مسلمان اطباء اور ان کے کا ر نامے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مسلمان اطباء اور ان کے کا ر نامے​
(1)حکیم علی گیلانی
حکیم علی گیلانی عہد اکبری کا نہایت نامور طبیب تھا ,مشہور زمانہ علمی مرکز گیلان کا باشندہ تھا 962 ھ/ ۱۵۵۴ ءمیں پیدا ہوا ، اس کے اہم متعلقین میں اس کے ماموں حکیم الملک شمس الدین اور حکیم فتح اللہ شیرازی کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
علوم عقلیہ کی تعلیم شیخ عبدالنبی بن شیخ احمد گنگوہی سے حاصل کی ، طب حکیم فتح اللہ شیرازی سے سیکھا ،بے حد پریشان حال اور مفلسی کے حالات میں ہندوستان آیا، کچھ دکن میں قیام کر کے دہلی آنا ہوا جہاں خوش قسمتی سے شاہی ملازمت ملنے سے حالات بہتر ہوئے ،مذہب کے لحاظ سے شیعہ تھا ،بے حد خلیق اور شریف انسان تھا ،حالات سنبھلتے ہی اس نے اپنی جیب سے ۶/ ہزار روپے ے سالانہ غریبوں کے لیے وقف کر دیا۔
طبیب اور مصنف ہونے کے علاوہ اسے تعمیر ا ت سے بھی گہری دلچسپی تھی، لا ہور کا عجیب وغریب حوض بھی اس کی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔

حذاقت اور طبی مہارت:
حکیم علی گیلانی نے ایک مرتبہ رمضان المبارک میں عین افطار کے وقت مچھلی کھا لی، جس سے شدید پیاس لگی ، اور اس کے ازالہ کے لیے انھوں نے بہت زیادہ پا نی پی لیا، اور کی کٹورےخالی کر دئے ،اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیٹ پھول گیا اور سانس لینے میں تنگی ہو نے لگی ،پیٹ کا تناؤ بڑھ گی کہ معلوم ہوتا تھا کہ پیٹ پھٹ جائے گا ،حکیم نے اپنے مرض پر غور کیا، اور نتیجہ یہ نکالا کہ ایہ سب مچھلی کا فساد ہے جس سے غلیظ رطوبت پیدا ہوگئی ہے ،جب تک یہ جسم سے باہر نہیں نکلے گی تکلیف دور نہ ہو گی۔ چنانچہ انہوں نے دار چینی کو پانی میں جوش دے کر پی لیا جس سے فوراً قئے شروع ہو گئء اور مادۂ غلیظہ کے ذریعے خارج ہوگیا اور تمام شکایات رفع ہوگیں۔
مشہور ہے کہ ان کی حذاقت کے امتحان کے لیے شہنشاہ اکبر نے حکیم علی کے سامنے مریض، صحت مند گائے اور گدھے کے قارورے پیش کئے ،حکیم علی نے تجربہ اور قیاس کی بنیاد پر فوراًتینوں کی علیحدہ شناخت کرادی ،ان کی اس حذاقت اکبر بادشاہ سے (۱۶۹۶ء) میں بہت خوش ہوااور ان کو اپنے دربار میں نہایت اہم مقام عطا فرمایا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(۲)حکیم محمد ہاشم علوی خان
ان کا اصلی نام سید محمد ہاشم بن حکیم محمد ہادی بن مظفر الدین علوی تھا، رمضان 1080 ھ۔ ۱۶۷۰ھ میں دارالعلم شیراز میں پیدا ہوئے، ۱۶۹۹ء میں ہند پاکستان آئے اور عالمگیر بادشاہ کی خدمت میں خلعت و منصب سے سرفراز ہوئے، محمد اعظم شاہ کی خدمت پر بھی متعین ہوئے ، شاہ عالم بہادر شاہ کے عہد میں علوی خطاب ملا ،اس کے علاوہ منصب میں بھی اضافہ ہوا اور جاگیر ملی ،محمد شاہ بادشاہ ز کا کا بہت میاب علاج کیا ،باشاہ موصوف نے چاندی میں تلوایا ، شش ہزار منصب ،تین ہزار روپے ماہوار ملا، اورمعتمد الملک کے خطاب سے نوازا گیا، نادر شاہ بہت اعزازکے ساتھ اپنے ہمراہ لے گیا ،وہاں سے حج بیت اللہ کے لئے گئے ،۱۷۴۳ء میں دہلی واپس ہوئے ان کی تصانیف میں "جامع الجوامع "قبادین ،مطب حکیم علوی خاں ،ہا شیہ شرح اسباب و علامات، شرح موجزالقانون ،احوال اعضاء النفس اور خلاصہ اور قوانین علاج وغیرہ ہیں، ان میں سے سب سے مشہور "جامع الجوامع" ہے جو اسم با مسمیٰ ہے، ۱۵ / رجب ۱۱۱۶ھ / ۱۷۷۹ءمیں مرض استسقاء میں وفات ہوئی اور وصیت کے مطابق حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کے قریب میں دفن کیا گیا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(3)حکیم محمد شریف خان
حکیم محمد شریف خان1714عیسوی میں بعہد محمد شاہ (م ۱۷۴۸ء) میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم دہلی کے مشہور محدث اور عالم حضرت شاہ عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسے میں ہوئی، حکیم عابد سرہندی اور حکیم اچھے صاحب سے طب کی تعلیم حاصل کی، اپنے والد حکیم اجمل خان سے مطب سیکھا، بہت کامیاب مطب رہا ،مغل بادشاہ کے درباری طبیب بھی رہے ہیں ،آپ کو اشرف الحکماء کا لقب دیا گیا تھا ۔
علمی اورطبی خدمات:
زبر دست حذاقت کی بنا پر حکیم شریف خان نے بہت جلد شہرت حاصل کر لی ، آپ کا مطب دہلی میں مر جع الخلائق تھا، صبح ہی سے بھیڑ لگ جاتی تھی ،مطب کے بعد آپ کے اہم شاگردوں میں موری گیٹ کے مرزا محمد کامل عرف پنجا نے بہت دنوں تک نمایاں خدمات انجام دیں، اس کے علاوہ بہت سے شاگردہندوپاک میں طبی خدمات انجام دیتے رہے ہیں، طبی مہارت کی وجہ سے حکیم صاحب کو شاہی طبیب مقرر کیا گیا تھا اور ضلع پانی پت میں 25 ہزار کی جاگیر عطا کی گئیں تھی، دربار سے آپ کو اشرف الحکمہ کا لقب دیا گیا تھا ۔
سرسید احمد خان اپنی مشہور کتاب" آثار الصنادید" میں حکیم شریف خان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
وہ اپنےعصر میں سرآمد حکماء اور سر حلقہ اطباءتھے، آج تک ان کے کمالات کا شہرہ از بس بلند ہے ،جالینوس اور ارسطو کا فلسفہ ان کے سامنے ایسا ہی ہے جیسے طوطی کی آواز نقار خانے میں ہے ۔
ان کے تصانیف میں" علاج الامراض"،" عجالہ نافعہ "،" میزان الطب "،" النفسیہ حدودالامراض "،" ،قوائدالشریفیہ ،حاشیہ کلیاتفیسی ،حاشیہ شرح اسباب، تحفہ عالم شاہی، شرح حمیات قانون، دستور الفصد، تالیف شریفی و رسالہ خواص الجوہر ، رسالہ چوب چینی یہ سب شامل ہیں ۱۸۹۷ء میں دہلی میں وفات پائی تھی اور درگاہ قطب صاحب مہرولی میں دفن ہوئے۔
آپ نے مشکوٰۃ شریف کا فارسی ترجمہ" کاشف المشکوٰۃ"کے نام سے کیا ہے، ان کے علاوہ شاہ عالم ثانی کے حکم سے قرآن شریف کا اردو ترجمہ بھی کیا تھا تھا۔
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(4)حکیم مومن خان
حکیم مومن خان مومن بن حکیم غلام نبی خان (۱۲۴۱ ھ) بن حکیم نامدار خان کوچۂ جیلان دہلی میں پیدا ہوئے، تعلیم کا آغاز گھر سے ہوا ،پھر ابتدائی تعلیم شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مدرسہ میں شروع ہوئی،اس کے بعد شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ سے شرف تلمیذ حاصل کیا اور انھیں سے عربی ، فارسی ،حدیث ، فقہ کا اور منطق وغیرہ کی تعلیم حاصل کی، طب کی تعلیم اپنے چچا حکیم غلام حیدرخان اور والد حکیم نبی خان سے حاصل کی، آپ ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے، اس کے علاوہ علم نجوم اور فن موسیقی میں بھی درست دسترس رکھتے تھے، آپ ایک اچھےعامل بھی تھے، ۱۸۵۱ءمیں دہلی میں وفات ہوئی طبی حذاقت اور کا رنامے :
ایک مرتبہ حکیم مومن خان مطب میں مریضوں کا معائنہ کر رہے تھے، ایک شخص آیا اور اس نے اپنی نبض حکیم صاحب کی طرف بڑھائی، حکیم صاحب نے نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا اور کہا کہ:" ان دواؤں کو عطار سے خرید لیں ،کچھ روز بعد وہ شخص حکیم صاحب کے پاس آیا ،حکیم صاحب نے دیکھ کر اس سے نسخہ مانگا ، اس پر مریض تعجب کے انداز میں کہنے لگا کہ: اس نسخہ کوتو میں برابر دو دن سے ابال کر پی رہا ہوں اور مجھے کافی فائدہ ہے اور میرا مرض اب تقریبا ختم ہوگیا ہے، آپ وہی نسخہ پھر لکھ کر مجھے دیں ، تا کہ رہا سہا مرض بھی ختم ہوجائے، حکیم صاحب نے بجا ہے ناراض ہونے یا تعجب کرنے کے مریض کی فرمائش پر وہی نسخہ پھر لکھ دیا اور شاگردوں سے کہا کہ:مریض کو اس نسخہ پر اعتماد ہو گیا ہے، اس لیے اگر میں ٹوکتا اور اس کی غلطی بتاتا پھر اس کو مزید فائدہ نہیں ہو سکتا تھا، اس لئے میں نے مریض کے اعتقاد کو مجروح نہیں کیا۔ عصری علوم
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
(4)حکیم شیر علی بن حکیم الدین محی الدین
حکیم شیر علی بن حکیم ٘ محی الدین صدیقی نے علم طب کی درسی کتا بیں اپنے والدما جد سے پڑھیں ، اس کے بعد لکھنؤ میں حکیم امام بخش کی سر پرستی میں مطب شروع کیا اورپھر طبیب حاذق ہو کر نواب آصف الدولہ بہادر کے دور حکومت میں تحصیل داری اور فوجداری کی ؛ لیکن بڑھاپے میں گو شہ نشین ہو گیے ، نہایت متقی ،صوم وصلوۃ کے پا بند تھے ، ہر وقت ذکر واذکار میں مشغول رہتے تھے ،آپ کے نسخے میں دوا کے اجزاء بہت کم ہو تے تھے ، مریض کو دیکھنے گھر نہیں جاتے تھے ، مطب سے جو آمدنی ہو تی اسے غرباء میں تقسیم کر دیتے تھے۔
۱۸۴۰ء میں بخار واسہال کے عارضے میں مبتلا رہ کر ۷۵/ سال کی عمر میں وفات پا ئی ،سات بیٹےاور پا نچ بیٹیاں یاد گار چھوڑیں ، بیٹوں میں ہر ایک طبیب حاذق تھا ۔

طبی خدمات اور حذاقت :
ایک مرتبہ لوگ ایک بچے کو حکیم شیر علی احمد آبادی کے پا س لائے ، یہ بچہ کان کے درد کی وجہ سے بے ہوش تھا اور جب ہو ش آیا تو کہتا تھا کہ کوئی چیز میرے کان میں کاٹ رہی ہے ،حکیم صاحب نے فرمایا کہ : حقہ کی نلکی لا ئی جا ئے تو اس کو انہوں نے اس کو قلم کی طرح چھری سے تراشا جو ان کے قلم دان میں تھی ،اور اس بیمار بچہ میں لگا دی ،اور دوسری طرف جلتا ہوا ایک فتیلہ رکھ دیا ، ذرا دیر نہ ہو ئی تھی کہ بچہ کا درد رفع ہو گیا جب نلکی کو زمین پر مارا تو اس میں ایک ہزار پا یہ جسے کھن کھجورہ کہتے ہیں باہر نکلا جسے دیکھ کر لو گ حیران رہ گیے ۔(عصری علوم)
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
Top