عربوں کی چاول سے واقفیت کا عجیب واقعہ:
بہرحال ابن حوقل کی روشن خیالی اور سخت تنقیدی نظر کا اندازہ آپ کو اُسکے مذکورہ بالا عمل اور اصول سے ہو سکتا ہے ۔ایسی صورت میں اس کے مسموعات نہیں بلکہ برا راست مشاہدات کے متعلق شک کرنے یا شاعری قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے مو جودہ ا خلاف کو دیکھ کر اُن اسلاف کے مذاق کاپتہ چلانا قطعا ایک گمرہ کن طریقہ ٔ استدلال ہو گا۔انہار واشجار کے سلسلہ میں ایک چیز کا خیال آگیا یعنی چاول ۔
ظاہر ہے کہ عرب چاول یا دھان سے گو یا قریب قریب نا واقف ہی تھے ،زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے اُرز کے لفظ سے ان کے کان ضرور آشنا تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے " الارز " کا ذکر اپنی ایک حدیث میں فرما یا ہے ۔بخاری کی راویت جس میں غار میں گرفتار ہو نے والے تین آدمیوں کا قصہ بیان کیا گیا ہے ،مگر خود چاول کو مسلمان سپاہیوں نے پہلی جب دیکھا تو الہمدانی نے یہ عجیب لطیفہ اس کے متعلق نقل کیا ہے ۔خلاصہ یہ ہے کہ:
" بصرہ جہاں آجکل آبادہے ،یہاں پہلے ایک جنگل تھا اور عموما اس کو "ارض الہند " کہتے تھے ۔غالبا ہندوستان کے جہازوں کے ٹھرنے کی جگہ قدیم زمانے سے اسی جنگل کے قریب ہو گی ۔اس جنگل میں کچھ چور چھپے ہو ئے تھے ۔اسلامی فو جیوں کو دیکھ کر راہ فرار اختیار کی ، اور دو تھیلیاں چھوڑ کر بھاگ گیے ۔جن میں ایک تھیلی چا ول کی تھی۔عربوں نے نئے قسم کے دانے دیکھ کر خیال کیا کہ شائد کوئی زہریلی چیز ہے ۔جو افسر تھا اس نے حکم دیا کہ کوئی ان کو ہاتھ نہ لگائے ۔تھیلی کا منہ کھلا ہوا تھا ۔رات کو اتفاقاً کسی سپاہی کا گھوڑا کھل گیا ۔اور اسی بوری کی طرف نکل آیا ۔ جس میں چاول رکھے ہو ئے تھے ۔ گھوڑے نے اس میں منہ ما ر دیا پیچھے سے اس کا مالک بھی پکڑنے کے لئے چلا آرہا تھا یہ دیکھ کر کہ زہر کی تھیلی میں اس کے گھوڑے نے منہ مارا ہے ۔ سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔اور انتظار کرنے لگا کہ صبح تک بیچارے کی موت یقینی ہے ۔دوسروں کو بھی اس کی خبر ہو گئی اور سب اس کی موت کے انتظار میں رات گزارنے لگے لیکن صبح تک دیکھا گیا کہ اس پر زہر کے آثار تو کیا طاری ہو تے بلکل بھلا چنگا ہے ۔لید بھی ا چھی طرح سے ہو ئی اور پیشاب بھی اس نے خوب کیا ۔تب دم میں دم لوگوں کے آیا ۔اور اب خیال بدلا ،سمجھا گیا کہ کو ئی کھانے کی چیز ہے ۔پانی ڈال کر ہانڈی میں چاول کو چڑھا یا گیا ۔ تھوڑی دیر میں پھول کی طرح کھلے ہو ئے چاول ان کی نگا ہوں کے سامنے آگیے ۔پھر بھی ڈرتے ڈرتے لوگوں نے ابتدائی نو الے اٹھا ئے ۔ لیکن کھانے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ تو بہت لذیذ غذا ہے ۔ تب یقین ہوا کہ یہ تو کو ئی غذا ہے ۔( الہمدا نی ۱۸۸
لیکن حال ہی میں الہلال مصر میں ایک مضمون " الارز" شائع ہو اتھا جسمیں اسی چاول کی تاریخ درج کرتے ہو ئے لکھا تھا کہ اس دانے سے واقفیت چین والوں کو حضرت مسیح علیہ السلام سے دو ہزار آٹھ سو سال پہلے ہو چکی تھی ۔
چین میں اس غلہ اور اس کی کا شت کی جو اہمیت حاصل تھی اس کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ باد شاہ وقت کا شت کے وقت کھیت پر پہنچا کرتا تھا اور دھان کے چند بورے اپنے ہا تھ سے بطور شگون نیک کے لگا تا ۔تب اس کے بعد دوسرے لوگ کام شروع کرتے تھے اسی لیے سمجھا جاتا ہے کہ چاول با لکلیہ ایک مشرقی غلہ ہے اور مشرق ہی سے یہ مغرب پہنچا ہے لیکن جا نتے ہو مشرق سے مغرب لے جا نے والے اس کے کون ہیں ؟ان کی اولاد جنہوں نے پہلی دفعہ چاول دیکھ کر سمجھا تھا کہ یہ کو ئی زہریلی چیز ہے " الہلال " ہی میں لکھا تھا کہ سب سے پہلے اس اناج کو یورپ مسلمان لے گیے ۔انہوں ہی نے اندلس میں چاول کی کا شت کو مروج کیا ور پھر بتدریج دوسرے علا قوں میں بھی کا شت ہو نے لگی (الہلا م مئی )
اور کیا چاول ہی ایک چیز ہے جسے مسلمانوں نے اک ملک سے دوسرے ملک تک پہنچا یا ہے ،ایک طویل فہرست اس سلسلہ میں تیار کی جا سکتی ہے ۔
بہر حال مجھے تو صرف اس کی مثال دینی تھی کہ ابھی ابھی جس چیز سے مسلمان ڈرتے تھے ،افادہ کے احساس کے ساتھ اس کے تبلیغ میں لگ گیے اور زندہ قوموں کا یہی دستور ہو تا ہے ۔ یہی وجہ ہے جو مجھے ان مؤرخین کے بیانوں میں کو ئی شک نہیں ہوتا جب وہ مسلمانوں کی ان اولو العزمیوں کو بیان کرتے ہیں جو آج ان کے جا نشینوں کو دیکھ دیکھ کر کچھ نا قابل مفہوم با تیں بنتی چلی جا رہی ہیں ۔فانا للہ وانا الیہ راجعون ۔( ہزار سال پہلے)