہے اور حملے ہوتے ہیں تو حکومت مذمت تو کرتی ہے لیکن خود اس کی پالیسیاں چاہے وہ امیگریشن ہو، یا ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو فرقوں میں جاسوسی کرنے بھیجنا ہو، ان سب سے عام لوگوں کو بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ فرقے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ تو عوام بھی ان کے ساتھ ویسے ہی برتاؤ کرتی ہے۔‘
لیکن صرف مسلمان ہی نہیں سکھوں کو بھی ان کی داڑھی اور پگڑی کے سبب مسلمان سمجھ کر حملہ آوروں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں کئی سکھ مارے جا چکے ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
راجدر سنگھ خالصہ نیویارک میں رہتے ہیں۔ سنہ 2004 میں ان کو کچھ لڑکوں نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے ایک دوست سکھ کی پگڑی گھسيٹے جانے پر انہیں بچانے پہنچے تھے۔ وہ اب بھی اس واقعہ کو بھلا نہیں پائے ہیں۔
راجدرسنگھ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے بعد جو ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہماری زندگی ہی بدل گئی۔ ایک دن میں نے اپنے ایک سکھ دوست جس کی پگڑی پر حملہ کیا جا رہا تھا اس کو بچانے کی کوشش کی تو کچھ لوگوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بیہوش ہو گیا۔ آج تک میرا علاج چل رہا ہے۔ میری آمدنی چلی گئی اور میں قرض دار ہو گیا ہوں۔‘
امریکہ میں رہنے والے بہت سے مسلمان اب حکومت سے زیادہ امید بھی نہیں لگا رہے ہیں۔ بلکہ وہ مانتے ہیں کہ امریکی حکومت ان کی جاسوسی کرتی ہے اور ان پر نظر رکھتی ہے۔
لكن اس سب کے باوجود بہت سے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اب امریکہ ہی ان کا گھر ہے اور وہ یہیں رہیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ حالات بہتر کیے جا سکیں۔
حملوں کے شکار ہزاروں بےگناہ لوگوں کے لواحقین اپنے پياروں سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔
کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ اسلام کی وجہ سے ہی امریکہ پر حملے ہوئے۔ لیکن زیادہ تر لوگ مسلمانوں اور اسلام کو ان حملو کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے کو غلط سمجھتے ہیں۔
ویسے تو نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کرنا قانوناً جرم ہے۔ لیکن امریکہ بھر میں نائن الیون کے فوراً بعد سے نفرت کے تحت ہونے والے جرائم میں 17 گنا اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ایسے جرائم 2001 کے مقابلے کم تو ہوئے ہیں لیکن اب بھی ہر سال سو سے زیادہ ایسے واقعات کے معاملے درج کیے جا رہے ہیں۔
فہد احمد نیویارک میں انسانی حقوق کی تنظیم کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کی تنظیم نے 11 ستمبر کے حملوں کے فوراً بعد سے ہی جنوبی ایشیائی لوگوں کی مدد کرنی شروع کر دی تھی۔
وہ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے فوراً بعد کئی معاملے ہمارے پاس آئے جس میں پاکستانی نژاد لوگوں کے گھر والوں کو چھاپا مار کر اٹھا لیا گیا۔ اول کئی ہفتوں تک ان کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ اب بھی لوگ آتے ہیں جن کو پولیس روکتی ہے اور پوچھتی ہے کہ تم مسلمان ہو، کون سی مسجد میں جاتے ہو۔ اسی طرح امریکہ میں داخل ہونے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ تم کون سی مسجد جاتے ہو، وہاں خطبہ میں کیا کہا جاتا ہے۔‘
گیارہ ستمبر کے بعد سے اس طرح نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اپنی نوکریاں چھوڑيں، کاروبار بند کیے اور بہت سے لوگ تو امریکہ چھوڑ کر واپس اپنے ملکوں کو چلے گئے۔
بہت سے مسلمانوں کو مختلف وجوہات کی بنا پر گرفتار کرکے ملک سے نکالا بھی گیا اور بہت سے اب بھی مختلف قوانین کے تحت جیلوں میں بند ہیں۔
گزشتہ دس سالوں میں ہزاروں کی تعداد میں ایسے کیس درج کیے گئے ہیں جن میں مسلمانوں اور ان کی مساجد یا اسلامی مراکز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کبھی کسی مسلمان ٹیکسی ڈرائیور کو چھرا مار دیا گیا، تو کبھی کسی دکاندار کو گولی مار دی گئی۔ کئی مساجد پر بھی گولیوں اور بموں سے حملے کیے گئے۔
ان حملوں میں کئی لوگوں کی جانیں گئی ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ آئے دن سڑک چلتے حجاب پہنے خواتین بھی تشدد اور بدسلوكي کا شکار ہو رہی ہیں۔
جہان السعید ایک عرب نسل کی امریکی طالبہ ہیں۔ سال دو ہزار نو میں ان کے سکول میں ان کے حجاب کو تین لڑکیوں نے کھینچ کر اتار دیا۔
جہان السعید کہتی ہیں ’میں سکول میں داخل ہوئی تو پیچھے سے تین لڑکیوں نے تین بار میرا حجاب کھینچا اور مجھے گالیاں بھی دیں۔ جب میں نے سکول کے سیکورٹی، جس نے یہ حملہ دیکھا تھا، سے شکایت کی تو انہوں نے ٹال دیا کہ کوئی بڑی بات نہیں ہوئی ہے۔‘
گیارہ ستمبر کے حملوں کے وقت پاکستانی نژاد کی رابعہ ساجد کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی دعائیہ تقریب کے لیے ایک چرچ جا رہی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے حجاب پہنا ہوا تھا تو کچھ لوگوں نے ان کو گالیاں دے کر مارنے کی دھمکی دی اور کہا کہ اپنے ملک واپس چلی جاؤ۔
جب انہوں نے شکایت پولیس سے کرنی چاہی تو پولیس والوں نے کہا کہ بہتر ہوگا اگر آپ اس طرح حجاب نہ پہنیں۔ اس حادثے سے گھبرائي رابيا نے حجاب کو لپیٹ کے رکھ دیا اور پھر کبھی نہیں پہنا۔
رابعہ کہتی ہیں ’میں ابھی اگر حجاب پہنوں گي تو مجھے ڈر ہے کہ مجھے کچھ ہو نہ جائے۔ کیونکہ اگر میں پولیس سے کوئی شکایت بھی کرنے جاؤں گی تو مسلمان ہونے کی وجہ سے وہ میری بات پر توجہ نہیں دیں گے۔‘
اسی طرح بہت سے مسلمان نفرت کے حوالے سے ہونے والے حملوں کا شکار ہونے کے باوجود پولیس میں شکایت درج نہیں کراتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کوئی فائدہ نہیں ہے اور کسی کو سزا نہیں ملے گی۔
اس کے باوجود گزشتہ سال امریکہ میں تقریباً 43 فیصد مسلمانوں نے اپنے خلاف تشدد حملوں اور تعصب کی شکایات درج کرائیں۔
نیویارک یونیورسٹی میں لاء اسکول کے انسانی حقوق کے مرکز کی پروفیسر سمیتا نرولا کا کہنا ہے کہ حکومت کی دہشت گردی سے لڑنے کی پالیسیاں ہی غلط پیغام دیتی ہیں۔
’حکومت کی اپنی پالیسیاں ہی پیغام دے رہی ہیں کہ اگر آپ مسلمان ہیں، عرب ہیں یا پھر سکھ ہیں، تو آپ قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ جب کسی کی پگڑی یا حجاب کو کھینچا جاتا ہے اور حملے ہوتے ہیں تو حکومت مذمت تو کرتی ہے لیکن خود اس کی پالیسیاں چاہے وہ امیگریشن ہو، یا ایف بی آئی کے ایجنٹوں کو فرقوں میں جاسوسی کرنے بھیجنا ہو، ان سب سے عام لوگوں کو بھی یہ پیغام جاتا ہے کہ یہ فرقے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ تو عوام بھی ان کے ساتھ ویسے ہی برتاؤ کرتی ہے۔‘
لیکن صرف مسلمان ہی نہیں سکھوں کو بھی ان کی داڑھی اور پگڑی کے سبب مسلمان سمجھ کر حملہ آوروں نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ان حملوں میں کئی سکھ مارے جا چکے ہیں اور بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
راجدر سنگھ خالصہ نیویارک میں رہتے ہیں۔ سنہ 2004 میں ان کو کچھ لڑکوں نے اس وقت تشدد کا نشانہ بنایا جب وہ اپنے ایک دوست سکھ کی پگڑی گھسيٹے جانے پر انہیں بچانے پہنچے تھے۔ وہ اب بھی اس واقعہ کو بھلا نہیں پائے ہیں۔
راجدرسنگھ کہتے ہیں ’گیارہ ستمبر کے بعد جو ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہماری زندگی ہی بدل گئی۔ ایک دن میں نے اپنے ایک سکھ دوست جس کی پگڑی پر حملہ کیا جا رہا تھا اس کو بچانے کی کوشش کی تو کچھ لوگوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں بیہوش ہو گیا۔ آج تک میرا علاج چل رہا ہے۔ میری آمدنی چلی گئی اور میں قرض دار ہو گیا ہوں۔‘
امریکہ میں رہنے والے بہت سے مسلمان اب حکومت سے زیادہ امید بھی نہیں لگا رہے ہیں۔ بلکہ وہ مانتے ہیں کہ امریکی حکومت ان کی جاسوسی کرتی ہے اور ان پر نظر رکھتی ہے۔
لكن اس سب کے باوجود بہت سے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ اب امریکہ ہی ان کا گھر ہے اور وہ یہیں رہیں گے۔ اور کوشش کریں گے کہ حالات بہتر کیے جا سکیں۔