تب کا مسلمان اور اب کا مسلمان
عہد وسطی کے یورپ اور اسلامی دنیا کا موازنہ کرتے ہوئے مولانا آزاد " غبار خاطر "میں لکھتے ہیں۔
یورپ مذہب کے مجنونا نہ جوش کا علمبردار تھا، مسلمان علم ودانش کے علمبردار تھے، یورپ دعاؤں کے ہتھیاروں سے لڑنا چاہئتے تھے ، مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے ،یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا، مسلمانوں کو خدا کی مدد پر بھی تھا ، لیکن خدا کے پیدا کئے ہو ئے سروسامان پر بھی تھا، ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا، دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا ، پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتطار کیا، دوسرے نے نتائج کے ظہور کا ، معجزے ظاہر نہیں ہو ئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہو کر فتح وشکست کا فیصلہ کر دیا ۔
مولانا آزاد نے بخار ا پر روسیوں کے حملے کی رودادیوں بیان کی ہے !
" انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے، ادھر روسیوںکی قلعہ شکن تو پیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے "یا مقلب القبول یا محول الاحوال" کے نارے بلند کر ہے تھے ،آخر وہی ہوا جو کہ ایک ایسے مقابلے کا نتیجہ نکلنا تھا، جس میں ایک طرف گو لہ بارود ہو ،دوسری طرف ختم خواجگان۔۔۔ دعائیں ضرور فا ئدہ پہنچاتی ہیں ، مگر انھیں کو جو عزم وہمت رکھتے ہیں ، بے ہمتوں کے لئے وہ ترک عمل اور تعطل قوی ٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں "
ساتویں صدی عیسوی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک کے دور اگر اسلامی تمدن کا قرن اول کہا جائے اور چودھویں صدی عیسوی سے تا حال دو ر کو قرن دوم کا نام دیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں اداوار میں سائنسی اعتبار سے مسلمانوں کی حالت ایک دم مختلف نظر آتی ہے ، قرن اول میں اسلامی دنیا علم کے نور منور تھی،۔جب کہ اس وقت یورپ جہل اور وہم وبد گمانی کی تاریکیوں میں غرق تھا، اس کے بر خلاف قرن دوم میں بساط الٹ چکی تھی، اس دور میں مسلمان سائنس سے رشتہ توڑ کر جہالت ، بد عقیدگی اور شرک کے عمیق سمندر میں ڈوب چکے تھے ، جب کہ یو رپ مسلمانوں کے فراہم کردہ علوم کی روشنی سے جگمگا رہا تھا، مشہور مصنف ڈی، کیمبل نے اس دور کو یوں بیان کیا ہے کہ:
اسلامی سائنس کے دور میں یورپ میں تاریک دور تھا اور کٹر پن ، ظلم ، گنڈہ تعویذاور ٹونے ٹٹکے کی برا ئیاں عام تھیںَ۔
قرن اول کے دور کے مسلمانوں کے علمی ذوق میں ایک بے حد اہم اورغور طلب زاویہ ان کے علم کی ہمہ گیریت کا ہے ،اپنے اپنے ادوار کے پیشتر سائنس داں نہ صرف علوم فطرت میں ماہر تھے بلکہ علوم دین پر مکمل دسترس رکھتے تھے، مثلا جابر بن حیان نے سائنسی تحقیقات شروع کرنے سے قبل مدینہ منورہ مں رہ کر حضرت امام جعفر صادق سے دین کا علم حاصل کیا تھا، عین ممکن ہے کہ اسی دوران انہوں نے کلام پا ک پر غور وفکر سائنسی تحقیق کا راستہ پایا ہو، زکریا رازی اور بو علی سینا اپنے وقت کے امام طب ہو نے کے ساتھ علم دین اور علم فلسفہ کے بھی ما ہر تھے، اسی طرح الکندی عالم دین ہو نے کے ساتھ ساتھ علم موسیقی ، علم طبیعات ،علم بصریات اور علم ریا ضی کا بھی ما ہر تھا ۔
عہد وسطی کے یورپ اور اسلامی دنیا کا موازنہ کرتے ہوئے مولانا آزاد " غبار خاطر "میں لکھتے ہیں۔
یورپ مذہب کے مجنونا نہ جوش کا علمبردار تھا، مسلمان علم ودانش کے علمبردار تھے، یورپ دعاؤں کے ہتھیاروں سے لڑنا چاہئتے تھے ، مسلمان لوہے اور آگ کے ہتھیاروں سے لڑتے تھے ،یورپ کا اعتماد صرف خدا کی مدد پر تھا، مسلمانوں کو خدا کی مدد پر بھی تھا ، لیکن خدا کے پیدا کئے ہو ئے سروسامان پر بھی تھا، ایک صرف روحانی قوتوں کا معتقد تھا، دوسرا روحانی اور مادی دونوں کا ، پہلے نے معجزوں کے ظہور کا انتطار کیا، دوسرے نے نتائج کے ظہور کا ، معجزے ظاہر نہیں ہو ئے لیکن نتائج عمل نے ظاہر ہو کر فتح وشکست کا فیصلہ کر دیا ۔
مولانا آزاد نے بخار ا پر روسیوں کے حملے کی رودادیوں بیان کی ہے !
" انیسویں صدی کے اوائل میں جب روسیوں نے بخارا کا محاصرہ کیا تو امیر بخارا نے حکم دیا کہ تمام مدرسوں اور مسجدوں میں ختم خواجگان پڑھا جائے، ادھر روسیوںکی قلعہ شکن تو پیں شہر کا حصار منہدم کر رہی تھیں ادھر لوگ ختم خواجگان کے حلقوں میں بیٹھے "یا مقلب القبول یا محول الاحوال" کے نارے بلند کر ہے تھے ،آخر وہی ہوا جو کہ ایک ایسے مقابلے کا نتیجہ نکلنا تھا، جس میں ایک طرف گو لہ بارود ہو ،دوسری طرف ختم خواجگان۔۔۔ دعائیں ضرور فا ئدہ پہنچاتی ہیں ، مگر انھیں کو جو عزم وہمت رکھتے ہیں ، بے ہمتوں کے لئے وہ ترک عمل اور تعطل قوی ٰ کا حیلہ بن جاتی ہیں "
ساتویں صدی عیسوی سے لے کر چودھویں صدی عیسوی تک کے دور اگر اسلامی تمدن کا قرن اول کہا جائے اور چودھویں صدی عیسوی سے تا حال دو ر کو قرن دوم کا نام دیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان دونوں اداوار میں سائنسی اعتبار سے مسلمانوں کی حالت ایک دم مختلف نظر آتی ہے ، قرن اول میں اسلامی دنیا علم کے نور منور تھی،۔جب کہ اس وقت یورپ جہل اور وہم وبد گمانی کی تاریکیوں میں غرق تھا، اس کے بر خلاف قرن دوم میں بساط الٹ چکی تھی، اس دور میں مسلمان سائنس سے رشتہ توڑ کر جہالت ، بد عقیدگی اور شرک کے عمیق سمندر میں ڈوب چکے تھے ، جب کہ یو رپ مسلمانوں کے فراہم کردہ علوم کی روشنی سے جگمگا رہا تھا، مشہور مصنف ڈی، کیمبل نے اس دور کو یوں بیان کیا ہے کہ:
اسلامی سائنس کے دور میں یورپ میں تاریک دور تھا اور کٹر پن ، ظلم ، گنڈہ تعویذاور ٹونے ٹٹکے کی برا ئیاں عام تھیںَ۔
قرن اول کے دور کے مسلمانوں کے علمی ذوق میں ایک بے حد اہم اورغور طلب زاویہ ان کے علم کی ہمہ گیریت کا ہے ،اپنے اپنے ادوار کے پیشتر سائنس داں نہ صرف علوم فطرت میں ماہر تھے بلکہ علوم دین پر مکمل دسترس رکھتے تھے، مثلا جابر بن حیان نے سائنسی تحقیقات شروع کرنے سے قبل مدینہ منورہ مں رہ کر حضرت امام جعفر صادق سے دین کا علم حاصل کیا تھا، عین ممکن ہے کہ اسی دوران انہوں نے کلام پا ک پر غور وفکر سائنسی تحقیق کا راستہ پایا ہو، زکریا رازی اور بو علی سینا اپنے وقت کے امام طب ہو نے کے ساتھ علم دین اور علم فلسفہ کے بھی ما ہر تھے، اسی طرح الکندی عالم دین ہو نے کے ساتھ ساتھ علم موسیقی ، علم طبیعات ،علم بصریات اور علم ریا ضی کا بھی ما ہر تھا ۔