3310 پرانے وقت کا نہایت ملنسار شریف طبع نہایت سادہ ۔۔۔۔۔ نوکیا خاندان کا ایک عظیم سپوت تھا ۔۔ کیا بات تھی ۔۔۔۔سب اسی کی چاہت رکھتے تھے ۔۔۔ جس کا اسکے ساتھ تعلق بن جاتا وہ اپنی سانسوں سے بھی عزیز ہی نہیں عزیز تر رکھتا ۔۔۔ 3310 کی شرافتوں کا ایک زمانہ قائل رہا بڑے بڑے صلحاء امت فقہا ء عظام ۔۔ قراٰ حضرات کی گہری تعلق داری تھی ۔۔۔۔ اور 3310 ۔۔۔ بے چارہ اتنا معصوم ۔۔۔ سبحان اللہ اس کی شرافت پر مجھ جیسا گناہگار کیا لب کشائی کرے ۔۔۔ اسکی عظمت رفتہ کو لکھتے ہوے ہاتھ کانپ رہے ہیں آنکھوں کے سامنے اسکی معصوم سی شبیہ آرہی ہے اسکی ان وفاوں اور پاکیزہ اداوں کے دھندلے چشم ترکے سامنے ابھر رہے ہیں اور ماضی کے جھرونکوں میں جھانکنے لگا ہوں ۔۔۔ کتنا پاک تھا بے چارہ 3310 نہ نیٹ سے دوستی ۔۔۔ نہ گانوں سے تعلق ۔۔۔ انتا صاف جیسے تبلیغی جماعت میں سال لگا کر آیا ہو ۔۔۔۔۔۔ اور مجھے سلطان معظم کے چہیتے لاڈلے پیارے موبائیل کی فوتگی کا غم غم ہجراں مھسوس ہو رہا ہے ۔۔۔ سلطان معظم نےکتنی چاہتوں سے اپنے نازک چنبیلی ہاتھوں میں اسے پکڑا ہو گا ۔۔۔ رات کی تاریکی میں اسے اٹھ اٹھ کر دیکھتے ہوں ۔۔ موبائیل سو تو نہیں کیا۔۔۔ کیا قربت کے وہ لمحات ہونگے جب شب تنہائی اور رضائی کے اندھیروں میں موبائیل مغمومہ کو آن کر کے کسی دل جلے کے میسج پڑھتے ہوں گے ۔۔۔ اور موبائیل کو فرت محبت سے اپنے گلابی ہونٹوں سے چومتے ہونگے ۔۔۔ آہ بے چارہ موبائیل ۔۔۔۔۔۔کتنی خلوتوں کی رفاقت اسے نصیب رہی
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
نیند اب کیسے آے کسی پیاری کی جدائی کہاں سونے دیتی ہے
بن تمہارے کبھی نہیں آئی
کیا مری نیند بھی تمہاری ہے
اب تو سلطان معظم موبائیل کی جدائی میں یہ گنگناتے ہوں گے
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
میں اورمیری رضائی اور تنہائی ۔۔۔ہاے میرے موبائیل تیری یاد بہت آئی
اب میں شب کی تنہائی میں کسے پیار سے دیکھوں گا
میرے زخمی دل کو تیری طرح کون جانتا ہے
ذرا سی آہٹ پر میں جاگ جاتا ہوں
بیقراری میں ہر سمت دیکھتا رہتا ہوں
شاید کہ تو لوٹ آیا میری محبت میں
یہ دلاسہ اپنے دل کو دیتا رہتا ہوں
آجا اب آہی جا دلبے قرار کو تیرے دیدار سے قرار آے
وگرنہ ہم نے بھی دنیا ہی چھوڑ جانے کا پروگرام بنا رکھا ہے
ایک تو ہی تو تھا میری تنہائی اور میرے رازوں کا آمین
تیرا خیال تیرا تصور میں نے دل و دماغ میں سجا رکھا ہے
تیرے جانے سے تو بیگم بھی مجھے اب اچھی نہیں لگتی
وہ بھی طعنے دے رہی ہے روزتیری اس بے وفائی کے
میں مانتا ہوں میں تیری مھبت کے لائق نہیں اے موبائیل
مگر میری جیب کسی اور کو لانے کی اجازت نہین دیتی