قبیلہ مخزوم کے مغرور اور سرکش سردار عمرو بن ہشام کے پاس روپے پیسے کی بہتا ت تھی۔ اس کے شان و شوکت کے حامل محل میں غلاموں اور کنیزوں کی بھرمار تھی لیکن پھر بھی اس کی نظر ایک رومی کنیز پر پڑی تو اس نے اسے منہ مانگے داموں خرید لیا۔ اس لئے نہیں کہ اسے ملازمہ کی ضرورت تھی بلکہ اس لئے کہ یہ سرخ و سفید خوبصورت کنیز اس کے دل کو بھاگئی تھی۔ مکہ میں رومی غلام اور کنیزیں اپنے کھلتے ہوئے رنگ وروپ کی وجہ سے مہنگے داموں فروخت ہوتے تھے روپے پیسے کی اُس کے پاس کمی نہیں تھی اس لئے عمرو بن ہشام نے اس رومی کنیز کو خرید لیا جس کا نام ’زنیرہ‘ (معنی: چھوٹی کنکری) تھا۔
زنیرہ کون تھی؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ وہ کیا حالات ہوئے کہ دنیا کی سپر پاور سلطنتِ رومہ سے زنیرہ مکہ کے بازارِ غلاماں میں ناقدر جنس کی طرح فروخت ہوگئی؟ ان باتوں سے نہ عمرو بن ہشام کو کوئی دلچسپی تھی نہ جاننے کا کوئی شوق …۔۔ زنیرہ کے ذہن میں بھی اپنی جائے پیدائش اپنی جنم بھومی کا تصور محض ایک بھولے بسرے خواب کا رہ گیا تھا۔ میں کون ہوں؟…۔۔ کیا میں غلامی کے لئے پیدا ہوئی ہوں؟…۔۔ کیا کبھی کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے بھی کرسکتی ہوں؟ …۔۔ میری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ …۔۔ خالقِ کائنات نے مجھے کیوں پیدا کیا …۔۔؟ یہ وہ سوالات تھے جو اس کے شعور پر دستک دیتے مگر وہ ان سوالات کا جواب کسی سے طلب نہیں کرسکتی تھی۔ اسے اپنی شناخت چاہئے تھی۔ وہ بے شناخت تھی کیونکہ وہ ایک زرخرید ملازمہ تھی۔ آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہنے والی ایک کنیز…۔۔ جسے سوال پوچھنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ جسے کہنے کا نہیں صرف سننے کا حکم تھا۔ اس کا کام تابعداری تھا اور کام کی نوعیت کا تعین کرنا مالک کا کام تھا۔ اپنی شناخت سے بے شناخت زنیرہ کا سوال گاہے بگاہے اسے بے چین کردیتا۔ میں کون ہوں؟…۔۔ میں کون ہوں؟…۔۔ لیکن جواب کون دے یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
دن گزرتے چلے گئے۔ زنیرہ اس غلامانہ زندگی کی عادی ہوچکی تھی۔ اب وہ سوال بھی کبھی کبھار ہی اس کے ذہن میں اٹھتا۔ عمرو بن ہشام کا رویّہ زنیرہ سے روایتی آقا اور غلام کا تھا اونٹوں کا گوبر اٹھانا، ان کو چارہ ڈالنا، گھر کو صاف رکھنا، عمرو کی چیزوں کی حفاظت پھر ساتھ ہی ساتھ عمرو کی بیوی کی ناگوار گالیاں اور مار پیٹ بھی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ خوف، ڈر، وسوسے اور اندیشے۔ اس کی زندگی اسی شش وپنج میں گزر رہی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے اہم خوشی کا موقع شاید اس کی نیند تھی مگر اب اسے خوابوں میں بھی خوف اور ڈر محسوس ہوتا تھا۔
ایک روز بہت عجیب بات ہوئی۔ چپ چپ خاموش طبع زنیرہ اونٹوں کو چارہ ڈال کر پلٹ رہی تھی کہ اسے اپنے آقا کی آواز آئی جو مالکن سے کچھ بات کررہا تھا۔ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو میرے سامنے پلا بڑھا ہماری ہی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اب وہ کہتا ہے کہ اﷲ اس سے کلام کرتا ہے۔ اس پر وحی نازل کرتا ہے۔ اس کے پاس جبرائیل فرشتہ آتا ہے‘‘۔ آقا کی آواز کے ساتھ ہی قہقہہ بلند ہوا۔ زنیرہ کو دیکھتے ہی مالکن نے رعب دار آواز سے اسے بلایا: ’’او زنیرہ! اِدھر آ اور میرے پاؤں دبا‘‘۔ زنیرہ سعادت مندی سے مالکن کے پاس گئی اور پاؤں دابنے لگی۔ کچھ دیر بعد مالکن کی سماعتوں میں سوراخ کرتی تیز آواز بلند ہوئی ’’یہ کیا بات کررہے ہو؟ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا کب کہا؟‘‘
عمرو نے نیم استراحت کی حالت میں کہا: ’’آج۔ ابھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ کے سارے اکابرین کو بلوایا تھا۔ پہاڑ کے قریب اس نے پوچھا کہ اگرمیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرلوگے؟ سب نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گزشتہ کردار کو دیکھتے ہوئے کہا ہاں ہم یقین کرلیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ تمہیں سچا اور امانت دار پایا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ سنو مجھے ﷲ نے پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔ ﷲ نے مجھے تمہیں یہ بتانے کے لئے مبعوث کیا ہے کہ ﷲ ایک ہے۔ ایک ﷲ کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرو۔ تمہاری تمام حاجتیں وہی اﷲ پوری کرتا ہے‘‘۔ عمرو چند لمحے خاموش ہو کر بولا ’’حیرت تو یہ ہے…۔۔‘‘ عمرو پھر گویا ہوا ’’کہ وہ یہ کہتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہاہاہا…۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا ’’آقا غلام کی تمیز کبھی مٹ سکتی ہے۔ کیا اعلیٰ اور ذلیل قبیلے برابر ہوسکتے ہیں؟ معلوم نہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کون سی باتیں کررہا ہے جو نہ کبھی سنیں نہ دیکھیں‘‘۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن یہ باتیں زنیرہ کی یادداشت میں رہ گئیں۔ خاندان قریش سے تعلق ہونے کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات بنو مخزوم سے بھی تھے اور دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح زنیرہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دل میں احترام کے جذبات پاتی تھی۔ پھر یہ عمرو بن ہشام کا معمول بن گیا کہ اکثر گھر میں عمرو اور اس کی بیوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زہر سے بجھی گفتگو کیا کرتے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ عمرو بن ہشام جتنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا اتنا ہی زنیرہ کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بڑھتا چلا جاتا۔
زنیرہ کون تھی؟ اس کا خاندان کیا تھا؟ وہ کیا حالات ہوئے کہ دنیا کی سپر پاور سلطنتِ رومہ سے زنیرہ مکہ کے بازارِ غلاماں میں ناقدر جنس کی طرح فروخت ہوگئی؟ ان باتوں سے نہ عمرو بن ہشام کو کوئی دلچسپی تھی نہ جاننے کا کوئی شوق …۔۔ زنیرہ کے ذہن میں بھی اپنی جائے پیدائش اپنی جنم بھومی کا تصور محض ایک بھولے بسرے خواب کا رہ گیا تھا۔ میں کون ہوں؟…۔۔ کیا میں غلامی کے لئے پیدا ہوئی ہوں؟…۔۔ کیا کبھی کوئی فیصلہ اپنی مرضی سے بھی کرسکتی ہوں؟ …۔۔ میری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ …۔۔ خالقِ کائنات نے مجھے کیوں پیدا کیا …۔۔؟ یہ وہ سوالات تھے جو اس کے شعور پر دستک دیتے مگر وہ ان سوالات کا جواب کسی سے طلب نہیں کرسکتی تھی۔ اسے اپنی شناخت چاہئے تھی۔ وہ بے شناخت تھی کیونکہ وہ ایک زرخرید ملازمہ تھی۔ آقا کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑی رہنے والی ایک کنیز…۔۔ جسے سوال پوچھنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ جسے کہنے کا نہیں صرف سننے کا حکم تھا۔ اس کا کام تابعداری تھا اور کام کی نوعیت کا تعین کرنا مالک کا کام تھا۔ اپنی شناخت سے بے شناخت زنیرہ کا سوال گاہے بگاہے اسے بے چین کردیتا۔ میں کون ہوں؟…۔۔ میں کون ہوں؟…۔۔ لیکن جواب کون دے یہ بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
دن گزرتے چلے گئے۔ زنیرہ اس غلامانہ زندگی کی عادی ہوچکی تھی۔ اب وہ سوال بھی کبھی کبھار ہی اس کے ذہن میں اٹھتا۔ عمرو بن ہشام کا رویّہ زنیرہ سے روایتی آقا اور غلام کا تھا اونٹوں کا گوبر اٹھانا، ان کو چارہ ڈالنا، گھر کو صاف رکھنا، عمرو کی چیزوں کی حفاظت پھر ساتھ ہی ساتھ عمرو کی بیوی کی ناگوار گالیاں اور مار پیٹ بھی اس کی زندگی کا حصہ تھی۔ خوف، ڈر، وسوسے اور اندیشے۔ اس کی زندگی اسی شش وپنج میں گزر رہی تھی۔ اس کی زندگی کی سب سے اہم خوشی کا موقع شاید اس کی نیند تھی مگر اب اسے خوابوں میں بھی خوف اور ڈر محسوس ہوتا تھا۔
ایک روز بہت عجیب بات ہوئی۔ چپ چپ خاموش طبع زنیرہ اونٹوں کو چارہ ڈال کر پلٹ رہی تھی کہ اسے اپنے آقا کی آواز آئی جو مالکن سے کچھ بات کررہا تھا۔ ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جو میرے سامنے پلا بڑھا ہماری ہی طرح زندگی گزارتا ہے۔ اب وہ کہتا ہے کہ اﷲ اس سے کلام کرتا ہے۔ اس پر وحی نازل کرتا ہے۔ اس کے پاس جبرائیل فرشتہ آتا ہے‘‘۔ آقا کی آواز کے ساتھ ہی قہقہہ بلند ہوا۔ زنیرہ کو دیکھتے ہی مالکن نے رعب دار آواز سے اسے بلایا: ’’او زنیرہ! اِدھر آ اور میرے پاؤں دبا‘‘۔ زنیرہ سعادت مندی سے مالکن کے پاس گئی اور پاؤں دابنے لگی۔ کچھ دیر بعد مالکن کی سماعتوں میں سوراخ کرتی تیز آواز بلند ہوئی ’’یہ کیا بات کررہے ہو؟ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسا کب کہا؟‘‘
عمرو نے نیم استراحت کی حالت میں کہا: ’’آج۔ ابھی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مکہ کے سارے اکابرین کو بلوایا تھا۔ پہاڑ کے قریب اس نے پوچھا کہ اگرمیں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن کی فوج آرہی ہے تو کیا تم یقین کرلوگے؟ سب نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گزشتہ کردار کو دیکھتے ہوئے کہا ہاں ہم یقین کرلیں گے کیونکہ ہم نے ہمیشہ تمہیں سچا اور امانت دار پایا ہے۔ پھر اس نے کہا کہ سنو مجھے ﷲ نے پیغمبر بناکر بھیجا ہے۔ ﷲ نے مجھے تمہیں یہ بتانے کے لئے مبعوث کیا ہے کہ ﷲ ایک ہے۔ ایک ﷲ کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرو۔ تمہاری تمام حاجتیں وہی اﷲ پوری کرتا ہے‘‘۔ عمرو چند لمحے خاموش ہو کر بولا ’’حیرت تو یہ ہے…۔۔‘‘ عمرو پھر گویا ہوا ’’کہ وہ یہ کہتا ہے کہ سب انسان برابر ہیں۔ ہاہاہا…۔۔‘‘ اس نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا ’’آقا غلام کی تمیز کبھی مٹ سکتی ہے۔ کیا اعلیٰ اور ذلیل قبیلے برابر ہوسکتے ہیں؟ معلوم نہیں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) یہ کون سی باتیں کررہا ہے جو نہ کبھی سنیں نہ دیکھیں‘‘۔ بات آئی گئی ہوگئی لیکن یہ باتیں زنیرہ کی یادداشت میں رہ گئیں۔ خاندان قریش سے تعلق ہونے کی وجہ سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات بنو مخزوم سے بھی تھے اور دوسرے بہت سے لوگوں کی طرح زنیرہ بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دل میں احترام کے جذبات پاتی تھی۔ پھر یہ عمرو بن ہشام کا معمول بن گیا کہ اکثر گھر میں عمرو اور اس کی بیوی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں زہر سے بجھی گفتگو کیا کرتے۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ عمرو بن ہشام جتنا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زہر اگلتا اتنا ہی زنیرہ کے دل میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام بڑھتا چلا جاتا۔